تہجد وتراویح دونوں الگ الگ نمازیں
تحریر ۔۔۔مولانا ضیا ء الحق مظاہریمنقول :ریاض الجنہ۔جولائی ۲۰۱۴
ماخذ مشروعیت
(دلیل نمبر ۱) تہجد اور تراویح کے ماخذ مشروعیت جدا جدا ہیں ، تہجد کا ثبوت قرآن کر یم کی آیت ( ومن الیل فتہجد بہ نا فلۃ لک ( پ۱۵) سے ثابت ہے ، جب کہ تراویح شریعت کے دوسرے ماخذ حدیث نبوی سے ثابت ہے (وسنت لکم قیامہ ) معلوم ہوا کہ تراویح کا طریقہ جناب کریم ﷺ نے جاری کیا ہے ،ایک نماز کی مشروعیت قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری کی مشروعیت حدیث نبوی سے ثابت ہے تو یہ دو نمازیں ایک کسیے ہو سکتی ہیں ؟مکان مشروعیت
2۔ تہجد وترایح کی مشروعیت کی جگہ جدا ہے ، تہجد مکہ مکرمہ میں مشروع ہوئی ہے جب کہ تراویح مدینہ منورہ مشروع ہو ئی ہے ۔زمانہ مشروعیت
3۔تہجد ہجرت سے قبل اور تراویح بعد الہجرت مشروع ہوئی ۔کیفیت مشروعیت
۴۔تہجد پہلے فرض تھی اور ایک عرصہ تک فرض رہی ، بعد میں اسکی فرضیت منسوخ ہو گئی ، سعد بن ہشام کہتے ہیں ۔قلت یا ام المؤمنین حدثنی عن خلق رسول اللہ ﷺ قلت: الست تقرأ القرآن ؟فان خلق رسول اللہ ﷺ کان القرآن ، قال حدثنی عن قیام الیل قالت: الست تقرأ یا ایھا المزمل قال قالت : بلٰی ،قالت: فان اول ھذہ نزلت فقام اصحاب رسول اللہ ﷺ حتیٰ انفخت اقدامہ مھم وحبس خاتمتھا فی السمآء واثنی عشر شھراً ثم نزل آخرھا فصار ۱۸۹۔ ۱۹۱/قیام الیل تطوعاً بعد فریضہ ( ابو داؤد ، باب فی صلاۃ الیل : سعد : میں نے کہا: اے ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ ﷺ کے خلق کے متعلق بیان کیجئے ،ام امؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فر مایا کہ کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟ رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہے ۔
سعد : میں نے کہا : اے ام المؤ منین ! مجھ سے تہجد کے متعلق عرض مر مائیے ، ام المأ منین نے دریافت فر مایا کیا آپ سورۃ المزمل نہیں پڑھتے ؟
سعد : میں نے کہا : جی ہاں ! میں سورہ یا ایھا المزمل پڑھتا ہوں ، ام المؤ منین نے فرمایا کہ اس سورۃ کا ابتدائی حصہ نازل ہوا ( جس میں تہجد کی فر ضیت ہے ) صحابہ کرام اتنی طویل نماز پڑھتے کہ ان کے پاؤں سوج جاتے ،اور اس سورۃ کا آ خری حصہ بارہ ماہ تک آسمان میں رکا رہا ، پھر بارہ ماہ بعد اس کے آ خری حصہ نازل ہوا ، تو تہجد جو پہلے فرض تھی ،اب نفل میں بدل گئی ۔
فائدہ : اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں ، ایک یہ کہ تہجد کی مشروعیت قرآن کریم سے ہے ، دوسری یہ کہ تہجد کی مشروعیت مکہ مکرمہ میں ہوئی ، کیونکہ سورہ مزمل قبل ہجرت مکہ مرمہ میں نازل ہوئی ہے اور اسی سے تہجد کی مشروعیت ثابت ہے ، تیسری یہ کہ تہجد ایک سال تک فرض رہی ، بعد میں سورہ مزمل کے آخری حصہ کے نازل ہو نے کے ساتھ فر ضیت منسوخ ہو گئی اور تہجد نفل بن گئی ، جب کہ تراویح کبھی بھی فر ض نہیں ہوئی ۔
نبی ﷺ پر فرضیت تہجد کا قول
۵۔ علما ء کے ایک قول کے مطابق تہجد نبی ﷺ پر فر ض تھی ، صرف امت کے حق میں تہجد کی فر ضیت منسو خ ہو گئی ( زرقانی شرح مؤطا مالک۱/ ۳۱۱) مگر تراویح آپ ﷺ فرض نہیں تھی۔سنت مؤکدہ وغیر موکدہ
