احیاء السنن ترجمہ اعلاء السنن از مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
اعلاء السنن یہ وہ کتاب ہے جب غیر مقلدیت کا فتنہ ہندوستان کے علاقے میں پنپ رہا تھا تو ہمارے علماء میں سے مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی نوراللہ مرقدہ کھڑے ہوئے اور 22 جلدوں پر مشتمل فقی حنفی کی ماخذ احادیث پر ایسی مفصل کتاب لکھ دی کہ اس کے بعدجو بھی کتاب اس موضوع پر لکھی جائے وہ اسی کتاب سے ماخوذ ہی کہلائے گی،چونکہ مولانا نے کوئی ایسی بحث جو ان مسائل پر بنتی ہو نہیں چھوڑی۔
اس کتاب کا ترجمہ احیا ء السنن کے نام سے مکتبہ امدادیہ والوں نے چھاپا ہے۔ ابھی جلد 1 ہی دستیاب ہوئی ہے نیٹ پر

y4mYmEPwawPGDj89AF1jgWNqk-N3lvhZ3fPOveS3Fkd4rjS6zDvhwtgl9itDE75O6G9-_mzam6p289xcYdSXT0dKofaytZYy-lGh5o6K3u1NE-RESd78RZPNgyhMrGTZ0L2iZJz9nWrjZrWCEZa4Oe4Xk6dQoJWmOcwBcGnnUXrz2loKQNhPIlFRQSHULic4IWUBfu0PNCfp-90fw_brtWqGQ


لنک
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
یار اتنی بڑی خدمت کا پس منظر اتنا محدود نہ کرو کہ فلاں فتنہ کے لئے یہ لکھی گئی ہے ۔
یہ تو ویسے ہی عظیم حدیث کی خدمت ہے ۔غالباََ ۲۰ سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے ۔
پہلے ہی بعض حضرات گلہ کرتے ہیں کہ جی حنفیہ تو حدیث کی خدمت بھی اپنے مسلک کے لئے ہی کرتے ہیں ۔
اہلحدیث عالم اثری صاحب نے کہیں محدث ملا علی قاریؒ کی مرقاۃ کے مقدمہ سے ایک جملہ پکڑ کر یہ نکالا کہ انہوں نے بھی یہ کتاب صرف حنفی مذہب کے لئے لکھی ۔یعنی اتنی بڑی مشکاۃ کی شرح کو ایک دائرے میں بند کردیا ۔دوسری طرف جب اہلحدیث علماء صاحب تحفۃ الاحوذی اور اور صاحب مرعاۃ کی شروح الحدیث کی کتب پڑھیں تو ان میں علی قاریؒ کی مرقاۃ سے اتنا زیادہ استفادہ کیا گیا ہے کہ کیا کہا جائے۔دل کو کھلا کرکے کہہ دینا چاہیے کہ بھائی یہ بہت بڑی حدیث کی خدمت ہے ۔

احیاء السنن کی ۳ جلدیں آرکائیو میں موجود ہیں ۔اور تنبیہ یہ ہے کہ صرف اعلاء السنن کے متن کا ترجمہ ہے ۔مولانا ظفرؒ نے جو متون کی طویل شرح کی ہیں ان کا نہیں ۔بس متن پر مترجم مولانا نعیم صاحب مختصر فائدہ کبھی کبھی لکھتے ہیں ۔
اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ اس طرح کام بہت طویل ہوجاتا ہے کہ پوری اعلاء السنن کا ترجمہ پھر ۳۰ سے اوپر جلدوں میں ہوگا۔
ویسے تو پوری کا ہی ہونا چاہیے ۔اصل ابحاث تو شرح میں ہی ہیں ۔بعض کتب میں پڑھا تھا کہ پہلی سات جلدوں کا ترجمہ ہو تو چکا تھا لیکن شائع نہیں ہوا۔واللہ اعلم۔
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
ارکائیو کالنک ارسال کر دیں جس میں باقی دو جلدیں ہیں
ویسے ایک تھریڈ آپ ہی شروع کریں جس میں حنفی علماء کی خدمات احادیث و تفاسیر کا بیان ہو
 
