کیا بھروسہ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کیا بھروسہ​
محمد فہیم عالم
’’امجد میرے دوست!میں آ ج کل بہت پریشان ہوں اتنا پریشان ہوں کہ شاید ہی کبھی اتنا پریشان ہواہوں سوچ سوچ کر میں پاگل ہوگیا ہوں اگرچند دن میں اوراِس طرح پریشان رہاتو ------تو ------میں واقعی پاگل ہوجائوں گا،سچ مچ کاپاگل اور صرف پاگل ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ‘‘​
پراگندہ بال، پریشان حال ،اُجڑا اُجڑا ویران ساچہرہ ،آنکھوں میں تیرتی اُلجھن اور اِضطراب کے چھائے ہوئے بادل …اس عجیب سی حالت میں اپنے دوست اختر فیروز کو دیکھ کر امجدجاوید کوحیرت کا ایک جھٹکالگا۔
صبح کا وقت تھا اور اتوارکادن …وہ ابھی کچھ دیرپہلے ہی ناشتہ کرکے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے ،صرف چائے رہ گئی تھی۔چائے وہ عموماً اخبارپڑھتے ہوئے پیتے تھے۔ابھی انہوں نے چائے کی پہلی چسکی لے کراخبار کی سرخی پرنظر دوڑائی ہی تھی کہ اچانک اُن کے دروازے پر دستک ہوئی۔دودن سے دروازے کی گھنٹی خراب تھی اِسی لئے آنیوالے کو دستک دیناپڑی تھی۔
’’مالک ! آپ کے دوست اختر فیروز آئے ہیں۔‘‘وہ ابھی بیٹھے سوچ ہی رہے تھے صبح صبح یہ کون آگیا کہ ملازم نے آکر اطلاع دی۔
’’کیا کہا اخترفیروز ! یہ توآپ اُن سے ہی پوچھئے میں بھلا کیا کہہ سکتاہوں؟‘‘
ملازم مسکراتے ہوئے بولا۔
’’وہ تو خیرمیںپوچھ لوں گا،تم ایسا کرواُس کیلئے چائے اور بسکٹ وغیرہ لے کرڈرائنگ روم میں آجائو !میری چائے بھی وہیں لے آنا‘‘ملازم سے یہ کہہ اُنہوں نے ڈرائنگ روم کی طرف رُخ کیا۔
اخترفیروز نہ صرف اُس کا کاروباری پارٹنر تھا بلکہ بہترین دوست بھی تھا۔سلام کے بعد امجد جاوید اُس کے سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گئے۔
اخترفیروز کے چہرے پر عجیب سی سرد مہری اوریاسیت طاری تھی۔سلام کے بعد بھی وہ خاموش ہوکریک ٹک دیوار کوگھورنے لگا جیسے بات کرنے کیلئے موزوں الفاظ تلاش کررہاتھا ۔اِتنے میں ملازم چائے اور دوسرے لوازمات رکھ کرچلاگیا ،لیکن اخترفیروز کا کوہ سکوت نہ ٹوٹا۔اُس کے چہرے پر زلزلے کے سے آتارتھے۔ پھراچانک امجد جاوید کو اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے محسوس ہوئے:
’’امجد میرے دوست! میں …میں بہت پریشان ہوں اتنا پریشان کہ شاید ہی کبھی اِس سے پہلے اتنا پریشان ہواہوںگا۔‘‘
’’پریشانی کی وجہ؟‘‘
’’پپ…پتہ نہیں!‘‘
’’کیا مطلب تمہیں اپنی پریشانی کی وجہ بھی معلوم نہیں؟‘‘
’’نن…نہیں!……ہاں! …‘‘
’’یہ تم نے ￿￿……’’نہیں‘‘…کیا ہے…یا ……’’ہاں‘‘…؟‘‘
’’اصل میں…وہ پریشانی بہت ہی عجیب سی ہے اور شاید غریب سی بھی۔ میں سوچ رہاہوں کاش ! وہ مجھے نہ ملتا…اورمیں اُسے نہ پڑھتا…یا پھرکم ازکم اتنا غورنہ کرتا بلکہ بالکل ہی ذہن سے جھٹک دیتا…آ…ہ…کاش…!‘‘
’’ایک منٹ ٹھہرو…!‘‘یہ کہہ کر امجد جاوید اُٹھے اور گھر کے اندرونی حصے کی طرف چلے گئے ،کچھ دیر بعد اُن کی واپسی ہوئی ۔
’’جہاں تک میرا خیال ہے پریشانی کی وجہ سے تم نے ناشتہ بھی نہیں کیاہوگا… اسلئے یہ چائے اوربسکٹ وغیرہ لے لو!‘‘ اُن کے کہنے پروہ چائے کی طرف متوجہ ہوا، چائے کے دوران بھی خاموشی اپنے ڈیرے جمائے رہی۔
’’اب آئو! میرے ساتھ‘‘۔وہ اختر فیروز کولے کر گھرسے باہرآئے ۔باہراُس کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔
’’گاڑی کومیں ڈرائیوکروں گا ،تم پریشانی کی وجہ سے صحیح ڈرائیونگ نہیں کرپائوگے۔‘‘ اُن کے کہنے پراخترفیروز نے چابی اُن کوپکڑا دی اور گاڑی ایک سمت میں روانہ ہوئی۔اُس نے بالکل بھی نہ پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں…اور کیوں…؟وہ توبس سیٹ سے سرٹکائے آنکھیں موندھے بیٹھا رہا…کچھ ہی دیر بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی ۔اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ ایک گھر کے سامنے کھڑی تھی۔
امجد جاوید نے آگے بڑھ کر دروازے پرلگی بیل دی۔گھر سادہ سا تھا۔کچھ ہی دیر بعد ایک خوبصورت گول مٹول سے بچے نے دروازہ کھولا۔اُس نے سفید رنگ کا کرتا پہنا ہواتھا اور سرپربھی سفید رنگ کی ہی ٹوپی تھی۔اُس کے چہرے پرایک نورکا ساہالہ تھا۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ…انکل !‘‘اس نے ادب سے سلام کیا۔ آواز بے حد دلکش اورسلام کے تلفظ کی ادائیگی انتہائی خوبصورت اورعمدہ تھی۔
’’وعلیکم السلام…!‘‘امجد جاوید نے شفقت سے اُس کے سرپر ہاتھ پھیرا۔
’’انکل! میں ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیتا ہوں ،باباجان آرہے ہیں۔‘‘ وہ بولا اوراُن کوڈرائنگ روم میں بٹھاکر چلاگیا۔کچھ ہی دیر بعد ایک خوبصورت باریش نوجوان گھر کے اندرونی حصے سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔اُس کے پیچھے وہی بچہ جو س کے گلاس ٹرے میں سجائے چلاآرہاتھا۔نوجوان بڑے ہی پرتپاک انداز میں اُن سے ملا،جیسے برسوں سے اُن کوجانتاہو۔بچے نے بڑے ادب سے اُن کو جوس پیش کیا اور ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
’’جی جناب! فرمائیے…آپ کیوں پریشان ہیں…؟لیکن نہیں…! پہلے ہم آپس میں تعارف کرلیتے ہیں…آپ کوتو میں جانتاہوں اورآپ کاتعارف ابھی کچھ دیر قبل امجدجاوید صاحب فون پرکرواچکے ہیں‘‘۔
’’اچھاتو امجدجاوید گھرکے اندر ونی حصے میں اِنہی کوفون کرنے گئے تھے‘‘۔ اخترفیروز نے سوچا۔
’’آپ کانام اخترفیروز ہے اورآپ اِن کے دوست ہیں۔میرا نام محمد زاہد فاروقی ہے ۔اب بتائیے …!کیابات ہے؟اس سے نرم اور عمدہ آواز نے آج تک نہ سنی تھی ۔اس گھر میں آکر اُسے سکون سا محسوس ہورہاتھا۔گھرکی ہرچیز سے سادگی ٹپک رہی تھی اور ماحول بہت پرنورتھا۔
’’یہ تقریباً دوہفتے پہلے کی بات ہے ،مجھے ایک کتابچہ ملا،وہ کتابچہ دراصل میرے بیٹے کاتھا۔اُس کے کالج میں کوئی تقریری مقابلہ تھا۔وہ اُسی کی تیاری کرنے کیلئے کہیں سے لایاتھا۔میں نے ویسے ہی ورق گردانی کیلئے اُس کو ہاتھ میں لیا۔میں نے ابھی اُس کا پہلا صفحہ ہی پڑھا تھا کہ مجھے حیرت اورتعجب کا ایک شدید جھٹکالگا،میں نے لگاتاراُس کے تین چار صفحے پڑھ ڈالے۔اُن چند صفحات نے میری زندگی ہی بدل دی…نہیں…! بدل نہیں دی…کیوں کہ میں اُس کوتبدیلی تونہیں کہہ سکتا،ہاں…!اُن چندصفحات نے میری زندگی اجیرن ضرورکردی۔‘‘ اتناکہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رُکا ہی تھاکہ امجد جاوید بول اُٹھے:
’’آخرایسا کیا تھا ان چند صفحات میں…؟یار! تم توسسپنس میں مبتلا کیے جارہے ہو۔ اِسی لئے تومیں تمہیں یہاں لایاہوں تاکہ کھل کر جوکہنا چاہو کہواور ذہن میں جوخلش اورپریشانی ہے اُسے دورکرسکو۔جب تم نے گھر میں بتاناشروع کیاتھا تومیں سمجھ گیا تھا کہ تم ضرورکسی دینی مسئلے میں اُلجھ گئے ہو۔یہ مولانا زاہدفاروقی صاحب… ماشاء اللہ کمال کے آدمی ہیں۔اب اِس سسپنس کوچھوڑواور اصل بات بتائو!‘‘۔
’’ٹھیک ہے!…اب میں جو بغیررکے اوربغیراٹکے سای بات بتاتاہوں۔اس کتابچے میں جس بات کوپڑھ کر میں چونکا تھا وہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مبارک حدیث تھی کہ:
’’میری امت کے سترہزار لوگ بلاحساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہوں گے جواپنے رب پرتوکل یعنی بھروسہ کرتے تھے۔‘‘(صحیح البخاری، باب من توکل علیاللہ فہوحسبہ ،رقم :۴۷۲)
اب آپ ہی بتائیے! بھلاکوئی مسلمان ایسا بھی ہوگا جوجنت میں نہ جاناچاہتا ہو؟ لہٰذا میں چونکتانہ تو اورکیا کرتا اورمیں صرف چونکا ہی نہیں بلکہ خوش بھی ہواتھا، جنت میں داخل ہونے کی چابی جومیرے ہاتھ لگ گئی تھی۔سب سے پہلے تو میں نے اپنے گھرکے گارڈ کوفارغ کیا…کیوں کہ اب گارڈ کورکھنے کی ضرور ت ہی نہیں رہ گئی تھی۔اللہ تعالی پر توکل کرنے کے بعد بھلاگارڈ کی کیا ضرورت تھی…؟خود اللہ تعالی بھی توفرما تے ہیں:
’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا سوائے اُس کے (جس کاپیش آنا اللہ تعالی نے)مقدر فرمادیاہے، وہی ہمارا مولا ہے اورسب مسلمانوں کواللہ تعالی ہی پرتوکل کرناچاہئے۔(التوبہ آیت:۲۰)
جس دن میں نے گارڈ کوفارغ کیااُسی رات کو میرے گھرمیں چوری ہوگئی… جی ہاں…!اللہ تعالی پربھروسہ رکھنے کے باوجود چوری…!چور… ہم سب کوباندھ کر سب نقدی اورزیورات لے کرچلتے بنے۔نقدی تو خیر چندلاکھ ہی تھے،کیونکہ روپے بینک میں ہوتے ہیں۔لیکن زیورات کافی قیمتی تھے وہ چند دن پہلے ہی ایک شادی کے سلسلے میں ہم نے لاکر سے نکلوائے تھے۔اللہ تعالی پر توکل کرنے کے بعد یہ پہلا جھٹکا تھا جو مجھے لگا۔
دوسرے دن میں نے فیکٹری جاکراپنی فیکٹری کے بھی تمام گارڈ ز کو چھٹی دے دی۔میں…میں دراصل توکل کی حقیقت کو…توکل کی طاقت کو جانچناچاہتا تھا، لیکن… پھرپتہ ہے کیاہوا…؟اُسی رات میری فیکٹری میں بہت بڑا ڈاکہ پڑا…ڈاکو لاکھوں کا سامان اورمشینری لوٹ کرلے گئے۔‘‘
’’کیا!!‘‘امجد جاوید چلااٹھے۔
’’یہ…یہ …تم کیا کہہ رہے ہو…!تم نے تومجھے بتایاہی نہیں تھا کہ تمہارے ہاں چوری بھی ہوئی تھی۔‘‘
’’آپ ہی کوکیا میں نے توکسی کوبھی نہیں بتایا…یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کوبھی نہیں…کوئی رپورٹ بھی نہیں لکھوائی۔
پھرایک دن اچانک مجھے اپنے آبائی گائوں جاناپڑا ،میرا بھتیجا بیمارتھا،اُس کے دل میں سوراخ تھا۔میرابھائی اُسے علاج کیلئے شہرلاناچاہتاتھا۔میں نے اپنے توکل کا تیراُس پرچلانے کا فیصلہ کیا…میں نے اُسے کہا کہ شفاء دینے والی ذات تو اللہ تعالی کی ہے۔اگر اللہ تعالی نے شفاء دیناچاہی تو وہ یہیں دے دے گا،لہٰذا تم سب اللہ تعالی سے اس کی صحت کی دعا کرو اوراللہ تعالی پر بھروسہ رکھو…قرآن مجید میں آتاہے کہ:
’’اورجب میں بیمار ہوتاہوں تو وہی مجھے شفاء دیتاہے۔‘‘
انہوں نے میری بات مان لی اورعلاج چھوڑکرصرف اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرکے بیٹھ گئے ۔لیکن پھر…پھروہ ہواجس کی مجھے ایک فیصد بھی امید نہیںتھی۔ میرا پیارا بھتیجا ،میرے بھائی کا اکلوتا بیٹا میرے توکل کی بھینٹ چڑھ گیا… جی ہاں! وہ…وہ…مرگیا۔اِس تیسرے جھٹکے کے بعد میری جوحالت ہوئی میں بتانہیں سکتا۔
مولانا صاحب !میرا…میرا…ایمان ڈولنے لگاہے کیوں کہ…میرے توکل کا، میرے بھروسے کا خون ہوا ہے…ہاں…مولانا صاحب !میرے اعتماد کاخون ہواہے…‘‘ اورپھروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
