مولانامحمدیونس صاحب جونپوری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرےمحبوب استاذکاتذکرۂ محبت

از؛مرشدربانی حضرت اقدس الشاہ مولانامنیراحمدصاحب دامت برکاتہم
(سرپرست ادارہ فیض منیرایجوکیشن ٹرسٹ، کالینا، بمبئی۸۹)
ناقابل فراموش محبتیں​
انسان اس دنیاکی زندگی میںجن شفقتوں، محبتوں، عنایتوں اورکرم فرمائیوںکونہیں بھول پاتا اورنہ ہی اسےبھولناچاہئےان میں والدین کرام،محسنین اساتذۂ کرام، مربین مشائخ اور مرشدین عظام کےسایہ میں نصیب ہونےوالی شفقتیں، محبت یں ا ورتوجہات ہوتی ہیں، یہ محبتیں اور شفقتیں انسان کےرگ وریشہ میں پیوست خون کی طرح قلب وروح کی گہرائیوں میں اپنا اثر اور اپنی یادیں چھوڑجاتی ہیں۔
مسندالعصرمحدث کبیرکی ذات گرامی کامحبت بھراسایہ
محدث جلیل، مسندالعصراورامیرالمؤمنین فی الحدیث فی عصرہ جیسےعظیم القاب سےحقیقت میں نوازےگئےسیدی واستاذی حضرت مولانامحمدیونس صاحب جونپوری ثم سہارنپوری شیخ الحدیث مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپوری کی ذات گرامی آج ہم خوردوں کیلئےیہی شان رکھتی ہے،آپ کےسانحۂ ارتحال سےعلم وعمل، زہدوورع، انابت وللّٰہیت کےساتھ فکروتحقیق کی دنیامیں ایک یتیمی کااحساس ہوتاہےاوریہ احساس بھی ایک بہت بڑی دلیل ہےاس مقبولیت ومحبوبیت کی جواللہ پاک نےحضرت کواپنےدربارمیں عطافرمائی تھی اورقلوب انسانی میں اس کی لہرڈال رکھی تھی، اللھم لاتحرمنااجرہ ولاثفتنابعدہ، إناللہ وإناالیہ راجعون اللھم لک ما أخذتہ ولک ماأعطیتہ وکل شئ عندک بأجل مسمی، اللھم اجرنا فی مصیبتناھذہ وأعقبنا منھا عقبی حسنہ، آمین
غم کےموقع پرصبرکرناعبادت ہےاورصبرآجاناعادت ہے،حضرت کی جدائی پرغم یقینی ہے، اللہ پاک حضرت کےدرجات اعلیٰ علیین کےمقربین خواص میں بلندفرمائےاورحضرت کی خدمات کی حفاظت فرماکردواماًقبول فرمائے،آمین۔
محبوب استاذ کامحبوب ونرالاکمال
وہ ہمارےمحبوب اورمکرم محسن استاذتھے، ہم اپنی نگاہ سےان کی شخصیت عظیمہ کوکیاتول سکتےہیں،ان کی بڑائی، ان کی بزرگی معروف ومشہوراوراظہرمن الشمس ہے، ہم نےان سےپڑھا ہےاوراستاذکےبارےمیں ہم سب کچھ کہاں بیان کرسکتےہیں، اس کےلئےایک لمبادفترچاہئے، ان کا مجاہدہ، ان کی قربانی، ان کاایثار، اللہ کےراستہ میں خرچ کرنےکاان کامزاج، ذوق عبادت، شوق و عشق حدیث، امت کی اصلاح کی فکر، یہ سب باتیں ہیں،اوراسی کےساتھ خوردوں پر شفقت اوران کی رعایت جیسی ایسی خوبیاں اورکمالات ہیں جو خصوصیت کےساتھ آپ کی زندگی میں نمایاںوعیاں تھیں اوراس زمانہ میں ان سب کاایک ہی شخصیت میں اجتماع بمشکل دیکھنے کو ملتا ہے،
مجاہدات پرایک نظر
حضرت استاذیؒ نےاپنی مبارک زندگی کامبارک سفرجن قربانیوں اورمجاہدات میں طے کیا ہےوہ آپ کی امتیازی خصوصیت ہے،اسےدیکھ کر،سن کریہ حقیقت سامنےآجاتی ہےکہ جیسی قربانی ویسی ہی اللہ پاک کی مہربانی،اللہ پاک کی کریم ذات ہے،وہ اپنےمخلص بندوں کی قربانیوںکی حفاظت فرماتےہیںاورہمارےبڑوں کی مبارک زندگی کایہی باب ہم خوردوں کیلئےبہت اہم ہےکہ اگر ہم اپنی زندگی کوتن آسانی کاخوگربنانےکےبجائے،اخلاص کےساتھ قربانی اورمجاہدہ کا عادی بنائیں تو رب کریم جل شانہ کےیہاں سےقبولیت اورمحبوبیت کاتمغاعطاہوتاہے، حضرت استاذی کی حیات مبارکہ کی ابتداء تاانتہاء دیکھنےسےاس امرکاپورایقین ہوجاتاہے۔
مولاناحمادکریمی ندوی صاحب نےحضرت استاذی کی سوانح سےمتعلق ایک خاکہ اور حضرت کی خودنوشت تحریرکامرقع شائع کیاہے، اس کودیکھ کراندازہ لگایاجاسکتاہےکہ کیسی عسر و تنگی کی حالت اورمجاہدہ میں ابتدائی تعلیم کامرحلہ طے ہوا اورحضرت کےموفق من اللہ ہونےکی علامت تھی کہ ابتداء سےہی اللہ پاک کےخاصان خاص بندے حضرت کےاساتذہ میں تھےجن کاتذکرہ حضرت  اپنےکلام میںاکثربڑی محبت سے فرمایا کرتےہیں، ان میں حضرت مولانا ضیاءالحق صاحب ، اورمرشدی واستاذی حضرت مولاناشاہ عبد الحلیم صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذات گرامی کاخصوصاتذکرہ فرمایاکرتےہیں، ان اکابرسےفیضیاب ہو کر حضرت استاذی مظاہرعلوم سہارنپورتشریف لائے ، پھر قربانیوں اورخلوص وطلب کامل نے ایسا پختہ بنایاکہ’’پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا‘‘ کی حقیقت آشکارہ کراتےہوئےوہیں سپرد خاک ہوئے،حضرت کی مبارک تحریرکوایک بارپھراپنی آنکھوں کامبارک سرمہ بناکربنظرمحبت ملاحظہ کرتے ہیں اوراندازہ لگاتے ہیں اس مجاہدہ، صدق و اخلاص اورطلبِ کامل کاجس کےساتھ رب کریم جل شانہ کی تائیدقوی شامل ہوتی ہےاوربفضلہ منزل تک رسائی ہوتی ہے، حضرت تحریر فرماتے ہیں:
’’تقریباً ۱۳ سال کی عمرمیں مدرسہ ضیاءالعلوم قصبہ مانی کلاںمیں داخلہ ہوا، ابتدائی فارسی سےلے کر سکندرنامہ تک اورپھرابتدائی عربی سےلے کر مختصر المعانی، مقامات وشرح وقایہ ونورالانوار تک وہیں پڑھیں۔
اکثرکتابیں استاذی مولاناضیاءالحق صاحب سےاورشرح جامی بحث اسم حضرت مولاناعبدالحلیم صاحب سے،مگرکثرت امراض کی وجہ سےبیچ میں طویل فترات واقع ہوتی رہیں،اس لئے تکمیل کافی مؤخرہوگئی ۔
پھریہ بھی پیش آیاکہ ہماری جماعت ٹوٹ گئی،ہم نےاولاًشرح جامی، شرح وقایہ،نورالانوار مولاناضیاءالحق صاحبؒ سےپڑھی تھیں، مگرجماعت نہ ہونےکی وجہ سے حضرت مولانا عبدالحلیم صاحبنےاگلےسال پھر انہیں کتابوں میں داخل کردیااورخودپڑھایا۔اس کےبعدشوال ۱۳۷۷؁ھ میں مدرسہ مظاہرالعلوم میں بھیج دیا، یہاں آکر پہلےسال جلالین، ہدایہ اولین، میبذی اور اگلے سال بیضاوی،سلّم، ہدایہ ثالث، مشکوۃ شریف اور تیسرے سال یعنی شوال ۱۳۷۹؁ھ تاشعبان ۱۳۸۰؁ھ دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی،اوراس سے اگلے سال کچھ مزید کتابیں ہدایہ رابع، صدرا، شمس بازغہ، اقلیدس، خلاصۃ الحساب، درمختار پڑھیں۔
شوال ۱۳۸۱؁ھ میں معین المدرس کےعہدہ پرتقررہوا،وظیفۂ طالب علمی کے ساتھ سات روپیہ ماہانہ ملتاتھا،شرح وقایہ اورقطبی زیرتعلیم وتدریس تھیں ، اگلے سال بھی یہی کتابیں رہیں اور وظیفہ ۱۰ روپےماہانہ ہوگیا،اس سے اگلےسال تیس روپئے خشک (یعنی بلاطعام) پرتقررہوا،اورمقامات وقطبی سپرد ہوئیں، اور اس سے اگلے سال یعنی چوتھےسال شوال ۱۳۸۴؁ھ سے ہدایہ اولین،قطبی واصول الشاشی زیرتدریس تھیں۔
اسی سال ذی الحجہ ۱۳۸۴؁ھ میںحضرت استاذی مولاناامیراحمدصاحب کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کا انتقال ہوجانےکی وجہ سےمشکوۃ شریف استاذی مفتی مظفر حسین صاحب کےیہاں سےمنتقل ہوکر آئی ،جوباب الکبائرسےپڑھائی، پھرآئندہ سال شوال ۸۵؁ھ میںمختصرالمعانی، قطبی، شرح وقایہ، مشکوۃ شریف مکمل پڑھائی، اور شوال ۸۶؁ھ میں ابوداؤد شریف ونسائی شریف ونورالانوارزیرتعلیم رہیں،اورشوال ۸۷ھ ؁سےمسلم شریف ،نسائی وابن ماجہ وموطئین زیردرس رہیں۔
اس کےبعدشوال ۱۳۸۸؁ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف وہدایہ ثالث پڑھائی،وللہ الحمدحمداً کثیراًطیبامبارکا فیہ ومبارکا علیہ ،اس کے بعد سے بحمداللہ سبحانہ وتعالیٰ بخاری شریف اورکوئی دوسری کتاب ہوتی رہتی ہے۔
میں مسلسل بیماررہا،مظاہرالعلوم آنےکےچنددن بعدنزلہ وبخارہوگیا اور پھر منہ سےخون آگیا،حضرت اقدس ناظم (مولانااسعداللہ)صاحب نوراللہ مرقدہ کا مشورہ ہواکہ میں گھرواپس ہوجاؤں،لیکن میں نےانکارکردیا،حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ واعلی اللہ مراتبہ نےبلاکرارشادفرمایا: ’’جب توبیمارہےاورلوگوں کامشورہ بھی ہے تو مکان چلا جا ‘‘ ، میں نےعرض کیا، اوراب تک الفاظ یادہیں کہ :’’حضرت!اگر مرناہے تویہیں مرجاؤں گا‘‘ حضرت نےفرمایاکہ :’’بیماری میں کیاپڑھاجائےگا‘‘ میں نے عرض کیا،اوراب تک الفاظ یادہیں کہ:’’حضرت! جوکان میں پڑےگاوہ دماغ میں اترہی جائےگا‘‘ اس پرحضرت قدس سرہ نےارشادفرمایاکہ ’’پھرپڑارہ‘‘۔
یہ ہےحضرت قدس سرہ سےپہلی بات چیت ، اس کےبعدہم توبہت بیمار رہے، اورگاہ بگاہ جب طبیعت ٹھیک ہوجاتی تواسباق میں بھی جاتےرہتے، انہیں ایام میں حضرت اقدس مولاناعبد الحلیم صاحبؒ کواپنی بیماری کاخط لکھا، مولانانے جواباً لکھا کہ یہ کیایقین ہےکہ ’’کہ خون پھیپڑےسےآیاہے؟‘‘ اس سےطبیعت کوکچھ سکون ہو گیا ، لیکن سینےمیں دردرہاکرتاتھا۔
یہ اوربھی لکھ دوں کہ جن ایام میں طبیعت خراب تھی، کبھی کبھی دارالحدیث کی شرقی جانب بیٹھ کرحضرت اقدس نوراللہ مرقدہ کادرس سنتااورسوچاکرتاتھاکہ نامعلوم ہم کوبھی بخاری شریف پڑھنی نصیب ہوگی یانہیں؟ اوررویاکرتاتھا، اس مالک کالاکھ لاکھ شکرہےکہ اس نےتوفیق عطافرمائی اورپڑھنےکی منزل گزرگئی، اوراللہ تعالیٰ نے محض اپنےفضل وکرم سےپڑھانےکی توفیق بخشی ، حالات کی ناسازگاری سےجس کی توقع بھی نہیں تھی ،لیکن سب فضل وکرم ہے۔
کہاں میں اورکہاں یہ نکہتِ گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی!​
امراض کےتسلسل کی وجہ سےشادی کی ہمت نہ ہوئی اوراب بڑھاپاشروع ہوچکا،حدود خمسین کے آخری سالوںمیں چل رہاہوں،اب اپنی بیماریوں کی وجہ سے ضرورت محسوس ہوتی ہےمگروقت گئے ہوتاکیاہے، وقت گزرگیا۔(انتھی)
ہم اس سےاندازہ لگاسکتےہیںکہ حضرت استاذی کس طلب صادق اورقربانی ومجاہدہ کی دھن سےآراستہ تھے ۔
علمی وسعت ورسوخ، درجہ کمال اوراہل زمانہ کااعتراف
حضرت کی اسی محنت، مجاہدہ وقربانی کی برکت ہےکہ اللہ پاک نےدنیامیںآپ کو مشہورومقبول اورمحبوب بنایا، آپ کاعلمی مقام کتنابلنداوراعلی تھایہ تواہل علم ہی جانیں لیکن حدیث پاک سےانس ومحبت بلکہ عشق اوراس فن میں درجۂ کمال ومرجعیت آپ کوموھبۂ ربانیہ کےطورپر عطاہوئی تھی، اس کاتمام اہل زمانہ نےاعتراف کیاہے،کسی نےیہ بھی بتایاکہ حضرت مولانامفتی سعیداحمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم سےبھی کسی نےبخاری شریف میں مہارت، درجہ کمال اورمرجعیت کے متعلق سوال کیاکہ اس وقت ایساکون ہے توآپ نےارشاد فرمایا:حضرت مولانا محمد یونس صاحب ، یہ بات بھی بہت پرانی ہے، حضرت شیخ ؒ فرماتےتھے کہ بخاری شریف کاعلم تم نے لے لیا، حضرت ؒ کی مقبولیت کہ الحمدللہ عرب وعجم کےطول وعرض میں آپ کافیض عام ہوا اورلوگوں نےآپ کو’’امیرالمؤمنین فی الحدیث فی ھذاالعصر‘‘کےمبارک اورامتیازی لقب سےنواز،آپ کے محبوب استاذ اورشیخ قطب الاقطاب محدث کبیرشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاصاحب نوراللہ مرقدہ کا گرامی نامہ جوآپ کےنام تحریرکیاگیاتھااورچالیس سال بعداسےملاحظہ کرنےکاحکم ہوا تھا، آپ کےعلم وفضل کےتفوق کی خاص اوربڑی دلیل ہے،اس خط کی ابتداءاس شعر سےہوتی ہے ؎
ابھی کمسن ہیں وہ کیاعشق کی باتیں جانیں
عرضِ حالِ دلِ بےتاب کوشکوہ سمجھے​
’’ابھی تدریسی دورکاپہلاسال ہےاوراس سیاہ کارکےتدریسی دور کااکتالیسواںسال ہےاور تدریس حدیث کاسینتالیسواںسال ہےاللہ تعالیٰ تمہاری عمرمیں برکت دےاورمبارک مشغلوں میں تادیر رکھےجب سینتالیس پرپہونچ جاؤگےتوانشاءاللہ مجھ سےآگےہوگے۔
فقط:زکریا:۲۷رجب ۱۳۸۷؁ھ
اس پرچہ کونہایت احتیاط سےکسی کتاب میں رکھیں اورچالیس سال کےبعدپڑھیں
اسی طرح ایک دوسراواقعہ بھی آپ کےعلم وفضل کی کھلی دلیل ہے، جسےمولاناعبدالرحیم لمبادا دامت برکاتہم نےبیان کیاہے کہ ایک مرتبہ شیخ العرب والعجم مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کو کسی حدیث کے حوالہ کی تلاش تھی، بہت سارے علمائے کرام کے پاس تلاش کروایا مگر حوالہ نہیں ملا۔۔ بالآخر مولانا علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ نےشیخ الحدیث شیخ زکریا رحمہ اللہ کوخط بھیجا کہ مجھے فلاں حدیث کا حوالہ مطلوب ہے، شیخ زکریا رحمہ اللہ نے شیخ یونس جونپوری رحمہ اللہ کو حوالہ تلاش کرنے کا کام سپرد کیا،کچھ ہی دیر میں شیخ یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ نے وہ حوالہ تلاش کر لیا۔ شیخ الحدیث شیخ زکریاؒ نے اسی خط کے پیچھے حوالہ لکھ کر بھیج دیا کہ یہ حوالہ مولانا یونس نے تلاش کیا ہے، ایک دن علامہ ندوی رحمہ اللہ سہارنپور تشریف لائے تو کہا مجھے ان مولانا سے ملنا ہے جنہوں نے حوالہ تلاش کرکے بھیجا تھا،شیخ زکریا رحمہ اللہ نے شیخ یونس جونپوری رحمہ اللہ کو بلایا،شیخ یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئےتھے تو انکو دیکھ کر علامہ ندوی نے کہا یہ نہیں مجھے ان مولانا سے ملنا ہے جنہوں نے حوالہ تلاش کرکے بھیجا تھا،تو شیخ زکریا رحمہ اللہ نے فرمایا وہ مولانا جنہوں نے حوالہ تلاش کیا تھا وہ یہی نوجوان(شیخ یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ) ہیں۔۔اللہ اکبر
اسلوب درس وافادہ
آپ کےحلقۂ درس اوردامن استفاضہ سےوابستہ لوگوںپریہ بات عیاں ہےاوروہ لوگ یقیناًاس کی تائیدکریں گےکہ آپ کااسلوب درس بہت ممتازتھا،گفتگوتحقیقی اورطویل فرماتے تھے، زبان بہت صاف اورشیریں ہوتی، اورمعانی کی ایسی آمداورروانی تھی جیسےایک سیل رواں ہے جو کہیں تھمنےکانام نہیں لیتا،ذیل میں آپ کےسامنےحضرت کےدرسی افادہ کاایک نمونہ پیش ہے جو کسی نےبھیجاہےاورآج کل آپ کی مبارک آوازمیں وہ سنابھی جارہاہے،اوریہ نمونہ ماقبل میں امرمذکور کی کھلی دلیل ہے،ہم بھی اس سےمستفید ہوں،حضرت فرماتےہیں:
لیکن بعض اشخاص کےدل میں شکوک وشبہات اس طرح جاگزیں ہو جاتے ہیں کہ وہ دلائل کلامیہ سےزائل نہیں ہوتے،ہاں البتہ اہل ایمان ویقین کی صحبت سے اورخاص طورسے کاملین اہل اللہ کی صحبت سےشکوک وشبہات کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور انسان کایقین صحیح اوردرست ہوجاتا ہے ہم نےاپنے بزرگوں کےمتعلق اس طرح کے بہت سے قصے سنے ہیں ایک صاحب حضرت اقدس تھانوی کےیہاں گئے اوراپنے بارےمیں کہنےلگےکہ ان کاجی نصرانی ہونے کو چاہتا ہے حضرت نےایک تھپڑ مارا زور سےاورفرمایاجابدبخت،ہوجا،وہ فرماتے تھے کہ اس کےبعدسےسب خیال نکل گیا، حضرت رائپوری کےیہاں ایک صاحب گئے جن کا مرتد ہونےکوجی چاہتاتھاحضرت نے فرمایا ان کےقلب کی طرف ا شارہ کرکےکہ میں توکچھ بھی نہیں لیکن بعض بندے ایسےہیں کہ اگر یوں اشارہ کریں تو دل پلٹ جائے،اسی وقت ان کی حالت صحیح ہوگئی ، ( سمجھ میں آیا)اوربھی اس طرح کےبہت سےاہل اللہ ہیں جن کےپاس بیٹھ کرانسان کی قلبی زندگی میں انقلاب پیداہوجاتا ہےاورمیں حضرت اقدس شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی کاقصہ بیان کرچکا ہوں کہ ایک شخص کودین کےبارے میں شکوک وشبہات پیش آگئے اور اس قدرقوی ہوگئےکہ وہ کسی طرح اس کودفع نہیں کر سکےحتی کہ رمضان میں روزہ بھی توڑدیاجب ان کےدوست کواس کی یہ کیفیت معلوم ہوئی توانہوں نے کہاآپ میری وساطت سےگنج مرادآبادچلےجائیں،وہ کہنےلگےیہ علمی شکوک و شبہات ہیں، مولانانیک صالح آدمی ہیں وہ کیاکردیں گے،انہوں نےکہاکہ آپ چلے تو جائیے، بڑے اصرار کے بعدچلےگئے،ابھی وہ بڑےمیاں کی خدمت میں پہونچے ہی تھے،کہ حضرت نےفرمایابتاؤتم کوکیاشکایت اورشبہات ہیں،اب وہ جو بھی شبہ سوچتےساتھ ہی جواب بھی موجودہوتا،تھوڑی دیر کےبعدسارابادل چھٹ گیا اوران کےقلب کی اصلاح ہوگئی،لیکن ایسےاللہ والے کبریت احمرکی حیثیت رکھتے ہیں، کہیں اتفاقاً کسی کونےمیں کسی صدی کے اندر موجودہواکرتےہیں،بہتریہی ہے کہ آپ نہ اہل باطل کی کتابیں پڑھیں اورنہ ان کی صحبت میں بیٹھیں۔(انتھیٰ)
مرجعیت اورآپ کےفیض بیکراںکی وسعت
حضرت کی ربانیت اورفن حدیث شریف میںکمال ومرجعیت اورعنداللہ وعندالعباد مقبولیت کی بات ہےکہ اس وقت آپؒ کوپورےعالم میں حدیث پاک میں عمومی مرجعیت نصیب تھی، ہندوستان کےباہردیگردوسرےممالک عرب ویورپ میں بھی آپ کےخصوصی فیض یافتہ ہیں،جومختلف جہتوں سےدین اور علم دین، حدیث پاک کی اشاعت اورخدمت میںمشغول ہیں،اللہ پاک سب کو قبول فرمائیں ، اور ہمیں بھی مواقع اورتوفیق مرحمت فرمائیں،آمین۔
عرب حضرات کارجوع
حضرتکی مقبولیت اورمحبوبیت کی شان دیکھیںکہ حضرت جب حج کوتشریف لے جاتےتوحج کےموسم میں بھی حضرات عرب حدیث شریف پڑھنےکیلئےحضرت کی خدمت میں آتے ، مکہ میں، منی میں بھی آتےتھے، جہاں قیام ہوتاتھاوہاں پر، مدینہ شریف میں،ان تمام مقامات پر اہل عرب حدیث شریف پرھنےکیلئےخوب آتےتھے، اللہ پاک قبول فرمائیں۔
اس واقعہ سےہمارےلئےبھی دوباتیں عزم کرنےکی ہیں، ایک تویہ کہ جہاں حضرت  کامقام ِمقبولیت ومحبوبیت سامنےآتاہےوہیں عرب حضرات کی قدردانی، شوق علم اورشوق حدیث پاک بھی معلوم ہوتاہےکہ ان کی نگاہ میں علماءربانین کی کتنی قدرہےاورشوق حدیث پاک میں وہ کتنےبڑھےہوئےہیں۔
زمانہ حج میں حضرتؒ کامعمول
اللہ پاک کااحسان ہےاورمولانامحمدیونس رندیرافلاحی صاحب کی محبت بھی ہےکہ انہوں نے بھی اس کی فکرکی ہے، الحمدللہ ادھرتقریباًبارہ تیرہ سال سےحج کےایام خصوصاً پانچ دن حضرتؒ کےساتھ ہی رہتےتھے،ان ایام میں ایک بات تویہ دیکھنےکوملی کہ عرب حضرات پڑھنے آتے تھے، اس کےعلاوہ دوسری بات اوراوقات میں یہ تھی کہ اکثراوقات تلاوت میں، ذکر میں مشغول رہتے تھے، حضرت کےخیمہ میں احباب کےمشورہ سےدینی باتیں بھی کہی سنی جاتی تھیں، ایک مرتبہ حضرت کےسامنےمنی میں ہم نےپہلی باربیان کیاتوبہت خوش ہوئے،اس کےبعد خود فرماتے تھے کہ بیان کرو، دعاکابھی حکم فرماتےتھے، ایک بارفرمایادعاکراؤ، لیکن اس وقت چوں کہ وہاں پر پاکستان کےعلماءکرام بھی تشریف فرماتھےتومیں نےعرض کیاکہ حضرت! یہ بڑےلوگ ہیں بہتر یہ ہےکہ ان سےدعاکرالیاجائے، توحضرت نےفرمایاکہ تم جیساکہو، تمہاری جورائےہو۔
شفقتوں کےٹھنڈےاورگھنےسایہ تلے
یہ سب حضرتؒکی شفقت اورمحبت کی وجہ سےتھا، حضرتؒکی مبارک زندگی کاایک امتیازی وصف خوردوںپرشفقت ومحبت اورنوازش وکرم بھی تھا، اوربندہ نےحضرتؒکی بےانتہاءشفقتیں اور عنایتیں دیکھی ہیں، بندہ مظاہرعلوم پڑھنےکیلئےآیاتھاتوچوں کہ اسی جگہ یعنی مانی کلاں چوکیہ کھیتا سرائے سےپڑھ کرآیاتھاجوحضرتؒکابھی اول مادرعلمی تھاحضرت بھی وہیں سےپڑھ کرآئےتھے، اور ہمارےحضرت مرشدی ومرشدامت مولاناالشاہ عبدالحلیم صاحب جونپوری نے ہمارے بارےمیں حضرت کےنام ایک خط میں تحریرفرمادیاتھاکہ ان کی خیرخواہی کرتےرہئیےگا، ان کی رہنمائی فرمائیےگا،الحمدللہ پھرحضرت نے ہمارےاوپرشفقت فرمائی۔
ہماراداخلہ وغیرہ الحمدللہ ہوگیا، کتابیں سب مل گئیں، بہت عنایت دیکھی، نمازجمعہ ہم حضرت کےمتصل پڑھتےتھے، کبھی حضرت ہم کوبلاتےتھے، اپنےہاتھ سےکھلاتےتھے، یہ ان کی شفقت ومحبت تھی، پھراللہ پاک تعالیٰ شانہ نےتوفیق عطافرمائی کہ آج تقریباًبارہ تیرہ سال سےحضرت کےساتھ ہی حج کرتےتھے، وہاںب ھی آپ کی بےانتہاءشفقت ہوتی تھی۔
ابھی سال گزشتہ ۱۴۳۷؁ھ کےحج کاواقعہ ہے، منیٰ کےاندرخیمہ میں قیام تھا، ہم استنجاء وضوءسےفارغ ہونےکیلئےچلےگئےکہ وضوءکرکےتازہ دم ہوجائیں، اسی درمیان کوئی پھل وغیرہ آیاکھانےکیلئے، لوگ کھارہےتھے، اتنےمیں حضرتؒنےفرمایاکہ منیرکہاںہیں، میں نےایک صاحب سےبتادیاتھاکہ وضوکرنےجارہاہوں، اسلئےلوگوں نےحضرت کوبتلایاکہ وضوءکرنے گئے ہیں توحضرتؒ نےفرمایاکہ ان کاحصہ الگ رکھدو، ہم وضوءکرکےآئےتولوگوں نےکہاآپ کاحصہ رکھاہے، اورجوحصہ رکھاجاتاہےوہ زیادہ ہوتاہے، ہم نےپوچھاکہ سب نےکھالیاہے؟ تولوگوں نےکہاکہ ہاں، سب نےکھالیاہے، تب ہم نےاپناپوراحصہ کھایا،حضرتؒکی عنایت وکرم ہےکہ پیٹھ پیچھےاتنی تعریف کیاکرتےتھےکہ ہم اس کواپنی زبان سےبیان بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارےیہاں کی ایک جماعت سہارنپورگئی، حضرت سےملاقات کرنےآئی، توحضرتؒ نے پوچھا کہ کہاں کی جماعت ہے؟ ان لوگوں نےکہاضلع بستی، موضع چھتہی سےآئی ہے، ہمارے گاؤں کا نام چھتہی ہے، مسلمانوںکی بڑی آبادی ہے، الحمدللہ تیرہ مساجدہیں ابھی اس وقت ماشاءاللہ مدرسے بھی ہیں، تو چھتہی سن کرفرمایاکہ وہاں کےتوہمارےمولوی منیرہیں، ان کوجانتےہو؟ ان لوگوں نے کہاکہ جی حضرت !وہ توہمارےیہاں کےبڑےاورسرپرست ہی ہیں، ہم ان کوکیوں نہیں جانیں گے، توان لوگوں نےبتلایاکہ اس وقت حضرتؒ تقریباًپندرہ منٹ تک مسلسل آپ کاتذکرہ فرماتے رہےاور اتنی باتیںفرمائیںکہ میں اپنی زبان سےان کوکہہ بھی نہیں سکتاہوں۔
یہ سن کرمجھ پربہت اثرہواکہ ہمارےبڑوں کی شفقت وعنایت کتنی زیادہ اوربےپایاں ہےاورہماری کیاحیثیت ہے،اللہ پاک کی ستاری کامعاملہ ہے، پڑھنےکےزمانہ میںمیراقیام دارجدید کےکمرہ میں تھا، اکیلےرہتاتھا، یکسوئی رہتی تھی ، ایک مرتبہ بیمارہوگیاتھااورزیادہ بیمارہوگیاتھا، دارجدیدکےنیچےایک کمرہ میں ایک چارپائی بچھتی تھی، اسی کمرہ میں ہم نےدوسال گزارے ہیں تو جب ہماری طبیعت خراب ہوگئی تھی اس وقت حضرتؒوہاںپرہم کودیکھنےکیلئےتشریف لائے اور دعا فرمائی اوراس وقت کےاعتبارسے دواکیلئےہم کودس روپیہ بھی عنایت فرمایاتھا۔
کتنی باراپنےہاتھوںسےہم کوکھلایاہے، لقمہ ہاتھ میں لےکرمنھ میں رکھتےتھے، طالب علمی کےزمانہ میں ایساہواکہ دیرہوگئی، روزتوجگہ پرپہلےپہنچتےتھےمگراس دن دیرہوگئی تودوتین صف کےبعدجگہ ملی توحضرت نےفرمایاکہ منیرکیلئےیہاںجگہ چھوڑدو، بہت سی باتیں ہیں جو حسب موقع یادآتی رہتی ہیں۔
