غزل

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
غزل

مُفتی و قاضی کی کرتے ہیں نہ مُلّاؤں کی بات
ہم تو کرتے ہیں فقط اے دوستو گاؤں کی بات

دور لوّر کا ہے سو بیٹھے ہیں اُس کے پاؤں میں
مانتے ہیں باپ کی نہ نوجواں ماؤں کی بات

اور بھی تو مسئلے تھے حل طلب اِس بِیچ میں
پاک و بھارت کر رہے ہیں صِرف دریاؤں کی بات

بات جو حد سے بڑھی تو یاد آیا ہے عِلاج
کاش پہلے مان لیتے ہم مسیحاؤں کی بات

ہم کہ صحرا، خُشکی و دشت و بیاباں کے اسِیر
کیا جچے گی لب پہ اپنے کوہ پیماؤں کی بات

کُچھ چُنیدہ لوگوں پہ کرتے ہیں یہ لُطف و کرم
کیا کریں ہم آج کے اِن بزم آراؤں کی بات

فلسفہ و حِکمٹ و منطق سے کیا لینا اِنہیں
گُفتگُو چہرے پہ یا کرتے ہیں یہ پاؤں کی بات

ہے امیرِ شہر کا یہ فیصلہ کہ آج سے
مسجد و مندر کی ہو گی نہ کلیساؤں کی بات

گُفتگُو کرتے ہوئے یہ احتیاطیں اِس لیئے
آ ہی جائے لب پہ نہ کُچلی تمنّاؤں کی بات

جِن کے ہونے سے نہ تھا سُکھ چین کا جِینا نصِیب
چہچہا کے کرتے ہو کیا ایسے آقاؤں کی بات

یُوسفِؔ ثانی ہیں حسرتؔ، ہم پہ ہو گی بے اثر
لیلاؔ و شیرینؔ و سسّیؔ اور زلیخاؤںؔ کی بات

رشید حسرتؔ
 
Top