ہاں! 123 وقف جائیدادوں کا مقدمہ جیت لیا گیا

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
ولانا محمد ولی رحمانی
سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر
(نوٹ:حضرت مولانا ولی رحمانی مدظلہ العالی حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی کے خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے دادا محترم مولانامحمد علی مونگیری دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بانی اورمشہورعارف باللہ حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مسترشد تھے۔ آپ کے والد محترم مولانا منت اللہ رحمانی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بانی اوربہار ،جھارکھنڈ اورآڑیسہ کے امیرشریعت تھے۔مولاناولی رحمانی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہیں۔ ندوہ اوردیوبند کے فارغ ہیں۔ اس کے بعد امتیازی نمبرات کے ساتھ پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیاتھا۔ سیاست کے خارزار میں بھی آبلہ پائی کی ہے اورمدتوں بہار قانون ساز کونسل کے ڈپٹی چیرمین اورچیرمین رہے ہیں۔
آپ علوم اسلامیہ پر گہری نگاہ کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ بالخصوص قانونی امور پرگہری نگاہ رکھتے ہیں۔
اب آپ کی پوری توجہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کی طرف ہے۔ ایک طرف آپ جہاں جامعہ رحمانی جیسے مشہور دینی ادارہ کے سرپرست ہیں تو وہیں دوسری جانب آپ نے رحمانی سوپر30کاادارہ قائم کیاہے اوراسی کے ساتھ مسلم بچوں کی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اوردیگر سخت مقابلہ جاتی امتحانات کی کوچنگ اورتربیت کا ذمہ لیاہواہے۔
آپ کے بارے مین مختصراتناعرض گزار ہوں
درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق
ہرہوسناکے نداند جام وسنداں باختن
زیر نظر تحریردہلی کے وقف املاک پر قانونی لڑائی کی ہے اس تحریر سے قانونی امورپرگرفت ،ملی جائیداد کی بازیافت کی فکر اورپھر تحریر کی دلکشی اورچاشنی اوراس کا تیکھااسلوب سب کچھ معلوم ہوتاہے ۔)

2011ء کے شروع میں یہ خبر اخبارات کی زینت بنی،کہ دہلی میں 123 وقف جائدادوں کا مقدمہ جیت لیا گیا، پھر مبارکباد اور حضرت سلامت کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور مسلمانوں کو محسوس کرایا گیا، کہ مرکزی حکومت نے ایک ''بڑا کارنامہ'' انجام دیا ہے، لیکن حقیقت وہ نہیں ہے، جو لوگ سمجھ رہے ہیں، پڑھے لکھے حضرات بھی چیزوں کو گہرائی سے دیکھے اور سمجھے بغیر مبارکباد دینے کے لئے لپک پڑتے ہیں، یہ دانشوروںکی خوبی نہیں کہی جاسکتی درباریوں کا وطیرہ ہوتو ہو،___ ''مقدمہ کی جیت'' کا مرحلہ گذرگیا، تو دل چاہا کہ اس سلسلہ کی آپ بیتی لکھدوں، تاکہ اندازہ ہوکہ'' سرکاری کام'' کرنے کے آداب کیا ہیںاور ہمیں کس طرح ٹھگا جاتا ہے !