امجدجاوید اورمولانا زاہدفاروقی صاحب اُسے روتادیکھتے رہے جب اخترفیروز روکراپنے دل کوہلکا کرچکاتو مولانا صاحب اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلے گئے۔ واپس آئے تو انکے ہاتھ میں پانی کاگلاس تھا،انہوںنے وہ پانی اختر فیروز کودیا۔جب وہ پانی پی چکا تو مولانا صاحب بولے:
جناب! آپ کی اِس وقت جوحالت وکیفیت ہے اسے ہم سمجھتے ہیں۔جوکچھ آپ کے ساتھ ہوا بہت ہی عجیب ہوا بلکہ برا بھی اوریہ سب کچھ دراصل ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔
’’غلط فہمی…!کیا مطلب…!کیسی غلط فہمی…؟‘‘اُ س نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا۔
’’یہ تومیں آپ کوبعد میں بتائوں گا پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگرآپ نے کوئی مکان یا پلازہ بنایا ہو توآپ سب سے پہلے کیا کریں گے؟‘‘مولانا صاحب نے پوچھا۔
’’ظاہر ہے کہ کسی ماہر انجینئر سے نقشہ بنوائوںگا‘‘۔
’’مطلب خودہی کوئی خاکہ بناکراُس پرعمارت بناناشروع نہیں کریں گے…!‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘
’’لیکن کیوں…؟آ پ خودہی کیوں نہیں بناناشروع کریں گے؟‘‘
’’مولانا صاحب! صاف ظاہر ہے کہ اگر میں کسی انجینئر سے مشورہ کئے بغیر کوئی عمارت بنائوں گا تو وہ بھلاکہاں قائم رہ سکے گی؟‘‘اُس نے جواب دیا۔
’’ٹھیک …!اوراگرآپ بیمارہوں اورکوئی شخص جوڈاکٹرنہ ہو وہ آپ کو کوئی میڈیسن کھانے کودے تو آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’میں اپنے فیملی ڈاکٹر کو وہ میڈیسن دکھائوں گا اگروہ کھانے کامشورہ دیں گے تو کھالوںگا،ورہ نہیں۔‘‘
’’اوراگر نہ کھانے کا مشورہ دیا توآپ نہیں کھائیں گے…کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اُس میڈیسن کے فوائد ونقصانات ڈاکٹرصاحب آپ سے بہتر جانتے ہیں اوریہ سب کرنے میں آپ اکیلے ہی نہیں ہیں بلکہ ہم سب یہی کرتے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی کام کرنا ہوتوپہلے اُس کا م کے ماہرسے مشورہ لیتے ہیں اورپھراس کے کرنے یانہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیںلیکن افسوس !اگردین کاکوئی کام کرناہوتو پھرہم دین کے ماہریعنی علماء کرام سے مشورہ لینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ،حالانکہ دنیا اوراس کے تمام کام تو عارضی ہیں، جب کہ دین کے تمام کام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہیں دنیا اورآخرت دونوں جگہوں پہ کام آنیوالے ہیں۔‘‘مولانا صاحب سانس لینے کیلئے رُکے جب کہ امجد جاوید اور اخترفیروز حیرت سے انہیں تک رہے تھے۔اُنہیں اِس تمہید کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’اچھا یہ بتائیں! کیا آ پ نے وہ کتابچہ پورا پڑھاتھا؟مولانا صاحب نے پوچھا۔
’’نہیں…!صرف شروع کے چند صفحات ہی پڑھے تھے‘‘۔
’’اگر پورا پڑھتے تو امید ہے کہ آپ اِن حالات کاشکارنہ ہوتے ،کیوںنہ اس میں آگے توکل کی وضاحت بھی ضرور ہوگی۔دیکھیں اختربھائی! دین کا معاملہ بے حد نازک ہے اس میں بہت احتیاط کرنی چاہئے کوئی بات پڑھ کر خوداس کا مطلب نہیں نکال لینا چاہئے ،بلکہ کسی مستند عالم سے مشورہ کرلینا چاہئے ۔اگرخود سے مطلب نکال کرعمل شروع کردیاجائیگا تو پھروہی ہوگا جوانجینئر سے مشورہ کیے بغیر عمارت بنوانے اورڈاکٹر سے پوچھے بغیر دواکھانے پرہوتاہے ۔اب آپ نے توکل کے بارے میں پڑھا اور عمل بھی شروع کردیا…یہ خیر! بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں عمل کرنے کیلئے ہی ہیں،فقط پڑھنے کیلئے تھوڑی ہیں لیکن توکل کاوہ مفہوم نہیں جو آپ نے سمجھا بلکہ توکل تویہ ہے کہ تمام اسباب اختیار کرکے پھراللہ تعالی پربھروسہ کیاجائے۔‘‘
’’کیا…!!!‘‘ اخترفیروز کے لہجے میں بلاکی حیرت تھی۔
’’یہ…یہ…آپ کیا کہہ رہے ہیں…؟
’’وہی جوصحیح بات ہے،اوریہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں توکل کا یہی مطلب بتایاہے۔
مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ اونٹنی کو باندھ کر پھراللہ تعالی پرتوکل کرو۔توکل کے ساتھ ساتھ اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایاہے۔یہی توتوکل ہے کہ آدمی اپنی حفاظت کے تمام ذرائع اختیار کرے ایک گارڈ رکھنے کے بجائے دورکھ لے اپنی سواری سائیکل،موٹرسائیکل،کارکواچھی طرح لاک کردے۔ بیماری میں علاج معالجے کے تمام طریقے اپنائے لیکن نظراِن اسباب پرنہ ہوبلکہ اللہ تعالی پرہوکہ بھئی! یہ سب تو اسباب ہیں۔حفاظت تو اللہ تعالی ہی فرمائیں گے ،صحت وتندرستی توانہی کے ہاتھ میں ہے رزق حاصل کرنے کیلئے کوئی کاروبار کررہاہوتو یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ یہ کاروبار فقط ایک سبب ہے، جس کو میں اختیار کررہاہوں۔اصل میں رزق تو اللہ تعالی ہی عطافرماتے ہیں۔
مطلب اسباب کے درجے میں رکھے یہی اعتدال اورخیر کاراستہ ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اِسی بات کی تعلیم دی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب خلیفہ مقررکیاگیا تو اگلے دن صبح کو وہ سامان لے کرتجارت کیلئے نکلے،تو مسلمانوں نے عرض کیا:
’’امیرالمؤمنین !آپ کو توخلیفہ بنایاگیا ہے،اب آپ یہ تجارت کیوں کررہے ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’مجھے اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریاں اداکرنے سے مت روکو،کیونکہ اگر میں نے انہیں ضائع کردیاتو میں دوسروں کو اورزیادہ ضائع کروں گا۔‘‘
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جوشخص اپنے بیوی بچوں ،بوڑھے والدین ،رشتہ داروں اورپڑوسیوں کے حقوق ادانہیں کرتا وہ امت کے حقوق کیسے اداکرے گا؟اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیت المال سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے لئے اُن کی ضرورت کے بقدر تنخواہ مقررکردی تاکہ وہ اپنے گھر والوں پرخرچ کرسکیں۔
اب کوئی یہ تونہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالی پرتوکل نہیں تھا۔بھلا! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ اللہ تعالی پرتوکل اوربھروسہ کرنے والاکون ہوسکتاہے؟ہاں ! یہ ہے کہ وہ اس توکل کے حق میں نہیںتھے کہ اسباب کوچھوڑکر توکل کیا جائے بلکہ وہ ان اسباب سے نظرہٹا کر اللہ تعالی کی رحمت اورقوت کی طرف متوجہ رہنے والے تھے۔‘‘(احیاء علوم الدین ص:۲۶۸،جلد:۴،طبع بیروت)
دھیمے دھیمے اورانتہائی نرم لہجے میں کہی گئیں مولانا صاحب کی اِن باتوں سے اُس کے چہرے پرچھائے ہوئے پریشانی کے بادل چھٹ گئے تھے۔اب اُس کے چہرے پرایک اطمینان تھا۔وہ پرسکون انداز میں مولانا صاحب کی طرف متوجہ تھا،اُس دل میں پیداہونے والے تمام شکوک وشبہات دورہوگئے تھے۔اُس کے ڈولتے ہوئے یقین کوقرار ساآگیاتھا ۔الفاظ کا چنائو دلکش اوراُن کے لہجے کی روانی بہت خوب تھی۔
مولانا صاحب سانس لینے کیلئے رکے ہی تھے کہ اُن کا بیٹا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور ان کے کان میں آکرکچھ کہا۔
’’بھئی! کھاناتیار ہوگیا ہے ،کیوں نہ پہلے کھاناکھایا جائے۔‘‘مولانا صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔
’’کھانا…!اتنی جلدی…؟‘‘اختر فیروز کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’جلدی کہاں…!دوپہر ہونے کوہے اورہم دوپہرکاکھانا ذرا جلدی کھاتے ہیں، کیونکہ ہم ناشتہ بھی صبح سویرے ہی کرلیتے ہیں۔
’’ٹھیک ہے…حذیفہ !کھانا لگادو…‘‘مولانا صاحب اُس بچے سے بولے۔
’’یہ آپ کا بیٹا ہے؟اخترفیروز نے پوچھا۔
’’جی ہاں!‘‘
’’ماشاء اللہ !بہت ہی پیارا بچہ ہے…اتناباادب اوربااخلاق بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا‘‘۔اختر فیروز محبت سے حذیفہ کودیکھتے ہوئے بولے۔
’’قرآن مجید حفظ کررہاہے، ماشاء اللہ !۲۵پارے حفظ کرچکاہے۔‘‘مولانا صاحب نے بتایا تووہ حیرت سے اُس چھوٹے سے بچے کو تکنے لگے جودسترخوان پرکھانا چننے میں مصروف تھا کھانا انتہائی سادہ تھا،لیکن بہت مزیدار تھا۔اخترفیروز نے اپنی زندگی میں اِس سے پہلے اتنا لذیذکھانا نہ کھایاتھا۔وہ انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔ کھانے کے بعد چائے کادور چلا اختر فیروز نے جیسے ہی چائے کی پہلی چسکی لی تو وہ کہے بغیررہ نہ سکے:
’’مولانا صاحب ! میں نے بڑے بڑے فائیواسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھایا ہے،دنیا کے بہترین ٹی ہائوس میں چائے پی ہے لیکن اس سے مزیدار کھانا میں نے کبھی نہیں کھایا اور نہ اِس سے بہترین چائے کبھی نوش کی۔‘‘
’’شکریہ…بس جناب! کھانے میں ذائقہ تو اللہ ہی ڈالتے ہیں،انسان تو بس ظاہری اسباب ہی اختیارکرسکتاہے۔ہاں! تو ہم بات کررہے تھے اسباب اختیار کرکے پھر توکل کرنے کی۔ان میں سے بعض اسباب تو وہ ہیں جن پہ نقصان یا فائدہ عام طورپر یقینی ہوتا ہے جیسے کھانا کھانے سے بھوک کامٹ جانا…پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے اب کسی کو اجازت نہیں کہ ان یقینی اسباب کوترک کردے۔اب اگرکوئی شخص کھانا موجود ہونے کے باوجود نہ کھائے اوربھوکا مرجائے تو اُسے خود کشی کاگناہ ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان یقینی اسباب کو اختیار کرے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’اگرکھانا تمہارے سامنے رکھا ہوا ہواورتم بھوکے ہونے کے باوجود نہ کھائو اور یہ کہو کہ بھئی! میں تو اللہ تعالی پرتوکل کرنے والا ہوں اسلئے میں تو نہ ہاٹھ بڑھائوں گا، نہ دانتوں سے چبائوں گا اورنہ جبڑوں سے ہلاکر حلق سے نیچے اتاروں گا ۔یہ تو سوچ توکل نہیں بلکہ سراسر جنون اور پاگل پن ہے ۔اگرآدمی اس بات کا منتظر ہے کہ روٹی کھائے بغیر اس کا پیٹ بھرجائے یا روٹی خودبخود اس تک پہنچ جائے یاکوئی فرشتہ روٹی معدہ میں پہنچادے تواِس کا مطلب یہی ہے کہ اُس شخص کواللہ تعالی کے طریقے کا علم نہیں۔زمین میں بیج بوئے بغیر امید کرنا کہ کھیت تیارہوجائے گا،جہالت ہے۔‘‘
(احیاء علوم الدین ،ج:۴،صفحہ :۲۶۵)
اخترفیروز یک ٹک محبت وعقیدت سے مولانا صاحب کودیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ یہ علماء بھی ہم پراللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔یہ واقعی! اِس امت اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان رسی کی طرح ہیں۔بھٹکے اورٹوٹے ہوئے لوگوں کا ناطہ اللہ تعالی سے جوڑتے ہیں ۔ہاں …واقعی!…یہ نعمت ہیں…بہت بڑی نعمت۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کیا بھروسہ​
