خائن علماء

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خائن علماء
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔علماء انبیاء علیھم السلام کے وارث وامین ہیں جب تک کہ بادشاہوں ( اور حاکموں) کے پاس نہ آئیں جائیں ۔اگر علماء ،بادشاہوں (نوابوں، رئیسوں ، حاکموں ) کی مجلسوں میں جانے لگیں اور دنیا کے پیچھے لگ جائیں تو (سمجھ لو کہ) وہ خائن یں ،ایسےعلماء سے بچو ان کی مجلسوں میں نہ جاؤؕ (انس بن مالکؓ)
آدمی جتنا بادشاہ سے قریب ہوگا اللہ سے دور ہوتا جائے گا ،بادشاہوں کے تابعداروں کی کثرت شیطانوں کے مثل ہے ، نیز جتنا مال زیادہ ہوگا اتنا ہی حساب سخت ہو گا( عبید بن عمیرؓ)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ خیرا کثیرا

محترم اگر علمائے کرام حاکموں کے رویو ں اور غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھا کر اور انکے مقابلے میں آکر کھڑے ہونے اور خود حاکم بننے کے بعد اسلام میں ان کی حیثیت کیا رہے گی؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ خیرا کثیرا

محترم اگر علمائے کرام حاکموں کے رویو ں اور غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھا کر اور انکے مقابلے میں آکر کھڑے ہونے اور خود حاکم بننے کے بعد اسلام میں ان کی حیثیت کیا رہے گی؟
اس کا صحیح جواب سلطان یا دارالاسلام کی رعایا دے سکتی ہے۔ہم تو سنی سنائی کہہ سکتے ہیں۔
 

محمدشعیب

وفقہ اللہ
رکن
اگر حکمران ظالم ہوتو میرا خیال ہے عالم کو اس کے سامنے حق کی بات کرنی چاہیئے،جیسے حجاج بن یوسف کے دربار میں علماء حق کہنے سے نہیں گھبراتے تھے سب سے بڑی مثال حضرت سعید بن جبیرؒ کی ہے کہ تلوار کے سائے میں حجاج کے سامنے اسے ظالم کہ رہے تھے
اسی طرح امام احمد بن حنبلؒ نے وقت کے حکمران کی بات نہ مانی حق پر ڈٹے رہے، علماء نے ہمیشہ حق کی بات کی چاہئے وہ کسی طاقت ور کے سامنے ہوں جب حق بات آتی ہے تو برملا اظہار کردیتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر حکمران ظالم ہوتو میرا خیال ہے عالم کو اس کے سامنے حق کی بات کرنی چاہیئے،جیسے حجاج بن یوسف کے دربار میں علماء حق کہنے سے نہیں گھبراتے تھے سب سے بڑی مثال حضرت سعید بن جبیرؒ کی ہے کہ تلوار کے سائے میں حجاج کے سامنے اسے ظالم کہ رہے تھے
اسی طرح امام احمد بن حنبلؒ نے وقت کے حکمران کی بات نہ مانی حق پر ڈٹے رہے، علماء نے ہمیشہ حق کی بات کی چاہئے وہ کسی طاقت ور کے سامنے ہوں جب حق بات آتی ہے تو برملا اظہار کردیتے ہیں۔
کچھ علما ء کرام سیاست میں ہیں جو ملکی معاملات میں مصروف عمل ہیں ان کے بارے میں جاننا تھا
 

