مظاہرعلوم سے مسیح العلوم تک

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مظاہرعلوم سہارنپورسے مسیح العلوم بنگلورتک
  • مفتی ناصرالدین مظاہری​
مسیح الامت حضرت مولانامسیح اللہ خان جلال آبادی ؒکے تلمیذرشید،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے نامورخلیفہ، مسیح العلوم بنگلور کے بانی مبانی ،مختلف علمی،دینی،فقہی کتابوں کے مصنف اورماہنامہ تکبیرمسلسل کے مدیرمسئول حضرت مولانامفتی شعیب اللہ خان مفتاحی کی دعوت پرجانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ کی معیت میں بنگلورکامیرادوسراسفرہوا۔
۶؍اکتوبر۲۰۱۷ء کی صبح ۶بجے انڈیگو(indego)کے ذریعہ ہمارے ٹکٹ مفتی صاحب مدظلہ نے پہلے ہی بک کرادئے تھے،علی الصباح ایرپورٹ پہنچنے کے لئےطے ہواکہ پانچ اکتوبرکی رات ہم لوگ دہلی میں گزارلیں تاکہ تازہ دم ہوکرسفرکے لئے نکلیں۔
حسب مشورہ ہم لوگوں نے دہلی میں جناب الحاج سیدفیروزاحمد(وزیرآباد)کے دولت کدہ پررات گزاری ،فجرسے قبل ایرپورٹ پہنچ گئے،نمازفجرہم نے ایرپورٹ کے اندرہی جماعت کے ساتھ اداکی ،بعدنمازانتظارگاہ میں بیٹھے رہے ،جہازکی رونگی سے ۴۰؍منٹ قبل اندرونی حصے میں پہنچے ،بورڈنگ پاس اورسامان کی چیکنگ کے بعدانڈیگو(indego)کی بس ہوائی جہازتک لے گئی،ہماراجہازوقت مقررہ پرمحو پروازہوگیا۔اعلان ہواکہ تقریباًدوگھنٹے بیس منٹ بعدہماراجہازمنزل مقصودپہنچے گا۔
دوران پروازبادلوں کی خوبصورتی،موسم کی رنگارنگی اورجہازکے آرام دہ سفرنے بالکل ہی تکان نہ ہونے دیااوریوں ہم ۹؍بجے بنگلورایرپورٹ پراترچکے تھے جہاں مفتی شعیب اللہ صاحب مفتاحی مدظلہ کے فرستادگان ہمارے استقبال کے لئے گاڑی سمیت موجودتھے۔
صبح ساڑھے نوبجے ہم بسکون وبسہولت مدرسہ مسیح العلوم میں داخل ہوئے توہماری حیرت اورمسرت کی انتہانہ رہی کیونکہ چندسال قبل (۱۷؍جولائی ۲۰۱۰عیسوی مطابق ۶؍شعبان ۱۴۳ھ )جب ہمارایہاں آناہواتھاتونہ تویہ چہل پہل تھی،نہ ہی یہ باغ وبہار،نہ ہی مرغزارتھے نہ ہی مرغان چمن محوگلگشت،نہ توعمارات کایہ تنوع تھانہ ہی شادابی وزیبائی اورحسن ودلکشی کایہ آہنگ، بے ساختہ شاعرکایہ شعروردزبان ہوگیا:

حسن روزافزوں نے کتنافرق پیداکردیا
دیکھئے یہ آپ ہیں یہ آپ کی تصوریرہے
۱۴۰۴ھ میں مسیح الامت حضرت مولانامسیح اللہ خان جلال آبادی ؒکی ایماواجازت اورمختلف اکابراہل اللہ کی رائے گرامی اورمفیدمشوروں کی روشنی میں محلہ بیدواڑی کی ایک تنگ وتاریک جگہ پرمسیح العلوم قائم ہوا،مگرکس کومعلوم تھاکہ بہت جلدیہ مکتب سے مدرسہ اورمدرسہ سے جامعہ ہوکرپورے بنگلورہی نہیں ہندوستان بھرمیں نورعلم کاسماں قائم کردے گا۔بیدواڑی میں تقریباً۱۵؍سال تک سکون ووقارکے ساتھ چلنے کہ بعدجب طلبہ کی تعدادمزیدعمارت کی متقاضی ہوئی تواتنے گھنے اوروسط شہرمیں کسی کشادہ جگہ کاملناممکن نہیں تھاپھرمدرسہ جوامن کے گہوارے ہوتے ہیں جہاں مؤمنین کوامن وامان کی تعلیم دی جاتی ہے ، شہرکی گہماگہمی اورشوروشرابے سے بہترہے کہ مدرسہ شہرسے الگ او رٹریفک سے دورہو تاکہ گاڑیوں کے شوراورہجوم کے زورسے نجات مل سکے ،طلبہ اوراساتذہ کویکسوئی حاصل ہوسکے،ویسے بھی بازاراللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ جگہیں ہیں اوراحب البلادمیں ابغض البلادکوشامل کرنابعیدازعقل ہے۔
