کیا أَنْبَاءِ الْغَيْبِ اور عِلمُ الْغَيْبِ میں فرق ہے؟

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب، سرورِ کونین سیدنا ومولانا حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں سے بڑھ کر علم عطا فرمایا، تمام کائنات مل کر بھی رسول اللہ ﷺ کے علم کا تصور نہیں کرسکتی، اسی طرح ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے اتنا وسیع علم عطا فرمایا کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوقات مل کر اس مقام تک نہیں پہنچ سکتیں، اور پھر رسول اللہ ﷺ کو تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام پر فضیلت بخشی، لیکن اللہ تبارک وتعالی کے "علم" (اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت) میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے، جو کسی کا عطا کیا ہوا نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ ہمیشہ تک ہر چیز کے بارے میں حاصل ہے، اس علم کے حصول میں کسی بھی قسم کا واسطہ نہیں ہے، جس کی خبر اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دی۔ شریعت کے عرف میں "علمِ غیب" سے یہی مراد ہوتا ہے اور اُس پر غیب کا اطلاق بندوں کی نسبت سے ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی علم جو بلاواسطہ، کسی کے بتائے بغیر ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے حاصل ہے، اس میں کوئی بھی شریک نہیں ہوسکتا۔

البتہ اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام علیہم السلام کو اور ان کے واسطے امتوں کو جنت، جہنم اور قبرکے احوال نیز بہت سی وہ باتیں بتائی ہیں جو پردہ غیب میں ہیں۔ جنہیں "اَخبارِ غیب" ، "انباء الغیب" یا "اطلاع علی بعض المغیبات" کہا جاتاہے، اور اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام علیہم السلام کو جتنا چاہتے ہیں اَخبارِ غیب کا علم عطا فرماتے ہیں، لیکن غیب کی خبر کو غیب کا علم نہیں کہا جاتا؛ کیوں کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوتاہے، اور بسا اوقات جبریل امین کا بھی درمیان میں واسطہ آجاتاہے، لہٰذا ان اخبارِ غیب کو علمِ غیب نہیں کہا جاسکتا۔

اسے (بلاتشبیہ) ایک مثال کے ذریعے سمجھیے، ایک وہ شخص ہے جو کوئی چیز ایجاد کرے یا کوئی سائنسی تجربہ کرکے جدید ٹیکنالوجی حاصل کرے، اور دوسرا شخص وہ ہے جو پہلے شخص سے ٹیکنالوجی حاصل کرکے وہی چیز بنائے، یا دنیا میں سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کی خبر دے اور اس کی تشہیر کرے۔ ظاہر ہے کہ دنیاوی نظم کے تحت ایجاد موجد کی ہی کہلائے گی، اور خبر دینے والے یا اس ایجاد کو نقل کرکے اشیاء بنانے والے کو موجد نہیں کہا جائے گا۔ اسی طرح بلاتشبیہ سمجھ لیجیے کہ ایک غیب کا براہِ راست بلاواسطہ علم ہے، اوردوسرا انہی مغیبات میں سے بعض اشیاء کے بارے میں خبر دینا ہے۔

"علمِ غیب" اور "اَخبارِ غیب" کا یہ فرق قرآنِ مجید نے بھی واضح کیا ہے، ذیل میں دونوں طرح کی آیات ذکر کی جاتی ہیں، مذکورہ تشریح کی روشنی میں دونوں آیات اپنی جگہ واضح ہیں۔

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ (الأنعام : 50)
ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“

سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے یوں نقل فرمایا ہے :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ (هود : 31)
ترجمہ:”میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں فرشتہ ہوں۔“

سورہ النمل میں ہے:

قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا الله (النمل:65)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔

سورہ اعراف میں ہے:

قل لا املک لنفسی نفعاً ولا ضراً الا ماشاء الله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الا نذیر وبشیر لقوم یؤمنون (الأعراف:188)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنے لیے نہ تو نفع کا مالک ہوں، اور نہ ہی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت زیادہ خیر حاصل کرتا، اور مجھے برائی چھوتی ہی نہیں، میں تو ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں ایمان والوں کو۔

یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ بہت سے مواقع پر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچائی گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے خود کو مسلمان ظاہر کیا، اور کہا کہ قوم میں تبلیغِ دین اور قرآن کریم سکھانے کی ضرورت ہے، آپ ﷺ قراء وعلماء صحابہ کرام کو ساتھ بھیج دیں، اس طرح کے دو واقعے پیش آئے جن میں آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو راستے میں دھوکے سے شہید کردیا گیا۔ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ دشمن کی سازش کو جانتے ہوئے اپنی امت کے ان منتخب لوگوں کو ہرگز ان کے حوالے نہ فرماتے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو گوشت میں زہر دیا گیا اور آپ ﷺ نے ایک لقمہ منہ میں لیا بھی، جسے تھوک دیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس گوشت نے خبردی کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے، اور مرضِ وفات میں آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ مجھے خیبر کے زہر کا اثر محسوس ہورہاہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے سے علم ہوتا تو حضور ﷺ ہرگز زہر آلود گوشت تناول نہ فرماتے۔

جب کہ دوسری طرف بے شمار مواقع پر قبل از وقوعِ واقعہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دے دی، اور آپ ﷺ نے قیامت تک پیش آنے والے بے شمار احوال کی امت کو خبر دے دی، بلکہ جنت و جہنم میں داخلے تک کے تمام مراحل کی بے شمار غیبی خبریں پہنچادیں، غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا :
"أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ".(صحيح البخاري : 1481، صحيح مسلم : 1392)
ترجمہ: ”خبردار ! آج رات سخت آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی بھی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، اسے باندھ لے۔“

اور پھر اسی طرح ہوا۔ اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے کفار کے سرداروں کے قتل کی جگہیں متعین فرمادیں، چناں چہ وہ اپنے مقتل سے ایک سوت اِدھر اُدھر نہ ہوپائے۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں قیامت تک آنے والی ہر قابلِ ذکر جماعت اور گروپ کا ذکر فرمایا اور اس کے امیر(لیڈر) کا نام بھی بتایا، اور ایک موقع پر آپ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو دونوں ہاتھوں میں دو رجسٹر تھے، دائیں ہاتھ والے کی بابت فرمایا کہ اس میں اہلِ جنت کے نام ہیں، جب کہ بائیں ہاتھ والے کی بابت فرمایا کہ اس میں اہلِ جہنم کے نام ہیں، پھر ان دونوں رجسٹروں کو اشارہ سے چھوڑ دیا اور وہ غائب ہوگئے۔ اور آپ ﷺ نے دجال کے آنے سے پہلے قسطنطینیہ کی فتح کی بشارت دی، اور مغرب کی فتح کے بعد جب دجال کے ظہور کی باطل خبر دنیا میں پھیلے گی اس وقت مسلمانوں کی فاتح فوج جن افراد کو دجال کی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کرے گی، حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کو ان کے ناموں سے جانتاہوں۔ اس طرح کی بے شمار خبریں اور آپ ﷺ کے معجزات ہیں۔ چناں چہ اللہ جل وعلا سورہ آلِ عمران آیت نمبر 44 اور سورہ یوسف آیت نمبر 102 میں فرماتے ہیں:

ذلک من انباء الغیب نوحیه الیک

ترجمہ: یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ (ﷺ) کی طرف وحی کرتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

أما الغیب فما غاب عن العباد من أمر الجنة وأمر النار وما ذکر في القرآن ج۱ص۴۰

یعنی غیب وہ ہے کہ جو بندوں سے پوشیدہ ہوجیسے جنت وجہنم کے حالات ومعاملات اور جو کچھ کہ قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے (ابن کثیر)

علامہ قرطبی رحمہ فرماتے ہیں:
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .

وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ”
ميں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا تذکرہ کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (الجامع لأحکام القرآن : 27، 26/9)

خلاصہ یہ ہے کہ "علمِ غیب" باری تعالیٰ کا خاصہ ہے، جو اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے، البتہ انبیاءِ کرام علیہم السلام خصوصاً رسول اللہ ﷺ کو بے شمار اَخبارِ غیب عطا دی گئی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے علوم عطا فرمائے ہیں کہ تمام مخلوق مل کر بھی کسی نبی کے علم کی ہم سری کرنا تو درکنار پاسنگ تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ فقط واللہ اعلم