Last edited:

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ کیا ہرکتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب ہے؟ایسے ہی حضرات دیوبند نے ہندوستان میں ہرنصابی کتاب کاترجمہ اورشرح لکھ کر طلبہ کی صلاحیت کو ’’چارچاند‘‘لگایاہواہے،اب نتیجہ یہ ہےکہ استاد اورطالب علم دونوں اردو شرح دیکھتے ہیں اور اردو شرح سے مطالعہ کا ایک مزید نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ کے دل میں استاد کے تعلق سے توقیر اوراحترام کے جذبات معدوم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ فیض کہاں سے آرہاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لوگوں سے ان کے عقل کے بقدر کلام کیاکرو،کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اوراس کے رسول جھٹلائے جائیں،مطلب اللہ اوراس کے رسول کاارشاد سنانے میں بھی لوگوں کے عقل وفہم کا خیال رکھناضروری ہے ،پھر علمی کتابوں کا اس طرح ترجمہ مناسب نہیں ہے،اردو تراجم کاصرف ایک ہی فائدہ ہے کہ مکتبہ والوں کی اورمترجم کی کچھ آمدنی ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ سب نقصان ہی نقصان ہے،طلبہ کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، عربی عبارت حل کرنے سے جی چرانے لگتے ہیں،طلبہ سے آگے بڑھ کر یہ مرض اساتذہ تک جاپہنچتاہے، اردو خواں حضرات بھی اردو میں اس طرح کی کچھ کتابیں پڑھ کر ان مسائل میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں، جب کہ بزرگوں کاطریقہ یہ تھاکہ وہ عوامی زبان میں صرف عوام الناس کے فہم کی ہی باتیں کیاکرتے تھے، دیکھئے ہندوستان میں شیخ عبدالحق نے مشکوٰۃ کی دوشرح لکھی ایک فارسی میں اورایک عربی میں،عربی میں شرح لکھنے کی وجہ یہ بیان کی کہ بعض باتیں جو عوام کی فہم سےا ونچی تھیں،اس کو بیان کرنے کیلئے یہ عربی شرح لکھ رہاہوں، ایساہی ہردور میں ہواہے۔اس کا خیال رکھناچاہئے،ورنہ تو اب ترجمہ کی وہ آندھی چلی ہے کہ جس کتاب کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس کا بھی اردو ترجمہ ہوسکتاہے، ترجمہ سے گزرکرشرح تک بزبان اردو لکھی جارہی ہے۔
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیاہوجائے گی۔
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ کیا ہرکتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب ہے؟ایسے ہی حضرات دیوبند نے ہندوستان میں ہرنصابی کتاب کاترجمہ اورشرح لکھ کر طلبہ کی صلاحیت کو ’’چارچاند‘‘لگایاہواہے،اب نتیجہ یہ ہےکہ استاد اورطالب علم دونوں اردو شرح دیکھتے ہیں اور اردو شرح سے مطالعہ کا ایک مزید نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ کے دل میں استاد کے تعلق سے توقیر اوراحترام کے جذبات معدوم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ فیض کہاں سے آرہاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لوگوں سے ان کے عقل کے بقدر کلام کیاکرو،کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اوراس کے رسول جھٹلائے جائیں،مطلب اللہ اوراس کے رسول کاارشاد سنانے میں بھی لوگوں کے عقل وفہم کا خیال رکھناضروری ہے ،پھر علمی کتابوں کا اس طرح ترجمہ مناسب نہیں ہے،اردو تراجم کاصرف ایک ہی فائدہ ہے کہ مکتبہ والوں کی اورمترجم کی کچھ آمدنی ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ سب نقصان ہی نقصان ہے،طلبہ کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، عربی عبارت حل کرنے سے جی چرانے لگتے ہیں،طلبہ سے آگے بڑھ کر یہ مرض اساتذہ تک جاپہنچتاہے، اردو خواں حضرات بھی اردو میں اس طرح کی کچھ کتابیں پڑھ کر ان مسائل میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں، جب کہ بزرگوں کاطریقہ یہ تھاکہ وہ عوامی زبان میں صرف عوام الناس کے فہم کی ہی باتیں کیاکرتے تھے، دیکھئے ہندوستان میں شیخ عبدالحق نے مشکوٰۃ کی دوشرح لکھی ایک فارسی میں اورایک عربی میں،عربی میں شرح لکھنے کی وجہ یہ بیان کی کہ بعض باتیں جو عوام کی فہم سےا ونچی تھیں،اس کو بیان کرنے کیلئے یہ عربی شرح لکھ رہاہوں، ایساہی ہردور میں ہواہے۔اس کا خیال رکھناچاہئے،ورنہ تو اب ترجمہ کی وہ آندھی چلی ہے کہ جس کتاب کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس کا بھی اردو ترجمہ ہوسکتاہے، ترجمہ سے گزرکرشرح تک بزبان اردو لکھی جارہی ہے۔
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیاہوجائے گی۔

