اخبار الکتب - موسوعۃ الحدیث - مشرف و نگران ، مفتی محمد تقی عثمانی

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
کافی عرصہ سے یہ سننے میں آ رہا تھا کہ جامعہ دار العلوم کراچی میںاحادیث کا انسائیکلوپیڈیا تیار کیا جارہا ہے ۔ تعارف ان کی ویب سائٹ پہ کچھ اس طرح ہے ۔

موسوعۃ الحدیث
یہ شعبہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم اور بعض دوسرے علماء کی تجویز پر قائم کیں گیا ہے، اس شعبہ کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ:​
احادیث نبوی میں جتنی بھی احادیث ہیں ان کو ایک جگہ اس طرح جمع کیا جائے کہ کوئی حدیث مکرر نہ ہو اور کوئی فائدہ چھوٹنے نہ پائے اور ساتھ ساتھ اس کو ایک عالمی نمبر الاٹ کیا جائے جو اس حدیث مع اس کے جمیع طرق کے اس کی شناخت بن جائے جس طرح قرآن کریم کی آیات کے نمبر مخصوص ہیں۔ اس مقصد کے لئے شیخ االاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی زیدمجدہم نے ۱۴۲۲ھ کو مکہ مکرمہ میں علماء کرام کا اجتماع منعقد فرمایا۔ سب نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ذمہ اس کے طریق کار اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا تھا۔
ابتداً پچاس ایسے مصادر منتخب کئے گئے جن میں احادیث مسندہ مروی تھیں بعد ازاں ان میں اضافہ کردیا گیا، اب ان مصادر کی تعداد ۷۵ ہے، ان مصادر کی احادیث کو جمع کرنے کا کام جاری ہے اور اب تک تقریباً ساڑھے سات ہزار احادیث کے سوا دو لاکھ طرق پر کام ہوچکا ہے اور اس موسوعہ کے لئے مخصوص سافٹ وئیر میں ان کو فیڈ کیا جاچکا ہے۔
اس کے نگران اعلیٰ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم ہیں اس شعبہ کا نام ’’موسوعۃ الحدیث‘‘ ہے۔ اس شعبہ میں دس ذی استعداد فاضلین ومتخصصین کام کر رہے ہیں۔

------------------​
اس کی پہلی جلد کا ٹائٹل یہ ہے ۔ عرب میں چھپی ہے ۔
DH9kFwtUAAAEJ6I.jpg
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اس عظیم علمی خدمت کے بارے میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک تعارفی مضمون شائع ہوا ہے ۔ایک بھائی شوکت علی نے وہ اپلوڈ کیا ہے ۔اللہ جزائے خیر دے ۔
یہ اب تک غالباََ احادیث مبارکہ کا سب سے بڑا موسوعہ لگ رہا ہے ۔
BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ منہج بھی خوب ہے ۔ اس میں بڑے مدارس کے متخصصین کو بھی بلکہ ہندوستان کے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔
عرب علماء کی مخطوطات پر بہت پہنچ ہے ۔ اکثر ذخائر اُدھر ہی ہیں ۔اس لئے ان کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ تاکہ کچھ رہ نہ جائے ۔
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ منہج بھی خوب ہے ۔ اس میں بڑے مدارس کے متخصصین کو بھی بلکہ ہندوستان کے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔
عرب علماء کی مخطوطات پر بہت پہنچ ہے ۔ اکثر ذخائر اُدھر ہی ہیں ۔اس لئے ان کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ تاکہ کچھ رہ نہ جائے ۔
بات آپ کی صحیح ہے،لیکن وہ کہاوت ہے نا کہ بارہ باورچی میں سالن خراب ہوجاتاہے،اس میں بھی یہی معاملہ ہوسکتاتھااوردوسرے یہ کہ بڑے علماءکو زیادہ فرصت نہیں ہوتی،اس کا مشاہدہ ہم نے ہندوستان میں کیاہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ کے تحت عائلی قوانین کا ایک مجموعہ تیار ہوناتھالیکن بڑے بڑے علماء کی بڑی بڑی مصروفیات کی وجہ سے یہ کام صرف اردو میں ہی اب سے تھوڑا عرصہ پہلے مکمل ہواہےحالانکہ ضرورت اس کو انگریزی میں منتقل کرنے کی تھی اور وہ مناسب اورخاطرخواہ طورپر اب تک نہیں ہوپایاہے،وجہ وہی ہے جو ماقبل میں ذکر کی گئی،ہاں مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
لیکن اگر دیگوں کا تخمینہ ہی بہت زیادہ ہو تو باورچی زیادہ بھی ہوجاتے ہیں ۔ہاں باورچیوں میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔(مسکراہٹ)
مشورہ تو لیا گیا ہے جیسے اُن کے مضمون میں ہے ۔اور اس میں ہندوستان اور عرب کے بھی علماء تھے ۔
بڑے علماء کی مصروفیات کا مجھے بھی گلہ ہے ۔اسی لئے تو اچھے خاصے بڑے حضرات بھی متقدمین تک کو چھوڑکر ۔قال البانی۔لکھتے رہتے ہیں۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم مولانا محمود حسن کملائی بھائی @محمو حسن کملائی ۔ آپ کا نام احادیث مبارکہ کے موسوعۃ ۔المدونہ الجامعہ کے محققین میں دیکھا ہے ۔
بہت خوشی ہوئی کہ آپ یہاں موجود ہیں کہ آپ سے بات ہو سکتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس خدمت کی جزا دے ۔ اور مزید وسعت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے ۔

پہلی جلد کے بعض مقامات سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اتنے بڑے علماء اور متخصص حضرات کے سامنے ہم جہلا کچھ بھی نہیں ۔اس لئے اس کو تنقید نہ سمجھئے گا ۔

احادیث کی ترقیم میں بعد کی کتب کو اساس بنا کر آغاز کیا گیا ہے ۔جس میں بخاری و مسلم سرفہرست ہیں ۔اگرچہ اس میں ہرج نہیں ہے

لیکن اگر جمیع احادیث کا استیعاب مقصود تھا تو زیادہ بہتر ہوتا کہ سب سے پہلی کتب کو سمیٹتے سمیٹتے آگے بڑھتے۔ اور ترقیم میں اس کو مد نظر رکھتے ۔ ظاہر ہے کہ بعد کی کتب پہلی کتب سے نقل کرتی ہیں تو اصل تو پہلی کتب ہوئیں۔

کچھ مثالیں عرض کرتا ہوں ۔

الرقم العالمي للحديث 1

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»

1.بخاري. ص

الطرق الاخري لحديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه
2.مالك. موطا (محمد)
3.ابن المبارك . زهد
4.الطيالسي
5.الحميدي
وغيره

اس میں صحیح بخاری کی روایت کو اساسی بنایا گیا ہے ۔ اور پھر اس کی تخریج ۳۴ کتب سے کی گئی ہے ۔

امام بخاری نے صحیح میں اس کو ۶ جگہہ روایت کیا ہے ۔ اس میں سے دو طریق امام مالک کے اور ایک حمیدی کا ہی ہے ۔

اور امام مالک سے روایت کرنے والے موطا روایت کرنے والے ہیں ۔

اور موطا بروایت محمد میں یہ موجود بھی ہے ۔ تو یہ اساسی طریق ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس کے بعد امام ابن مبارک کا طریق تخریج میں پہلے اور پھر طیالسی پھر حمیدی کا ۔۔۔زمانی ترتیب سے ۔

---------------------------------

الرقم العالمي للحديث 335

حدَّثنا عبدُ الله بن مَسلمة القعنبيُّ، عن مالكٍ، عن زيد بن أبي أُنَيسَة، أن عبدَ الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب أخبره، عن مسلم ابن يَسارِ الجهنىِّ
أن عمر بن الخطاب سُئِلَ عن هذه الآية: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ} [الأعراف: 172]- قال: قرأ القعنبيُ الآية - فقال
عمر: سمعتُ رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم - سُئِلَ عنها، فقال رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: "إنَّ الله عزَّ وجل خلق آدمَ،....الحديث

1.سنن ابو داود . س

اس کے دوسرے 13طرق تخريج میں یوں آغاز کیا گیا ۔

الطرق الاخري لحديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه
2.مالك. موطا .يحيى
3. احمد. م
وغيره

امام ابو داودؒ جو خود موطا کی سند سے ہی روایت کر رہے ہیں ۔ تو زیادہ بہتر ہوتا کہ امام مالکؒ کے موطا کے طریق کو اساسی اور
سنن ابو داود کے طریق کو اس کے ذیل میں بیان کیا جاتا ۔

------------------------------------

صحيفه همام بن منبه جو براہ راست حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،سے زیادہ عالی کتاب شاید ابھی تک کوئی نہیں ہے ۔ ممکن ہے مخطوط کوئی ہو ۔

اس میں لگ بھگ ۱۳۸ احادیث ہیں ۔

مجھے یہ مصادر میں نظر نہیں آئی ممکن ہے ہو ۔لیکن اس کا حوالہ نہیں ہے ۔

بہر حال اس کو اساسی مصادر میں سرفہرست ہونا چاہیے ۔

الرقم العالمي للحديث 380

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، وَيُنَصِّرَانِهِ، كَمَا تُنْتِجُونَ البَهِيمَةَ، هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ، حَتَّى تَكُونُوا أَنْتُمْ تَجْدَعُونَهَا؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ؟ قَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ»

1.بخاري. ص

اس کے ۲۲ طرق بیان کیےگئے ہیں لیکن صحیفہ ہمام بن منبہ کا حوالہ نہیں دیا گیا ۔ اس طريق كا عالي ترين ماخذ صحیفہ ہمام بن منبہ ہے اور اس میں یہ حدیث موجود ہے ۔ اور امام بخاری بھی ان کی ہی سند بیان کر رہے ہیں۔

66 - وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُولَدُ يُولَدُ عَلَى هَذِهِ الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ، كَمَا تُنْتِجُونَ الْبَهِيمَةَ، هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ حَتَّى تَكُونُوا أَنْتُمْ تَجْدَعُونَهَا؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ؟ قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ»

(صحيفه همام بن منبه)

تو اس کو اساسی بنانا چاہیے تھا ۔

پھر، موطا ، طیالسی ، عبد الرزاق ، حمیدی ، احمد ۔۔۔پھر صحاح ستہ وغیرہ

جبکہ اس کا تو حوالہ بھی نہیں ہے ۔

--------------------

حدیث جبریلؑ ۔

شاهده من حديث عبد الله بن عمر رضي الله عنه

الرقم العالمي الفرعي : 2/3
اس کی تخریج میں بھی کئی کتابوں کے ساتھ مسند الحارثی کا حوالہ ہے ۔ جب کہ عالی اور اصح ماخذ چھوڑ دیا گیا ہے ۔

الآثار – ابي حنيفة (الشيباني)

384 - محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة قال: حدثنا علقمة بن مرثد الحضرمي, عن يحيى بن يعمر قال: بينا نحن في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ رأيت ابن عمر رضي الله عنهما قاعدا في جانبه, فقلت لصاحبي: هل لك أن تأتي ابن عمر فتسأله عن القدر؟ فقال: نعم فقلت: دعني حتى أكون أنا الذي أسأله, فإني أرفق به منك, فأتيناه فقعدنا إليه فقلت له: يا أبا عبد الرحمن, إنا قوم نتقلب في هذه الأرضين, فربما قدمنا البلد به قوم يقولون: لا قدر, قال: أبلغوهم أني منهم بريء, وأني لو أجد أعوانا لجاهدتهم, قال: ثم أنشأ يحدثنا قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في ناس من أصحابه إذ أقبل شاب جميل, حسن اللمة, طيب الريح, عليه ثياب بيض فقال: السلام عليك يا رسول الله, السلام عليكم, فرد النبي صلى الله عليه وسلم ورددنا, ثم قال: أدنو يا رسول الله؟ فقال: ادنه, فدنا رتوة أو رتوتين, ثم قام موقرا له, ثم قال: أدنو يا رسول الله؟ فدنا رتوة أو رتوتين, ثم قام موقرا له, ثم قال: أدنو يا رسول الله؟ فقال: ادنه, حتى جلس, فألصق ركبتيه بركبة رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: أخبرني عن الإيمان ...الحديث

-----------------------------

شاهده من حديث سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه

الرقم العالمي الفرعي 330/2

23-ابن ابي عاصم- س.....من طريق ابي حنيفة عبد العزيز بن رفيع, عن مصعب بن سعد بن أبي وقاص, عن أبيه رضي الله عنه, عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من نفس إلا قد كتب الله مدخلها, ومخرجها, وما هي لاقية. فقال رجل من الأنصار: ففيم العمل يا رسول الله؟ قال: كل من كان من أهل الجنة يسر لعمل أهل الجنة, ومن كان من أهل النار يسر لعمل أهل النار.

فقال الأنصاري: الآن حق العمل.

24-الحارثي- مسند

25-البيهقي - القدر

وغيره

یہ روایت ابو حنيفة – الآثار (الشيباني) میں موجود ہے تو پھر عالی ماخذ کا ذکر کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔

383 - محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة, عن عبد العزيز بن رفيع, عن مصعب بن سعد بن أبي وقاص, عن أبيه رضي الله عنه, عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من نفس إلا قد كتب الله مدخلها, ومخرجها, وما هي لاقية. فقال رجل من الأنصار: ففيم العمل يا رسول الله؟ قال: كل من كان من أهل الجنة يسر لعمل أهل الجنة, ومن كان من أهل النار يسر لعمل أهل النار.

فقال الأنصاري: الآن حق العمل.
(آثار ابي حنيفه بروايت محمد)


---------------------------------------------------

الرقم العالمي للحديث 332

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ بَيِّنْ لَنَا دِينَنَا كَأَنَّا خُلِقْنَا الْآنَ، فِيمَا الْعَمَلُ الْيَوْمَ؟ أَفِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ، وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، أَمْ فِيمَا نَسْتَقْبِلُ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ» قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ زُهَيْرٌ: ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو الزُّبَيْرِ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَسَأَلْتُ: مَا قَالَ؟ فَقَالَ: «اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ»،

1- مسلم- ص

أجمع الطرق

حدثنا بشر بن موسى ثنا أبو عبد الرحمن المقري ثنا أبو حنيفة عن أبي الزبير عن جابر : أن سراقة بن مالك بن جعشم المدلجي قال : يارسول الله أخبرنا عن ديننا هذا كأننا خلقنا له الساعة في شيء نعمل ؟ أفي شيء تثبت فيه المقادير وجرت فيه الأقلام أم في أمر مستأنف ؟ قال : بل فيما تثبت فيه الأقلام قال سراقة : ففيم العمل يارسول الله ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اعملوا فكل عامل ميسر لما خلق له وقرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم هذه الآية فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى - بلاإله إلا الله - فسنيسره لليسرى وأما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى - قال : لا إله إلا الله - فسنيسره للعسرى


2- الطبراني – ك

اور پھر بیسیوں طرق سے تخریج کی گئی۔

یہاں پر یہ امام ابوحنیفہؒ کا طریق کو اجمع الطرق تو فرمایا گیا ہے تو اس کو ہی اساسی قرار دے دیا جاتا ۔ اور مسلم کا طریق نیچے تخریج میں دے دیا جاتا ۔ لیکن چونکہ منہج میں بخاری و مسلم کو اساس بنایا گیا ہے اس لئے ایسا نہیں کیا گیا۔

لیکن یہ اجمع الطرق ۔۔۔طبرانی سے نقل کیا گیا ہے جب کہ عالی اور اصل ماخذ یعنی

ابو حنيفة – الآثار (الشيباني) اور

ابو حنيفة – الآثار (ابو يوسف) دونوں میں موجود ہے ۔ اس سے نقل کرنا زیادہ مفید ہوتا۔

581 - يُوسُفُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ سُرَاقَةَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آثار ابي حنيفة رواية ابو يوسف)


بَابُ التصديق بالقدر
382 - محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة قال: حدثنا أبو الزبير, عن جابر بن عبد الله الأنصاري رضي الله عنه, عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سأله سراقة بن مالك ۔۔۔۔۔۔۔

(آثار ابي حنيفة رواية محمد)

-----------------

میری ذاتی رائے میں اگر کسی چیز کا استیعاب مقصود ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ اول سے شروع کیا جائے نہ کہ درمیان سے ۔

اگرچہ اس میں ہرج کوئی نہیں ۔ لیکن زیادہ بہتر ہوتا ۔

اور امید ہے کہ ابھی چونکہ کام بہت بڑا ہے اس لئے چھوٹی باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں ۔ ان شاء اللہ جب طرق جمع ہو جائیں گے تو پھر مزید غور کیا جاسکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ آپ حضرات پر کام کو آسان فرمائے اور سب سے بہتر طریقہ کی طرف راہنمائی فرمائے۔ آمین
 
Top