جناب عبد الرحمان انتولے صاحب سے مسلم پرسنل لابورڈ کا وفد وقف بل کے موضوع پر گفتگو کرچکا تھا،اور تحریری رائے دے چکا تھا، وفد رخصت ہؤا تو جناب انتولے نے مصافحہ کیا اور میرا ہاتھ پکڑے اپنے چیمبر میں لے گئے، وہاں جناب سلمان خورشیدصاحب بھی تشریف لائے، محترم انتولے صاحب نے فرمایاکہ آپ کے خط پر ہم لوگ غور کررہے ہیں، واقعہ یہی ہے کہ میںنہیں سمجھ سکا، کہ میرے کس خط کی طرف ان کا اشارہ ہے، میں نے عرض کیا کہ ضرور غور کیجئے، مگر ابھی یہ بتا دیجئے کہ غوروفکر کا سلسلہ اگلے الیکشن کے بعد تو پورا نہیں ہوگا__؟ اس پر جناب سلمان خورشید صاحب نے کہا کہ ''ہاں وقت تو بہت لگ گیامیں خود بارہ تیرہ بار کورٹ جاچکاہوں، کورٹ میں دیر ہورہی ہے، آپ نے جو راستہ بتایا ہے، وہ صحیح ہے، اور آسان بھی ہے ، ہم لوگ روڈ میپ Road Mapبنا رہے ہیں جلد ہی آپ کے نسخہ پر عمل ہوگا''۔
ان جملوں کے پوراہونے تک مجھ پر واضح ہوچکاتھا، کہ میرے کس خط پر غور کیا جارہا ہے، اور روڈ میپ کس کام کے لیے بن رہا ہے، اور یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ مجھے ان جملوں سے کیوں اطمینان دلایا جارہا ہے۔
بات یہ تھی کہ فروری 2006ء میں میں نے محترمہ سونیا گاندھی کو ایک تحریردی، جس میں یہ لکھا تھا کہ دہلی میں ایسی 123 وقف کی جائدادیں ہیں، جوشہری ترقیات کی وزارت کے قبضہ میں ہیں، اور انھیں محترمہ اندرا گاندھی کی ہدایت پر ٤٨٩١ء میں دہلی وقف بورڈکے حوالہ کرنا تھا۔ میں نے خط میںان جائدادوں کا پس منظر لکھا تھا، کہ 1912ء 1914ء میں دہلی میں وقف کی جائدادو ں کو ایکوائر کیا گیاتھا، اس زمانہ سے ان اوقاف کے متولی منتظم حضرات برابر ایکو زیشن کی مخالفت کرتے آئے، متعلق لوگ عدالتوں میں بھی گئے۔
مرکزی حکومت نے محترم ایس ایم ایچ برنی کی چیرمین شپ میں کمیٹی بنادی، محترم برنی صاحب نے تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس میں ایسی ٠٥٢ وقف جائدادوں کی فہرست دی گئی تھی، جنہیں کمیٹی کی رائے میں وقف بورڈ کے حوالہ کرینا چاہئے ، کیونکہ ان کے وقف ہونے میںکہیں سے کوئی شبہ نہیں تھا، اور برابر وہ بطور وقف استعمال میں رہی تھیں___رپورٹ کے بعد بحث کا سلسلہ چلا، تو ایک دوسری کمیٹی جناب میر نصراللہ صاحب کی چیرمین شپ میں بنائی گئی، محترم میر صاحب نے ٣٢١ جائدادوں کی نشاندہی کی، جسے شہری ترقیات کی وزارت کودہلی وقف بورڈ کے حوالہ کردینا چاہئے تھا۔
محترمہ اندرا گاندھی صاحبہ نے اس سلسلہ میں واضح ہدایت دی کہ 123جائداد دہلی وقف بورڈ کے حوالہ کی جائے__ وزارت نے نوٹی فیکشن جاری کردیا، مگر اس نوٹی فیکشن میں 123جائدادوں کو حوالہ کرنے کی بات نہیں تھی، بلکہ ایک روپیہ سالانہ پٹہ (کرایہ) پر یہ موقوفہ جائداد دہلی وقف بورڈ کو دی گئی تھی، یعنی پچیس سال پاپڑ بیلنے کے بعد بھی وہ 123 جائداد وزارت شہری ترقیات ہی کی رہی، ہاں اتنا ہؤا کہ علامتی کرایہ پر یہ جائداد بطور کرایہ دار دہلی وقف بورڈ کے حوالہ کی گئی، اور یہ بھی تاریخی سچ ہے کہ اس نوٹی فیکشن کے دہلی وقف بورڈ پہونچنے سے پہلے اندرا پرستھا وشو ہندو پریشد کے دفتر پہونچ گیا، اور پریشد نے دہلی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا، کہ اتنی قیمتی جائداد کو ایک روپیہ علامتی کرایہ پر دیناکسی طرح درست نہیںہے، 1984ء میں یہ مقدمہ دہلی ہائی کورٹ میں دائر ہؤا، اور چلتا رہا، جس میں تقریباََ درجن بھر مرتبہ خود جناب سلمان خورشید صاحب بحث کے لئے دہلی ہائی کورٹ جاچکے تھے۔
