نذرونیاز اور منّت ماننا یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا حق ہے

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
نذرو نیاز کی شرعی حثیّت !
مؤلف :
مفسرِ قرآن ،وکیلِ صحابہ و اہل بیت ، علامہ محمد عطاء اللہ بندیالوی حفظہ اللہ تعالیٰ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُوْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَائِ وَاَزْوَاجِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ
قرآن مجید کو غوروفکر سے پڑھا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ الٰہ اور معبود میں دو صفتوں کا پایا جانا لازمی ہے۔
ایک صفت عالم الغیب ہونا ہے اور دوسری صفت مختار کل اور متصرف فی الامور ہونا۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے سورۃ آل عمران، سورۃ طٰہٰ)
یہی دو نظرئیے اور عقیدے ذہن میں رکھ کر آپ کوئی عمل اور تعظیم کریں گے تو وہ عمل اور تعظیم عبادت بن جائے گی۔
عبادت کی تین اقسام ہیں۔۔۔ قولی عبادت جیسے حاجات میں غائبانہ مدد کے لیے پکارنا۔۔۔ بدنی عبادت جیسے سجدہ اور طواف۔۔۔ مالی عبادت جیسے زکوٰۃ، عشر، قربانی، فطرانہ، نذرونیاز یا منت ماننا۔۔۔ عبادت کی یہ تینوں قسمیں اللہ کے لیے خاص ہیں۔
ہم ہر نماز کے تشہد میں اس کا بار بار اقرار کرتے ہیں۔
اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ وَالصَّلوٰۃُ وَالطَّیِّبَاتُ
ہر قسم کی قولی عبادت بھی اور بدنی اور مالی عبادت بھی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔
مالی عبادت مالی عبادت وہ ہے جس کا تعلق انسان کے مال وزر اور زمین سے ہے جیسے زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، صدقات، قربانی۔۔۔ یا کوئی منت ماننا یا نذرونیاز دینا (یاد رکھیے کہ نذرونیاز کوئی الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ (عربی زبان میں جسے نذر کہتے ہیں۔۔۔ فارسی میں اسی کو نیاز کہہ دیتے ہیں)
نذرونیاز اور منت ماننا یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا حق ہے۔ قرآن نے اسے کئی مقامات پر بیان فرمایا۔
سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کی والدۂ محترمہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے اللہ کے حضور التجا کی:
رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررا (آل عمران: 35)
میرے پالنہار! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں نے تیرے نام کی نذر مانی ہے (اسے تیرے گھر کی خدمت کے لیے) آزاد کروں گی۔
ایک ارشاد باری تعالیٰ غور سے پڑھیے:
وما انفقتم من نفقۃ ۔۔۔۔ (البقرہ: 270)
اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یا تم نذر مانو (اللہ کی یا غیر اللہ کی) یقینا اللہ اسے جانتا ہے اور (غیر اللہ کی نذریں ماننے والے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔
بیت اللہ کے زائرین کو قرآن حکم دیتا ہے:
ولیطوفوا نذروھم (الحج: 29)
اور چاہیے کہ وہ حجاج اپنی مانی ہوئی نذروں کو پورا کریں۔
شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرمایا:
اور منتیں اپنی مرادوں کے واسطے جو مانا ہو وہ ادا کریں اصل منت اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ (موضح القرآن)
سورۃ الروم میں عباد اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اس وصف کو نمایاں طور پر ذکر فرمایا:
یوفون بالنذز (الدہر: 7)
وہ اپنی نذرو اور منتوں کو پورا کرتے ہیں۔
قرآن مقدس کی ان آیات سے واضح ہوا کہ نذر اور منت صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی کا حق ہے۔ اس لیے کہ نذر اور منت ماننے والے کا نظریہ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ جس ہستی کے لیے منت مان رہا ہوں یا نذرونیاز دے رہا ہوں وہ عالم الغیب ہے اور میرے حالات سے باخبر اور واقف ہے۔ اور وہ نفع ونقصان پہچانے پر قادر ہے۔۔۔ چونکہ یہ دونوں صفتیں صرف اللہ رب العزت ہی میں پائی جاتی ہے اس لیے منت بھی اسی کی ماننی ہو گی اور نذرونیاز بھی اسی کے نام پر دینی ہو گی۔
مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میرا مریض تندرست ہو گیا یا مجھے مقدمہ سے رہائی مل گئی یا مجھے ملازمت حاصل ہو گئی تو ایک ہزار روپے مسجد میں دوں گا یا مدرسہ کے طلبہ میں تقسیم کروں گا یا اللہ کے نام کی دیگ پکا کر غریبوں میں بانٹوں گا۔
اسے منت اور نذر کہیں گے اور یہ عبادت ہے اور عبادت کے لائق صرف اللہ رب العزت ہے۔ ایک دوسرا شخص کہتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو فلاں مزار پر دیگ اتاروں گا یا چادر چڑھائوں گا یا ان کے نام کی نیاز دوں گا۔۔۔ تو یہ منت اور نذر بھی صاحب مزار کی عبادت ہو جائے گی۔۔۔ اور ہم نے کلمہ میں اقرار کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
نذرونیاز عبادت ہے فقہ حنفی کی تقریباً تمام کتب میں آپ کو واضح انداز میں یہ الفاظ ملیں گے:
النذر عبادۃ والعبادۃ لغیر اللہ کفر صریح وشرک قبیح ہے
نذرونیاز عبادت ہے (اللہ کی نذر مانے گا یا نیاز دے گا تو یہ اللہ کی عبادت بن جائے گی اور غیر اللہ کی نذرونیاز دے گا تو وہ غیر اللہ کی عبادت بن جائے گی) اور غیر اللہ کی عبادت واضح کفر اور قبیح شرک ہے۔
رد المختار میں علامہ شامہ نے غیر اللہ کے نام پر دی جانے والی نذرونیاز کو باطل اور حرام ٹھہرانے کی دو وجہیں ذکر کی ہیں۔
منھا انہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لانہ عبادۃ والعبادۃ فلا یکون للمخلوق
ایک وجہ (غیر اللہ کی نذرونیاز کے باطل اور حرام ہونے کی) یہ ہے کہ یہ مخلوق کی نذر ماننا ہے اور مخلوق کے لیے نذرونیاز ماننا جائز نہیں ہے (کیونکہ) نذر ماننا عبادت ہے اور عبادت کے لائق مخلوق نہیں خالق ہے۔
غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز کے حرام ہونے کی دوسری وجہ علامہ شامی نے یہ ذکر فرمائی:
ومنھا ان المنذور لہ میت والمیت لا یملک
اور ایک وجہ یہ ہے کہ جس کے نام کی نذر مانی جا رہی ہے وہ میت ہے اور میت کسی چیز کی مالک نہیں ہو سکتی۔
اور ایک وجہ یہ بیان فرمائی:
ومنھا انہ ظن ان المیت یتصرف فی الامور دون اللہ واعتقادہ ذالک کفر (رد المختار: 2/431)
اور اس کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نذرونیاز ماننے اور دینے والے کا خیال یہ ہوتا ہے کہ جس فوت شدہ بزرگ کی نذرونیاز دے رہا ہوں وہ اللہ کے سوا متصرف فی الامور ہے اور ایسا عقیدہ۔۔۔ کفریہ عقائد میں سے ہے۔
آج جتنے لوگ غیر اللہ کی نیاز۔۔۔ کسی بھی نام سے منسوب کر کے دیتے ہیں۔۔۔ ان کا نظریہ اور خیال یہی ہوتا ہے کہ وہ بزرگ ہمارے حالات سے واقف اور باخبر ہیں اور ہماری نیاز دینے کے عمل کو دیکھ رہا ہے۔
اگر میں ان کی نیاز دوں گا تو وہ خوش ہوں گے۔۔۔ اور گھر بار میں، آل واولاد میں اور مال ودولت میں برکت ہو گی اور اگر ان کے نام کی نیاز نہیں دوں گا۔۔۔ تو وہ بزرگ ناراض ہو جائیں گے اور گھر بار میں اور تجارت وکاروبار میں نقصان ہو گا۔
مقررہ تاریخ پر اگر ان کے نام کی نیاز میں دودھ تقسیم نہیں کروں گا تو جانوروں کے تھن سوکھ جائیں گے اور دودھ کی جگہ خونی جاری ہو جائے گا۔۔۔ گھر میں اور کاروبار میں بے برکتی ہو جائے گی۔۔۔ نذرونیاز دینے والا بزرگوں کو عالم الغیب اور متصرف فی الامور سمجھ رہا ہے۔۔۔ جبکہ یہ دونوں صفتیں مخلوق کی نہیں خالق کی ہیں اور خالق کی صفات مخلوق میں تسلیم کرنے کا نام ہی شرک ہے۔
مشرکین مکہ کا شرک مشرکین مکہ کئی قسم کے شرک میں مبتلا تھے۔۔۔ ان میں ایک شرک ان کا یہ تھا کہ وہ اپنے جانوروں اور زمین کی پیداوار میں سے اللہ کے نام کا حصہ بھی نکالتے اور ایک حصہ بطور نذرونیاز اپنے شریکوں کے نام پر نکالتے تھے۔
قرآن مجید نے مشرکین کے اس شرکیہ عمل کا تذکرہ یوں فرمایا:
وجعلوا الیٰ لشرکائنا (الانعام: 126)
اللہ رب العزت نے جو کھیتی اور جانور پیدا فرماتے ہیں ان لوگوں (مشرکین) نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور اپنے گمان میں کہتے ہیں کہ یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ حصہ ہمارے شریکوں (معبودوں) کا ہے۔
ابلیس لعین اور غیر اللہ کی نیاز اللہ رب العزت نے ابلیس لعین کو اپنے حکم سے روگردانی کرنے کی سزا دی اور لعنت کا مستحق ٹھہرا۔۔۔ اسے حکم دیا کہ آسمانوں سے اتر جائو۔۔۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے تقریر کی جسے قرآن میں بیان کیا گیا:
قال لاتخذن من عبادک نصیبا مفروضا (النساء: 118)
شیطان کہنے لگا میں تیرے بندوں سے ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا۔
شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر میں تحریر فرمایا:
یعنی تیرے بندے اپنے مال میں میرا حصہ ٹھہرائیں گے جیسے دستور ہے بتوں کی نیاز نکالتے ہیں۔ (موضح القرآن)
نذر لغیر اللہ کی ممانعت پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین کے شرکیہ عقائد اور اعمال میں سے ایک عمل ان کا یہ تھا کہ وہ اپنے مال، کھیتی باڑی اور جانوروں میں غیر اللہ کی نذرونیاز اور حصہ مقرر کرتے تھے۔ سورۃ النحل میں ایسے یوں بیان فرمایا:
ویجعلون لما لا یعلمون نصیبا مکمل (النحل: 56)
اور وہ لوگ ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے ان معبودوں کے لیے حصہ مقرر کرتے ہیں جن کے متعلق انہیں کچھ معلوم نہیں (یعنی ان کی حقیقت کو نہیں جانتے وہ معبود بننے کے اور نذرونیاز کے مستحق نہیں ہیں یا ان بتوں یا بزرگوں کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں جو ان کے حالات کو نہیں جانتے اور جو حالات سے واقف اور باخبر نہ ہو اس کے نام کی نذرونیاز دینا عقل وفہم کے بھی خلاف ہے) اللہ کی قسم تمہارے اس بہتان (کہ کوئی اللہ کا شریک بھی ہے جس کے نام کی نذرونیاز دے رہے ہو) کا تم سے سوال ضرور کیا جائے گا۔
اس آیت کی تفسیر میں بھی شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا:
یہ ان کو فرمایا جو اپنے کھیت میں، مویشی میں، تجارت میں اللہ کے سوا کسی کی نیاز ٹھہراتے ہیں سب مال اللہ کا ہے اور کسی کا حق نہیں۔ (موضح القرآن)
سورۃ الانعام میں اللہ رب العزت نے زمین اور باغات کی پیداوار میں سے اپنے نام کا حصہ نکالنے کا حکم بھی دیا اور غیر اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے منع فرمایا:
ھو الذی انشأ جنات مکمل (الانعام: 141)
اسی اللہ نے پیدا کیے باغات بیلوں والے اور باغات درختوں والے اور کھجور کے درکت اور کھیتی میں جس کے پھل مختلف قسم کے ہیں اور اسی نے پیدا کیا زیتون کو بھی اور انار کو بھی جو ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے ان سب کے پھل کھائو جس وقت وہ پھل لائے اور ان کو کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو (خالص اللہ کے لیے) اور فضول خرچی نہ کرو (یعنی غیرشرعی کاموں میں مال خرچ نہ کرو) یقینا اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ میں ’’اٰتو حقہ‘‘ میں اللہ رب العزت کے حق میں کی ادائیگی کا حکم ہے یعنی مال میں سے زکوٰۃ اور زمین وباغات کی پیداوار میں سے عشر دو۔ اور ’’ولا تسرفوا‘‘ کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا:
ای لا تشرکوا الاصنام فی الحرث والانعام (خازن، روح المعانی)
یعنی اپنے جانوروں اور کھیتی باڑی میں سے بطور نذرونیاز اپنے بتوں کا حصہ نہ ٹھہرائو۔
قرآن مجید میں کئی جگہوں پر غیر اللہ کے نام پر دی جانے والی نذرونیاز کو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے۔
سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوا:
انما حرم الیٰ لغیر اللہ (البقرہ: 173)
تم پر مردار کو (جو بغیر ذبح کیے مر گیا یا شریعت کے مطابق ذبح نہیں کیا) اور خون کو (دمِ مسفوح مراد ہے) اور خنزیر کے گوشت کو اور اس چیز کو جس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا جائے۔
سورۃ الانعام میں فرمایا:
قل لا اجد الیٰ لغیر اللہ بہ (الانعام: 145)
آپ کہیں کہ جو کچھ احکام مجھ پر اتارے گئے ہیں میں ان میں سے کوئی چیز کھانے والے پر حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت (کیونکہ) یہ سب ناپاک ہیں یا گناہ کا کلمہ ہو کہ اس کے ذریعہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔
مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ کی وضاحت ہمارے کچھ مہربانوں نے مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ۔۔۔ میں مَا سے مراد جانور لیا ہے اور اُھِلَّ کا معنی ذُبِحَ کیا ہے۔ اور آیت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جس جانور کو اللہ کے سوا کسی بزرگ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حرام ہے جیسے باسم مسیح، باسم عزیر وغیرہ۔
آپ یقین کریں۔۔۔ لغت کے تمام ائمہ نے اور جید مفسرین نے اہلال کا معنی ذبح کا نہیں فرمایا بلکہ اہلال کا معنی کیا ہے آواز بلند کرنا۔
امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
الاھلال رفع الصوت عند رویۃ الہلال ثم یستعمل لکل صوت (مفردات)
اہلال کہتے ہیں پہلی کے چاند کو دیکھتے وقت آوازوں کا بلند ہونا پھر یہ ہر آواز کے بلند ہونے کے لیے مستعمل ہوا۔
لغت عرب میں اہلال کہیں بھی ذبح کے معنی مستعمل نہیں ہوتا۔
جن مفسرین نے اُھِلَّ کا معنی ذبح کا کیا ہے انہوں نے اُھِلَّ کا معنی نہیں فرمایا بلکہ حاصل معنی بیان کیا ہے، انہوں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس زمانے کے مشرکین غیر اللہ کی نذرونیاز میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ ذبح کے وقت بھی اپنے معبودوں کا نام بلند کرتے تھے یعنی باسم المسیح اور باسم الات والعزیٰ۔
کیا اہل علم حضرات سے یہ بات مخفی ہے کہ مفسرین تَدْعُوْنَ (پکار) کی تفسیر میں تَعْبُدُوْنَ (عبادت) کے ساتھ کرتے ہیں حالانکہ لغت میں کہیں بھی دعا کا معنی عبادت نہیں ہے بلکہ دعا کا اصل معنی پکار ہے۔
چونکہ دعا (یعنی غائبانہ پکار) عبادت کا مغز اور نچوڑ تھی اس لیے مفسرین نے حاصل معنی کرکے تَدْعُوْنَ کی تفسیر تَعْبُدُوْنَ کے ساتھ کر دی۔
اس لیے ثابت ہوا کہ اہلال کو ذبح کے معنی میں لینا اور لِغَیْرِ اللہ کو باسم غیر اللہ کے ساتھ تعبیر کرنا کلامِ الٰہی میں صریح تحریف کرنا ہے۔۔۔ حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر صفحہ 514 میں اسی طرح فرمایا ہے۔
اگر مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہ سے مراد صرف جانور لیے جائیں اور اُھِلَّ کا معنی ذبح کا کیا جائے تو پھر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 6میں جہاں مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ کا تذکرہ ہوا اس کے فوراً بعد وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو بتوں کے آستانوں پر یا جہاں کوئی کچھ دیر کے لیے بیٹھا یا جہاں کوئی مدفون ہے وہاں جا کر بطور نذرونیاز ذبح کیے جائیں۔۔۔ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟
معلوم ہوا مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ اور وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ۔۔۔ دونوں ایک چیز نہیں بلکہ مَا اُھِلَّ۔۔۔ عام ہے جانور ہو یا شرینی، دیگ ہو یا کپڑے، تیل ہو یا نقدی، اناج ہو یا پھل۔۔۔ اور مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ خاص ہے اس سے مراد صرف جانور ہیں جو غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بطور تعظیم ان کے آستانوں اور خانقاہوں پر ذبح کیے جاتے ہیں۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رکھیے! کہ اگر مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ سے مراد صرف جانور لیے جائیں۔۔۔ تو کیا مشرکین مکہ صرف جانور اپنے معبودوں کے نام پر بطور نذرونیاز ذبح کرتے تھے؟
یا وہ زمین کی پیداوار سے بھی اپنے شریکوں کے نام کا حصہ نکالتے تھے؟ سورۃ الانعام کی آیت نمبر (حوالہ لکھنا ہے)پڑھیے گا آپ پر واضح ہو جائے گا کہ مشرکین زمین کی پیداوار سے بھی بطور نذرونیاز اپنے شریکوں کا حصہ نکالتے تھے۔
تو کیا زمین کی پیداوار سے غیر اللہ کی نذرونیاز مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہ کے تحت نہیں آئے گی؟
رئیس المفسرین مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ نے وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے مَا سے مراد کلمہ لیا ہے۔۔۔ ان کے معنی میں بِہٖ کو عَلَیْہِ کے معنی میں نہیں لینا پڑے گا۔۔۔ معنی اس طرح کریں کہ ایسا کلمہ جسے غیر اللہ کی نذر اور منت مانتے وقت بلند کیا جائے۔۔۔ وہ کلمہ منہ سے نکالنا اور بولنا بھی حرام ہے۔۔۔ جب ایسا کلمہ بولنا بھی حرام ہے تو وہ چیز بدرجہ اولیٰ حرام ہو گی۔
اس معنی کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہو رہی ہے۔
او فسقا اہل لغیر اللہ بہ (الانعام: 145)
یہاں فِسْقًا کا مضاف محذوف ہے ذَاتَ فِسْقٍ اور یہ موضوف مقدر کی صفت ہے۔۔۔ یعنی کَلِمَۃً ذَاتَ فِسْقٍ۔۔۔ فسق ومعصیت اور شرک پر مبنی وہ کلمہ بولنا بھی حرام ہے جس کے ذریعے غیر اللہ کی نذر اور منت مانی جائے۔
مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے۔
واجتنبوا قول الزور (الحج: 30)
اور جھوٹی بات سے بچو۔
اگرچہ قرآن ’’زُوْر‘‘ کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین نے نقل کیے ہیں۔۔۔ مگر اس حقیقت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑی جھوٹی بات اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز دینا ہے۔
حدیث نبوی قرآن مجید کی کئی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غیر اللہ کے نام پر دی جانے والی نذرونیاز یا ان کے نام پر مانی جانے والی منت حلال نہیں ہے۔
آئیے ایک حدیث بھی سنیے جس سے معلوم ہوتا ہے اگر کسی قبر یا بت پر ایک مکھی جیسی معمولی یا حقیر چیز کو بھی بطور نیاز قربان کیا جائے تو یہ بھی شرک اور اور دخولِ جہنم کا سبب بن جاتا ہے۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
ایک شخص مکھی کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا اور دوسرا شخص مکھی کی وجہ سے جہنم کی سزا کا مستحق ٹھہرا۔۔۔ لوگون نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ دو مسلمان شخص ایک بت پرست قوم پر گزرے جو کسی مسافر کو اپنے بت پر پو کچھ نیاز چڑھائے بغیر نہیں گزرنے دیتے تھے، چنانچہ انہوں نے کہا ہمارے بت پر کچھ قربان کرو چاہے ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو، ان میں سے ایک مکھی کی قربان کر دی اس طرح اس کی جان قتل ہونے سے بچ گئی مگر وہ اس نیاز دینے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوا۔
دوسرے شخص سے یہی کچھ کہا تو اس نے کہا:
ما کنت لاقرب لاحد شیئا دون اللہ (مسند احمد )
میں اللہ کے سوا کسی کے لیے کچھ بھی قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
ان لوگوں نے اسے شہید کر دیا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔
فقہ حنفی قرآن وحدیث کے دلائل کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔۔ حنفی کہلانے والوں کے لیے شاید یہ حوالہ باعث راہنمائی بن جائے ، ذرا غور سے پڑھیے۔
واعلم ان النذر الذی یقع للاموات من اکثر العوام وما یؤخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا الیٰ ضرائح اولیاء الکرام تقرباً الیھم فھو بالاجماع باطل وحرام مالم یقصدوا صرفھا للفقراء وقد ابتلی الناس بذالک ولا سیما فی ھذا الاعصار(درمختار )
خوب سمجھ لیجیے کہ جو نذرونیاز اکثر لوگ مردوں کے نام کی مانتے اور دیتے ہیں اگر بزرگانِ دین کی قبروں پر جو روپے پیسے، تیل اور چراغ وغیرہ ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے لاتے ہیں ایسا کرنا اجماعِ امت کے ساتھ باطل اور حرام ہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا:
عبادت غیر خدا را جائز نیست۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت کرنا جائز نہیں اور اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں۔۔۔ پس نذر کردن برائے اولیاء نیست کہ نذر عبادت است۔۔۔ پس اولیاء کرام کے نام کی نذر ماننا جائز نہیں کیونکہ نذر عبادت ہے (اور عبادت کا حقدار صرف اللہ رب العزت ہے) (ارشاد الطالبین: 18)
فتاویٰ عالمگیری جسے سینکڑوں علمائِ احناف نے مرتب فرمایا اس کے باب الاعتکاف میں ہے:
اکثر لوگوں میں جو یہ نذر ماننے کا رواج ہے کہ کسی صالح شخص کی قبر پر آتے ہیں اور اس پر بڑا غلاف (چادر) اٹھا کر کہتے ہیں اے میرے آقا! اگر تو میری یہ حاجت پوری کردے تو میں تیرے لیے اتنا سونا لائوں گا ایسی نذر بالاجماع باطل ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں یہ فیصلہ بھی تحریر ہے:
جو رقم اور ان جیسی چیزیں لے کر اولیاء کرام کی قبروں پر لے جاتے ہیں اور نیت ان اولیاء کرام کا قرب حاصل کرنے کی ہوتی ہے تو وہ بالاجماع حرام ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری: 1/216)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
وحیوانات را کہ نذر مشائخ میکند وبر سر قبر ہائے ایشاں رفتہ آں حیوانات را ذبح می نمایند در روایات فقیہ ایں عمل را نیز داخل شرک ساختہ اند (مکتوبات دفتر سوم مکتوب 41)
جو لوگ بزرگوں کے لیے جانوروں کی نذر مانتے ہیں اور پھر انہیں ان کی قبروں پر جا کر ذبح کرتے ہیں فقہ کی روایات میں ان لوگوں کے اس عمل کو بھی شرک سمجھا گیا ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب بحر الرائق میں ہے:
ینعقد الاجماع علی حرمۃ النذر للمخلوق۔۔۔ انہ حرام بل سحت
مخلوق کے لیے نذر ماننا اس کی حرمت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے۔۔۔ یہ حرام ہے بلکہ خبیث مال ہے۔
تفسیر کبیر اور نیشاپوری نے کیا لکھا ہے؟ ذرا اسے بھی پڑھ لیجیے:
قال العلماء لو ان مسلما ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحھا التقرب الیٰ غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتدا
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی جانور کو ذبح کیا اور اس ذبح سے وہ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبح کیا ہوا جانور مرتد کے ذبیحہ کی مانند ہو گا۔
ایک کٹ حجتی کا جواب مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ حقیقت ثابت ہو گئی ہے کہ چونکہ عالم الغیب اور مختار کل ہونا صفات باری تعالیٰ کی ہیں اس لیے نذرونیاز کا مستحق بھی وہی ہے۔۔۔ اور منت بھی اسی کے نام کی ماننی چاہیے۔
امت کے علماء کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے۔۔۔ ان کے نام کی نذرونیاز کا دینا اور منت ماننا۔۔۔ جائز نہیں ہے بلکہ باطل اور حرام ہے۔
جو ’’مہربان‘‘ غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں جب انہیں اس غیر شرعی عمل سے منع کیا جاتا ہے۔۔۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس نذرنیاز کے ذریعہ بزرگوں کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔۔۔ کیا تم ایصالِ ثواب کے منکر ہو کہ اس سے منع کر رہے ہو۔
جواب خوب سمجھ لیجیے کہ یہ عذر ہمارے ’’مہربان‘‘ عوام کو فریب میں مبتلا کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں ورنہ اگر ایصالِ ثواب ہی مقصود ہے تو شخصیت اور تاریخ متعین کیوں کی جاتی ہے؟
ہر مہینے کی گیارہ تاریخ کو نیاز دینی ہے اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی دینی ہے۔ بائیس رجب کو کونڈے بھرنے ہیں اور حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کیل یے نیاز دینی ہے۔ مرنے کے تیسرے دن بعد یا ساتویں دل بعد یا چالیسویں دن بعد یا سال کے بعد اسی دن جس دن فوتگی ہوئی تھی کھانے پکانا اور برادری اور احباب کی دعوت کرنا۔۔۔ یہ کیسا ایصالِ ثواب ہے؟
ایصالِ ثواب کے لیے گیارہ تاریخ کا مقرر کر لینا۔۔۔ یا بائیس رجب کا متعین کر لینا اور خاص شخصیات کے لیے ایصالِ ثواب کرنا۔۔۔ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب نہیں ہے بلکہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ کیونکہ ایصالِ ثواب کے لیے شریعت نے کوئی دن مقرر نہیں کیا اور نہ ہی شریعت نے اس کے لیے کوئی شخصیت متعین کی ہے بلکہ شریعت نے اس معاملے میں اپنے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جب چاہو۔۔۔ جس وقت چاہو اور جس فوت شدہ مسلمان کے لیے چاہو ایصالِ ثواب کر سکتے ہو۔
زکوٰۃ کے لیے بھی وقت اور دن مقرر نہیں شریعت اسلامیہ نے نماز کے لیے اوقات مقرر فرمائے۔۔۔ رمضان کے مہینے کو مختص کیا۔۔۔ حج بیت اللہ کے لیے بھی تاریخیں متعین کیں۔۔۔ مگر زکوٰۃ جیسے فریضہ کو کسی دن، مہینہ اور وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا۔
مال پر ایک سال کی مدت گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی۔۔۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ جس دن زکوٰۃ فرض ہوئی آپ اسی دن زکوٰۃ ادا کریں۔۔۔ بلکہ آپ کو شریعت نے اجازت دی ہے کہ سال بھر تھوڑی تھوڑی کرکے ادا کرتے رہیں۔۔۔ یا آئندہ کئی سالوں کی زکوٰۃ پیشگی ادا کر دیں۔
زکوٰۃ اور عشر میں۔۔۔ وقت اور دن کی تخصیص نہیں رکھی بلکہ فقراء اور مساکین کا لحاظ رکھا۔۔۔ ایک سخت حاجت مند اور مجبور کو آج تعاون کی ضرورت ہے۔۔ اور آپ کہیں کہ آج تو میں زکوٰۃ نہیں دے سکتا کیونکہ زکوٰۃ تو فلاح تاریخ کو ادا ہو گی۔ آپ یقینا میری بات کو سمجھ گئے ہوں گے۔
