غیر مقلدین کی طرف سے مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع کا جواب

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
فرقہ نام نہاد اہل حدیث جس کی بنیا د دھوکے اور فریب پر رکھی گئی تھی۔ اس فرقے نے اسی دھوکے پر مبنی کبار ائمہ کے اقوال تقلید سے متعلق نقل کیے۔ ان اقوال کے نقل کرنے میں اس فرقے نہ انتہائی دجل سے کام لیا ہے۔ اور تقلید کا ایک مطلب اتباع بھی ہے۔ اس کے مفہوم کو مجتہد کے مسائل میں عامی کی تقلید پر فٹ کرنا سوائے فریب کے اور کچھ نہیں۔

اس کے علاوہ جو اقوال نقل کیے اس میں عربی عبارات کی غلط تشریحات کی گئی ہیں۔ ایک بات اور مزاحیہ بھی ہے کہ جو خود مقلد ہو وہ تقلید کو برا کیسے کہے گا۔ یہاں پر غیر مقلد یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسی تقلید نہیں کی جیسی دیوبند والے کرتےہیں۔ یہ انتہائی بے کا ر اعتراض ہے۔ اس کا جواب تو یہ ہے انہوں نے جب مطلق تقلید کے متعلق ایسا کہا تو اس میں کچھ جزوی تقلید کی بات تو نہ رہی۔

کبار آئمہ کے تقلید سے متعلق اصل اقوال بھی نقل کر دیے گئے ہیں تاکہ فرقہ نام نہاد اہلحدیث کے دھوکے سے پردہ اٹھایا جا سکے۔


امام ابو جعفر الطحاوی حنفی رحمہ اﷲسے مروی ہے، تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو معتصب اور بے وقوف ہوتا ہے۔لسان المیزان،جلد:1 ،صفحہ:280


جواب :امام طحاوی تو خود مجتہدین فی المسائل کے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے ”بن حربویہ“ کو بطور طنز کے غصہ میں فرمایا تھا اوراس لیے فرمایا تھا کہ وہ مسائل واحکام کے دلائل اور مآخذ کو وہ نہیں سمجھ رہے تھے تو اسے غصہ میں یہ جملہ کہہ دیا غبی یا عصبی جیسے کوئی استاذ کسی اپنے غبی شاگرد کو جو نہ سمجھ رہا ہو ”گدھا“ کہہ دے یا جاہل کہہ دے، اس جملہ کو قاعدہ کلیہ قرار دینا اور اس سے تقلید کرنے کا رد سمجھ لینا صحیح نہیں ہے اور کیونکر یہ صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ خود بھی مقلد تھے یعنی حنفی تھےتو مستقل ان کی کتابیں فقہ حنفی سے متعلق ہیں۔


سوال: امام (عامر بن شراحیل) الشعبی (تابعی، متوفی ۱۰۴)گ یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑلو اور جو بات اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔ (مسند الدارمی 206سندہ صحیح)