محمدشعیب

وفقہ اللہ
رکن
کچھ علما ء کرام سیاست میں ہیں جو ملکی معاملات میں مصروف عمل ہیں ان کے بارے میں جاننا تھا
جہاں تک مجھ جیسے حقیر طالب علم کی رائے ہے وہ یہ ہے کہ آج کے اس پرفتن دور میں علماء کا سیاست میں آنا لازم و ملزوم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر اسلام کو مٹانے کی کوشش میں مصروف العمل ہے اسی طرح علماء کا میدان میں آنا اور دین اسلام کا دفاع کرنا بھی لازم ہے۔
باقی اصل رائے علماء دے سکتے ہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جہاں تک مجھ جیسے حقیر طالب علم کی رائے ہے وہ یہ ہے کہ آج کے اس پرفتن دور میں علماء کا سیاست میں آنا لازم و ملزوم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر اسلام کو مٹانے کی کوشش میں مصروف العمل ہے اسی طرح علماء کا میدان میں آنا اور دین اسلام کا دفاع کرنا بھی لازم ہے۔
باقی اصل رائے علماء دے سکتے ہیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انبیاء علیہم السلام دین اور سیاست دونوں کے حامل ہوتے ہیں اورخود بھی سیاسی امور میں شریک اور عامل رہتے ہیں، اسلام اس معاملہ میں خصوصی امتیاز رکھتا ہے، اس کی ابتدائی منزل ہی سیاست سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تعلیم مسلمانوں کی دینی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو پر حاوی اور کفیل ہے، قرآن پاک میں جنگ و صلح کے قوانین و احکام موجود ہیں، کتب احادیث و فقہ میں عبادات و معاملات کے پہلو بہ پہلو ملکی سیاست کے مستقل ابواب موجود ہیں، دین کے ماہر شرعی سیاست کے بھی ماہر ہوتے ہیں (کفایت المفتی: ۹/۳۰۴)



اور فقہی مقالات میں ہے: موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ رشوت اور دغابازی کا تصور لازم ذات ہوکر رہ گیا ہے، اسی لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ غلط فہمی سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کا منشاء اتنا برا نہیں ہے لیکن نتائج بہت برے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ دور کی سیاست بلاشبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کررہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللّہ بعقاب (أبوداوٴد شریف: ۲/۵۹۶) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں، اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے اور انتخابات میں حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجہ میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑکر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ (فقہی مقالات ملخصاً: ۲/۲۸۵-۲۸۶)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرات تابعینؒ، و تبع تابعینؒ اور بعد کے ادوار میں حق و صداقت کی آواز بلند کر کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے علماء کرام کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ ان کے مختصر ذکر کے لیے بھی ایک مفصل کتاب درکار ہے۔ برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ علماء کرام کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے اور علماء کرام کی جدوجہد کو نظر انداز کر کے برصغیر میں ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بھی مکمل نہیں کیا جا سکتا۔

برصغیر کے علماء اسلام نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت مجدد الفؒ ثانی، اور حضرت ملا جیونؒ کی طرح حکمرانوں کی اصلاح کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔ حضرت امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ کی طرح فکر و نظر کے میدان میں سیاسی راہنمائی کی ہے۔ حضرت محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ، حضرت امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ، امیر المومنین حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ کی طرح نظامِ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اسلامی قوانین و اصلاحات کے نفاذ کی مساعی کی ہیں۔ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت علامہ فضل حق خیرآبادیؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت حافظ ضامن شہیدؒ، حضرت مولانا محمد جعفر تھانسیریؒ، حضرت مولانا عنایت علی کاکورویؒ، حضرت مولانا عبد الجلیل شہیدؒ، علماء صادق پور، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت الشیخ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہؒ، حضرت مولانا منصور انصاریؒ، حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا غلام محمد دین پوریؒ، حضرت مولانا تاج محمودؒ امروٹی، حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرح ظلم و جبر اور کفر و الحاد کے نظام سے ٹکر لے کر قربانی و جہاد کی روایات تازہ کی ہیں۔

الغرض علماء اسلام خصوصاً برصغیر کے علماء کی سیاسی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ سیاسیات کا کوئی بھی شعبہ ان کی تگ و تاز سے محروم نہیں ہے۔ اور اس طرح علماء اسلام کا سیاست میں حصہ لینا ان کے ملی و دینی فریضہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے اسلاف و اکابر کی شاندار روایات کا اہم حصہ اور ان کا ورثہ بھی ہے جس سے علماء اسلام کسی صورت میں روگردانی نہیں کر سکتے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ گفتگو دھاگہ کے مطابق نہیں لہذا اس گفتگو کو "گپ شپ" میں منتقل کررہاہوں۔
خواست گزار ہوں یہاں گپ شپ سے پرہیز کیا جائے
محترم مجھے یہ بتائیے کہ آپ نے منتقل کیا یا میرے کرنے سے ہوا کیوں کہ میں کوشش کر رہی تھی منتقل کرنے کے لیے
 
Top