محترمہ سونیا گاندھی صاحب سے میں نے اپنے خط میں یہ عرض کیا تھا، کہ اس پورے معاملہ میں گڑبڑ کی جڑ غلط نوٹی فیکشن ہے، اس نوٹی فیکشن کو کینسل کردیا جائے، اور ملکیت کی منتقلی کا نوٹی فیکشن جاری کردیا جائے، دہلی ہائی کورٹ میں نوٹی فیکشن ہی کو چیلنج کیا گیاہے، جب اسے کینسل کردیا جائیگا، تو سارا مقدمہ ختم ہوجائے گا، یہ ایک ایسی بات جو آسانی سے سمجھ میں آسکتی تھی، اور محترمہ سونیا جی نے کہا بھی ___''یہ تو آسان کام ہے''۔ پھر سونیا جی نے کیا کیا، مجھے اس کی اطلاع نہیںملی، میں نے یہ ضرورکیا، کہ اس خط کی نقل انہیں ہر سال بھیجتا رہا،
مجھے اس دن معلوم ہؤا کہ میرا وہ خط محترمہ سونیا گاندھی کے دفتر سے وزارت اقلیتی فلاح کو بھیجا گیا، اور وہاں اس خط پر گفتگو ہوئی، اسی لئے جناب عبد الرحمان انتولے صاحب مجھے میٹنگ روم سے اپنے چیمبر لے گئے، اور جناب سلمان خورشید صاحب نے''روڈ میپ'' تیار کرنے کی بات فرمائی، میں نے کہا بھی ''پتہ نہیںآپ کس طرح کا روڈ میپ بنانا چاہتے ہیں، سیدھی سی بات ہے شریمتی اندراگاندھی نے 1984ء میں ان جائدادوں کووقف بورڈ کے حوالہ کرنے کا حکم دیا تھا، مگر حکم ''افسر گردی '' کا شکار ہوگیا___ اب میراخط سونیا جی کے حکم سے یہاں آیاہے، آپ دونوں ہی بہت بڑے قانون داں ہیں، شہری ترقیات کے وزیر سے گفتگو کرلیجئے اور1984ء کے نوٹی فیکشن کو کینسل کراکے نیا نوٹی فیکشن جاری کرادیجئے''یہ بہت سیدھا سا معاملہ ہے، میںمدرسہ کا مولوی ہوں، اس مقدمہ کو سمجھ رہا ہوں، آپ لوگ بڑے قانون داں ہیں، اسے تو آپ کو 84 ئ میں سمجھ لینا چاہئے تھا، جناب سلمان خورشید صاحب نے فرمایا کہ ہاں ہاں! اس کے لئے روڈ میپRoad Mapبنارہاہوں، بات آئی گئی ہوگئی۔
کم وبیش تین سال گذرگئے، میرے علم میں یہ بات نہیں آسکی تھی، کہ میپ بن سکاہے یا نہیں؟ سوال صرف میپ کا نہیں تھا، اس کے بعدرو ڈ کو بھی بننا تھا، اس لئے میں بے چین تھا، ٣ جولائی 2010ء کو جب مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد سے جناب سلمان خورشید صاحب کی باقاعدہ ملاقات ہوئی، تو وقف ایکٹ کے موضوع پر بات چیت کے بعد میں نے 123 جائداد کے ریلیز Releasکرنے کی بات یاددلائی، اوراپنے خط کا تذکرہ کیا، (میںنے وہ تجویز جناب سلمان خورشید صاحب کے وزیر بننے کے بعددوبار انہیں بھیجی تھی) تو انھوں نے کہا کہ میرا خط انھیں نہیں ملا ہے، ایسے نازک موقعہ پر تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ کہنے والے کی صداقت پر بے ارادہ یقین کرلینا چاہئے ، میں نے بھی وہی کیا، اور عرض کیا کہ میرے ان جملوں کے ذریعہ یاددہانی کو کالعدم سمجھئے میرا خط آپ کو جلد ہی مل جائے گا۔