فتوی نمبر : 144004201615
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جزاکِ اللہ ۔
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک جگہہ (ابھی کتاب کا نام یاد نہیں )فرمایا ہے کہ عوام انباء الغیب اور علم الغیب میں فرق نہیں کرسکتے ، اور اپنے والد مفتی محمد شفیع ؒ کا واقعہ یہ سنایا کہ ایک عام آدمی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت ہمارے نبیﷺ کو کتنا علم غیب حاصل تھا ؟ تو وہ سمجھ گئے کہ وہ انباء الغیب مراد لے رہا ہے ،
مسکرا کر بولے کہ ’’ بھئی بہت تھا ، بہت‘‘
یہ کتنا اچھا اور حکمت والا جواب ہے ۔
اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں سے یہ اختلاف چلا تھا، توآپ وہاںپہ بھی حُسن ظن رکھیں تو دیکھیں کہ مولانا احمد رضا صاحبؒ کی جو پہلی کتاب اس موضوع پر تھی ، اس کا نام بھی انباء الغیب ہی ہے ۔
واللہ اعلم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاکِ اللہ ۔
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک جگہہ (ابھی کتاب کا نام یاد نہیں )فرمایا ہے کہ عوام انباء الغیب اور علم الغیب میں فرق نہیں کرسکتے ، اور اپنے والد مفتی محمد شفیع ؒ کا واقعہ یہ سنایا کہ ایک عام آدمی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت ہمارے نبیﷺ کو کتنا علم غیب حاصل تھا ؟ تو وہ سمجھ گئے کہ وہ انباء الغیب مراد لے رہا ہے ،
مسکرا کر بولے کہ ’’ بھئی بہت تھا ، بہت‘‘
یہ کتنا اچھا اور حکمت والا جواب ہے ۔
اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں سے یہ اختلاف چلا تھا، توآپ وہاںپہ بھی حُسن ظن رکھیں تو دیکھیں کہ مولانا احمد رضا صاحبؒ کی جو پہلی کتاب اس موضوع پر تھی ، اس کا نام بھی انباء الغیب ہی ہے ۔
واللہ اعلم
ماشاء اللہ
بہت بہت شکریہ
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
جزاکِ اللہ ۔
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک جگہہ (ابھی کتاب کا نام یاد نہیں )فرمایا ہے کہ عوام انباء الغیب اور علم الغیب میں فرق نہیں کرسکتے ، اور اپنے والد مفتی محمد شفیع ؒ کا واقعہ یہ سنایا کہ ایک عام آدمی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت ہمارے نبیﷺ کو کتنا علم غیب حاصل تھا ؟ تو وہ سمجھ گئے کہ وہ انباء الغیب مراد لے رہا ہے ،
مسکرا کر بولے کہ ’’ بھئی بہت تھا ، بہت‘‘
یہ کتنا اچھا اور حکمت والا جواب ہے ۔
اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں سے یہ اختلاف چلا تھا، توآپ وہاںپہ بھی حُسن ظن رکھیں تو دیکھیں کہ مولانا احمد رضا صاحبؒ کی جو پہلی کتاب اس موضوع پر تھی ، اس کا نام بھی انباء الغیب ہی ہے ۔
واللہ اعلم
جناب من: توجہ فرمائیں :
اہل بدعت کے علماء کے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق " علم الغیب "پر دعیٰ جات پڑھیں