مجھے یادآیامفتی اعظم حضرت مفتی محمدشفیع عثمانیؒ نے جب کراچی میں دارالعلوم کی بنیادرکھی توبہت سوں کامشورہ تھاکہ باہری حصہ میں مارکیٹ بنادی جائے مگرمفتی صاحب ؒنے یہی جواب دیاکہ ہم احب البلاد میں ابغض البلاد کوجگہ نہیں دے سکتے۔
مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ نے جگہ کی تلاش جاری رکھی اورپھرباگلورکے علاقہ میں شہرسے تقریباًپندرہ کلومیٹرکی دوری پرپرسکون جگہ مل ہی گئی پہلے یہاں مرغی فارم تھااس کاٹین شیڈاستعمال کیا،کچھ ترمیمات کرکے کلاسیں بنالی گئیں،ایک ساد ہ ساکمرہ درست کرکے دفتربنایاگیاوہی دفترمہمان خانہ بھی تھا،دفتراہتمام بھی،بیت المشورہ بھی تھا،آرام گاہ بھی ،اکابراہل اللہ کی آمدکے موقع پران کے لئے جائے قیام بھی تھااورمفتی صاحب کی خانقاہ بھی ،مگرپھرحالات نے کروٹ لی ،۴؍شعبان ۱۴۲۸ھ کی مبارک ساعت تھی جب امیرشریعت کرناٹک حضرت مولانااشرف علی ؒکے دست مبارک سے جدیدعمارت کاسنگ بنیادرکھاگیا، مخیرین نے دست تعاون درازکیا،توپھرموجودہ شاندار،جاندار،عالی شان ،پرشکوہ ،خوبصورت،دیدہ زیب،دل نشین اورپروقار عمارت ابھرکراورنکھرکرسامنے آگئی۔تین منزلوں پرمشتمل یہ عمارت کشادہ درسگاہوں،بڑے بڑے ہالوں، دارلحدیث، میٹنگ ہال،کتب خانہ،رہائش گاہ،تقریرہال اوردیگرشعبہ جات کے لئے الحمدللہ کافی ہے۔مگرمجھے لگتاہے کہ بہت جلدیہ عمارت بھی ناکافی ہونے والی ہے کیونکہ طلبہ کی آمدآمدہے،عوام کی توجہات پورے طورپرمبذول ہیں،توپھرنئے تخصصات اورشعبہ جات کاوجودمیں آناناگزیرہے ،اساتذہ اورطلبہ بڑھیں گے نتیجہ یہ ہوگاکہ اللہ نے چاہاتوپھرمزیدنئی تعمیرات وجودمیں آویں گی اورمسیح العلوم کی مسیحائی کاچاردانگ عالم میں پھریرالہرائے گا۔
سابقہ قدیم جگہ پرچھوٹے بچوں اوربچیوں کی دینی وعصری تعلیم کے لئے اسکول کانظام قائم کیاگیا،جوں جوں بچے بڑھ رہے ہیں عمارت اوپرکی طرف بڑھ رہی ہے تادم تحریرچارمنزلیں تیارہوکرکلاسیں جاری ہیں،اسی سے متصل وہ مسجدہے جہاں اول اول کام شروع کیاگیاتھااوریہی وہ مسجدہے جس کے ایک گوشے میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفر حسینؒؒ نےمفتی صاحب موصوف کوخلعت خلافت سے نوازاتھا۔
مسیح العلوم:سرزمین بنگلورمیں مسیح الامت حضرت مولانامسیح اللہ خان جلال آبادی ؒکی یادمیں قائم وہ عظیم الشان ادارہ جس نے دودہائی کے مختصرعرصہ میں صرف صوبہ کرناٹک ہی نہیں پورے ہندوستان میں اعتباراوراعتمادکی بے بہادولت پالی ہے۔
مسیح العلوم:فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کی توجہات عالیہ کاوہ فیضان جلیل جو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف علماء ، طلبہ اورعوام کی توجہات کامحورومرکزبن گیابلکہ اکابراہل اللہ کی مستجاب دعاؤں کابھی مستحق ٹھہرا۔
مسیح العلوم:جس نے کم عمری کے باوجوددینی تعلیم کے تمام درجات کی تعلیم کابندوبست کرلیابلکہ دارالافتاء اوردارالقضاکے شعبے بھی قائم ہوگیےجہاں طلبہ کی اچھی خاصی تعدادتربیت پارہی ہے ۔