جواب: سوال میں امام شعبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے جو بات نقل کی گئی ہے وہ یہ ہے ”أخبرنا محمد بن یوسف حدثنا مالک ہو بن مغول قال قال لي الشعبي ما حدثوک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخذ بہ وما قالوہ برأیہم فألقہ في الہش“ امام شعبی نے فرمایا یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑلو اور جو بات اپنی طرف سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جو بات رائے سے کہی جائے وہ ناقابل قبول ہے۔ یہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ رائے دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) محمود (۲) مذموم۔ جو رائے قرآن وسنت اجماعِ امت اور قیاسِ صحیح کے مطابق ہو وہ رائے محمود ہے اور اس طرح کی رائے کا ثبوت احادیث سے ثابت ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا منصبِ قضا سپرد کرتے وقت آپ نے ارشاد فرمایا اے معاذ! یمن میں جاکر لوگوں کے درمیان فیصلہ کیسے کروگے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر لوگوں کے فیصلے کروں گا، آپ علیہ السلام نے پوچھا: اگر تجھے وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو حضرت معاذ نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اس کا حل تلاش کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دونوں میں نہ ملے تو حضرت معاذ نے فرمایا ”اجتہد برأیی ولا آلو“ میں اپنی رائے سے حل کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کے سینہ مبارک پر اپنا دست مبارک مارا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تونے اپنے نبی کے قاصد سے وہ بات کہلوائی جس سے تیرا پیغمبر خوش ہوگیا ”فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال الحمد اللہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ“ (أبوداود ص۱۴۹باب اجتہاد الرأي في القضا) اسی طرح حضرت ابوبکر وعمر حضرت عبد ا للہ ابن عباس وحضرت عبد اللہ ابن مسعود سے بھی یہی طریقہ مروی ہے کہ وہ اگر کوئی حکم قرآن وسنت میں نہیں پاتے تو پھر قرآن وسنت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے، دیکھئے (اعلام الموقعین: ۶۲) مستدرک علی الصحیحین: ۴/۹۴، مسند الدارمی، رقم الحدیث: ۱۶۷، سنن النسائی: ۲/۲۶۰، تو جو رائے محمود ہے وہ تو محمود پسندیدہ ہے، ہاں اس کے مقابلے میں ایک رائے مذموم ہے، یعنی ایسی رائے جو قیاس ونصوص کے مقابلے میں ہو اور جس سے نصوص کا رد اور بدعات کی ترویج اور اشاعت لازم آتی ہو ایسی رائے مذموم وقابل رد ہے، فتح المنان جو مسند دارمی کی شرح ہے، اس کا مصنف شیخ ابوعاصم، نبیل بن ہاشم الغمری نے باب فی کراہیة اخذ الرأی کی شرح میں لکھا ہے: وترک ما جائت بہ السنة ․․․ ووجہ ما أوردہ من الأحادیث والآثار أن من أسباب ظہور البدع أخذ الناس في الرأي والہوی، وترکہم للہدي النبوي وما جائت بہ السنة (فتح المنان: ۳/۲۳۸) یعنی ایسی رائے اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے جس سے سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑنا لازم آئے، امام دارمی کے اس باب میں احادیث وآثار لانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بدعات کی ترویج واشاعت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ رائے (مذموم) اور خواہشات کے پیچھے پڑجائیں اور ہدایت نبوی اور ان امور کو چھوڑدیں جو سنت سے ثابت ہوں۔

لہٰذا جن روایات میں رائے کو ترک کرنے کا حکم ہے وہاں رائے مذموم مراد ہے، رائے محمود کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

حافظ ابن عبدالبر اندلسی رحمہ اللہ نے فرمایاتھا،مقلد اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔جامع بیان العلم وفضلہ،جلد:2، صفحہ:228

امام عبد البر رحمہ اﷲ نے فرمایاتھا،اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقلد جاہل مطلق ہوتا ہے۔جامع بیان العلم وفضلہ، جلد:2، صفحہ:992


یہ آپ نے کس عبارت کا ترجمہ کیا ہے۔ اصل عربی عبارت اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

ولم يختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها

”علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عامی آدمی پر علماء کی تقلید لازم ہے“۔

(جامع بيان العلم ص390)




عینی حنفی رحمہ اﷲنے فرمایا تھا،پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہرچیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔البنا یۃشرح الھدایہ،جلد:1،صفحہ:317

علامہ عینی خود حنفی تھے اور یہ اعتراض آپ نے جس کتاب سے نقل کیا ہے وہ ہے ہدایہ کی شرح۔یہاں سے ہی آپ کی جہالت عیاں ہوجاتی ہے۔

علامہ صاحب کے اس جملہ سے تقلید کا رد مقصود نہیں بلکہ صرف شیخ علاوٴ الدین رحمہ اللہ کی ایک غلطی پر تنبیہ مقصود ہے کہ شیخ علاوٴ الدین رحمہ اللہ نے محض نقل میں دوسرے کی اتباع کرنے کی وجہ سے غلطی کردی یعنی جو روایت در اصل مُسلم عن ابی ہریرہ مروی تھی محض دوسرے کے نقل پر اعتماد کی وجہ سے مسلم عن طلحہ کردی ، علامہ عینی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:


ووہم الشیخ علاء الدین الترکمانی فی عزوہ ہذا الحدیث لمسلم عن طلحة وإنما رواہ مسلم عن أبی ہریرة - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - وروی بعضہ عن جابر ولم یخرج مسلم لطلحة فی کتابہ إلا فی خمسة أحادیث لیس ہذا منہا․ شیخ علاء الدین ترکمانی کو وہم ہوا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم کے حوالے سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی مروی قرار دیا حالانکہ صحیح مسلم میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس روایت کے بعض الفاظ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں، امام مسلم نے تو اپنی ”صحیح“ میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے صرف پانچ احادیث کی تخریج کی ہیں، ان میں یہ روایت نہیں ہے۔ اس کے بعد علامہ عینی نے بھی صحیح مسلم کی وہی پانچ روایات نقل کیں اور اس کے بعد مذکورہ بالا جملہ یوں لکھا: فالمقلد ذہل والمقلد جہل وآفة کل شیء من التقلید” بات نقل کرنے والے سے بھول ہوکئی اور جس شخص سے بات نقل کی ہے اس سے بھی خطا ہوگئی ہے اور ہرشیٴ کی آفت اسی بلا تحقیق نقل کا نتیجہ ہے۔ (البنایة: ۱/ ۳۷۱)


پتہ چلا کہ علامہ عینی کا مقصد اصطلاحی تقلید کی نفی نہیں ہے، اس کی یہ نظیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ علامہ عینی نے عمدة القاری شرح بخاری میں سورہٴ یوسف کی تفسیر کے تحت ایک لفظ کے بارے میں امام بخاری پر ان الفاظ سے علمی گرفت کی ہے: ”قلت کأنہ لم یفحص عن ذلک کما ینبغي وقلدہ أبا عبیدة والآفة من التقلید“ میں (علامہ عینی) کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس لفظ کی جس طرح تحقیق کرنی چاہیے تھی تحقیق نہیں کی بلکہ امام ابوعبیدہ کی اتباع کی ہے اور یہ آفت اسی نقل کی وجہ سے ہے۔ (عمدة القاری: ۱۸/ ۲۰۳) اگر غیرمقلدین کو ان مقامات پر ”تقلید“ کا اصطلاحی معنی کرنے پر ہی اصرار ہے تو کیا ”قلد أبا عبیدہ“ کی وجہ سے امام بخاری علیہ الرحمة کو امام ابوعبیدہ کا مقلد اور ان کی تقلید کرنے والا قرار دیں گے؟



زیلعی حنفی رحمہ اﷲنےکہا تھا،پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔نصب الرایہ ،جلد:1،صفحہ:219

جواب: علامہ زیلعی خود حنفی تھے اور جس کتاب سے آپ نے اعتراض نقل کیا ہے یہ کتا ب علامہ صاحب نے ہدایہ کے مسائل کا جن احادیث سے اخراج کیا گیا ہے اس پر لکھی ہےاس لیے آپ کا اعتراض باطل اور جہالت پر منبی ہے۔


غیرمقلدین کا امام زیلعی رحمہ اللہ کے اس جملے ”قالمقلد ذہل والمقلَّد جہل“ سے تقلید کا رد کرنا ثابت نہیں؛ کیونکہ امام زیلعی رحمہ اللہ نے ایک خاص پس منظر میں یہ بات کہی ہے، اس جملہ میں انھوں نے اپنے شیخ کی ایک غلطی پر تنبیہ کی ہے اور وہ غلطی یہ تھی کہ ان کے شیخ علاوٴ الدین نے ایک حدیث کو جس کی تخریج امام مسلم نے بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے دوسرے کی تقلید میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردی گویا ان سے دوسرے کی اتباع میں یہ غلطی ہوگئی، پوری عبارت اس طرح ہے: ووہم الشیخ علاء الدین الترکمانی فی عزوہ ہذا الحدیث لمسلم عن طلحة وإنما رواہ مسلم عن أبی ہریرة - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - وروی بعضہ عن جابر ولم یخرج مسلم لطلحة فی کتابہ إلا خمسة أحادیث لیس ہذا منہا․ ”ہمارے شیخ علاوٴ الدین کو وہم ہوا کہ انھوں نے کسی دوسرے شخض کی پیروی میں اس حدیث کو صحیح مسلم کے حوالے سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی مروی قرار دیا حالانکہ امام مسلم نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس روایت کے بعض الفاظ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں، امام مسلم نے تو اپنی صحیح میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے صرف پانچ احادیث تخریج کی ہیں، ان میں یہ روایت نہیں ہے۔“ (نصب الرایہ: ۱/ ۱۱۳)



اس کے بعد صحیح مسلم کی وہ پانچ روایات نقل کرنے کے بعد امام زیلعی فرماتے ہیں: فالمقلد ذہل والمقلَّد جہل یعنی بات نقل کرنے والے سے بھول ہوگئی اور جس شخص سے بات نقل کی ہے اس سے بھی خطا ہوگئی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ یہاں تقلید اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ یہاں قلد کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ کسی دوسرے کی بات نقل کرنا جیسا کہ سیاق وسباق سے بالکل واضح ہے۔ اور تقلید اصطلاحی کا رد امام زیلعی رحمہ اللہ کیسے کرسکتے ہیں جب کہ وہ خود مقلد ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں غیرمقلدین نے تین خیانتیں کی ہیں: (۱) تقلید کو اصطلاحی معنی میں استعمال کیا جب کہ یہاں لغوی معنی میں مستعمل ہے۔ (۲) یہاں پہلا لفظ ”مقلِّد“ صیغہ اسم فاعل بمعنی بات نقل کرنے والا ہے اور دوسرا لفظ مقلَّد صیغہ اسم مفعول بمعنی وہ شخص جس سے بات نقل کی جائے، لیکن غیرمقلدین نے دونوں کو اسم فاعل کا صیغہ بنادیا۔ (۴) یہاں لفظ ”ذہِل“ ہے جس کا معنی ذہول اور بھول ہونا ہے لیکن غیرمقلدین نے اس کا معنی ”خطا“ والا کردیا یعنی غلطی کرنا۔

سوال: غیرمقلدین امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ کے اس قول سے تقلید کا رد کرتے ہیں: امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ کہنا واجب ہے کہ ہروہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے امام سے منسوب ہوجائے، اس انتساب پر وہ دوستی رکھے اور دشمنی رکھے تو یہ شخص بدعتی ہے۔ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے چاہے (انتساب) اصول میں ہو یا فروع میں۔ (الکنز المدفون والفلک المشحون ص ۱۴۹)


جواب: علامہ جلال الدین سیوطی کی جو بات آپ نے نقل فرمائی ہے ان کی اصل عبارت عربی میں تحریف کرکے آپ نے گمراہی اپنے سر لے لی ۔ حالانکہ علامہ صاحب فرماتے ہیں

وقال الإمام السيوطي رضي الله عنه : (اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملّة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سرٌّ لطيف أدركه العالِمون، وعَمِي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي ﷺ جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة) كما في۔ (أدب الاختلاف، ص25)

خوب جان لو کہ اختلاف المذاہب مِلت اسلام میں بہت بڑی نعمت اورعظیم فضیلت ہے ، اوراس میں ایک لطیف راز ہے جس کو علماء ہی جانتےہیں ، اورجاہل لوگ اس راز سے غافل وبے خبرہیں ، حتی کہ میں نے بعض جاہل لوگوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ توایک شریعت لے کرآئے یہ مذاہب اربعہ کہاں سے آگئے ؟


حافظ ذہبی رحمہ اﷲنے فرمایا تھا،ایک مذہب کی قید کو وہی اختیار کرتا ہے جو حصول علم پر قادر ہونے سے قاصر ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے کے اکثر علماء میں یا جو متعصب ہوتا ہے۔

سیراعلام النبلاء،جلد:14، صفحہ:491

حافظ ذہبی فرماتے ہیں

نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم يسغ له أن يقلد كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا فكيف يجتهد وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟

ترجمہ:

” جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعد آئمہ دیں اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اسکے اکثر حصے کا حافظ ہو اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑھے گا ابھی اسکے پر بھی نہیں نکلے؟“۔

(سير أعلام النبلاء ج 13 ص 337)

معلوم ہوا کہ امام ذہبیؒ کے نزدیک بھی یا تو بندہ اجتہاد کی اہلیت رکھ کر اجتہاد کرے گا اور جو نہیں کر سکتا وہ تقلید کرے اور اس سے معلوم ہوا کہ مجتہد کی تقلید بے دلیل بات کی پیروی کا نام نہیں بلکہ غیر مجتہد کا مجتہد کی پیروی کرنے کا نام ہے۔

امام ذہبیؒ کا ایک اور فرمان جس سے ساری غیرمقلدیت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔

چنانچہ ایک سوال نقل کرتے ہیں اور پھر اس کا جواب دیتے ہیں:

وَالأَخْذُ بِالحَدِيْثِ أَوْلَى مِنَ الأَخْذِ بِقَولِ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيْفَةَ) .

