علامہ زاہد الکوثریؒ اور شیخ عبد الرحمٰن معلمیؒ

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ماہنامہ بیّنات کراچی( ربیع الثانی 1440ھ - جنوری 2019ء) میں شائع شدہ ایک مضمون سے اقتباس۔
مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری ؒ
۔۔۔ بنام۔۔۔
مولانا سیدمحمد یوسف بنوری ؒ

(اُنیسویں قسط){ مکتوب :… ۳۴ }
(ترجمہ و ترتیب ، مولانا سیدسلیمان یوسف بنوری)

مولانا، استاذِ جلیل، سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ، وأدام انتفاع المسلمین بعلومہٖ ویمن مسعاہ (اللہ تعالیٰ آنجناب کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علوم اور بابرکت مساعی سے مسلمانوں کو ہمیشہ مستفید فرمائے)
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

بعد سلام! آپ کا والا نامہ موصول ہوا، مولانا عثمانی کی وفات کا مجھے بے حد افسوس ہوا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، تغمدہ اللّٰہ برضوانہٖ(اللہ تعالیٰ انہیں اپنے رضا کی چادر میں ڈھانپ لے)۔ میں نے ’’مجلۃ السلام‘‘ کو (مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق آپ کا لکھا) مرثیہ اور (تاثراتی) مضمون بھیج دیا تھا، مجلہ نے دو روز قبل دونوں شائع کردیے ہیں، (۱) لیکن مذکورہ شمارہ تاحال نہیں دیکھ پایا، یہ شمارہ ان شاء اللہ! جلد ہی آپ کو ارسال کردوں گا، معلوم نہیں کہ انہوں نے (اشاعت میں) کوئی غلطی کی ہے یا نہیں۔ (میری رائے میں) آپ جیسی شخصیت کو کئی گنا نشاط کا نمونہ ہونا چاہیے؛ اس لیے کہ اللہ سبحانہٗ کی توفیق سے آپ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نجیب (ایک کتب فروش) کو کتابیں بھیجنے سے بچئے، اس لیے مستقبل میں ان صاحب کے ساتھ آپ کے معاملات کی ذمہ داری مجھے قبول نہیں، ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ سامی خانجی کے ساتھ (اسی پتے پر جو پہلے آپ کو لکھ چکا ہوں) معاملہ کیجیے۔ بطورِ ہدیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ اور دیگر مطلوبہ رسائل ڈاک کے حوالے کردیے ہیں۔