۶۔ تہجد سنت غیر مؤکدہ ہے جیسا کہ ابھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں گزرا کہ تہجد پہلے فرض تھی ، بعد میں فرضیت مسنوخ ہو کر نفل ہو گئی ، جب کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ، چنانچہ فقہ کی معتبر کتاب الروض المرابع جو سعودی والتراویح سنہ مؤکدہ“عرب کے نصاب تعلیم میں داخل ہے ،اس کے ص : ۶۵ پر لکھا ہے ،ملا علی قاری فر ماتے ہیں “"والحاصل ان الاصح فیھا سنۃ مؤکدۃ"صحیح ترین بات یہ ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔(شرح القایہ ۳۴/۱)ایک نماز سنت غیر مؤکدہ ہے ، دوسری سنت مؤکدہ ہے ۔یہ دونوں نمازیں ایک کیسے ہو سکتی ہیں ؟ تراویح کے سنت مؤکدہ ہو نے پر مذاہب اربعہ کی درج ذیل کتب ملا حظہ کیجئے ۔(البحر الرائق حاشیہ فتاویٰ النوازل:۹۴،حاشیہ الطحاوی :۴۱۱،رد المحتار:۹۳/۱،فتاویٰ تاتار خانیہ :۴۷۵/۱،المہذب ۸۴/۱،حلیۃ العلماء:۱۱۹/۲،الاقناع للشربینی :۴۷۵/۱،تہایۃ الزین:۱۱۴/۱، المغنی لابن القدامہ :۷۹۷/۱)۱۷۱/۱۷۔تہجد میں اصل یہ ہے کہ بغیر جماعت کے پڑھی جائے ، مگر تراویح میں جماعت سنت مؤکدہ کفایہ ہے (الروضۃ المربع:۶۵) میں ہے "والترایح عشرون رکعۃ تفعل فی جماعۃ مع الوتر "تراویح بیس رکعات ہے ، جو وتروں سمیت جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ، اور ملا علی قاری لکھتے ہیں "روی الحسن عن ابی حنیفہ والسنۃ فیھا الجماعۃ لکن علی وجہ الکفایہ "حسن نے امام اعظم ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے ،تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے ۔
فائدہ حدیث ؑائشہؓ) حدیث عائشہؓ کی گیارہ رکعات والی مشہور حدیث جو تہجد کے بارے میں ہے ،اس سے چند فرق واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں ،ان سے پہلے وہ حدیث ملا حظہ فر مائیں ۔
عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن اخبرہ انۃ سال عائشہ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان رسو اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احد عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصل ثلثا قالت عائشہ قلت یا رسول اتنام قبل ان تو تر فقال یا عائشہ ان عینی تنا مات ولا ینام قلبی ۔ ( بخاری : ۱۵۴/۱، کتاب التھجد ، باب قیام النبی ﷺ بالیل فی رمضان وغیرہ ، ابو داؤد وصلوۃ الیل )
ابو سلمہ عبد الرحمن نے حضرت عائشہؓ سے پو چھا کہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز ( تہجد ) کیسے ہو تی تھی ؟ حضرت عائشہؓ نے فر مایا کہ آپ ﷺ رمضان وغیر رمضان میں ۱۱ رکعات پر زیادہ نہ کرتے تھے ، چار رکعات پڑھتے ، پس اس کے حسن اور طول کے بارے نہ پو چھ، پھر آپ ﷺ چار رکعات پڑھتے ،پس ان کے حسن اور طول کے متعلق نہ پو چھ ( یعنی بہت خوبصورت اور طویل ہو تی تھیں ) پھر تین رکعات پڑھتے ، حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں : میں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ( پھر بغیر نئے وضو کے وتر پڑھتے ہیں ) آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا : اے عائشہؓ بے شک میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں ، میرا دل نہیں سوتا ( یعنی نیند سے میرا وضو نہیں ٹوٹتا ،اس لئے نیا نہیں وضو نہیں کرتا ۔
رمضان وغیر رمضان
۸۔ تہجد رمضان وغیر رمضان یعنی بارہ ماہ پڑھی جاتی ہے ، جب کہ تراویح فقط رمضان میں پڑھی جاتی ہے ،ایک نماز پورے سال اور ایک نماز صرف ایک ماہ تو یہ دونوں نمازیں ایک کیسے ؟ جیسے نماز اشراق پورے سال کی نماز ہے جب کہ نماز عید سال میں صرف دو مرتبہ پڑھی جاتی ہے ، نماز ظہر ہر روز اور نماز جمعہ ہفتہ میں ایک روز تو یہ دونوں نمازیں جدا جدا ہیں ،اسی طرح تہجد پورے سال اور تراویح صرف ایک ماہ لہذا یہ بھی دو جدا جدا نمازیں ہوں گی ۔چار رکعات اور دو رکعت
۹۔حدیث عائشہؓ کے مطابق آپ ﷺ چار چار رکعات اور تین وتر پڑھتے تھے ، جب کہ تراویح میں دو رکعت پڑھنا مسنون ہے ، فقہ حنبلی کی معتبر کتاب الروضۃ المربع صفحہ ۶۵ پر ہے "فعل رکعتین رکعتین "بیس تروایح دو ،دو رکعات کر کے پڑھی جاتی ہیں ،اس پر مزید حوالہ جات مذاہب ار بعہ کے بیان میں ملاحظہ فر مائیں ۔ جاری ہے۔
Last edited: