فرقہ غیر مقلدین کی طرف سے پیش کی جانے والی تقلید کے رد میں احادیث کا جواب

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
فرقہ غیر مقلدین کی طرف سے پیش کی جانے والی تقلید کے رد میں احادیث کا جواب

پہلی حدیث:- "و کل بدعة ضلالة" اور ہر بدعت گمراہی ہے (صحیح مسلم،کتاب الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة ح۸۶۸ وترقیم دارالسلام ۵۰۰۲)

تقلید صحابہ کے دور سے تھی تو بدعت کیسے ہوئی،

امام غزالیؒ(شافعی) فرماتے ہیں:

"تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" (المستصفى:٢/٣٨٥)


حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں۔

لان الناس لم یز الوا من زمن اصحابۃ الٰی ان ظہرت المذاھب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلما ء من غیر نکیر یعتبر

حضرت صحابہ کرام ؓ کے زمانہ سے لے کر مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگ علماء کرام میں سے جس کا بھی اتفاق ہوتا برابر تقلید کرتے رہے اور بغیر کسی قابل اعتبار انکار کے یہ کاروائی ہوتی رہی اگر تقلید باطل ہوتی تو وہ حضرات ضرور اس کا انکار کرتے۔ (عقید الجید ص29)


دوسری حدیث:- "فیبقی ناس جھال یستفتون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون"

(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے (صحیح بخاری) کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح ۷۰۳۷)

اعتراض انتہائی جہالت پر مبنی ہے۔ یہ حدیث تو آپ کے فرقے کے گمراہ ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔ ہمارے فقہاء خیر القرون اور اس سے منسلک زمانے کے ہیں یہ قیامت کے قریب تو آپ ہی کے فرقے کا ذکر ہے۔


تیسری حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو، عالم کی غلطی ، منافق کا مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمھاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو "فلا تقلدوہ" تب بھی اس کی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ۔الخ (المعجم الاوسط جلد ۹ ص۶۲۳، روایت مرسل ہے)

روایت کی حقیتﻭَﺑِﻪِ:ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﺍﻟﻠَّﻴْﺚُ ﻗَﺎﻝَ:ﻗَﺎﻝَ ﻳَﺤْﻴَﻰ ﺑْﻦُ ﺳَﻌِﻴﺪٍ، ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﺃَﺑُﻮ ﺣَﺎﺯِﻡٍ، ﻋَﻦْ ﻋَﻤْﺮِﻭ ﺑْﻦِ ﻣُﺮَّﺓَ، ﻋَﻦْ ﻣُﻌَﺎﺫِ ﺑْﻦِ ﺟَﺒَﻞٍ، ﻋَﻦْ ﺭَﺳُﻮﻝِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ : ‏«ﺇِﻳَّﺎﻛُﻢْ ﻭَﺛَﻠَﺎﺛَﺔً: ﺯَﻟَّﺔَ ﻋَﺎﻟِﻢٍ، ﻭَﺟِﺪَﺍﻝَ ﻣُﻨَﺎﻓِﻖٍ، ﻭَﺩُﻧْﻴَﺎ ﺗَﻘْﻄَﻊُ ﺃَﻋْﻨَﺎﻗَﻜُﻢْ .ﻓَﺄَﻣَّﺎ ﺯَﻟَّﺔُ ﻋَﺎﻟِﻢٍ ﻓَﺈِﻥِ ﺍﻫْﺘَﺪَﻯ ﻓَﻠَﺎ ﺗُﻘَﻠِّﺪُﻭﻩَ ﺩِﻳﻨَﻜُﻢْ، ﻭَﺇِﻥْ ﺯﻝَّ ﻓَﻠَﺎ ﺗَﻘَﻄَّﻌُﻮﺍ ﻋَﻨْﻪُ ﺁﻣَﺎﻟَﻜُﻢْ . ﻭَﺃَﻣَّﺎ ﺟِﺪَﺍﻝُ ﻣُﻨَﺎﻓِﻖٍ ﺑِﺎﻟْﻘُﺮْﺁﻥِ، ﻓَﺈِﻥَّ ﻟِﻠْﻘُﺮْﺁﻥِ ﻣَﻨَﺎﺭًﺍ ﻛَﻤَﻨَﺎﺭِ ﺍﻟﻄَّﺮِﻳﻖِ، ﻓَﻤَﺎ ﻋَﺮَﻓْﺘُﻢْ ﻓَﺨُﺬُﻭﻩُ، ﻭَﻣَﺎ ﺃَﻧْﻜَﺮْﺗُﻢْ ﻓَﺮَﺩُّﻭﻩُ ﺇِﻟَﻰ ﻋَﺎﻟِﻤِﻪِ . ﻭَﺃَﻣَّﺎ ﺩُﻧْﻴَﺎ ﺗَﻘْﻄَﻊُ ﺃَﻋْﻨَﺎﻗَﻜُﻢْ، ﻓَﻤَﻦْ ﺟَﻌَﻞَ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻓِﻲﻗَﻠْﺒِﻪِ ﻏِﻨًﻰ ﻓَﻬُﻮَ ﺍﻟْﻐَﻨِﻲّ.

ترجمہ: لیث نے یحی بن سعید سے انہوں نے ابو حازم سے انہوں نے عمر بن مرہ سے انہوں نے معاذ بن جبل سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزوں سے بچوں

1۔ عالم کی غلطی

2۔ منافق کا (قرآن لے کر) مجادلہ کرنا

3۔ اور دنیا جو تمہاری گردنوں کو کاٹے گی رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو تب بھی اسکی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا

( المعجم الاوسط للطبرانی ج8 ص 307،حدیث نمبر 8715)


اسکی سند یوں ہے۔ لیث ،یحی بن سعید ،ابوحازم، عمر و بن مرہ بن عبداللہ، معاذ بن جبل

یہ روایت منقطع ہے عمرو بن مرہ بن عبداللہ الکوفی نے معاذ بن جبل سے روایت کو سنا نہیں ہے بلکہ انکا دور بھی نہیں پایا

چناچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ عمر بن مرہ بن عبداللہ بن طارق الکوفی کی وفات سن 118 ہجری میں ہوئی ہے بعض نے ا س سے پہلے کہا۔(تقریب التہذیب 1/426 رقم 5112)

اور معاذ بن جبل کی وفا ت سن 18 ہجری میں ہوئی ہے(تقریب ص535 رقم 6725 ،الاصباح لل ابن حجر6/137،138)عمرو بن مرہ نے معاذ بن جبل کا زمانہ نہیں پایا ۔امام بخاری کہتے ہیں

ﺳﻤﻊ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﻭﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻟﻴﻠﻰ ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﺴﻴﺐیعنی عبداللہ بن ابی اوفی ،عبدالرحمن ابی لیلی، سعید بن مسیب، سے حدیث کو سنا ہے۔(تاریخ الکبیر البخاری ج6 ص 8733)یہی بات حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں

(تقریب التہذیب ج8 ص 7163، لسان المیزان ابن حجر ج7 ص13672)مزید امام ذہبی نے بھی یہی بات کہی ہے

(سیر العلام النبلاء 5/196-200 ص1074)چناچہ یہ بات واضح ہوگئی کہ عمر بن مرہ نے روایت معاذ بن جبل سے نہیں سنی اور روایت منقطع ہوئی امام ہیثمی ا پنی کتاب مجمع الزوائد میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ عمر بن عبداللہ کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں۔

(مجمع الزاوائد الہثمی)منقطع روایت کے متعلق اصول حدیث کا ضابطہ

امام ذہبی فرماتے ہیں منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے

(تلخیص المستدرک ،ایڈیشن حیدرآباد ج3 ص176)


چوتھی حدیث:- جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا (رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶)

یہ حدیث اس پر دلالت کر رہی ہے کہ حضورﷺکی شریعت قیامت تک ہے۔ ہم اپنے امام کی فقہ کے مطابق حضور کی شریعت پر ہی عامل ہیں۔ نعوذ باللہ ہمارے امام صاحب نے فقہ کے مسائل حضور ﷺ کی شریعت سے ہٹ کر نہیں بنائے۔

واللہ اعلم
 
Top