قُلْتُ: هَذَا جَيِّدٌ، لَكِنْ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ بِذَلِكَ الحَدِيْثِ إِمَامٌ مِنْ نُظَرَاءِ الإِمَامَيْنِ مِثْلُ مَالِكٍ، أَوْ سُفْيَانَ، أَوِ الأَوْزَاعِيِّ

ترجمہ :

” حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہی“۔

اس پر رد کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں:۔

”میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالکؒ یا امام سفیانؒ یا امام اوزاعیؒ“

(سير أعلام النبلاء ج 16 ص 405)


امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایاتھا، یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں۔تفسیر القرطبی جلد:2،صفحہ:212

امام صاحب تو یہ فرما رہے ہیں

تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي ذَمِّ التَّقْلِيدِ لِذَمِّ اللَّهِ تَعَالَى الْكُفَّارَ بِاتِّبَاعِهِمْ لِآبَائِهِمْ فِي الْبَاطِلِ، وَاقْتِدَائِهِمْ بِهِمْ فِي الْكُفْرِ وَالْمَعْصِيَةِ. وَهَذَا فِي الْبَاطِلِ صَحِيحٌ، أَمَّا التَّقْلِيدُ فِي الْحَقِّ فَأَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ

ترجمہ :

”کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصولوں میں سے ہے“۔

(تفسير القرطبي ج2 ص 211)



زمحشری رحمہ اﷲنےفرمایاتھا، اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی۔اطواق الذہب۔صفحہ:74

زمخشری معتزلہ فرقہ کے عالم تھے۔ آپ تقلید کے مسئلہ میں انکا قول معتبر سمجھتے ہیں تو عقیدہ میں بھی معتبر سمجھ لیں۔


امام ابن قیم رحمہ اللہ نےفرمایاتھا، علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر۔القصیدۃ النونیۃ

امام ابن قیم تو یہ فرماتے ہیں

فَالْجَوَابُ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ ذَمَّ مَنْ أَعْرَضَ عَمَّا أَنْزَلَهُ إلَى تَقْلِيدِ الْآبَاءِ، وَهَذَا الْقَدْرُ مِنْ التَّقْلِيدِ هُوَ مِمَّا اتَّفَقَ السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ عَلَى ذَمِّهِ وَتَحْرِيمِهِ، وَأَمَّا تَقْلِيدُ مَنْ بَذَلَ جَهْدَهُ فِي اتِّبَاعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَخَفِيَ عَلَيْهِ بَعْضُهُ فَقَلَّدَ فِيهِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ فَهَذَا مَحْمُودٌ غَيْرُ مَذْمُومٍ، وَمَأْجُورٌ غَيْرُ مَأْزُورٍ، كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ عِنْدَ ذِكْرِ التَّقْلِيدِ الْوَاجِبِ وَالسَّائِغِ إنْ شَاءَ اللَّهُ.

[ إعلام الموقعين (ج:2ص:130)]

” تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو اس کی نازل کردہ سے اعراض رکھے اور اپنے آبا و اجداد کی تقلید کرے ایسی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ اربعہؒ اور سلف صالحین کا اتفاق ہے ۔ اور ایسے شخص کی تقلید جو کوشش کرکے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ کی اتباع کرے اور جو بظاہر چیزیں اس پر مخفی(چھپی) رہ جاتی ہیں ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید کرتا ہے تو یہ ”محمود “ ہے ”مذموم“ نہیں اس میں وہ ماجور ہے(یعنی اگر مسئلہ غلط ہوا تو خطاپر بھی اجر ملے گا) اس پر کوئی وبال نہیں اور اس کا بیان تقلید واجب اور جائز میں آئے گا ان شاء اللہ تعالٰی“۔


امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ ہدایت پر رہیں گے جب تک ان میں حدیث کے طالب ہوں گے جب حدیث چھوڑکر اور چیزیں طلب کریں گے تو بگڑ جائیں گے۔

میزان الشعرانی فصل فی بیان ماورد فی دم الرائی عن الشارع وغیرہ جلد ۱ صفحہ:71


امام صاحب تو یہ فرماتے ہیں

واذا کان المفتي علي ھذه الصفة فعلي العامي تقليده وان کان المفتي اخطأ في ذالك ولا متبحر بغيره ھكذا ”روی“ الحسن عن ابي حنيفة ورستم عن محمد و بشیر عن ابي یوسف

ترجمہ:

”عامی شخص پر مفتی کی تقلید واجب ہے اگرچہ مفتی سے خطا ہو جائے اسے ایک اجر ملے گا“۔ یہ قول ہے امام ابو حنیفہؒ، قاضی ابو یوسفؒ ، محمد بن الحسن شیبانیؒ ، محمد بن بشیرؒ کا“۔

(الهداية مع شرح الكفاية كتاب الصوم ج 1 ص 598)

علامہ الوسی حنفی رحمہ اﷲنے فرمایا تھا۔اگر گمراہی کا کوئی باپ ہے تو تقلید اس کا باپ ہے۔روح المعانی -ج:1، ص:97

علامہ صاحب کا حنفی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ علامہ صاحب تقلید کے قائل ہیں۔ اپنی تفسیر میں وہ تقلید سے متعلق کیا فرماتے ہیں۔

اتباع الغير في الدين بعد العلم بدليل ما أنه محق فاتباع في الحقيقة لما أنزل الله تعالى- وليس من التقليد المذموم في شي

ترجمہ:

”دینی معاملات میں کسی کا اتباع کرنا جب کہ اس کے حق پر ہونے کا علم بھی ہو درحقیقت اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، تقلید مذموم کا اس سے کوئی ربط و جوڑ نہیں“۔

( روح المعاني ج 1 ص 438)

علامہ آلوسیؒ اپنے تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

على جواز تقليد العام في الفروع

”عامی (غیرمجتہد) پر فروع میں تقلید جائز ہے“۔

(روح المعانی ج 7 ص 387)


سلطان باہو رحمہ اﷲ نے کہا تھا،اہل تقلید صاحب دنیا،اہل شکایت اور مشرک ہوتے ہیں۔توفیق الہدایت، صفحہ:167

حوالہ نقل کرنے میں انتہاء کی بے ایمانی کا اظہار فرقہ غیر مقلد کی نشانی ہے،

یہ عبارت جس موضوع سے نقل کی گئی ہے ویہ ہے توحید کے ذکر کی تشریح

اس سےایک سطر پہلے سلطان باہو تو فرماتے ہیں کہ اہل توحید صاحب ہدایت، غنایت اور تحقیق ہوتے ہیں آگے وہ اہل تقلید کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ اہل تقلید وہ جو ایمان کے خلاف ہے۔جبکہ ہمارا مسئلہ تو اجہتادی مسائل میں عامی کے تقلید کرنے کا ہے

صوفی سلطان باہورحمہ اﷲ مقلدوں کا حقیقی مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا، بلکہ اہل تقلید جاہل اور حیوان سے بھی بدتر ہیں۔

توفیق الہدایت، صفحہ:0 2


یہ بھی اوپر کےحوالہ کی طرح توحید کے برخلاف اہل تقلید کی بات کرتے ہیں۔ اس سے اوپر کی سطور میں لکھا ہے کہ راہ توحید اسم اللہ کے حاضرات کے سبب ایک چابی ہے ناقص لوگ خزائن الہی کی اس چابی سے بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ وہ اہل تقلید ہوتے ہیں سو اہل تقلید اور توحید کی ہم نشینی راست نہیں آتی۔

ہمارا مسئلہ تو اجہتادی مسائل میں عامی کے تقلید کرنے کا ہے
 

imani9009

وفقہ اللہ
رکن
ابوزید قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی رحمہ اﷲ نے مقلد کی مذمت کرتے ہوئے کہاتھا، تقلید کا ماحصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں چوپایوں کے ساتھ ملادیتا ہے..اگر مقلد نے اپنے آپ کو جانور اس لئےبنالیا ہے کہ وہ عقل وشعور سے پیدل ہے تو اس کا (دماغی) علاج کرانا چاہیے۔تقویم الادلہ فی اصول الفقہ،صفحہ:390