اگلے ہی دن 4٤ جولائی کو ہمدرد یونیور سٹی میں مائنوریٹی کنسٹرٹیڈ ڈسٹرکٹ ملٹی سکٹورل ڈیولپمنٹ پلان سے متعلق اجلاس میں جناب سلمان خورشید صاحب سے پھر ملاقات ہوگئی، وہ اس اجلاس کی شمع محفل تھے، اور میں گرد کارواں___ میں نے ''وہ خط'' انھیں تھما دیا، جب سلمان خورشید صاحب نے خطاب فرمایا تو اس خط کے مضمون کا ہلکا سا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہا کہ ''123 جائداد کے متعلق میںنے وزیر شہری ترقیات سے گفتگو کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت اگر وقف بورڈ کو جائداد دیناچاہتی ہے تو اس میں کسی کو دشوار ی نہیں ہونی چاہیے،دوسرے اسے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ ہم جائداد ضروردینگے.......وغیرہ وغیرہ میں تقریر سنتا رہااور سونچتا رہاکہ شاید ابتک روڈ میپ تیا ر نہیں ہؤا ہے۔
فروری 2006ء کے خط پر ٤ جولائی 2010ء تک جو کاروائی ہوئی تھی، میرے سامنے تھی، سیدھا سا معاملہ تھا جسے طے کرنے کے لئے محض'' سیاسی ارادہ'' کی ضرورت تھی، ہاں! ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑنے سے بہت آسان یہ تھا، کہ معاملہ کیبنٹ میں اٹھا دیا جائے ، یا شہری ترقیات کے وزیر سے دو ٹوک بات کرلی جاتی، یہ بھی ممکن نہ تھا، تو سونیا جی کو ہی لکھدیا جاتاکہ وہ مداخلت کریں اور شہری ترقیات کے وزیر سے بات کرلیں، مگر مجھے افسوس ہے کہ پچاس سال کی کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر ی ترقیات کی وزارت کے نوٹی فیکشن کو دہلی ہائی کورٹ نے مان لیا ____اس فیصلہ کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ جائداد بہر حال شہری ترقیات کی وزارت کی ملکیت ہے، جسے دہلی وقف بورڈکو علامتی کرایہ پر دیا جانا درست ہے، اب بھلا بتائیے ! دو دو کمیشن کے بنوانے میں برسوں لگے، کمیشن کی رپورٹ آنے میں جو وقت لگا، وہ اپنی جگہ۔ پھر چھبیس سال کے بعد عدالت کا فیصلہ لینے اورنصف صدی کی عوامی جدو جہد اور سرکار والا تبار کی نیک نیتی اور حسن خدمت کے نتیجہ میں بات یہی ٹھہری کہ زمین اصلاً ''وقف ''نہیں ہے ___سچ یہی ہے کہ '' وہ ہارکر نہ ہارے ،میں جیت کربھی ہارا___''! اور اب بھی جناب سلمان خورشید صاحب اطمینان دلارہے ہیں کہ وہ وزیر شہری ترقیات سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیںاور ڈی نوٹی فائی کے لئے لگے ہوئے ہیں۔
چھبیس سال پہلے (1984ء میں) ایسا لگا تھا کہ گاڑی آگے بڑھ رہی ہے، مگر ایک قدم آگے بڑھا نہیں تھا، کہ دو قدم پیچھے ہوگئے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملاح نے کشتی کو ساحل کے کسی مضبوط درخت سے باندھ دیا ہے، اور رات بھرپتوار کھیتا رہا ہے، رات بھر کشتی ہلتی رہی، مسافر سمجھتے رہے کہ کشتی چل رہی ہے، صبح کی روشنی پھیلی تو پتہ چلاکہ کشتی ساحل سے لگی ہے، ملّاح نے کشتی کو روک رکھا تھا!
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شکریہ
اچھی معلومات ہے۔اس طرح کی معلومات بھی الغزالی پر ضروری ہیں ۔تہہ،دل سے
مشکور ہوں۔والسلام
 
Top