حسبنا اللہ کے معجزانہ تجربہ شدہ کمالات (سرور منیر، اسلام آباد)

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حسبنا اللہ کے معجزانہ تجربہ شدہ کمالات (سرور منیر، )​

کلام الٰہی کا اعجاز ہمیں زندگی کے اکثر پہلوﺅں میں نظر آتا ہے۔ قارئین کی خدمت میں دو ایسے واقعات پیش کر رہاہوں جو اسی اعجاز کے مظہر ہیں۔ یہ واقعات ممتاز سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ ہند میں تحریر کئے ہیں۔
”میں ایک ایسے گاﺅں میں گیا جہاں کے لوگ پانی پینے کیلئے بارش کا پانی تالابوں میں جمع کر لیتے ہیں۔ مجھے اس پانی سے گھن آرہی تھی۔ میں نے ایک کچا کنواں دیکھا اس پر مونج کی رسی پڑی ہوئی تھی لیکن ڈول نہ تھا۔ میں نے رسی میں اپنی دستار باندھی اس میں جو کچھ پانی لگ گیا میں وہ چوسنے لگا لیکن پیاس نہ بجھی پھر میں نے اپنا چمڑے کا موزہ رسی سے باندھا لیکن رسی ٹوٹ گئی اور موزہ کنویں میں جاپڑا۔ پھر میں نے دوسرا موزہ باندھا اور پیٹ بھر کر پانی پیا اچانک مجھے ایک شخص نظر آیا۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو یہ شخص کالے رنگ کا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوٹا اور عصا تھا اور اس کے کندھے پر جھولی تھی۔
اس نے مجھ سے السلام علیکم کہا، میں نے وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جواب دیا۔ اس نے فارسی میں دریافت کیا ”چہ کسی“ میں نے کہا کہ میں راستہ بھول گیا ہوں اس نے کہا کہ میں بھی راستہ بھولا ہوا ہوں۔ پھر اس نے اپنا لوٹا رسی سے باندھا اور پانی کھینچا میں نے ارادہ کیا کہ پانی پیوں اس نے کہا صبر کر۔ اس نے اپنی جھولی سے بھنے ہوئے چنے اور چاول نکالے اور کہا کہ : انہیں کھاﺅ۔ میں نے وہ کھائے اور پانی پیا۔ اس نے وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔
اس نے میرا نام پوچھا میں نے کہا: ابو عبد اللہ محمد میرا نام ہے (ابن بطوطہ کا اصل نام یہی ہے) ۔ پھر میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے کہا قلب فارح (خوش دل) میں نے سوچا آغاز تو ا چھا ہے اس نے کہا کہ میرے ساتھ چل۔ میں نے کہا اچھا۔ تھوڑی دیر تک میں اس کے ساتھ پیدل چلتا رہا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے میرے اعضا نے جواب دے دیا اورمیں کھڑا نہ رہ سکا۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں بہت تھک گیا ہوں، اب چلا نہیں جاتا۔ اس نے کہا سبحان اللہ! مجھ پر سوار ہو جاﺅ۔ میں نے کہا تو ضعیف آدمی ہے، مجھے اٹھا نہیں سکے گا۔ اس نے کہا تو سوار ہو جا، اللہ مجھے طاقت بخشے گا۔ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے کہا کہ تو ”حَسبُنَااللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ“ پڑھتا چلا جا۔میں نے اس کا ذکر شروع کیا اور مجھے نیند آ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بیدار ہوا تو اس آدمی کا پتہ نہ لگا۔ میں نے خود کو ایک آباد گاﺅں میں پایا۔
میں حیران تھا کہ سینکڑوں میل کا سفر پلک جھپکنے میں کیسے طے ہو گیا۔ یہ سب کچھ ”حَسبُنَااللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ“ کا اعجاز تھا۔یہ گاﺅں ہندوﺅں کا تھا۔ اس علاقے کا حاکم ایک مسلمان بادشاہ تھا۔ لوگوں نے اسے خبر دی تو وہ میرے پاس آیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ مجھے گرم گرم کھانا کھلایا۔ غسل دلایا اس نے کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک عمامہ ہے جوایک مصری شخص میرے پاس رکھ گیا تھا، وہ تم پہن لو۔ جب وہ عمامہ لایا تو یہ وہی کپڑے تھے جو میں نے اس مصری کو دیئے تھے جب وہ مجھے کول (بھارت کا ایک شہر) میں ملا تھا۔ میں نہایت متعجب ہوا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جو مجھے اپنے کندھوں پر سوار کر کے لایا، کون تھا۔
مجھے یاد آیا کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے ایک ولی اللہ ابوعبد اللہ مرشدی ملے تھے انہوں نے فرمایا تھا کہ تو ہندوستان جائیگا تو وہاں تجھے میرا بھائی ملے گا اور وہ تجھے ایک سختی سے رہائی دیگا اور قلب فارح کا بھی یہی ترجمہ ہے۔اب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی شخص تھا جس کی خبر مجھے شیخ ابو عبد اللہ مرشدی نے دی تھی۔ میں نے افسوس کیا کہ مجھے ان کی صحبت زیادہ دیر نصیب نہ ہوئی۔ ابن بطوطہ نے اسی آیت کریمہ کے اعجاز کا ذکر ایک اور واقعہ میں یوں کیا ہے۔ یہ واقعہ بادشاہ سلطان محمد تغلق شاہ کے دور کا ہے۔ ابن بطوطہ، تغلق کے دور میں دارالخلافہ دہلی کے قاضی کے اہم عہدے پر متمکن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے تختہ الٹنے کی ایک سازش کے انکشاف کے بعد دوسروں کیساتھ حضرت شہاب الدین شیخ جام کو بھی مورد الزام ٹھہرایا۔ انہیں ایک غار میں قید کر دیا گیا۔ یہ غار دہلی سے باہر تھی۔ ان کے ایام قید میں، میں ایک دن غار دیکھنے وہاں گیا تو شیخ شہاب الدین سے بھی ملاقات ہوئی۔کچھ عرصہ بعد بادشاہ اس غار کی جانب گیا اور شیخ شہاب الدین کے بیٹوں سے پوچھا کہ تمہارے باپ سے ملنے یہاں کون کون آتے تھے تو انہوں نے میرا نام بھی لیا۔ بادشاہ نے مجھے بھی قید کرنے کا حکم دیدیا۔ چار غلاموں کا پہرہ لگا دیا گیا۔ اس پہرے کا مطلب موت کا انتظار ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا جس پر یہ پہرہ لگایا جاتا ہے اس کا بچنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ مجھ پر جمعہ کے دن پہرہ لگا۔ میں نے ”حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ“پڑھنا شروع کیااور اس روز میں نے 33ہزار دفعہ یہ پڑھا۔ رات کو میں دیوان خانہ میں رہا اور پانچ دن کا ایک روزہ رکھا، ہر روز ایک کلام اللہ ختم کرتا تھا اور پانی سے افطار کرتا۔ پانچ دن کے بعد میں نے روزہ کھولا اور چار دن کا پھر روزہ رکھا۔ شیخ کے قتل کے بعد میری رہائی ہوئی۔ اس کے بعد میرا دل ملازمت سے کھٹا ہو گیا اور میں شیخ امام عالم عابد زاہد خاشع فرید الدہر وحید شیخ کمال الدین عبد اللہ غازی کی خدمت میں چلا گیا۔ یہ بزرگ اولیا اللہ میں سے تھے اور ان کی کرامتیں مشہور تھیں۔ میں نے دنیا ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنا سارا سامان مساکین کو تقسیم کرکے شیخ کی صحبت اختیار کی۔ شیخ دس دن اور بعض دفعہ بیس بیس دن کا روزہ رکھتے تھے میرا دل بھی چاہتا تھا کہ میں بھی اسی طرح روزے رکھوں، مجھے شیخ روک دیتے اور کہا کرتے تھے کہ عبادت میں اپنے نفس پر بہت سختی نہ کیا کرو۔
 

سرحدی

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ذکر میں واقعی دنیا و آخرت کی کامیابی اور سکون ہے جبکہ کلمات مبارکہ میں اللہ رب العزت سے مدد اور اللہ تعالیٰ کے کافی ہونے کی درخواست ہے۔
یقیناً جو اللہ رب العزت پر بھروسہ کرکے اپنے کام انجام دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کے لیے نکلنے کا راستہ نکال لیتے ہیں۔
بے شک اللہ ہی مدد کرنے والے ہیں۔
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
12887451669.gif
 
Top