کہ زکوٰۃ جیسے فریضہ کو اللہ رب العزت نے مساکین، فقراء اور غربا کا لحاظ کرتے ہوئے۔۔۔ اپنی حکمت سے وقت اور کسی خاص دن کے ساتھ خاص نہیں کیا۔
مگر تم نے ایک ایسی خیرات کو جو نہ فرض ہے نہ واجب ہے اور نہ سنت ہے۔۔۔ زیادہ سے زیادہ مستحب ہے۔۔۔ اسے تیسرے، ساتویں، چالیسویں، جمعرات اور گیارہویں کے ساتھ کیسے مشروط کر دیا۔
کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت اٹھائی کہ اللہ رب العزت نے غرباء اور مساکین کے جس فائدے کے لیے۔۔۔ زکوٰۃ کو وقت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ غرباء کا لحاظ کرتے ہوئے۔۔۔ ضرورت پڑنے پر کئی سالوں کی پیشگی زکوٰۃ دینے کی اجازت دے دی۔۔۔ مگر تم نے مردوں کے لیے ایصالِ ثواب کا کھانا تیسرے کے ساتھ۔۔۔ فروٹ اور پھل ساتویں دن کے ساتھ، دیگیں چالیسویں دن کے ساتھ اور کھیر کو گیارہویں کے ساتھ مخصوص کر دیا۔
شادی کی تاریخ مقرر کیوں کرتے ہو؟ جب ہم نے یہ بات کہی کہ خیرات اور ایصالِ ثواب کے لیے دن اور وقت مقرر کرنا صحیح نہیں تو ہمارے ’’مہربان‘‘ از راہِ تمسخر کہتے ہیں اگر وقت اور دن مقرر کرنا درست عمل نہیں تو تم بچوں کی شادی بیاہ کے لیے وقت دن کیوں مقرر کرتے ہو؟
شادی اور بیاہ کے لیے برادری کے لوگ اکٹھے ہو کر شادی کا دن مقرر کر لیتے ہیں۔۔۔ تم بھی خیرات اور ایصالِ ثواب کے لیے کوئی دن مقرر کر لیا کرو۔
کیا کسی علاقے میں یا برادری میں یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے بچوں اور بچیوں کی شادی دس تاریخ ہی کو ہو گی؟ ہرگز نہیں، بلکہ جب شادی کا ارادہ ہوتا ہے تو کوئی تاریخ طے کر لیتے ہیں۔۔۔ تم بھی خیرات اور ایصالِ ثواب کرنے کا ارادہ کرو تو کوئی تاریخ مقرر کر لیا کرو۔
میرے بھائی! مقررہ تاریخ کا معنی یہ ہے کہ یہ کام اسی تاریخ ہی کو کرنا ہے اور اس تاریخ کو چھوڑ کر کسی اور تاریخ کو یہ عمل اور کام نہیں کرنا۔۔۔ خوب سمجھ لیجیے کہ اپنے طور پر کسی مستحب عمل کے لیے تاریخ متعین کر لینا۔۔۔ دن میں زیادتی اور بدعت ہے۔
ہر مہینے ایک ہی شخصیت کے لیے ایصالِ ثواب کیوں؟ اگر بقول ہمارے ’’مہربانوں‘‘ کے گیارہویں اور کونڈے دراصل ایصالِ ثواب ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور جعفر صادق رحمہما اللہ کے لیے۔۔۔ تو پھر ہمیں مطمئن کیجیے۔۔۔ ہر مہینے حضرت شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ارواح اور ایصالِ ثواب۔۔۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر مہینے ان کو ایصالِ ثواب۔۔۔ انہیں صالح، نیک وپارسا، ولی اللہ اور بزرگ خیال کرتے ہوئے یا انہیں (العیاذ باللہ) گنہگار سمجھ کر کہ وہ گرفت میں ہیں ایصالِ ثواب کرتے ہو کہ ہمارے ایصال ثواب سے ان کو نفع اور فائدہ پہنچے گا۔
اگر دوسری وجہ خیال میں رکھ کر ایصالِ ثواب کرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بڑے صالح بزرگ، نیک شخصیت، عابد وازہد اور ولی اللہ تھے۔۔۔ وہ اللہ کی رحمت سے اور اپنے صحیح عقیدہ اور نیک اعمال کی بدولت۔۔۔ اللہ کے وعدے کے مطابق سکون وآرام میں ہوں گے۔
ہاں ہمارے والدین، اساتذہ، آبائو اجداد اور فوت شدہ رشتے دار۔۔۔ شاید ان کے ساتھ معاملہ اگر گول ہو اس لیے ایصالِ ثواب کے وہی زیادہ مستحق ہیں۔۔۔ تاکہ اللہ رب العزت ان کے قصور معاف کرکے انہیں آرام اور چین کی فضائیں مہیا کرے۔
اس کی ایک مثال پڑھیے اور غور کیجیے۔
ایک سرد کے موسم میں ایک کمبل اللہ کے راستے میں دینا چاہتا ہے۔۔۔ گھر سے باہر نکل کر اس نے ایک شخص کو دیکھا جو سڑک کے کنارے سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔۔۔ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا ہے۔۔۔ اس کے پاس کوئی لحاف، کمبل اور گرم کپڑا نہیں ہے۔ یہ شخص اسے دیکھ کر خاموشی سے گزر جاتا ہے۔۔۔ آگے جا کر دیکھتا ہے کہ ایک شخص بند کمرے میں بیٹھا ہوا ہے، نرم وگداز بستر اور کمبل میں لیٹا ہوا ہے۔۔۔ ہیٹر سے کمرہ گرم ہے۔۔۔ یہ شخص اپنا کمبل بھی اسی پر ڈال دیتا ہے۔
انصاف سے بتائیے! اس شخص نے یہ کام کرکے عقلمندی کا ثبوت دیا یا احمق پن کا؟
اسے چاہیے تھا کہ کمبل اس فقیر کو دیتا جسے اس کی شدید ترین ضرورت تھی۔۔۔ اسی طرح یہ حضرات بھی ہر مہینے ایصالِ ثواب اسی شخصیت کے لیے کر رہے ہیں جو اللہ کی رحمت سے عیش وآرام میں ہو گی اور اپنے والدین، آبائواجداد اور اساتذہ جنہیں ایصالِ ثواب کی ضرورت تھی ان کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔
اور اگر ہر مہینے گیارہویں بطور ایصالِ ثواب۔۔۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو نیک سمجھ کر دیتے ہو تو کیا امت میں ان سے بڑھ کر نیک اور پارسا لوگ موجود نہیں ہیں؟ اصحابِ رسول کی مقدس جماعت ہے۔۔۔ تابعین ہیں۔۔۔ تبع تابعین ہیں۔۔۔ ائمہ مجتہدین ہیں۔۔۔ مفسرین اور محدثین ہیں۔۔۔ مگر آج تک ہمارے ’’مہربانوں‘‘ نے کبھی بھول کر بھی سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے ایصالِ ثواب نہیں کیا۔
انہوں نے کبھی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ جیسے عالی مرتبہ شخصیات کے لیے گیارہویں نہیں دی۔
علاوہ ازیں۔۔۔ اگر اولیاء کرام کے لیے دی جانے والی نذرونیاز واقعی ایصالِ ثواب کی نیت سے کی جاتی ہے۔۔۔ تو پھر یہ عقیدہ اور نظریہ عوام الناس کو کیوں سمجھایا گیا کہ اگر گیارہویں نہیں دو گے توگھر میں بے برکتی ہو جائے گی۔۔۔ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
بعض کمزور عقیدے کے لوگوں کا یہاں تک خیال ہے کہ گیارہویں نہ دی تو بھینسوں کے تھنوں سے بجائے دودھ کے خون آنے لگے گا۔
یہ سب باتیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں یہ بزرگوں کے نام پر ایصالِ ثواب نہیں ہوتا بلکہ انہیں عالم الغیب سمجھ کر اور نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر نذرونیاز دی جاتی ہے۔۔۔ جو مالی عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ رب العزت کے لیے ہی ہونی چاہیے۔
نذرونیاز اور ایصالِ ثواب یاد رکھیے! نذرونیاز ایک الگ چیز ہے اور ایصالِ ثواب الگ چیز ہے۔ کسی شخصیت کو اپنے حالات سے باخبر سمجھ کر۔۔۔ اور اسے نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر اس کے نام پر کوئی چیز دینا اور تقسیم کرنا۔۔۔ نذرونیاز کہلاتا ہے اور یہ مالی عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کے لیے شرک بن جاتی ہے لہٰذا نذورنیاز کے لائق صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔
اور ایصالِ ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کوئی چیز محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اللہ کے نام پر غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنا ہے۔۔ اور رحمت الٰہی سے اجروثواب کا امید وار ہوتے ہوئے اللہ کے دربار میں درخواست کرتا ہے کہ مولا! اس عمل کا جو ثواب محض اپنے فضل وکرم سے آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب آپ میرے فلاں فوت شدہ عزیز کو عا فرما دیں، یہ جائز ہے۔
اس کے لیے کوئی دن بھی مخصوص نہیں ہے اور وقت بھی مقرر نہیں ہے۔ اور ایک ہی شخصیت بھی متعین نہیں ہے کہ ہر مہینے کی گیارہویں تاریخ کو صرف شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ایصالِ ثواب کرنا ہے۔
ایصالِ ثواب کے مسئلے میں لوگ افراط وتفریط کا شکار ہوئے ہیں۔۔۔ ایک طبقہ نے یہ نظریہ قائم کر لیا کہ جو چیز ارواح دی جائے وہی چیز مت کو پہنچتی ہے۔۔۔ پھر اس کے لیے تیسرا، ساتواں اور چالیسواں دن مقرر کر لیے ہیں۔ اس کے مقابل دوسرے طبقہ نے مطلقاً ایصالِ ثواب کا انکار کر دیا کہ زندوں کی طرف سے میت کو کوئی چیز بخشی جائے تو میت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
یہ دونوں نظریے صحیح نہیں ہیں۔۔۔ صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ ایصالِ ثواب دراصل دعا ہے کہ مولا! جو عمل میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے۔۔۔ اس کا اجروثواب محض تیرے فضل وکرم سے مجھے عطا ہوا ہے۔۔۔ میری درخواست ہے کہ یہ ثواب میرے فلاں عزیز کی روح کا پہنچا دے۔ آگے اللہ کی مرضی ہے کہ وہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے یا رد کر دیتا ہے۔
ایصال ثواب کی احادیث سعد بن عبادہ کی والدہ کے لیے (مشکوٰۃ: 169)
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت (مشکوٰۃ: 172)
صاحب ہدایہ برہان الدین علی بن ابی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ہدایہ میں تحریر کرتے ہیں:
اہل سنت کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنے عمل کا ثواب دے سکتا ہے خواہ وہ عمل نماز ہو، روزہ صدقہ ہو یا کوئی اور عمل دلیل اس کی نبی اکرمﷺ کا وہ عمل ہے کہ آپ نے دو دنبے قربانی میں ذبح کیے ایک اپنی طرف سے اور دوسری قربانی اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے جو توحید کی گواہی دیتے ہوں۔ (ہدایہ: 1/276)
خلاصہ یہ نکلا کہ علمائِ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادت مالی کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔۔۔ مگر بدنی عبادت کے ثواب کے پہنچنے میں قدرے اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا خیال یہ ہے کہ عبادت بدنی (نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وغیرہ) کا ثواب میت کو نہیں پہنچا سکتے۔
امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک عبادت بدنی ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ البتہ معتزلہ کا خیال یہ ہے کہ کسی بھی عبادت اور عمل کا ثواب عمل کرنے والے کے سوا کسی اور کو نہیں پہنچتا۔
ایک اشکال کا جواب غیر اللہ کے نام پر دی جانے والی نذرونیاز کے جواز کے جو حضرات قائل ہیں وہ سادہ لوح عوام کو مغالطہ میں مبتلا کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ اگر کوئی جانور یا کوئی چیز غیر اللہ کی طرف منسوب کرنے سے حرام ہو جاتی ہے۔۔ مثلاً فلاں پیر صاحب کا بکرا یا مرغا۔۔۔ تو پھر جتنی چیزیں ہیں ان کی نسبت مالک کی طرف کی جاتی ہے۔ مثلاً یہ گائے عبد اللہ کی ہے۔۔۔ یہ بکرا عبد الرحمن کا ہے۔۔۔ یہ مکان اکبر کا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ کہنا صحیح ہے اور شرک کے زمرے میں نہیں آتا تو پھر ’’بکرا فلاں پیر صاحب کا‘‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟
سبحان اللہ! کیسی مضبوط دلیل ہے۔۔۔ اور کتنا علمی استدلال ہے۔ میرے پیارے نبیﷺ نے کتنی سچی بات کہی تھی:
یرفع العلم ویفش الجہل قبل یوم القیٰمۃ
قیامت سے پہلے علم اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی۔
تعجب اور افسوس ہے ان حضرات پر۔۔۔ انہوں نے اتنی بات بھی نہیں سمجھی کہ ان صورتوں میں تو اضافت تملُکِ ذات کی ہے۔ دنیا کی چیزوں کا زندوں کی مِلک میں ہوناما تحت الاسباب ہے۔۔۔ اللہ رب العزت نے مالکوں کو ان پر تصرف کا اختیار بھی دے رکھا ہے۔۔۔ اور ان اشیاء کی نسبت مالک کی طرف کرنا جائز ہے اور اس کا ثبوت قرآن میں ہے۔ ایک جگہ پر ارشاد فرمایا:
اولم یروا۔۔۔۔۔ (یٰسین: 71)
چونکہ لوگ اپنی اشیاء، جانور اور زمینوں کے مالک ہوتے ہیں اسی لیے ان کے مرنے کے بعد ان کا مل بطور وراثت ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے۔
اور زندگی میں انہیں اپنے مال وجائیداد پر ہر قسم کا اختیار بھی دیا ہے۔۔۔ وہ چاہیں تو ان چیزوں کو فروخت کر دیں یا کسی کو تحفہ میں عطا کر دے یا کرایہ پر دے دیں۔ یہ سب اختیار شریعت نے ان کے لیے ثابت اور بیان کیے ہیں۔ مگر یہی شخص جب مر گیا تو پھر وہ اپنے میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ مردہ کسی چیز کا مالک کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ آپ فوت شدہ پیر صاحب کے بکرے۔۔۔ کے جواز کے لیے زندہ شخص ’’عبد اللہ کا بکرا‘‘ کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں۔
مرنے والے کے لیے اور ما فوق الاسباب ملکیت کی نفی میں تو قرآن نے وضاحت کر دی ہے۔ ایک جگہ پر فرمایا:
والذین تدعون من الیٰ لا یسمعوا دعائکم (فاطر: 14.13)
اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے بھی مالک نہیں ہیں اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکاریں نہیں سنتے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
قل ادعوا لذین الیٰ مکمل (سبا: 22)
کہہ دیجیے اللہ کے سوا جن جن کی (ملکیت اور اختیار کا) تمہیں گمان ہے انہیں پکارو وہ زمین وآسمان میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں نہ ان کا زمین وآسمان میں کچھ سانجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔
مشرکین ے معبودوں کے بارے میں قرآن نے انداز بدل بدل کر۔۔۔ ان کی عاجزی، بے کسی اور بے بسی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ کہیں فرمایا۔۔۔ اموات غیر احیاء (النحل: 21) وہ مردے ہیں زندہ نہیں۔۔۔ کہیں فرمایا: ما لا یملک لکم ضرا ولا نفعا (حوالہ لکھنا ہے) وہ تمہارے لیے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔۔۔ کہیں فرمایا: لا یملکون لکم رزقا (حوالہ لکھنا ہے) ان کے اختیار میں تمہاری روزی نہیں ہے۔۔۔ کہیں فرمایا: لن یخلقوا الیٰ لا یستنقذواہ منہ (الحج: 74)وہ سب جمع ہو کر بھی ایک مکھی پیدا کرنے پر قادر نہیں اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے یہ مکھی سے اپنی چیز واپس نہیں لے سکتے۔
جو اتنے عاجز اور مجبور ہوں۔۔۔ انہیں عالم الغیب، مختارکل، نفع ونقصان کا مالک اور ہر چیز کا مختار سمجھ کر ان کے نام کی نذریں اور نیازیں دینا۔۔۔ اور ان کے نام کی منت ماننا۔۔۔ اور پھر ان کے اختیارات ار مالکیت کو زندہ شخص جو اپنے مال وجائیداد میں مالک ہے۔۔۔ اس پر قیاس کرنا کیا یہ قیاس مع الفارق نہیں ہے؟
خلاصۂ بحث جو کچھ میں نے تحریر کیا آپ اسے پڑھ چکے ہیں۔۔۔ خلاصہ یہ نکلا کہ اولیاء اللہ اور بزرگوں کے نام کی جو نذریں اور نیازیں دی جاتی ہیں اور ان کے نام کی منتیں مانی جاتی ہیں اور ان سے مقصود ان بزرگوں کا تقرب اور خوشنودی ہو۔۔۔ انہیں اپنے حالات سے باخبر سمجھا جائے اور نظریہ ہو کہ ان نیازوں کو قبول کرکے وہ ہمارا کام کر دیں گے یا اللہ سے کروا دیں گے اور ہماری مشکل آسان ہو جائے گی۔
اور اگر ہم نے ان کی نذرونیاز نہ دی تو ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور اس سے تجارت وکاروبار، جان ومال اور گھربار میں نقصان پہنچے گا۔۔۔ تو جس طرح ادھر ہم فقہ کی کتابوں کے حوالے پیش کر چکے ہیں۔۔۔ کہ امت کے علماء کا اس کے حرام اور باطل ہونے پر اجماع ہے اور یہ شرک کے زمرے میں بھی شامل ہو گا (کیونکہ یہ صفات باری تعالیٰ کی ہیں)
ایصالِ ثواب بالکل جائز ہے۔۔۔ اس میں چیز اللہ رب العزت کے نام پر دی جاتی ہے اور اللہ کے حضور درخواست کی جاتی ہے کہ مولا! اس کا ثواب فلاں بزرگ کی فلاں رشتے دار کی وح کو پہنچا دے۔
ایصالِ ثواب کے لیے وقت دن بھی مقرر نہیں ہوتا اور شخصیت بھی مخصوص نہیں ہوتی اور چیز بھی متعین نہیں ہوتی۔
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اس مضمون کا قرآنی فانٹ کس طرح تبدیل ہوگا
اوپر لائن میں آپ کو دو T نظر آرہے ہونگے ان کے ساتھ اوپر نیچے تین نقطہ ہیں اس پر کلک کریں نیچے ایک چھوٹی سی ونڈیو اوپن ہوگی اس میں لفظ A پر کلک کریں اس میں تمام فونٹ موجود ہیں آپ یہاں سے تبدیل کرسکتے ہیں
 
Top