حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اورحضرت ام سلمہؓ کو قرآن کریم پورا یاد تھا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اورحضرت ام سلمہؓ کو قرآن کریم پورا یاد تھا
فتح الباری:۵۰۰۳

ازدواج مطہرات علمی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہیں ، بلکہ علم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سیکھا اسے عوام الناس تک بحسن و خوبی پہنچایا، جس سے خصوصاً عام خواتین کوبہت فائدہ پہنچا۔امہات المومنین کو اسلامی علوم قرآن، حدیث، فقہ اور علم فرائض وغیرہ میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔

آج ہم اپنی بچیوں کو دنیاوی تعلیم کی طرف راغب کرتے ہیں مگر دینی تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے اور پھر معاشرے کی خرابیوں کا رونا روتے ہیں۔

اللہ ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق دے آمین
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ہم تو یہ سوچ کر بچیوں کو پڑھاتے ہیں کہ جو بہت قابل اور ذہین گھر میں نکلتی ہے اس کو ڈاکٹر بنائیں گے
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بچہ ذہین ہو اسے ہم ڈاکٹر ،انجینئر،پائلٹ وغیرہ بنانا پسند کرتے ہیں
لیکن ہم دنیا کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں لیکن دین کی تعلیم دینا بھول جاتے ہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بچہ ذہین ہو اسے ہم ڈاکٹر ،انجینئر،پائلٹ وغیرہ بنانا پسند کرتے ہیں
لیکن ہم دنیا کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں لیکن دین کی تعلیم دینا بھول جاتے ہیں
یقین کیجیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ اگر دین کی تعلیم بھی دی جائے تو بچہ مزید ذہین بن جاتا ہے اور کامیابی کی راہ پر گامزن رہتا ہے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
یقین کیجیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ اگر دین کی تعلیم بھی دی جائے تو بچہ مزید ذہین بن جاتا ہے اور کامیابی کی راہ پر گامزن رہتا ہے
کسی سے بات سنی تھی اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں دیکھا
سفر پر ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی کافی علمی شخصیت تھے پر سادہ پن کی انتہاء تھی علم دین پر بزرگوار مجھے بتا رہے تھے اچانک سامنے سے دو بچے نمودار ہوئے اُن میں ایک سکول یونیفارم میں تھا دوسرا مدرسہ کا طالب علم تھا
بزرگوار کی نظر جب پڑی تو کہنے لگے بیٹا سامنے ان کو بچوں کو دیکھو اور بتاؤ ہمیں کیا بتا رہے ہیں ،عرض کی آپ سمجھادیں کہنے لگے دیکھو بیٹا
یہ دو بچے ہیں ایک سکول کا ایک مدرسہ کا جو سکول کا بچہ ہے وہ اپنا علم (کتابیں) بیگ میں ڈال کر پیٹھ پر رکھ کر جارہا ہے دوسرا بچہ اپنا علم(قرآن،ودینی کتابچہ) سینے سے لگا کر جارہاہے
اس سے معلوم ہوا سکول والا علم یہیں رہ جائے گا اور مدرسہ والا علم تمہارے ساتھ جائے
حالانکہ یہ بات بہت سے علماء سے سنی تھی لیکن ان بزرگوں نے اسانداز سے سمجھایا کہ عش عش کر اٹھا کہ آج بات سمجھ آگئی
دنیاوی علم کے ساتھ دین کا علم مل جائے تو بچہ کامیاب نہیں کامیاب ترین انسان بن جاتا ہےبلکہ یوں کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ دین کے علم کے ساتھ دنیا کے طور طریقوں کو سکھنے کے لیے اور دین سمجھانے کے لیے اگر دنیا کا علم سیکھ لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں
ضروری تعلیم دین کی ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کسی سے بات سنی تھی اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں دیکھا
سفر پر ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی کافی علمی شخصیت تھے پر سادہ پن کی انتہاء تھی علم دین پر بزرگوار مجھے بتا رہے تھے اچانک سامنے سے دو بچے نمودار ہوئے اُن میں ایک سکول یونیفارم میں تھا دوسرا مدرسہ کا طالب علم تھا
بزرگوار کی نظر جب پڑی تو کہنے لگے بیٹا سامنے ان کو بچوں کو دیکھو اور بتاؤ ہمیں کیا بتا رہے ہیں ،عرض کی آپ سمجھادیں کہنے لگے دیکھو بیٹا
یہ دو بچے ہیں ایک سکول کا ایک مدرسہ کا جو سکول کا بچہ ہے وہ اپنا علم (کتابیں) بیگ میں ڈال کر پیٹھ پر رکھ کر جارہا ہے دوسرا بچہ اپنا علم(قرآن،ودینی کتابچہ) سینے سے لگا کر جارہاہے
اس سے معلوم ہوا سکول والا علم یہیں رہ جائے گا اور مدرسہ والا علم تمہارے ساتھ جائے
حالانکہ یہ بات بہت سے علماء سے سنی تھی لیکن ان بزرگوں نے اسانداز سے سمجھایا کہ عش عش کر اٹھا کہ آج بات سمجھ آگئی
دنیاوی علم کے ساتھ دین کا علم مل جائے تو بچہ کامیاب نہیں کامیاب ترین انسان بن جاتا ہےبلکہ یوں کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ دین کے علم کے ساتھ دنیا کے طور طریقوں کو سکھنے کے لیے اور دین سمجھانے کے لیے اگر دنیا کا علم سیکھ لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں
ضروری تعلیم دین کی ہے
بزرگوار ۔یقینا اور سو فیصد حصول علم دین سب سے قیمتی شئے ہے ۔نہ ختم ہو نے والی زندگی کا انحصار اور ابدی نعمتوں کا اور علم دین کا حصول اس کی اشاعت عمل با لاخلاص پر منحصر ہے لیکن اس فانی زندگی اور باعزت قوم کی طرح گزارنے کیلئے کچھ دنیاوی اسباب کی اشد ضرورت ہے ۔ جس بے دلی سے "کچھ مضائقہ نہیں " کا ٹھپہ لگایا میرے خیال میں کم علمی پر دال ہے ۔آپ لوگ امت کے مسیحا اور رہبران قوم ملت ہیں نظر اٹھا کے دیکھیں ، غور کریں تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں مسلم قوم تبھی تک کا میاب رہی جب تک تیر وتلوار کا دور تھا جیسے ہی وقت بدلا عظیم الشان سلطنت عثمانیہ بھکاری بن کر لندن وپیرس کے سامنے بارودی ہتھیاروں کیلئے اور ریل کی پٹری بچھانے کیلئے کا سۂ گدائی لیے کھڑی نظر آنے لگی شائد اس دور کے علماء نے مضائقہ کی گران کر کے چپ ہو گئے ہوں ۔سلطنت عثمانیہ کے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی ہاں آج کے عربوں کی طرح تدبر وتفکر کی کمی رہی ہو ۔ مسیحی اقوام میں ڈاکٹر ،انجینئر، سائنسداں ۔فلاسفر وغیرہ کی ضرورت ہے اس سے بہت زیادہ امت محمدیہ ﷺ کو ضرورت ہے ۔
داستاں مسلم جب پھیلی تھی لا محدود تھی
اور جب سمٹی فقط تاریخ بن کر رہ گئی
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
زندگی ہم نے گزارنی ہے اسی معاشرے میں
زندگی کو گزارنے کا طریقہ سیکھنا ہے دینی علم کے ذریعے
ڈاکٹر بن کر خدمتِ خلق کرنی ہے ۔
خدمت خلق کا جذبہ دین ابھارتا ہے اور دین کو سیکھنا پڑتا ہے
یعنی زندگی کی گاڑی چلانی ہے
گاڑی ہم نے انہی سڑکوں پر چلانی ہے
ہم سفر بھی یہی لوگ ہونگے بس
گاڑی چلانے کے اصول سیکھنے ہیں تاکہ منزل پر خیریت کے ساتھ پہنچ جائیں
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
مدعا أبحاث یہ ہے کہ کیا دنیاوی تعلیم دینی تعلیم کی طرح ضروری ہے یا نہیں۔پوری امت کو عالم مفتی محدث بننا فرض عین ہے یا فرض کفایہ۔محترمہ کا اشارہ ہے کہ کچھ بنو نہ بنو مفتی عالم بن کے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالو امت ضروریات زندگی پورا کرنے کیلے غیروں کی کاسہ لیسی کرے۔سلطان کی منشا یہی ہے۔قاسمی کی سوچ مثبت ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مدعا أبحاث یہ ہے کہ کیا دنیاوی تعلیم دینی تعلیم کی طرح ضروری ہے یا نہیں۔پوری امت کو عالم مفتی محدث بننا فرض عین ہے یا فرض کفایہ۔محترمہ کا اشارہ ہے کہ کچھ بنو نہ بنو مفتی عالم بن کے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالو امت ضروریات زندگی پورا کرنے کیلے غیروں کی کاسہ لیسی کرے۔سلطان کی منشا یہی ہے۔قاسمی کی سوچ مثبت ہے۔
عقل سلیم سے کام لینے والوں کی سمجھ میں شاید محترمہ کی بات آجائے
اس وجہ سے یہ مثال بھی پیش کی ہے کہ
زندگی کی گاڑی چلانی ہے یعنی اس معاشرے کے ساتھ چلنا ہے
گاڑی ہم نے انہی سڑکوں پر چلانی ہے۔ یعنی اسی معاشرے میں رہ کر معاشرے کےساتھ سفر کرنا ہے
ہم سفر بھی یہی لوگ ہونگے بس
گاڑی چلانے کے اصول سیکھنے ہیں تاکہ منزل پر خیریت کے ساتھ پہنچ جائیں مطلب یہ کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکام نبی ﷺ کے طریقوں کے مطابق پورے کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی چلے گی اور اس کے لیے دین کا علم سیکھنا ضروری ہے۔ دین کا علم سیکھنا زندگی گزارنے کی حد تک اور عالم مفتی بننا الگ بحث ہے
دین کا علم سیکھنا ایسا ہے کہ آپ گاڑی چلانی سیکھ رہے ہیں
اور عالم مفتی کا مطلب یہ ہے کہ اتنا سیکھ لیا کہ آپ دوسروں کو سکھا رہے ہیں
آپ ڈاکٹر بنو یا انجینئر لیکن آپ کو نماز روزہ اور دین کے اعمال سیکھنے پڑیں گے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناؤ یا کاسہ لیسی کرو دین کو سیکھنا ہے لازمی۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس میں کو ئی شک نہیں ضروریات دین سیکھنا لازم ہے ۔سوال یہ ہے یہ لزوم کس عمر تک ہے۔بچپن۔جوانی ۔بڑھاپا ۔ تمام عمر یا حسب ضرورت۔مثلا۔بوغت کے بعد چلا وحرام۔۔ غسل ۔نماز روزہ کا علم۔مآلداری پر زکوۃ وحج کا علم۔شادی کے بعد نکاح وطلاق نان ونفقہ کا علم علی ہر القیاس۔ضنعت وحرفت سے جڑے علم کا حصول لازم یا نہیں ہے تو کس عمر میں؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مولانا محمد سعد کاندھلوی مدظلہ فرماتے ہیں

علم کی فرضیت خدا کی قسم! علم اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ ہر مؤمن مرد و عورت کے ذمہ علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح نماز کا پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرو۔ ہر وہ عمل اللہ کے یہاں قبول ہوگا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا ایمان کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جو اس کو اللہ کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے۔ ہاں! محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے، یہ ہر ایک کے ذمہ فرض نہیں ہے۔ علماء کی مجالس اور علماء کی صحبت سے فائدہ اُٹھاؤ، قدم قدم پر علماء سے پوچھ کر چلو۔ لیکن اس خیال میں رہنا کہ میں تو بظاہر جو کررہا ہوں ٹھیک ہی کر رہا ہوں(یہ غلط فہمی ہے) یاد رکھو کہ اللہ کے یہاں کوئی عمل جہالت کے ساتھ قبول نہیں ہوگا، اور نہ جاننا اللہ کے یہاں عذر نہیں ہے کہ اللہ! مجھے تو معلوم نہیں تھا، جہالت عذر نہیں ہے، چونکہ اللہ نے سکھانے کے لیے رسولؐ کو بھیج دیا:’’ أَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ۔‘‘ (الفاطر: ۳۷) ۔۔۔۔۔ ’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں وہ شخص سمجھ سکتا تھا جو سمجھنا چاہتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا۔‘‘ یہاں تک کہ میرے دوستو! کوئی عمل اخلاص کے ساتھ بھی علم کے بغیر قبول نہیں ہوگا۔ ایک آدمی بڑا مخلص ہے، لیکن جہالت کے ساتھ عمل کر رہا ہے تو اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوگا۔ ہر نئی معلومات علم نہیں ہے سب سے پہلے یہ سمجھو اور اُمت کو سمجھاؤ کہ علم کیا ہے؟ اہل باطل نے دھوکہ دہی سے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ ’’اگر تم نے صرف قرآن اور حدیث کو علم سمجھا تو تم بہت پیچھے رہ جاؤ گے، تمہیں دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ دیکھو! صرف قرآن و حدیث علم نہیں ہے بلکہ سائنس بھی علم ہے، ڈاکٹری بھی علم ہے، انجینئرنگ، تجارت، دنیا کی خاک چھاننا اور اسباب کی تحقیق کرنا یہ بھی علم ہے، تم صرف قرآن و حدیث ہی کو علم نہ سمجھنا، یہ میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو غیروں نے ہمیں سکھلائی ہے۔ میرے دوستو! عزیزو! آج اس بات کا سمجھانا بڑا جہاد ہے، بڑا جہاد ہے، بڑا جہاد ہے۔ ورنہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس زمانے میں نوجوانوں کے دماغوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ صرف قرآن و حدیث علم نہیں، بلکہ دنیوی فنون اور اس کی معلومات کا حاصل کرنا یہ بھی علم کا حصہ ہے، لہٰذا جس علم سے ہمارا معاش متعلق ہے اس علم کو اہم درجہ دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادیں سترہ اٹھارہ بیس پچیس سال تک پہنچ جاتی ہیں انہیں کچھ خبر نہیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کو ن سا علم ہم پر فرض ہے، چونکہ انہیں یہ سمجھا دیا گیا کہ علم معاش کے حصول سے تمہاری زندگی متعلق ہے، اس لیے وہی علم ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ معاش سے متعلق جو نام نہاد علم مجھ پر فرض کیا جارہا ہے، یہ ایسا اندھا کنواں ہے کہ جس میں سمجھ دار بھی ڈوب رہے ہیں اور ناسمجھ بھی، یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور بے دینی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، ہائے افسوس!!!! میرے دوستو! عزیزو! باطل نے اپنے فنون کو علم قرار دے کر اُمت مسلمہ کو علم سے کاٹ دیا ہے اور یہ باور کرادیا کہ جو چاہو سیکھو سب علم ہے، نہیں میرے دوستو! ہرگز نہیں، علم صرف وہ ہے جو اللہ ہم سے چاہتے ہیں اور محمد a کے طریقے سے چاہتے ہیں، صرف وہ علم ہے، سارا علم قبر کے تین سوالات پر محدود ہے: ’’من ربک، من نبیک، ما دینک‘‘ گویا کہ علم نام ہے: ’’ربوبیت کا علم، شریعت کا علم اور سنت کا علم‘‘ جو کچھ اس کے سوا ہے وہ علم نہیں ہے اور اس پر علم کی حدیثوں کو فٹ کرنا بڑی حماقت ہے۔ دنیوی فنون کی رغبت کے لیے احادیث علم کو فٹ کرنا گمراہی ہے یہ تو گمراہی ہے کہ دنیوی فنون کے لیے علم کی احادیث کو استعمال کرکے دنیوی فنون کی رغبت پیدا کی جائے، میرے دوستو! عزیزو! یہ بڑی گمراہی ہے۔ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ یہ کہنا ہے کہ ’’جدید آلات و اسباب نے علماء سے مستغنی کردیا‘‘ اس لیے میں بار بار کہتا رہتا ہوں کہ علم علماء کی صحبت سے حاصل کرو، آج لوگ کہتے ہیں کہ آلات و اسباب نے علماء سے مستغنی کردیا کہ ہم تو علم خود ہی حاصل کرلیں گے کہ اب تو سارا علم آلات پر آگیا ہے، کیا ضرورت ہے علماء کی؟ یہ اس زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ ہے کہ اُمت کو اپنی دینی رہبری کے لیے علماء کی ضرورت نہ رہے، اس لیے میں اہتمام سے کہہ رہا ہوں کہ علماء کی زیارت کو عبادت یقین کرو اور اپنی اولادوں کو دینی مدارس میں داخل کرو، ورنہ میرے دوستو! عزیزو! اُمت اس دھوکہ میں پڑ چکی ہے کہ بھئی سب کچھ علم ہے، جو چاہو سیکھو۔ نہیں میرے دوستو! ہرگز نہیں، علم صرف وہ ہے جو حضرت محمد a کے طریقہ پر اللہ ہم سے چاہتے ہیں، صرف اس کو علم کہتے ہیں۔ غیروں کے تجربات کو علم سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ نئی پود کی جہالت کی وجہ میرے دوستو! عزیزو! اس بات کو تسلی، سنجیدگی اور بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا ہوگا، میں نئی پود کی جہالت کی وجہ بتارہا ہوں کہ اگر ان کو یہ سمجھا دیا جاتا کہ یہ (قرآن و سنت) علم ہے، وہ (عصری ذرائع) فن ہے، تب بھی معاملہ آسان تھا کہ یہ دونوں چیزوں کو حاصل کرلیتے، دنیوی فنون کو اپنی دنیوی ضرورت کے لیے اور علم اِلٰہی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو سمجھایا گیا ہے کہ علم یہ نہیں، علم یہ ہے، اور یہاں تک سمجھادیا گیا کہ جو علم اِلٰہی ہے وہ علماء سے متعلق چیز ہے، وہ علماء سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں، ہم سے متعلق جو علم ہے یہ تو دنیا کا علم ہے۔ اپنی جہالت کا احساس کب ہوگا؟ جب تک علم اور فن کے درمیان فرق نہیں کیا جاوے گا اُس وقت تک اپنی جہالت کا احساس نہیں ہوگا اور علم اِلٰہی کے حاصل کرنے کی فکر اور رغبت نہیں پیدا ہوگی، یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ کو مولنا سعد صاحب کے اس بیان کی تلخیص دینی تھی۔اتنی لمبی تقریر نقل کردی۔سلطان کے ذمہ ہے اس کو مختصر کریں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس سے زیادہ اور کتنا مختصر کیا جائے

علم کی فرضیت خدا کی قسم! علم اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ ہر مؤمن مرد و عورت کے ذمہ علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح نماز کا پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرو۔ ہر وہ عمل اللہ کے یہاں قبول ہوگا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا ایمان کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جو اس کو اللہ کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے۔ ہاں! محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے، یہ ہر ایک کے ذمہ فرض نہیں ہے میرے دوستو! عزیزو! اُمت اس دھوکہ میں پڑ چکی ہے کہ بھئی سب کچھ علم ہے، جو چاہو سیکھو۔ نہیں میرے دوستو! ہرگز نہیں، علم صرف وہ ہے جو حضرت محمد کے طریقہ پر اللہ ہم سے چاہتے ہیں، صرف اس کو علم کہتے ہیں۔ غیروں کے تجربات کو علم سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ نئی پود کی جہالت کی وجہ میرے دوستو! عزیزو! اس بات کو تسلی، سنجیدگی اور بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا ہوگا، میں نئی پود کی جہالت کی وجہ بتارہا ہوں کہ اگر ان کو یہ سمجھا دیا جاتا کہ یہ (قرآن و سنت) علم ہے، وہ (عصری ذرائع) فن ہے، تب بھی معاملہ آسان تھا کہ یہ دونوں چیزوں کو حاصل کرلیتے، دنیوی فنون کو اپنی دنیوی ضرورت کے لیے اور علم اِلٰہی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو سمجھایا گیا ہے کہ علم یہ نہیں، علم یہ ہے، اور یہاں تک سمجھادیا گیا کہ جو علم اِلٰہی ہے وہ علماء سے متعلق چیز ہے، وہ علماء سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں، ہم سے متعلق جو علم ہے یہ تو دنیا کا علم ہے۔ اپنی جہالت کا احساس کب ہوگا؟ جب تک علم اور فن کے درمیان فرق نہیں کیا جاوے گا اُس وقت تک اپنی جہالت کا احساس نہیں ہوگا اور علم اِلٰہی کے حاصل کرنے کی فکر اور رغبت نہیں پیدا ہوگی، یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس سے زیادہ اور کتنا مختصر کیا جائے

علم کی فرضیت خدا کی قسم! علم اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ ہر مؤمن مرد و عورت کے ذمہ علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح نماز کا پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرو۔ ہر وہ عمل اللہ کے یہاں قبول ہوگا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا ایمان کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جو اس کو اللہ کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے۔ ہاں! محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے، یہ ہر ایک کے ذمہ فرض نہیں ہے میرے دوستو! عزیزو! اُمت اس دھوکہ میں پڑ چکی ہے کہ بھئی سب کچھ علم ہے، جو چاہو سیکھو۔ نہیں میرے دوستو! ہرگز نہیں، علم صرف وہ ہے جو حضرت محمد کے طریقہ پر اللہ ہم سے چاہتے ہیں، صرف اس کو علم کہتے ہیں۔ غیروں کے تجربات کو علم سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ نئی پود کی جہالت کی وجہ میرے دوستو! عزیزو! اس بات کو تسلی، سنجیدگی اور بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا ہوگا، میں نئی پود کی جہالت کی وجہ بتارہا ہوں کہ اگر ان کو یہ سمجھا دیا جاتا کہ یہ (قرآن و سنت) علم ہے، وہ (عصری ذرائع) فن ہے، تب بھی معاملہ آسان تھا کہ یہ دونوں چیزوں کو حاصل کرلیتے، دنیوی فنون کو اپنی دنیوی ضرورت کے لیے اور علم اِلٰہی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو سمجھایا گیا ہے کہ علم یہ نہیں، علم یہ ہے، اور یہاں تک سمجھادیا گیا کہ جو علم اِلٰہی ہے وہ علماء سے متعلق چیز ہے، وہ علماء سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں، ہم سے متعلق جو علم ہے یہ تو دنیا کا علم ہے۔ اپنی جہالت کا احساس کب ہوگا؟ جب تک علم اور فن کے درمیان فرق نہیں کیا جاوے گا اُس وقت تک اپنی جہالت کا احساس نہیں ہوگا اور علم اِلٰہی کے حاصل کرنے کی فکر اور رغبت نہیں پیدا ہوگی، یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے
یہ کافی ہے ۔شکریہ
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
بزرگوار ۔یقینا اور سو فیصد حصول علم دین سب سے قیمتی شئے ہے ۔نہ ختم ہو نے والی زندگی کا انحصار اور ابدی نعمتوں کا اور علم دین کا حصول اس کی اشاعت عمل با لاخلاص پر منحصر ہے لیکن اس فانی زندگی اور باعزت قوم کی طرح گزارنے کیلئے کچھ دنیاوی اسباب کی اشد ضرورت ہے ۔ جس بے دلی سے "کچھ مضائقہ نہیں " کا ٹھپہ لگایا میرے خیال میں کم علمی پر دال ہے ۔آپ لوگ امت کے مسیحا اور رہبران قوم ملت ہیں نظر اٹھا کے دیکھیں ، غور کریں تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں مسلم قوم تبھی تک کا میاب رہی جب تک تیر وتلوار کا دور تھا جیسے ہی وقت بدلا عظیم الشان سلطنت عثمانیہ بھکاری بن کر لندن وپیرس کے سامنے بارودی ہتھیاروں کیلئے اور ریل کی پٹری بچھانے کیلئے کا سۂ گدائی لیے کھڑی نظر آنے لگی شائد اس دور کے علماء نے مضائقہ کی گران کر کے چپ ہو گئے ہوں ۔سلطنت عثمانیہ کے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی ہاں آج کے عربوں کی طرح تدبر وتفکر کی کمی رہی ہو ۔ مسیحی اقوام میں ڈاکٹر ،انجینئر، سائنسداں ۔فلاسفر وغیرہ کی ضرورت ہے اس سے بہت زیادہ امت محمدیہ ﷺ کو ضرورت ہے ۔
داستاں مسلم جب پھیلی تھی لا محدود تھی
اور جب سمٹی فقط تاریخ بن کر رہ گئی
حضرت میں اس چیز کا انکار نہیں کررہا بلکہ یہ کہ رہاہوں اگر دین کا علم رکھتا ہے تو دنیا تو ساتھ دنیا کا علم بھی رکھے اور اگر دنیا کا علم رکھتا ہے تو ضروری ہے دین کا علم رکھے
ہمارے ہاں زور دنیا کے علم پر دیا جاتا ہے دین کے علم پر نہیں
 

محمد حفص فاروقی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت میں اس چیز کا انکار نہیں کررہا بلکہ یہ کہ رہاہوں اگر دین کا علم رکھتا ہے تو دنیا تو ساتھ دنیا کا علم بھی رکھے اور اگر دنیا کا علم رکھتا ہے تو ضروری ہے دین کا علم رکھے
ہمارے ہاں زور دنیا کے علم پر دیا جاتا ہے دین کے علم پر نہیں
شیخ آب نے بجا فرمایا
بہت سے ایسے واقعات آنکھوں سے دیکھ چکاہوں کہ دنیا کا علم اتنا رکھتے ہیں کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں خود دیکھا ان کو والد کا جنازہ تک نہیں پڑھنا آتا تھا ایسے علم رکھنے سے اللہ کی پناہ
 
Top