(1)
مولوی صالح صاحب لکھتے ہیں:
’’لوح محفوظ آ پ کے روبرو لکھی گئی اور آ پکو شکم مادر میں ہی علم غیب تھا‘‘
(علم غیب رسول ص34)
(2)
مولوی نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شب معراج میرے حلق میں ایک قطرہ ٹپکایا گیا۔اس کے فیضان سے مجھے ما کان و ما یکون کا علم حاصل ہو گیا‘‘
(الکلمۃ العلیا ص 43)
(3)
مولوی عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
’’غیب کی ضمیر کا مرجع الغیب ہے اور الغیب میں ا ل جنس کا ہے۔اگر اللہ رب العزت الغیب کی نسبت اپنی طرف کر کے اپنے تمام غیب کے عالم ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور ثابت ہے تو اس کی طرف ضمیر راجعہ کا منسوب نبی ﷺ فلا یظہر علی غیبہ سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں۔کیوں کہ ضمیر کا مرجع کل غیب ہے۔جب عطا کنندہ نبی کو اپنا کل غیب عطا کر کے سراہے تو اس کے انکار کرنے والے کو کیسے مومن سمجھا جا سکتا ہے‘‘
(مقیاس ِحنفیت ص 323)
(4)
فتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
’’خدا کا علم غیب حضور ﷺکے قبضہ میں دے دیا گیا‘‘
(شان حبیب الرحمٰن ص 206)
(5)
ہی مفتی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت اور ان تفاسیر سے یہ معلوم ہوا کہ خدائے قدوس کا خاص علم غیب حتی کہ قیامت کا علم بھی حضور ﷺ کو عطا کیا گیاان سےکیا شیٔ ہے جو علم مصطفے ﷺ سیے باقی رہ گئی‘‘
(جاء الحق ص 60)
(6)
مولوی عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
’’لہذا نبی ﷺ کے لئے تمام عالمین کاعلم غیب عطائی الدوام ماننا یعنی از ابتدائے آفرینش حضور ﷺ کو تا قیامت اور قیامت کے بعد تک بھی اور جنت و دوزح وغیرھم کا تمام علم غیب بلکہ اس سے بھی ذیادہ جس کو اللہ تعالی جانتے ہیں اور مخلوق کی عقلوں سے بالاتر ہے آ پ کی شان نبوت کو حاصل ہے‘‘
(مقیاس الحنفیت ص299)
(7)
احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:
’’حضور ﷺ کو روز اول سے روز آخر تک کے تمام گزشتہ و آئندہ کے واقعات کا علم ہے‘‘
(الدولۃ المکیہ ص 61)
(8)
مولوی عبد الرشید صا حب لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالی نے اپنے نبی محترم ﷺ کو روز اول سے روز آ خر تک تمام علوم غیبیہ سکھائے‘‘
( رشد الایمان ص 101)
(9)
مولوی عمر اچھروی لکھتے ہیں :
’’آپکی ذات سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں وہ در حقیقت آپ کے محمد ہونے کے قائل نہیں ‘‘
(مقیاس حنفیت ص 312)
(10)
’’اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے علم غیب کے منکر کو کافر فرمایا ہے‘‘
(فہارس فتاوی رضویہ ص874)

تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ

اب ان کے نہ عام آدمی سے حسنِ ظن رکھا جا سکتا ہے نہ کسی ان کے عالم سے

اتنے بڑے بڑے دعوے کئے اہل بدعت علماء نے لیکن اپنی کسی کتاب میں اس پر کوئی صریح دلیل پیش نہ کر سکے ، کبھی اطلاع علی الغیب کی آیات سے استدلال اور کبھی لفظ الغیب سے استدلال
محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے قرآنِ مجید فرقان حمید میں سے ایک آیت صرف ایک آیت کوئی عالم پیش نہیں کر سکتا کہ جس میں " علم اور غیب " کا لفظ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے استعمال ہوا ہے
کسی ایک حدیث صحیح میں محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے " علم اور غیب " کا لفظ استعمال کیا ہو پیش نہیں کی جاسکتی
عالم الغیب ہونا یہ خاصہ رب العالمین ہے اس میں کسی کو شریک کرنا کفر ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ
(بخاری جلد 2 صفحہ 720 )
(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )
(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )
(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )
(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )
(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)

(کنز العمال ج 6 ص 106 )
(مسند احمد ج2 ص 85 )
(درمنشور ج5 ص 170 )
(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )
(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )
(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )
(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)

(کنز العمال ج 6 ص 106 )
(مسند احمد ج2 ص 85 )
(درمنشور ج5 ص 170 )
(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )
(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )
(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )
(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
محترمہ : یہ روایت بیان کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ بندہ ناچیز نے لکھا تھا کہ " محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے " علم اور غیب کا لفظ اکھٹا " نہ قرآن میں ہے نہ احادیث مبارکہ میں " حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا فتوی آپ نے " علم غیب " کی بحث والی پوسٹ میں نقل کیا ہے وہاں ہی ہر چیز کا مطلب دیکھ لیتیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترمہ : یہ روایت بیان کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ بندہ ناچیز نے لکھا تھا کہ " محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے " علم اور غیب کا لفظ اکھٹا " نہ قرآن میں ہے نہ احادیث مبارکہ میں " حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا فتوی آپ نے " علم غیب " کی بحث والی پوسٹ میں نقل کیا ہے وہاں ہی ہر چیز کا مطلب دیکھ لیتیں
محترم مجھے آپ کیا سمجھانا چاہتے ہیں ذرا تفصیل سے بتائیے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علم غیب سے مراد اگر کلی ہے تو یہ تو صرف اللہ تعالی کی صفت ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں بلکہ کسی بھی نبی کو کلی علم غیب نہیں دیا گیا
سورہ النمل میں ہے: قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا الله (النمل:65) ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔

بنوت ماخوذ ہے نباء سے بمعنی خبر۔عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ خبریں دینے والا
غیب کا علم ہونا اور غیب کی خبریں بتانا مختلف چیزیں ہیں

قیامت اللہ کی تخلیق ہے اور قیامت کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے۔۔۔۔۔۔ (علم غیب)
قیامت کی خبر آپ ﷺ کو دی گئی کہ ہم تک پہنچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(خبر غیب دی گئی)
 
Last edited:

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
علم غیب سے مراد اگر کلی ہے تو یہ تو صرف اللہ تعالی کی صفت ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں بلکہ کسی بھی نبی کو کلی علم غیب نہیں دیا گیا
سورہ النمل میں ہے: قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا الله (النمل:65) ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔

بنوت ماخوذ ہے نباء سے بمعنی خبر۔عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ خبریں دینے والا
غیب کا علم ہونا اور غیب کی خبریں بتانا مختلف چیزیں ہیں

قیامت اللہ کی تخلیق ہے اور قیامت کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے۔۔۔۔۔۔ (علم غیب)
قیامت کی خبر آپ ﷺ کو دی گئی کہ ہم تک پہنچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(خبر غیب دی گئی)
محترمہ: " علم الغیب " اور "اخبار ِ غیب" میں کوئی فرق نہیں؟ میری پوسٹ کے آخری حصہ کو بغور پڑھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے " علم اور غیب " کا لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث میں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطلاع علی الغیب " علم الغیب " تو نہیں ہوتا ۔
کیا اس روایت میں (آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)میں ہر چیز سے مُراد " علم الغیب " ہے ؟ اگر نہیں تو اس روایت کو اس پوسٹ میں لگانے کا مقصد؟
پھر یہی روایت دوسری کتابوں میں اور الفاظ کے ساتھ موجود ہے جس سے اس بات کا شائبہ بھی نہیں ہوتا
محمد رسول اللہ ﷺ از خود خبر دیا کرتے تھےیا وحی کے زریعہ اطلاع پا کر خبر بیان کرتے تھے؟ جو وحی کے ذریعہ خبر دی جائے اسے " علم الغیب " کہتے ہی نہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترمہ: " علم الغیب " اور "اخبار ِ غیب" میں کوئی فرق نہیں؟ میری پوسٹ کے آخری حصہ کو بغور پڑھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے " علم اور غیب " کا لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث میں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطلاع علی الغیب " علم الغیب " تو نہیں ہوتا ۔
کیا اس روایت میں (آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)میں ہر چیز سے مُراد " علم الغیب " ہے ؟ اگر نہیں تو اس روایت کو اس پوسٹ میں لگانے کا مقصد؟
پھر یہی روایت دوسری کتابوں میں اور الفاظ کے ساتھ موجود ہے جس سے اس بات کا شائبہ بھی نہیں ہوتا
محمد رسول اللہ ﷺ از خود خبر دیا کرتے تھےیا وحی کے زریعہ اطلاع پا کر خبر بیان کرتے تھے؟ جو وحی کے ذریعہ خبر دی جائے اسے " علم الغیب " کہتے ہی نہیں
محترم میرے خیال میں تو اس پوسٹ کا مقصد ہی یہ سمجھانا تھا کہ علم غیب اور اخبار غیب میں فرق ہے۔
اوپر یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ (الأنعام : 50)
ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“
آپ درج بالا حدیث بالا حدیث سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر سکتے ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں مگر کچھ چیزوں کا ذکر کیا کہ ان کی نہیں تو بتانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ علم غیب جاننے والے کو ہر چیز کا علم ہونا چاہیے اور یہ صرف اللہ کی صفت ہے۔ ہمارے لیے ماضی حال مستقبل ہے لیکن اللہ کے لیے یہ سب نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے بہت کچھ کی خبر دی گئی جو اس کائنات میں کسی کو نہیں دی گئی لیکن علم غیب جاننا اور ہونے والے واقعات کی خبر دینے میں فرق ہے۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
 
Top