آپ کی باتیں علماء کے لحاظ سے صحیح ہیں۔عربی کے الفاظ کا بالکل ویسا ہی اردو ترجمہ ممکن نہیں ہے،اور مترجم کی اپنی سوچ بھی اسکے ترجمے میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ لیکن ہم جیسے لوگ جن کو عربی نہیں آتی ان کے لیے یہ اردو کتابیں تحفہ سے کم نہیں۔غیر مقلدوں نے اپنی ہر کتاب کا اردو ترجمہ کر کے رکھ دیا تاکہ ان کا ہر آدمی احناف سے ان کے پسندیدہ مسائل میں جھگڑ سکے، اور ہمارے علماء پھر بھی اس معاملے میں کمزور ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے ہر آدمی اپنے مسائل کے دلائل نہیں ،اوراردو کی کتابوں کی کمی کی وجہ سےبہت سے اپنے بھی احناف کے مسائل کو غیر مقلدوں کے مسائل کی نسبت کمزور سمجھتے ہیں ہے
کتابوں کے مطالعہ سے علمی ذوق بڑھتا ہے۔
ہماری عمدۃ القاری، جوہر النقی، النکت الطریفہ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبہ کا اردو ترجمہ ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
۔۔۔۔۔ کیا ہرکتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بالکل صحیح فرما رہے ہیں خصوصاََ مدارس کے طلباء پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے ۔ اس سے ان کی عربی کی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں ۔ ممکن ہے مدارس کے اساتذہ ۔۔طلباء کو خصوصاََ تراجم دیکھنے سے منع کرتے ہوں ۔
لیکن عوام کے اندر یہ چیز اب قابو سے باہر ہے ۔ اب اس کو روکا تو نہیں جا سکتا ۔ کیونکہ تراجم خصوصاََحدیث و شروح کے شروع کرنے میں بعض جگہہ یہی وجہ تھی کہ عوام کو عالم کے اثر سے نکالا جائے ۔لیکن جب یہ کام شروع ہوگیا تو پھر ضروری ٹھہرا کے عوام تک ترجمہ جب پہنچ ہی رہا ہے تو غلط کیوں پہنچے ۔اس لئے پھر انتظامی وجہ سے ترجمہ کرنا ناگزیر ہوگیا۔
اب تو جو لوگ عوام میں دنیاوی پڑھے لکھے ہیں ۔وہ کبھی دین کی طرف مائل ہوں تو یہی طلب کرتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کے براہ راست اقوال کو پڑھیں ۔ ناکہ مولوی صاحب جو کہہ رہے ہیں وہی سنتے جائیں ۔
اس لئے اب اگر مجبوری بن گئی تو شرائط اور پورے آداب و لوازم کے ساتھ ترجمہ کرناچاہیے ۔
ایک اور عذر یہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہعرب میں بھی تو عوام اور علماء دو طبقے ہیں ۔ اور ان کو ترجمہ کا مسئلہ نہیں ہے ۔
اس لئے عالم کی اہمیت کو اس کے ساتھ بھی منوانا چاہیے ۔
یہ بات مشہور حدیث کی کتب کے لئے ہے ۔
ورنہ شروحات اور رجال تک کی کتب کے تراجم تو واقعی سراسر کاروباری ذہن سے کئے جارہے ہیں ۔ آپ ان کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جلدی جلدی ، گزارہ کیا ہوا ہے ۔اس سے واقعیعربی زبان اور دینی اصول سے جاہل ۔۔لیکن تخریج کے ماہرین پیدا ہورہے ہیں ۔اور ایسے حضرات کے نزدیک علماء کی کیا حیثیت ہوگی۔
بلاشبہ میرے جیسے عربی سے جاہل عامی لیکن دینی ابحاث میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے حضرات ۔۔ ذہن میں یہی خیال رکھتے ہیں کہ ہر کتاب کا ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ مجھے تو سمجھ آجائے ۔ اس خود غرضی کا مجھے احساس ہے ۔اور مجھے اس کے نقصانات بھی نظر آتے رہتے ہیں ۔بس اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت کی دعاء ہے ۔
اور کاروباری نقطہ نظر سے تاریخ کی کتب کے تراجم بغیر تعلیق و تنبیہہ کے کئے گئے ہیں ۔ اُن سے عقائد کے فتنے پھیل رہے ہیں ۔اخباروں کے کالم نگار ۔صحابہؓ کے مشاجرات کو عامیانہ واقعات کی طرح ڈسکس کررہے ہوتے ہیں ۔
 

عمر اثری

وفقہ اللہ
رکن
کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ کیا ہرکتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب ہے؟ایسے ہی حضرات دیوبند نے ہندوستان میں ہرنصابی کتاب کاترجمہ اورشرح لکھ کر طلبہ کی صلاحیت کو ’’چارچاند‘‘لگایاہواہے،اب نتیجہ یہ ہےکہ استاد اورطالب علم دونوں اردو شرح دیکھتے ہیں اور اردو شرح سے مطالعہ کا ایک مزید نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ کے دل میں استاد کے تعلق سے توقیر اوراحترام کے جذبات معدوم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ فیض کہاں سے آرہاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لوگوں سے ان کے عقل کے بقدر کلام کیاکرو،کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اوراس کے رسول جھٹلائے جائیں،مطلب اللہ اوراس کے رسول کاارشاد سنانے میں بھی لوگوں کے عقل وفہم کا خیال رکھناضروری ہے ،پھر علمی کتابوں کا اس طرح ترجمہ مناسب نہیں ہے،اردو تراجم کاصرف ایک ہی فائدہ ہے کہ مکتبہ والوں کی اورمترجم کی کچھ آمدنی ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ سب نقصان ہی نقصان ہے،طلبہ کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، عربی عبارت حل کرنے سے جی چرانے لگتے ہیں،طلبہ سے آگے بڑھ کر یہ مرض اساتذہ تک جاپہنچتاہے، اردو خواں حضرات بھی اردو میں اس طرح کی کچھ کتابیں پڑھ کر ان مسائل میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں، جب کہ بزرگوں کاطریقہ یہ تھاکہ وہ عوامی زبان میں صرف عوام الناس کے فہم کی ہی باتیں کیاکرتے تھے، دیکھئے ہندوستان میں شیخ عبدالحق نے مشکوٰۃ کی دوشرح لکھی ایک فارسی میں اورایک عربی میں،عربی میں شرح لکھنے کی وجہ یہ بیان کی کہ بعض باتیں جو عوام کی فہم سےا ونچی تھیں،اس کو بیان کرنے کیلئے یہ عربی شرح لکھ رہاہوں، ایساہی ہردور میں ہواہے۔اس کا خیال رکھناچاہئے،ورنہ تو اب ترجمہ کی وہ آندھی چلی ہے کہ جس کتاب کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس کا بھی اردو ترجمہ ہوسکتاہے، ترجمہ سے گزرکرشرح تک بزبان اردو لکھی جارہی ہے۔
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیاہوجائے گی۔
جمشید بھائی آپ نے بہت عمدہ بات کہی. حرف بحرف متفق ہوں.
 
Top