بے اعتدالی کوئی بھی نہیں تھی۔ ماشاء اللہ عمدہ اور مدلل تحریر ہے۔۔۔ انکار نہیں ۔ ۔۔۔۔ انتہائی ابتداء میں جن الفاظ کا استعمال تھا اس کیطرف اشارہ کیا تھا کہ ایک محقق کو تحقیق کے بعد ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر "خناس" وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر۔۔اس عنوان پر بڑی لے دے چل رہی تھی اور چند اہل علم کے یہ تبصرہ جات سنے کہ ہمیں تو علم نہیں تھا کہ اکبر شاہ نجیب آباد ی قادیانی ہیں لیکن رجوع کا معاملہ نظر سے نہیں گزرا تھا کبھی ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائیں آپکو
دلیل کے ساتھ محقق میں معتدل مزاجی بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔
امتِ مسلمہ کو ’’امتِ وسط‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا.
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔‘‘
البقرة، 2 : 143
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ حالات و واقعات کے نشیب و فراز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جسارت فرما رہے تھے ۔ آنحضورہ کی شان میں اگر یہ الفاظ بارِ گراں اور مہلکہ ثابت ہو رہے تو بندہ عاجز بصد احترام عجزو ندامت کے ساتھ معافی کے طلبگار ہیں۔
خادم کا قطعاً مقصود کسی بھی فرد کی دل آزاری و حوصلہ و...