ان دنوں میں ’’دائرۃ المعارف‘‘ (حیدرآباد دکن، انڈیا) کے مصحح علامہ عبدالرحمن یمانی(۲) کی کتاب ’’طلیعۃ التنکیل بما فی تأنیب الکوثري من الأباطیل‘‘ محمد نصیف (۳) کے خرچ پر شائع ہوئی ہے، اور اس کے پسِ پشت باقی لشکر بھی معرکہ آرائی کے لیے مستعد ہے، میں نے اس کا استقبال کرتے ہوئے ’’الترحیب بنقد التأنیب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر اس نادان کے ساتھ بتکلف نادانی برتی ہے، (۴) اور چھپنے کے لیے چھاپہ خانے کو دے دیا ہے، غالباً تین اجزاء پر مشتمل ہوگا، چھپائی مکمل ہونے پر ان شاء اللہ! جلد ہی اللہ جل شانہ کی توفیق سے ارسال کردوں گا۔ مستقبل میں حالات کی رعایت رکھتے ہوئے ہی دوبارہ اس موضوع کی جانب لوٹنے یا نہ لوٹنے کا فیصلہ کروں گا۔(۵)
القاب میں میانہ روی آپ کے اور میرے ذوق کے قریب تر ہے، اللہ سبحانہ ہم سب کو اپنی مرضیات کی توفیق بخشے۔ امید ہے کہ اپنی نیک دعاؤں میں فراموش نہ کریں گے، میری دعائیں تسلسل سے جاری ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی قبول فرمانے والا ہے۔
آپ کا بھائی :محمد زاہد کوثری
۱۲ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ ،شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴ ،قاہرہ
-------------------------------
حواشی
۱:- یہ مرثیہ اور تاثراتی مضمون ’’مجلۃ السلام‘‘ (بابت شمارہ نمبر :۱۴، انیسواں سال، بروز جمعہ بتاریخ ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ مطابق ۲۷ جنوری ۱۹۵۰ء، ص: ۱۶-۱۷) میں بعنوان ’’کلمۃ عن فقید الإسلام العلامۃ مولانا شبیر أحمد العثماني، شیخ الإسلام فی الدولۃ العلیۃ الباکستانیۃ‘‘ شائع ہوا ہے۔
۲:- علامہ عبدالرحمن بن یحییٰ معلمی ؒ : علمِ حدیث ورجال کے ماہر، اور تحقیق وتصحیحِ کتب کا اشتغال رکھنے والے علماء میں سے تھے، ۱۳۱۳ھ میں اس جہانِ رنگ وبو میں آنکھ کھولی اور ۱۳۸۶ھ میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ دیکھیے: ’’الأعلام‘‘ زرکلیؒ (۳/ ۳۴۲)، ’’أعلام المکیین‘‘ عبد اللہ معلمی (۲/۹۰۰-۹۰۳) ’’الجواہر الحسان‘‘ زکریا بیلا (۲/۵۶۳-۵۶۶) اور ’’مدخل إلٰی تاریخ نشر التراث العربي‘‘ محمود طناحی (ص: ۲۰۳-۲۰۵) ۔
علامہ کوثریؒ نے ’’الترحیب بنقد التأنیب‘‘ کے مقدمہ میں موصوف کے لیے ’’العلامۃ المفضال المحقق‘‘ جیسے بلند پایہ کلمات تحریر کیے ہیں اور علامہ معلمی نے بھی علامہ کوثریؒ کی وفات سے ایک ماہ قبل ہی ابن ابی حاتم ؒ کی ’’تقدمۃ الجرح والتعدیل‘‘ کے مقدمۂ تحقیق میں کتاب کے ایک مخطوطہ نسخے کے حصول کے حوالے سے علامہ کوثریؒ کے تعاون پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اہلِ علم میں باہم احترام کا تعلق تھا، علامہ معلمی کی ’’طلیعۃ التنکیل‘‘ تو علامہ کوثریؒ کی زندگی میں چھپ چکی تھی، لیکن اصل کتاب ’’التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل‘‘ علامہ کوثریؒ کی وفات کے آٹھ برس بعد چھپی ہے، اس کتاب میں علامہ کوثریؒ کے متعلق ایسے ناشائستہ کلمات بھی درج ہیں جو علامہ معلمی کے علمی وتحقیقی ذوق اور اخلاقی مزاج ومذاق سے کسی طور مناسبت نہیں رکھتے، اور
خود شیخ معلمی اس سے براء ت کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کے بقول جب انہوں نے اپنی یہ کتاب ہندوستان سے شیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کو بھیجی تھی تو انہوں نے از خود اس مسودے میں تصرف کیا اور ایسے تند وتیز کلمات داخل کردئیے۔ شیخ زکریا بیلا مکی نے ’’الجواہر الحسان‘‘ (۲/۵۶۴) میں اس حوالے سے کچھ تفصیل قلم بند کی ہے، نیز ’’التنکیل‘‘ کے مقدمہ میں خود علامہ معلمی کی تحریر بھی ملاحظہ کیجیے۔
۳:- محمد بن حسین بن عمر نصیف: جدہ کے اصحابِ وجاہت اور دریا دل اغنیاء میں سے تھے۔ سلفی دعوت کی نشر واشاعت میں ان کا مالی تعاون شامل رہا، ترکے میں ایک عظیم کتب خانہ چھوڑا، جو اَب ’’جامعۃ الملک عبدالعزیز‘‘ کا حصہ ہے۔ ۱۳۰۲ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۳۹۱ھ میں انتقال ہوئے۔ دیکھیے: ’’محمد نصیف حیاتہ وآثارہ‘‘ محمد سید احمدوعبدہٗ علوی، ’’الأعلام‘‘ زرکلیؒ (۶/ ۱۰۷-۱۰۸) اور ’’من أعلام الدعوۃ والحرکات الإسلامیۃ‘‘ عبداللہ عقیل (۲/ ۱۰۷۵ - ۱۰۸۴)
۴:- ’’طلیعۃ التنکیل‘‘ کے پہلے طبع میں بھی علامہ کوثری ؒ کے متعلق نازیبا کلمات تحریر کیے گئے تھے، علامہ کوثریؒ نے ’’الترحیب‘‘ میں بجاطور پر ناراضی کا اظہار کیا، اور اُنہیں یمانی اخلاق کے منافی قرار دیتے ہوئے کسی اور کا کارنامہ خیال کیا تھا، بعد میں علامہ معلمی کی براء ت سے معلوم ہوا کہ یہ استاذ محمد عبدالرزاق حمزہ کے تصرفات کا نتیجہ تھا، چنانچہ خود استاذ موصوف نے بھی اپنے رسالے ’’حول ترحیب الکوثری‘‘ (ص: ۳۷) میں اس کی صراحت کی ہے۔
۵:- التنکیل علامہ کوثری ؒ کی وفات کے آٹھ برس بعد سنہ ۱۳۷۹ھ میں طبع ہوئی ہے۔
 
Top