محمد فہیم عالم
’’امجد میرے دوست!میں آ ج کل بہت پریشان ہوں اتنا پریشان ہوں کہ شاید ہی کبھی اتنا پریشان ہواہوں سوچ سوچ کر میں پاگل ہوگیا ہوں اگرچند دن میں اوراِس طرح پریشان رہاتو ------تو ------میں واقعی پاگل ہوجائوں گا،سچ مچ کاپاگل اور صرف پاگل ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ‘‘​
پراگندہ بال، پریشان حال ،اُجڑا اُجڑا ویران ساچہرہ ،آنکھوں میں تیرتی اُلجھن اور اِضطراب کے چھائے ہوئے بادل …اس عجیب سی حالت میں اپنے دوست اختر فیروز کو دیکھ کر امجدجاوید کوحیرت کا ایک جھٹکالگا۔
صبح کا وقت تھا اور اتوارکادن …وہ ابھی کچھ دیرپہلے ہی ناشتہ کرکے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے ،صرف چائے رہ گئی تھی۔چائے وہ عموماً اخبارپڑھتے ہوئے پیتے تھے۔ابھی انہوں نے چائے کی پہلی چسکی لے کراخبار کی سرخی پرنظر دوڑائی ہی تھی کہ اچانک اُن کے دروازے پر دستک ہوئی۔دودن سے دروازے کی گھنٹی خراب تھی اِسی لئے آنیوالے کو دستک دیناپڑی تھی۔
’’مالک ! آپ کے دوست اختر فیروز آئے ہیں۔‘‘وہ ابھی بیٹھے سوچ ہی رہے تھے صبح صبح یہ کون آگیا کہ ملازم نے آکر اطلاع دی۔
’’کیا کہا اخترفیروز ! یہ توآپ اُن سے ہی پوچھئے میں بھلا کیا کہہ سکتاہوں؟‘‘
ملازم مسکراتے ہوئے بولا۔
’’وہ تو خیرمیںپوچھ لوں گا،تم ایسا کرواُس کیلئے چائے اور بسکٹ وغیرہ لے کرڈرائنگ روم میں آجائو !میری چائے بھی وہیں لے آنا‘‘ملازم سے یہ کہہ اُنہوں نے ڈرائنگ روم کی طرف رُخ کیا۔
اخترفیروز نہ صرف اُس کا کاروباری پارٹنر تھا بلکہ بہترین دوست بھی تھا۔سلام کے بعد امجد جاوید اُس کے سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گئے۔
اخترفیروز کے چہرے پر عجیب سی سرد مہری اوریاسیت طاری تھی۔سلام کے بعد بھی وہ خاموش ہوکریک ٹک دیوار کوگھورنے لگا جیسے بات کرنے کیلئے موزوں الفاظ تلاش کررہاتھا ۔اِتنے میں ملازم چائے اور دوسرے لوازمات رکھ کرچلاگیا ،لیکن اخترفیروز کا کوہ سکوت نہ ٹوٹا۔اُس کے چہرے پر زلزلے کے سے آتارتھے۔ پھراچانک امجد جاوید کو اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے محسوس ہوئے:
’’امجد میرے دوست! میں …میں بہت پریشان ہوں اتنا پریشان کہ شاید ہی کبھی اِس سے پہلے اتنا پریشان ہواہوںگا۔‘‘
’’پریشانی کی وجہ؟‘‘
’’پپ…پتہ نہیں!‘‘
’’کیا مطلب تمہیں اپنی پریشانی کی وجہ بھی معلوم نہیں؟‘‘
’’نن…نہیں!……ہاں! …‘‘
’’یہ تم نے ￿￿……’’نہیں‘‘…کیا ہے…یا ……’’ہاں‘‘…؟‘‘
’’اصل میں…وہ پریشانی بہت ہی عجیب سی ہے اور شاید غریب سی بھی۔ میں سوچ رہاہوں کاش ! وہ مجھے نہ ملتا…اورمیں اُسے نہ پڑھتا…یا پھرکم ازکم اتنا غورنہ کرتا بلکہ بالکل ہی ذہن سے جھٹک دیتا…آ…ہ…کاش…!‘‘
’’ایک منٹ ٹھہرو…!‘‘یہ کہہ کر امجد جاوید اُٹھے اور گھر کے اندرونی حصے کی طرف چلے گئے ،کچھ دیر بعد اُن کی واپسی ہوئی ۔
’’جہاں تک میرا خیال ہے پریشانی کی وجہ سے تم نے ناشتہ بھی نہیں کیاہوگا… اسلئے یہ چائے اوربسکٹ وغیرہ لے لو!‘‘ اُن کے کہنے پروہ چائے کی طرف متوجہ ہوا، چائے کے دوران بھی خاموشی اپنے ڈیرے جمائے رہی۔
’’اب آئو! میرے ساتھ‘‘۔وہ اختر فیروز کولے کر گھرسے باہرآئے ۔باہراُس کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔
’’گاڑی کومیں ڈرائیوکروں گا ،تم پریشانی کی وجہ سے صحیح ڈرائیونگ نہیں کرپائوگے۔‘‘ اُن کے کہنے پراخترفیروز نے چابی اُن کوپکڑا دی اور گاڑی ایک سمت میں روانہ ہوئی۔اُس نے بالکل بھی نہ پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں…اور کیوں…؟وہ توبس سیٹ سے سرٹکائے آنکھیں موندھے بیٹھا رہا…کچھ ہی دیر بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی ۔اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ ایک گھر کے سامنے کھڑی تھی۔
امجد جاوید نے آگے بڑھ کر دروازے پرلگی بیل دی۔گھر سادہ سا تھا۔کچھ ہی دیر بعد ایک خوبصورت گول مٹول سے بچے نے دروازہ کھولا۔اُس نے سفید رنگ کا کرتا پہنا ہواتھا اور سرپربھی سفید رنگ کی ہی ٹوپی تھی۔اُس کے چہرے پرایک نورکا ساہالہ تھا۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ…انکل !‘‘اس نے ادب سے سلام کیا۔ آواز بے حد دلکش اورسلام کے تلفظ کی ادائیگی انتہائی خوبصورت اورعمدہ تھی۔
’’وعلیکم السلام…!‘‘امجد جاوید نے شفقت سے اُس کے سرپر ہاتھ پھیرا۔
’’انکل! میں ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیتا ہوں ،باباجان آرہے ہیں۔‘‘ وہ بولا اوراُن کوڈرائنگ روم میں بٹھاکر چلاگیا۔کچھ ہی دیر بعد ایک خوبصورت باریش نوجوان گھر کے اندرونی حصے سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔اُس کے پیچھے وہی بچہ جو س کے گلاس ٹرے میں سجائے چلاآرہاتھا۔نوجوان بڑے ہی پرتپاک انداز میں اُن سے ملا،جیسے برسوں سے اُن کوجانتاہو۔بچے نے بڑے ادب سے اُن کو جوس پیش کیا اور ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
’’جی جناب! فرمائیے…آپ کیوں پریشان ہیں…؟لیکن نہیں…! پہلے ہم آپس میں تعارف کرلیتے ہیں…آپ کوتو میں جانتاہوں اورآپ کاتعارف ابھی کچھ دیر قبل امجدجاوید صاحب فون پرکرواچکے ہیں‘‘۔