قاضی ابو زید دبوسینے تقویم الادلہ میں جس تقلید کی مذمت فرمائی ہے،اس سے مراد وہ تقلید ہے جو کسی غور وفکر کے بغیر محض آنکھ بند کرکے کی جائے جیسا کہ کفار ومشرکین اپنے آبا واجداد کی تقلید کرتے تھے؛ کیوں کہ قاضی صاحب نے یہ بات ان بعض حشویہ کی تردید کرتے ہوئے فرمائی ہے جو کفار ومشرکین والی اندھی تقلید کو صحیح ودرست قرار دیتے ہیں؛ جب کہ جمہور اہل علم کا متفقہ قول یہ نقل فرمایا کہ ایسی اندھی تقلید باطل وغیر معتبر ہے ؛چناں چہ قاضی صاحب نے آگے تقلید کی چار قسمیں کی ہیں اور ان میں سے ۳/ قسموں کو صحیح قرار دیا ؛ کیوں کہ ان میں کسی نہ کسی درجے میں عقل کا استعمال اور غور وفکر کا عمل پایا جاتا ہے اور چوتھی کو باطل قرار دیا ؛ کیوں کہ وہ محض اندھی تقلید ہے ۔اور چوتھی قسم یہ ذکر فرمائی : تصدیق الأبناء الآباء والأصاغر الأکابر فی الدنیا: یعنی: اولاد کا اپنے آبا واجداد کی اور دنیوی اعتبار سے جو چھوٹے ہوں ، ان کا اپنے سے بڑے لوگوں کی باتیں آنکھ بند کرکے ماننا اور ان کی تصدیق کرنا۔ پس جو غیر مقلد مطلق تقلید یا ائمہ اربعہ کے متبعین میں پائی جانے والی تقلید کے رد میں قاضی ابو زید دبوسیکی عبارت پیش کرتا ہے ، وہ دجل وفریب سے کام لے رہا ہے اور صاحب کلام کی صحیح مراد سے ہٹ کر من مانا مطلب گڑھ رہا ہے ، اللہ تعالی اسے ہدایت عطا فرمائیں۔ اور جو لوگ ایسے شخص کی باتوں سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور کتاب کا سیاق وسباق دیکھ کر صحیح بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ بھی قابل افسوس ہیں۔ ذیل میں قاضی ابو زید دبوسیکی تقویم سے ضروری عبارت نقل کی جاتی ہے، وہ اچھی طرح ملاحظہ کرلی جائے:

فالمقلد في حاصل أمرہ ملحق نفسہ بالبھائم فی اتباع الأولاد الأمھات علی مناھجھا بلا تمییز فإن ألحق نفسہ بھا لفقدہ آلة التمییز فمعذور فیداوی ولا یناظر، وإن ألحقہ بھا ومعہ آلة التمییز فالسیف أولی حتی یقبل علی الآلة فیستعملھا ویجیب خطاب اللہ تعالی المفترض طاعتہ، وقد ذم اللہ تعالی الکفرة علی قولھم: ”اتبعنا أکابرنا وسلفنا“ذما لا یخفی علی من آمن باللہ وأقر بالکتاب الخ (تقویم الأدلة في أصول الفقہ للدبوسي، باب القول في أقسام التقلید الخ، ص:۳۹۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ثم التقلید ینقسم إلی أربعة أقسام: تصدیق الأمة صاحب الوحي، وتصدیق العالم صائب الرأي ونظر في باب الفقہ ظھر سبقہ علی أقرانہ من الفقہاء وتصدیق العامة علماء عصرھم وتصدیق الأبناء الآباء والأصاغر الأکابر فی الدنیا۔ والوجوہ الثلاثة صحیحة؛ لأنہ یقع عن ضرب استدلال فإن التمییز بین النبي صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ لا یقع إلا بضرب استدلال فلم یکن تقلیداً محضاً۔ وکذلک تقلید العالم عالماً ھو فوقہ ؛ لأن زیادة المرتبة لا تعرف إلا بضرب استدلال، وکذلک تقلید العامي العالم؛ لأنہ ما میز العالم وغیرہ إلا بضرب استدلال إلا أنہ ترک ما ھو الأولی بہ من النظر فی الحجج وربما یعاتب علیہ فما ترک الأولی إلا بکسل فإن التمییز بین الحجج لصعب والکسل فی الدین مذموم، والباطل ھو الوجہ الرابع ؛ لأنھم اتبعوہ بھوی نفوسھم بلا نظر عقلي واستدلال وعملوا عمل البھائم کما سمی اللہ تعالی أنعاماً بل أضل ؛ لأنھم وجدوا آلة التمییز فلم یستعملوھا فلم یکونوا معذورین والبھائم قد فقدت الآلة فکانت معذورة بل لم تکن مأمورة، واللہ أعلم (المصدر السابق، ص ۳۹۱)۔
 
Top