پہلے جب میں (۱۷؍جولائی ۲۰۱۰عیسوی مطابق ۶؍شعبان ۱۴۳ھ )کومسیح العلوم گیاتھاتواستاذمحترم حضرت مولانااطہرحسینؒ کے چھوٹے صاحب زادے مولانااحمدیوشع سعیدی کی ہمراہی میں سفرہواتھااوراب حضرت مولانااطہرحسینؒ کے بڑے صاحب زادے حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ کی معیت میں سفرہواگویاسعادت پہلے بھی تھی سعادت اب ہے،بس پہلا سفر صرف شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ سے ملاقات اورزیارت کی غرض سےہواتھااوراب مسیح العلوم کے سہ روزہ عظیم الشان اجلاس میں شرکت کی غرض سےہوا۔
پروگرام کاآغاز۶؍اکتوبرکی شام بعدنمازجمعہ شروع ہوا،جامعہ کے مختلف طلبہ نے مختلف اندازواسلوب اورمختلف قراء توں میں اپنے اپنے فن اورمہارت کامظاہرہ کیا،درمیان میں کچھ علاقائی مدارس کے قراء کوبھی موقع دیاگیا۔
اگلے دن صبح سات بجے حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ رحمانی کامحاضرہ تھاپھرمفتی محمدسلمان منصورپوری کاایک گھنٹے خطاب اورپھرندوۃ العلماء لکھنوکے شیریں بیان مقرر،حسینی نسبتوں کے حامل،ملت اسلامیہ کی ترقی اورہمدردی کے لئے زارونزار،ملکوں ملکوں ملت کے غیوراورجسورافرادوشخصیات کوحق گوئی کے ساتھ آئینہ دکھانے والے،صدق وسچائی کے علم بردار،صفائی قلب کے ساتھ شافی دواتقسیم کرنے والے غیرت مند،حوصلہ مند،جری،بہادر،نڈر،بیباک عالم ،ادیب،محقق،محدث،مفسر،مقرر،مدبر،صحافی اورصاحب قلم انشاء پردازحضرت مولاناسیدمحمدسلمان حسینی ندوی مدظلہ کاڈیڑھ گھنٹہ تک مؤثرخطاب ہوا،اس خطاب میں مولانانے اپنادل کھول کررکھ دیا،سچائیوں کے تمام باب کھول کھول کررکھدئے،ہرشخص کواس کا’’جرم ‘‘بتایا،علماء کوان کی ’’خامیاں‘‘ گنوائیں،خانقاہوں کے بوریہ نشینوں کوان کے’’ کرنے کے کام‘‘ بتائے،مدارس کے ذمہ داران،اساتذہ اورعہدے داران سب کوان کے میدان کاربتاکرنہایت جوش اورجذبہ سے کچھ اس اندازسے تقریرکی کہ گویا:

دیکھناتقریرکی لذت کہ جواس نے کہا
میں نے یہ جاناکہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے
تقریرکیاتھی؟ اِک برق بے اماں تھی جس نے مصلحتوں کے دبیزپردے چاک کردئے،جس نے بے بصیرتوں کوبصیرت کاسامان فراہم کیا،جس نے نسل نوکوکچھ سوچنے اورغوروفکرکرنے کی راہ سجھائی،جس نے بے وقت کی خاموشی کو’’جرم‘‘قراردیا،جس نے بروقت نہ بولنے کو’’مجرم‘‘گردانا،جس نے’’ کلمۃ حق عندسلطان جائر‘‘کاوہ نقشہ کھینچاکہ ہرفردانگشت بدنداں،ہرکان گوش برآواز،ہرفردمحوحیرت ،جوجہاں تھاگویاجم گیا،مجمع کاانتشارختم ہوگیا،ادھرادھرآنااورجاناتھم گیا،ممکن ہے کسی کومصلحت پسندی کی وجہ سے مولاناکی تقریرپسندنہ آئی ہومگرسچائی یہ ہے کہ مولاناحسینی خون رکھتے ہیں وہ باطل سے کبھی نہ دبے ہیں نہ دبیںگے،نہ جھکے ہیں نہ جھکیں گے،حق کابرملااعلان کرتے رہے ہیں اورکرتے رہیں گے۔
مفتی محمدشعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ کے اندرنظم وانتظام اوررکھ رکھاؤبھی کوٹ کوٹ کربھراہواہے،ہم لوگ چونکہ ایسے علاقہ سے وہاں پہنچے تھے جہاں بارش کاموسم نہیں ہے لیکن وہاں مسلسل بارش ہورہی تھی،خطرہ تھاکہ پروگرام متأثرہوگالیکن مفتی صاحب کے انتظام نے ثابت کردیاکہ :

ہمت کرے انسان توکیاہونہیں سکتا
وہ کون ساعقدہ ہے جوواہونہیں سکتا
پنڈال کانظم باقاعدہ تھا،سلیقہ سے تھا،آہنی ستونوں پرمستقیم ٹین شیڈ،تاحدنظر،ایک رنگ کی ہزارہاہزارکرسیاں،اسٹیج کی رونق لائق دیدتومائک کاسسٹم قابل داد،مائک نہ دھوکہ دیانہ موسلادھاربارش نے نظام میں رخنہ اندازی کی ،ہرطرح سے نظام تحسین وآفرین کے لائق تھا۔
مفتی محمدشعیب اللہ صاحب مفتاحی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا،بارش کی وجہ سے مجمع میں کچھ کمی پراظہارافسوس کیااوراجلاس کی غرض وغایت بیان کی،مہمانان کاشکریہ اداکیا،صدراجلاس حضرت مولاناصغیراحمدصاحب کوامیرشریعت بنائے جانے پراعزازکیا،ان کی شان میں بلندوبالاکلمات اداکئے،شال اورایک مخصوص پوشاک پہنائی،ان کی ہمہ جہتی خدمات اورمستقبل میں ان کاشانہ بشانہ تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی اوریہ بھی فرمایاکہ اس اجلاس کی صدارت مرحوم امیرشریعت حضرت مولانااشرف علیؒ کوکرنی تھی وہ اس اجلاس کے انعقادسے بہت خوش تھے مگرافسوس کہ مولانااچانک مولائے حقیقی سے جاملے تومیں نے حضرت کی جگہ بطورنیابت مولانا صغیراحمدرشادی مدظلہ سے درخواست کی ،مولانانے ہماری درخواست کوقبول فرمائی اوراس طرح گویاکرناٹک کاامیرشریعت بنائے جانے کی سب سے پہلی تحریک مسیح العلوم نے چلائی۔
بتاتے چلیں کہ محترم مولانا صغیر احمد خان رشادی مدظلہ کومورخہ ۲۷؍ستمبرکو دارلعلوم سبیل الرشاد میں علماء، عمائدین ، مدراس اور مساجد کے ذمہ داروں کی ایک خصوصی نشست میں اتفاق رائے سے امیر شریعت کرناٹک کامنصب عالی تفویض کیاگیاتھا ۔اِس اہم منصب کی پہلی کڑی حضرت مولانا ابوسعود صاحبؒ تھے جب کہ دوسری کڑی حضرت امیرشریعت کے صاحب زادۂ گرامی مرحوم مفتی اشرف علی ؒ مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد تھے۔
مولانا صغیر احمد خان رشادی مدظلہ کے اس تاریخی انتخاب میں بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر ڈاکٹر کے رحمن خان ، دارالعلوم سبیل الرشاد کے مہتمم مولانا احمد معاذ ،مفتی عبدالعزیز بلگام( نائب امیر شریعت ) جمعیۃ علماء ہند کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی،مفتی شمس الدین بجلی، چارمینار مسجد کے خطیب وامام مولانا اعجاز احمد ندوی، جمعیت مہدویہ کے نمائندہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مفتی باقرارشد، انجمن ا مامیہ کے صدر علی رضا، سنی جمعیۃعلماء آل کرناٹک اور جمعہ مسجد ٹرسٹ کی طرف سے انور شریف ،جلوس محمدی کمیٹی کے صدر سید وحید الرحمن قادری، جناب افسر بیگ،تبلیغی جماعت کی طرف سے مولانا ریاض احمد، سلطان شاہ کے صدر مالک منیر ،سید جمال ،جامع مسجد سٹی کے مولانا مقصود عمران، مسجد بیوپاریاں کے خطیب وامام مولانا حنیف افسر عزیزی۔ مسجد قادریہ کے خطیب مولانا لطف اللہ رشادی ، روزنامہ پاسبان کے ایڈیٹر عبیداللہ شریف ،لبا بین جماعت کی طرف سے جناب وی محمد اقبال، میمن جماعت کی طرف سے جناب عاصم سیٹھ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا مصطفےٰ رفاعی، مسجد اشرفیہ کے صدر مولانا نوشاد عالم قاسمی، مدرسہ عربیہ جامعتہ العلوم القرانیہ کے مہتمم مولانا صلاح الدین ، ندوۃ الابرار کے مہتمم مولانا ریاض احمد، مفتی عبدالغفار قاسمی، مدرسہ اصلاح البنات کے مہتمم مولانا شبیر احمد ندوی، کالم نگار جناب سید شفیع اللہ، صدائے اتحاد کی طرف سے جناب ضمیر پاشاہ ریٹائٹرڈ آئی اے یس،جے شفیع اللہ،ٹرسٹی،سالار پبلکیشنز،، مسجد ابراہیم کمیٹی کمہارپیٹ ،، مرکزی دارالقضاء کے ذمہ داران ،دارالعلوم سعید یہ کے مہتمم عبدالرحیم وغیرہ نے بڑی تعدادمیں شرکت کی اوراتفاق رائے سے مولاناصغیراحمدرشادی مدظلہ کوامیرشریعت ثالث چنا۔
بہرحال بات چل رہی تھی اجلاس مسیح العلوم کی اوربات چل رہی تھی مسیح العلوم کے فعال،متحرک،عزم رواں،ذوق فراواں اورطبع جولاں رکھنے والے بزرگ عالم دین محترم مفتی محمدشعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ کے حسن انتظام کی،پنڈال کی وسعت،حسن ترتیب،حسن انتظام،اسٹیج کاجلوہ،سامعین کااژدحام،پورے ہندوستان کے چوٹی کے علمائے کرام کی شرکت اورتشریف آوری بالخصوص مفتی سعیداحمدپالن پوری،مولاناسیدمحمدولی رحمانی مونگیر،مولاناتقی الدین ندوی مظاہری،مولانامحمدسعیدی ناظم مظاہرعلوم( وقف) سہارنپور ،مولانامحمدالیاس بھٹکلی،مولانامحمدسلمان گنگوہی،مولاناعقیل الرحمن شیخ الحدیث مفتاح العلوم جلال آباد،مولانامحمدسفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند،مولاناسعیدالرحمن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلمالکھنؤاورحضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی مہتمم دارالعلوم دیوبندکی شرکت اورپروگرام سے خطاب نے سچ پوچھوتوایک ایساماحول قائم کردیاجس میں ندوہ کی ہوشمندانہ زبان تھی،دیوبندکی عارفانہ بصیرت تھی،حیدرآبادکاپوراحسن تھا،بنگلورکی پوری جان تھی،شمالی ہندکی پوری آن بان اورشان تھی،مظاہرعلوم کاوقارتھا،مفتاح العلوم کاآبگینۂ صدقوصفاتھا،شاہی مرادآبادکامردآہن تھا،العین ابوظہبی کامحدث تھا،گنگوہ کاسلوک واحسان تھا،جلال آبادکاعقیل الرحمن تھا،محمودتھا، مسعودتھا،منصورتھا،منظورتھا،ہرسولی اوربڑوت کے سپوت تھے،ایک بزم عروس تھی،مجلسِ پروقارتھی،محفلِ باغ وبہار تھی، المعہدالعالی حیدرآبادکے روح رواں مولانامفتی خالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ کے جہاں بین،خوردبین، دوربین، ہوشمندانہ تجربات تھے،رفاعی کی رفعت نے گل کھلائے،شعیب کی علمی گھاٹیوں نے ،زبیرکی شبانہ روزمحنتوں نے،فصیح اللہ کی جدوجہدنے،مسیح العلوم کے تمام عملہ کی دعائے نیم شب نے کیسے کیسے ہیرے جواہرات،نادرونایاب لعل بدخشاں ایک چھت کے نیچے جمع ویکجاکردئے کہ چشم فلک نے بہت کم ایسے مناظردیکھے ہوں گے۔
مجموعی طورپرراقم الحروف کومفتی خالدسیف اللہ رحمانی کے عنوان’’مدارس اسلامیہ میں بعض مضامین جدیدہ کااضافہ ،مثبت ومنفی اثرات‘‘خوب اثرچھوڑاتومولانامحمدسلمان حسینی کے عنوان’’مدرسین کے لئے ظاہری علوم کے ساتھ باطنی علوم اوراصلاح تزکیہ کی اہمیت‘‘بھی خوب رہا،مولانانے ڈالیاں اورجھولیاں بھربھرکرنثارکیں،بولے اورخوب بولے،موضوع سے ہٹ کربولے تب بھی اورموضوع پربولے تب بھی ہربات آب زرسے لکھنے کے لائق ،ہربات سینہ وسفینہ میں محفوظ کرلینے اوردیدہ ودل فرش راہ کردینے اورآمناوصدقناکے فلک شگاف نعرے لگانے کے لائق مگرکیاکیجئے یہ مجلس ہی ایسی تھی جہاں روم روم سلوک احسان سے گرمایاہوا،جہاں بار بارتصویرکشی سے ممانعت کے اعلانات سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے،جہاں خانقاہوں کے مسندنشین، مدارس کے ارباب اہتمام ،مختلف مراکزکے ذمہ داران اوراسلام واکابرکی امانتوں کے امین موجودتھے،القصہ داستان درازہے ۔شب دیجورکے سائے لہرارہے ہیں،مگرجی چاہتاہے کہ اجلاس کی ایک ایک خوبی بیان کی جائے،تاکہ ان لوگوں کے لئے راہنماثابت ہو ،جہاں رات رات جلسوں کے چکرمیں نمازفجرکاخون ہوتاہے،جہاں جاگ جاگ کرآنکھیں خراب کی جاتی ہیں،اگلادن کسل مندی سے بیکارکیاجاتاہے،پورانظام محض رات جاگنے کے باعث مختل ہوجاتاہے،مجھے کہنے دیجئے جس دن رات کے جلسے ہوتے ہیں اس دن نمازفجرمیں مسجدمیںالوبولتے ہیں،نمازیوں کی تعدادبمشکل اگلی صف تک محدودہوتی ہے،خودمنتظمین ،مقررین،سامعین وناظرین سبھی خواب خرگوش کے مانندگھوڑے بیچ کرسوجاتے ہیں مگریہاں سبحان اللہ! ایسی بدنظمی کاتصورہی نہ تھا،عشاکے بعدکوئی مجلس نہیں،کوئی تقریرنہیں کوئی پروگرام نہیں ،نہ توخواہ مخواہ تین تین گھنٹہ ایک ایک مقررپرخرچ ہوئے نہ ہی اسرائیلی روایات،مزاحیہ حکایات،بے سروپاباتوں،قصوںکہانیوں،حقائق سے ماوراباتوں کاسہارالیاگیا،ہرمقررنے نپے تلے اندازمیں گفتگوکی،کیونکہ یہ کوئی عام جلسہ نہیں تھاجہاں محض مادیات پیش نظرہوں ناہی یہ کوئی ایساجلسہ تھاجہاں اپنی سرگرمیاں،تحریکات اورخدمات گنوانی مقصودہوں ایسے جلسے سچ پوچھوتوبہت کم دیکھنے میں آتے ہیں جہاں کرداراورگفتارمیں یکسانیت ہو،جہاں دلوں کوزبانوں کی کھیتی سمجھاجاتاہو،جہاں حال اورقال میں تفاوت نہ ہو،جہاں بے اعتدالی کاگزرنہ ہوجہاں مصلحتوں کے لہراتے سائے نہ ہوں اورجہاں تملق اورچاہلوسی نہ ہومگریہاں خداکالاکھ لاکھ شکرواحسان ہے کہ ہرطرح سے اورہرطرف سے اعتدال اورتوازن کاشاندارنظام اورمستحکم سسٹم تھا،عشاکی نمازکے بعدکوئی پروگرام نہیں ہوا۔ نمازسے قبل ہی اگلے دن کی ترتیب اورنظام مائک کے ذریعہ بتادیاجاتا۔
کہاں ہیں خودکومصلح سمجھنے والے ؟آئیں اوراس اجلاس سے عبرت پکڑیں ،مجال ہے کسی کی نمازقضاہوجائے،ناممکن ہے کسی کورات دیرسے سونے کاشکوہ ہو،مفتی شعیب اللہ مفتاحی کے ایک اورحسن انتظام کاتذکرہ نہ کروں توبڑی زیادتی ہوگی،پنڈال سے مدرسہ بہت قریب تھامگرعلمائے کرام کولانے اورلے جانے کے لئے وافرمقدارمیں معیاری گاڑیوں کانظام تھاتوہرمہمان خصوصی کے نام کی پلیٹ پہلے ہی حجروں کے باہرآویزاں کردی گئی تھی تاکہ ملنے ملانے والوں کودقتوں کاسامنانہ کرناپڑے۔
اس موقع پرمیں اپنے اس خادم کانام ضرورلوں گاجس کومفتی صاحب نےبطورخاص حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ ناظم مظاہرعلوم( وقف) سہارنپورکی راحت رسانی کے لئے مقررکیاتھا،عمرفاروق نام تھا،ششم میں زیرتعلیم ہے ،واللہ اس بچے نے آرام وراحت کااس قدرخیال رکھاکہ اس نے اپنے آرام اوراحت کوتین دن کے لئے گویاوقف کردیا،ہروقت پرشش مزاج،کبھی کھانے کی فرمائش توکبھی ناشتہ کی اطلاع،کبھی فروٹ کی پیش کش،توکبھی چائے کی پیالی ہاتھ میں لئے حاضرخدمت ،اللہ خوب خوب جزائے خیرسے نوازے۔
تھوڑی دیرکے لئے راقم الحروف انٹرنیٹ پر ہندوستان کے سب سے پہلے اردوفورم’’الغزالی‘‘ کے بانی جناب مولاناکلیم احمدقاسمی سے ملاقات کے لئے ان کے دولت کدہ BTMگیاجہاں موصوف نے لکھنوی ضیافت کاحق اداکردیا۔اورمختصروقت میں یادگارملاقات رہی۔
جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے چونکہ بنگلورکایہ پہلاسفرکیاتھا،انھیں بنگلورکی آب وہوابہت پسندآئی ،بنگلورکی تاریخی سرزمین بالخصوص شیرمیسورسلطان ٹیپوشہیدؒکی قبرمبارک پرحاضری اورفاتحہ خوانی،پھرمیسورکی دھرتی جس کاتاریخ میں ایک نام اورمقام ہے اس کی سیروغیرہ بہت سی باتیں راقم الحروف کے ذہن میں تھیں مگرناظم صاحب مدظلہ نے خلاف معمول تمام نشستوں میں شرکت فرمائی اس کی وجہ سے کہیں بھی آناجانانہ ہوسکاتوپھرعرض کیاکہ کم ازکم اس مسجدکوتودیکھ ہی لیں جومسیح العلوم کی خشت اول ہے،جوفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒکی شاہداورمشاہدہے،جہاں مفتی شعیب ا للہ مفتاحی مدظلہ کومفتی صاحبؒ نے خلافت سے نوازاتھا۔توپھرتیارہوگئے اورمولاناغیوراحمدخادم فقیہ الاسلام ؒکی ہمراہی میں ہم لوگ بیدواڑی پہنچے ،نمازمغرب امام کی خواہش پرمجھ سے پڑھوائی گئی۔ نمازکے بعدفوراًہم لوگ جلسہ گاہ کے لئے نکلے جہاںحضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہیؒکے مجازحضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبندمحووعظ ونصیحت تھے۔حضرت مہتمم صاحب ہی کی دعاپرعشاکے وقت یہ پروقاراجلاس اختتام پذیرہوا۔
اخیرمیں بطورپیغام میں معززقارئین سے عرض کروں گاکہ خدارااِس دورمیں جلسے جلسوس سے اپنی توجہ ہٹائیے ،اپنے گردوپیش دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ کیا دنیامیں خوشنمادینی انقلاب جلسوں سے آسکتاہے؟ یا زمینی سطح پرگھر گھر جاکر لوگوں کے دلوں کو آمادہ کرنے سے ؟ ہم سب کی کوششوں کامرکزاورمحورخالق حقیقی کی خوشنودی کاحصول ہے اوراس حصول کے لئے جلسے جلوس نہیں وانذرعشیرتک الاقربین کااصول ہے۔ جب تک نبوی طریقوں کوسامنے رکھ کرزمینی سطح پر کام نہیں کیا جائے گامعاشرہ میں سدھارکی تمام ترسرگرمیاں فیل رہیں گی۔کوشش کریں کہ کم ازکم آپ کے جلسوں کے ذریعہ مستقبل میں مخلصین کی ایک ایسی جماعت تیار ہوجومیدان عمل میں کچھ ایسے کام کرجائے جس کے دوررس اثرات اورثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ کسی بھی کام کو پاۂ تکمیل تک پہونچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو پوری جانفشانی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ آج خوشنمابورڈاوردیدہ زیب عناوین کے تحت منعقدہ جلسوں اورجلوسوں پرہماری بے تحاشادولت ضائع ہورہی ہے ،اس کا صحیح استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اس کا صحیح استعمال ہوا پھر ان شاء اللہ عوام میں بیداری پیدا گی اور عوام اپنے مقصد تخلیق کوسمجھ پائےگی۔
جگر مرادآبادی مرحوم نے کہاتھا ؎

واعظ کا ہر ایک ارشاد بجا تقریر بہت دل چسپ مگر
آنکھوں میں عشق کا سرور نہیں چہرے پر یقین کا نور
بہرحال مسیح العلوم بنگلورکے شب وروزبہت اچھے رہے،موسم،لوگ،منتظمین،اساتذہ،ملنے والے،خدام، سبھی نے بہت متأثرکیا،اُدھرپروگرام ختم اِدھرسفرنامہ ختم:
ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون
رات گزراکر۹؍اکتوبرپیرکے دن صبح سات بجے ہماری فلائٹ تھی اس لئے جماعت صغیرہ کے بعدایرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے ،مفتی محمدشعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ حالانکہ رات دن مسلسل پروگرام کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے پھربھی مشایعت کے لئے گیٹ تک تشریف لائے ،مسیح العلوم چونکہ شہرسے باہربھی ہے اورایرپورٹ سے قریب بھی، اس لئے صرف نصف گھنٹہ بعد ہم لوگ ایرپورٹ میں داخل ہوچکے تھے ،دھلی کی چکاچونداورآنکھوں کوخیرہ کردینے والے پرتکلف ایرپورٹ کے مقابل یہاں کافی سادگی تھی،افراتفری بھی نہیں تھی،ریمپ کے ذریعہ ہمیں ہوائی جہازپہنچایاگیا،سات بجکرپانچ منٹ پرپروازشروع ہوئی ،پورے راستہ موسم خراب رہا،خرابیٔ موسم کااعلان بھی ہوتارہا،موسم کی خرابی کی وجہ سے ہماراجہازکچھ لیٹ ہوگیا،جب دہلی پہنچاتوایرپورٹ نے جلدی سگنل نہیں دیاجس کی وجہ سے پورے دہلی کی خواہ مخواہ چالیس منٹ تک سیرکرائی گئی پھرسگنل ملااورمکمل ساڑھے تین گھنٹہ بعدپرسکون اندازمیں جہازنے دہلی ایرپورٹ پرلینڈنگ کی۔
ایرپورٹ کےباہرمدرسہ کے ڈرایئورجناب جمیل احمدصاحب موجودتھے اوراس طرح مغرب بعدیہ مختصرسفر مظا ہر علوم پہنچ کرتکمیل کوپہنچا۔

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت زبردست۔کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا۔بہیقی وقت ،زہد وتقویٰ کے امام،پاسبان شریعت مصطفی،باطل کیلئے سیف اللہ حضرت مفتی مولانا شعیب اللہ خان مفتاحی مد ظلہ العالی سےملاقات کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔البتہ اتنا یاد پڑتا ہے ایک دفعہ حضرت مولانا ابرار الحق علیہ الرحمہ کی بنگلور تشریف آوری پر حضرت مد ظلہ العالی کے مدرسہ میں حاضری ہو ئی تھی۔حضرت مفتی صاحب کو اللہ نے بڑی مقبولیت عطا فرمائی ۔آپ کی علمی قابلیت وصلاحیت مسلم ہے طبقہ علماء آپ کا گرویدہ علم وعمل زہد وتقوٰی اخلاص وللھیت کا معترف ہے۔اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کا سایہ تا دیر قائم رکھے تمام ہموم وغموم ،ابتلا وآزمائش سے محفوظ رکھے۔آمین ۔مفتی ناصر صاحب کا تہہ دل سے ممنون ومشکور ہوں انہوں نے سفر نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الغزالی پر شیئر کیا ۔جزاک اللہ خیرا ۔الغزالی قارئین مظاہری صاحب کیلئے دعا فرمائیں
 
Last edited:
Top