’’اچھاتو امجدجاوید گھرکے اندر ونی حصے میں اِنہی کوفون کرنے گئے تھے‘‘۔ اخترفیروز نے سوچا۔
’’آپ کانام اخترفیروز ہے اورآپ اِن کے دوست ہیں۔میرا نام محمد زاہد فاروقی ہے ۔اب بتائیے …!کیابات ہے؟اس سے نرم اور عمدہ آواز نے آج تک نہ سنی تھی ۔اس گھر میں آکر اُسے سکون سا محسوس ہورہاتھا۔گھرکی ہرچیز سے سادگی ٹپک رہی تھی اور ماحول بہت پرنورتھا۔
’’یہ تقریباً دوہفتے پہلے کی بات ہے ،مجھے ایک کتابچہ ملا،وہ کتابچہ دراصل میرے بیٹے کاتھا۔اُس کے کالج میں کوئی تقریری مقابلہ تھا۔وہ اُسی کی تیاری کرنے کیلئے کہیں سے لایاتھا۔میں نے ویسے ہی ورق گردانی کیلئے اُس کو ہاتھ میں لیا۔میں نے ابھی اُس کا پہلا صفحہ ہی پڑھا تھا کہ مجھے حیرت اورتعجب کا ایک شدید جھٹکالگا،میں نے لگاتاراُس کے تین چار صفحے پڑھ ڈالے۔اُن چند صفحات نے میری زندگی ہی بدل دی…نہیں…! بدل نہیں دی…کیوں کہ میں اُس کوتبدیلی تونہیں کہہ سکتا،ہاں…!اُن چندصفحات نے میری زندگی اجیرن ضرورکردی۔‘‘ اتناکہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رُکا ہی تھاکہ امجد جاوید بول اُٹھے:
’’آخرایسا کیا تھا ان چند صفحات میں…؟یار! تم توسسپنس میں مبتلا کیے جارہے ہو۔ اِسی لئے تومیں تمہیں یہاں لایاہوں تاکہ کھل کر جوکہنا چاہو کہواور ذہن میں جوخلش اورپریشانی ہے اُسے دورکرسکو۔جب تم نے گھر میں بتاناشروع کیاتھا تومیں سمجھ گیا تھا کہ تم ضرورکسی دینی مسئلے میں اُلجھ گئے ہو۔یہ مولانا زاہدفاروقی صاحب… ماشاء اللہ کمال کے آدمی ہیں۔اب اِس سسپنس کوچھوڑواور اصل بات بتائو!‘‘۔
’’ٹھیک ہے!…اب میں جو بغیررکے اوربغیراٹکے سای بات بتاتاہوں۔اس کتابچے میں جس بات کوپڑھ کر میں چونکا تھا وہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مبارک حدیث تھی کہ:
’’میری امت کے سترہزار لوگ بلاحساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہوں گے جواپنے رب پرتوکل یعنی بھروسہ کرتے تھے۔‘‘(صحیح البخاری، باب من توکل علیاللہ فہوحسبہ ،رقم :۴۷۲)
اب آپ ہی بتائیے! بھلاکوئی مسلمان ایسا بھی ہوگا جوجنت میں نہ جاناچاہتا ہو؟ لہٰذا میں چونکتانہ تو اورکیا کرتا اورمیں صرف چونکا ہی نہیں بلکہ خوش بھی ہواتھا، جنت میں داخل ہونے کی چابی جومیرے ہاتھ لگ گئی تھی۔سب سے پہلے تو میں نے اپنے گھرکے گارڈ کوفارغ کیا…کیوں کہ اب گارڈ کورکھنے کی ضرور ت ہی نہیں رہ گئی تھی۔اللہ تعالی پر توکل کرنے کے بعد بھلاگارڈ کی کیا ضرورت تھی…؟خود اللہ تعالی بھی توفرما تے ہیں:
’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا سوائے اُس کے (جس کاپیش آنا اللہ تعالی نے)مقدر فرمادیاہے، وہی ہمارا مولا ہے اورسب مسلمانوں کواللہ تعالی ہی پرتوکل کرناچاہئے۔(التوبہ آیت:۲۰)
جس دن میں نے گارڈ کوفارغ کیااُسی رات کو میرے گھرمیں چوری ہوگئی… جی ہاں…!اللہ تعالی پربھروسہ رکھنے کے باوجود چوری…!چور… ہم سب کوباندھ کر سب نقدی اورزیورات لے کرچلتے بنے۔نقدی تو خیر چندلاکھ ہی تھے،کیونکہ روپے بینک میں ہوتے ہیں۔لیکن زیورات کافی قیمتی تھے وہ چند دن پہلے ہی ایک شادی کے سلسلے میں ہم نے لاکر سے نکلوائے تھے۔اللہ تعالی پر توکل کرنے کے بعد یہ پہلا جھٹکا تھا جو مجھے لگا۔
دوسرے دن میں نے فیکٹری جاکراپنی فیکٹری کے بھی تمام گارڈ ز کو چھٹی دے دی۔میں…میں دراصل توکل کی حقیقت کو…توکل کی طاقت کو جانچناچاہتا تھا، لیکن… پھرپتہ ہے کیاہوا…؟اُسی رات میری فیکٹری میں بہت بڑا ڈاکہ پڑا…ڈاکو لاکھوں کا سامان اورمشینری لوٹ کرلے گئے۔‘‘
’’کیا!!‘‘امجد جاوید چلااٹھے۔
’’یہ…یہ …تم کیا کہہ رہے ہو…!تم نے تومجھے بتایاہی نہیں تھا کہ تمہارے ہاں چوری بھی ہوئی تھی۔‘‘
’’آپ ہی کوکیا میں نے توکسی کوبھی نہیں بتایا…یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کوبھی نہیں…کوئی رپورٹ بھی نہیں لکھوائی۔
پھرایک دن اچانک مجھے اپنے آبائی گائوں جاناپڑا ،میرا بھتیجا بیمارتھا،اُس کے دل میں سوراخ تھا۔میرابھائی اُسے علاج کیلئے شہرلاناچاہتاتھا۔میں نے اپنے توکل کا تیراُس پرچلانے کا فیصلہ کیا…میں نے اُسے کہا کہ شفاء دینے والی ذات تو اللہ تعالی کی ہے۔اگر اللہ تعالی نے شفاء دیناچاہی تو وہ یہیں دے دے گا،لہٰذا تم سب اللہ تعالی سے اس کی صحت کی دعا کرو اوراللہ تعالی پر بھروسہ رکھو…قرآن مجید میں آتاہے کہ:
’’اورجب میں بیمار ہوتاہوں تو وہی مجھے شفاء دیتاہے۔‘‘
انہوں نے میری بات مان لی اورعلاج چھوڑکرصرف اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرکے بیٹھ گئے ۔لیکن پھر…پھروہ ہواجس کی مجھے ایک فیصد بھی امید نہیںتھی۔ میرا پیارا بھتیجا ،میرے بھائی کا اکلوتا بیٹا میرے توکل کی بھینٹ چڑھ گیا… جی ہاں! وہ…وہ…مرگیا۔اِس تیسرے جھٹکے کے بعد میری جوحالت ہوئی میں بتانہیں سکتا۔
مولانا صاحب !میرا…میرا…ایمان ڈولنے لگاہے کیوں کہ…میرے توکل کا، میرے بھروسے کا خون ہوا ہے…ہاں…مولانا صاحب !میرے اعتماد کاخون ہواہے…‘‘ اورپھروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
امجدجاوید اورمولانا زاہدفاروقی صاحب اُسے روتادیکھتے رہے جب اخترفیروز روکراپنے دل کوہلکا کرچکاتو مولانا صاحب اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلے گئے۔ واپس آئے تو انکے ہاتھ میں پانی کاگلاس تھا،انہوںنے وہ پانی اختر فیروز کودیا۔جب وہ پانی پی چکا تو مولانا صاحب بولے:
جناب! آپ کی اِس وقت جوحالت وکیفیت ہے اسے ہم سمجھتے ہیں۔جوکچھ آپ کے ساتھ ہوا بہت ہی عجیب ہوا بلکہ برا بھی اوریہ سب کچھ دراصل ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔
’’غلط فہمی…!کیا مطلب…!کیسی غلط فہمی…؟‘‘اُ س نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا۔
’’یہ تومیں آپ کوبعد میں بتائوں گا پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگرآپ نے کوئی مکان یا پلازہ بنایا ہو توآپ سب سے پہلے کیا کریں گے؟‘‘مولانا صاحب نے پوچھا۔
’’ظاہر ہے کہ کسی ماہر انجینئر سے نقشہ بنوائوںگا‘‘۔
’’مطلب خودہی کوئی خاکہ بناکراُس پرعمارت بناناشروع نہیں کریں گے…!‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘
’’لیکن کیوں…؟آ پ خودہی کیوں نہیں بناناشروع کریں گے؟‘‘
’’مولانا صاحب! صاف ظاہر ہے کہ اگر میں کسی انجینئر سے مشورہ کئے بغیر کوئی عمارت بنائوں گا تو وہ بھلاکہاں قائم رہ سکے گی؟‘‘اُس نے جواب دیا۔
’’ٹھیک …!اوراگرآپ بیمارہوں اورکوئی شخص جوڈاکٹرنہ ہو وہ آپ کو کوئی میڈیسن کھانے کودے تو آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’میں اپنے فیملی ڈاکٹر کو وہ میڈیسن دکھائوں گا اگروہ کھانے کامشورہ دیں گے تو کھالوںگا،ورہ نہیں۔‘‘
’’اوراگر نہ کھانے کا مشورہ دیا توآپ نہیں کھائیں گے…کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اُس میڈیسن کے فوائد ونقصانات ڈاکٹرصاحب آپ سے بہتر جانتے ہیں اوریہ سب کرنے میں آپ اکیلے ہی نہیں ہیں بلکہ ہم سب یہی کرتے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی کام کرنا ہوتوپہلے اُس کا م کے ماہرسے مشورہ لیتے ہیں اورپھراس کے کرنے یانہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیںلیکن افسوس !اگردین کاکوئی کام کرناہوتو پھرہم دین کے ماہریعنی علماء کرام سے مشورہ لینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ،حالانکہ دنیا اوراس کے تمام کام تو عارضی ہیں، جب کہ دین کے تمام کام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہیں دنیا اورآخرت دونوں جگہوں پہ کام آنیوالے ہیں۔‘‘مولانا صاحب سانس لینے کیلئے رُکے جب کہ امجد جاوید اور اخترفیروز حیرت سے انہیں تک رہے تھے۔اُنہیں اِس تمہید کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’اچھا یہ بتائیں! کیا آ پ نے وہ کتابچہ پورا پڑھاتھا؟مولانا صاحب نے پوچھا۔
’’نہیں…!صرف شروع کے چند صفحات ہی پڑھے تھے‘‘۔
’’اگر پورا پڑھتے تو امید ہے کہ آپ اِن حالات کاشکارنہ ہوتے ،کیوںنہ اس میں آگے توکل کی وضاحت بھی ضرور ہوگی۔دیکھیں اختربھائی! دین کا معاملہ بے حد نازک ہے اس میں بہت احتیاط کرنی چاہئے کوئی بات پڑھ کر خوداس کا مطلب نہیں نکال لینا چاہئے ،بلکہ کسی مستند عالم سے مشورہ کرلینا چاہئے ۔اگرخود سے مطلب نکال کرعمل شروع کردیاجائیگا تو پھروہی ہوگا جوانجینئر سے مشورہ کیے بغیر عمارت بنوانے اورڈاکٹر سے پوچھے بغیر دواکھانے پرہوتاہے ۔اب آپ نے توکل کے بارے میں پڑھا اور عمل بھی شروع کردیا…یہ خیر! بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں عمل کرنے کیلئے ہی ہیں،فقط پڑھنے کیلئے تھوڑی ہیں لیکن توکل کاوہ مفہوم نہیں جو آپ نے سمجھا بلکہ توکل تویہ ہے کہ تمام اسباب اختیار کرکے پھراللہ تعالی پربھروسہ کیاجائے۔‘‘
’’کیا…!!!‘‘ اخترفیروز کے لہجے میں بلاکی حیرت تھی۔
’’یہ…یہ…آپ کیا کہہ رہے ہیں…؟
’’وہی جوصحیح بات ہے،اوریہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں توکل کا یہی مطلب بتایاہے۔
مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ اونٹنی کو باندھ کر پھراللہ تعالی پرتوکل کرو۔توکل کے ساتھ ساتھ اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایاہے۔یہی توتوکل ہے کہ آدمی اپنی حفاظت کے تمام ذرائع اختیار کرے ایک گارڈ رکھنے کے بجائے دورکھ لے اپنی سواری سائیکل،موٹرسائیکل،کارکواچھی طرح لاک کردے۔ بیماری میں علاج معالجے کے تمام طریقے اپنائے لیکن نظراِن اسباب پرنہ ہوبلکہ اللہ تعالی پرہوکہ بھئی! یہ سب تو اسباب ہیں۔حفاظت تو اللہ تعالی ہی فرمائیں گے ،صحت وتندرستی توانہی کے ہاتھ میں ہے رزق حاصل کرنے کیلئے کوئی کاروبار کررہاہوتو یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ یہ کاروبار فقط ایک سبب ہے، جس کو میں اختیار کررہاہوں۔اصل میں رزق تو اللہ تعالی ہی عطافرماتے ہیں۔
مطلب اسباب کے درجے میں رکھے یہی اعتدال اورخیر کاراستہ ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اِسی بات کی تعلیم دی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب خلیفہ مقررکیاگیا تو اگلے دن صبح کو وہ سامان لے کرتجارت کیلئے نکلے،تو مسلمانوں نے عرض کیا:
’’امیرالمؤمنین !آپ کو توخلیفہ بنایاگیا ہے،اب آپ یہ تجارت کیوں کررہے ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’مجھے اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریاں اداکرنے سے مت روکو،کیونکہ اگر میں نے انہیں ضائع کردیاتو میں دوسروں کو اورزیادہ ضائع کروں گا۔‘‘
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جوشخص اپنے بیوی بچوں ،بوڑھے والدین ،رشتہ داروں اورپڑوسیوں کے حقوق ادانہیں کرتا وہ امت کے حقوق کیسے اداکرے گا؟اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیت المال سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے لئے اُن کی ضرورت کے بقدر تنخواہ مقررکردی تاکہ وہ اپنے گھر والوں پرخرچ کرسکیں۔
اب کوئی یہ تونہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالی پرتوکل نہیں تھا۔بھلا! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ اللہ تعالی پرتوکل اوربھروسہ کرنے والاکون ہوسکتاہے؟ہاں ! یہ ہے کہ وہ اس توکل کے حق میں نہیںتھے کہ اسباب کوچھوڑکر توکل کیا جائے بلکہ وہ ان اسباب سے نظرہٹا کر اللہ تعالی کی رحمت اورقوت کی طرف متوجہ رہنے والے تھے۔‘‘(احیاء علوم الدین ص:۲۶۸،جلد:۴،طبع بیروت)
دھیمے دھیمے اورانتہائی نرم لہجے میں کہی گئیں مولانا صاحب کی اِن باتوں سے اُس کے چہرے پرچھائے ہوئے پریشانی کے بادل چھٹ گئے تھے۔اب اُس کے چہرے پرایک اطمینان تھا۔وہ پرسکون انداز میں مولانا صاحب کی طرف متوجہ تھا،اُس دل میں پیداہونے والے تمام شکوک وشبہات دورہوگئے تھے۔اُس کے ڈولتے ہوئے یقین کوقرار ساآگیاتھا ۔الفاظ کا چنائو دلکش اوراُن کے لہجے کی روانی بہت خوب تھی۔
مولانا صاحب سانس لینے کیلئے رکے ہی تھے کہ اُن کا بیٹا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور ان کے کان میں آکرکچھ کہا۔
’’بھئی! کھاناتیار ہوگیا ہے ،کیوں نہ پہلے کھاناکھایا جائے۔‘‘مولانا صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔
’’کھانا…!اتنی جلدی…؟‘‘اختر فیروز کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’جلدی کہاں…!دوپہر ہونے کوہے اورہم دوپہرکاکھانا ذرا جلدی کھاتے ہیں، کیونکہ ہم ناشتہ بھی صبح سویرے ہی کرلیتے ہیں۔
’’ٹھیک ہے…حذیفہ !کھانا لگادو…‘‘مولانا صاحب اُس بچے سے بولے۔
’’یہ آپ کا بیٹا ہے؟اخترفیروز نے پوچھا۔
’’جی ہاں!‘‘
’’ماشاء اللہ !بہت ہی پیارا بچہ ہے…اتناباادب اوربااخلاق بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا‘‘۔اختر فیروز محبت سے حذیفہ کودیکھتے ہوئے بولے۔
’’قرآن مجید حفظ کررہاہے، ماشاء اللہ !۲۵پارے حفظ کرچکاہے۔‘‘مولانا صاحب نے بتایا تووہ حیرت سے اُس چھوٹے سے بچے کو تکنے لگے جودسترخوان پرکھانا چننے میں مصروف تھا کھانا انتہائی سادہ تھا،لیکن بہت مزیدار تھا۔اخترفیروز نے اپنی زندگی میں اِس سے پہلے اتنا لذیذکھانا نہ کھایاتھا۔وہ انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔ کھانے کے بعد چائے کادور چلا اختر فیروز نے جیسے ہی چائے کی پہلی چسکی لی تو وہ کہے بغیررہ نہ سکے:
’’مولانا صاحب ! میں نے بڑے بڑے فائیواسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھایا ہے،دنیا کے بہترین ٹی ہائوس میں چائے پی ہے لیکن اس سے مزیدار کھانا میں نے کبھی نہیں کھایا اور نہ اِس سے بہترین چائے کبھی نوش کی۔‘‘
’’شکریہ…بس جناب! کھانے میں ذائقہ تو اللہ ہی ڈالتے ہیں،انسان تو بس ظاہری اسباب ہی اختیارکرسکتاہے۔ہاں! تو ہم بات کررہے تھے اسباب اختیار کرکے پھر توکل کرنے کی۔ان میں سے بعض اسباب تو وہ ہیں جن پہ نقصان یا فائدہ عام طورپر یقینی ہوتا ہے جیسے کھانا کھانے سے بھوک کامٹ جانا…پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے اب کسی کو اجازت نہیں کہ ان یقینی اسباب کوترک کردے۔اب اگرکوئی شخص کھانا موجود ہونے کے باوجود نہ کھائے اوربھوکا مرجائے تو اُسے خود کشی کاگناہ ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان یقینی اسباب کو اختیار کرے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’اگرکھانا تمہارے سامنے رکھا ہوا ہواورتم بھوکے ہونے کے باوجود نہ کھائو اور یہ کہو کہ بھئی! میں تو اللہ تعالی پرتوکل کرنے والا ہوں اسلئے میں تو نہ ہاٹھ بڑھائوں گا، نہ دانتوں سے چبائوں گا اورنہ جبڑوں سے ہلاکر حلق سے نیچے اتاروں گا ۔یہ تو سوچ توکل نہیں بلکہ سراسر جنون اور پاگل پن ہے ۔اگرآدمی اس بات کا منتظر ہے کہ روٹی کھائے بغیر اس کا پیٹ بھرجائے یا روٹی خودبخود اس تک پہنچ جائے یاکوئی فرشتہ روٹی معدہ میں پہنچادے تواِس کا مطلب یہی ہے کہ اُس شخص کواللہ تعالی کے طریقے کا علم نہیں۔زمین میں بیج بوئے بغیر امید کرنا کہ کھیت تیارہوجائے گا،جہالت ہے۔‘‘
(احیاء علوم الدین ،ج:۴،صفحہ :۲۶۵)
اخترفیروز یک ٹک محبت وعقیدت سے مولانا صاحب کودیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ یہ علماء بھی ہم پراللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔یہ واقعی! اِس امت اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان رسی کی طرح ہیں۔بھٹکے اورٹوٹے ہوئے لوگوں کا ناطہ اللہ تعالی سے جوڑتے ہیں ۔ہاں …واقعی!…یہ نعمت ہیں…بہت بڑی نعمت۔
 
Top