تمہارےیہاںآنےکوجی چاہتاہے
حضرتؒکی ایک مرتبہ طبیعت ناسازہوئی، بیمارہوگئےتوعلاج کیلئےبمبئی تشریف لائے، ہمیں معلوم ہواتوحضرت کودیکھنےاورملاقات کیلئےہم بھی حاضرہوئے،الحمدللہ علاج و معالجہ ہوا اور اللہ پاک کےفضل سےصحت ہوگئی، ہم حاضرہوئےتوفرمایاکہ مولوی منیر! اورتو کہین ہیں لیکن تمہارےیہاں آنےکوجی چاہتاہے،چوںکہ حضرتؒ کی کمرمیں تکلیف تھی اورہمارے یہاں مسجد میں آنےپرچوبیس زینےچڑھنےپڑتےتھے، حضرت نےتوشفقت اورمحبت میں فرمایا، لیکن ہم نےسوچاکہ حضرت نےمحبت وشفقت میں فرمایاہےاب اگرمیں کہوںگاتوضرورتشریف لائیں گے ، لیکن اگرآئیں گےتوزینہ چڑھنےمیں تکلیف ہوگی، اوراپنی راحت کیلئےبڑوںکوتکلیف دینا نہیں چاہئے، توہم یہ سوچ کرخاموش رہے، اگلےدن میراوطن کاسفرتھا، کیوں کہ بچےسب وطن میں تھے ، عصرسےپہلےمیںم سجدکےپاس سےگزراتوہمارےمؤذن صاحب،جو،جونپورکے رہنے والے تھے،وہ تیزی سےآئےاورکہاکہ حضرت شیخ مولانامحمدیونس صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں،حضرت کےساتھ حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحبؒ ماھی والے اوران کا پوراقافلہ تھا، وہ سب آئےہوئےتھے۔اس وقت ہمارےایک دوست ہیں، اللہ پاک ان کوجزائےخیرعطا فرمائیں، انہوں نےہمارےلئےمغزیات کوپیس کراوراس میں شکروغیرہ ڈال کرپوری طرح پکاکر بھیج دیاتھاکہ آپاگھرپرنہیں ہیں،توجب ناشتہ کرناہوگاحضرت اس میں سےایک پیالہ کھاپی لیں گے، مقوی بھی ہےاورکوئی خاص فکربھی نہیں کرنی پڑےگی، وہ گھرمیں فریج م یںرکھاہواتھا، میں نے اس کو ایسےہی اٹھایا، سوچاکہ یہاںگھرپرکہاں لاؤںگا جگہ بھی تنگ ہے، اسلئےاس کوایسےاٹھایا اور ہاتھ میں لےکرجلدی جلدی حضرت کےپاس پہونچا، ملاقات وزیارت ہوئی پھرجلدی سے دسترخوان لگایااورحضرت اورمہمانوںکی خدمت میں پیش کیا، کہ حضرت اس سےنوش فرمالیجئے، ہم نے اس وقت جولوگ حضرت کےساتھ تھےان سےپوچھاکہ حضرت کوکون سابسکٹ پسندہے؟ توکہا کہ گوڈڈے ، پھرجلدی سےبسکٹ اورجوس منگایااورعرض کیاکہ حضرت! چائےانشاءاللہ عصربعد ہوگی، ابھی یہ جوس نوش فرمالیں، اس وقت خیریت دریافت فرماتےہوئےپوچھاکہ گھروالےکیسے ہیں؟ خیریت سےہیں؟ توہم نےعرض کیاکہ حضرت اس وقت وہ سب وطن میں ہیں،اب شفقت دیکھئےکہ جب یہ معلوم ہوگیاکہ میرےبچےیہاںنہیں ہیں، تونثاربھائی جونپورمانی کلاںوالے کوبلایااورفرمایاکہ واپس چلیں گے، مطلب یہ تھاکہ بچےگھرپرنہیں ہیں اورکھانےپینے کااہتمام کریں گے،اس پر شفقت میں فرمایاکہ ہم واپس چلیں گے۔
پہلےحج سےواپسی
حضرتؒپہلےحج میں تشریف لےگئے، اکیلےتشریف لےگئےتھے، جب حج سے واپس ہوئےتوایئرپورٹ پراکیلےتشریف لائےتھے، پہچان کاوہاںکوئی نہیں ملا،ایک حاجی صاحب تھے انہوں نےکہا، آپ پریشان مت ہوئیےمیرےساتھ میرےگھرتشریف لےچلئے، میرے گھر رات قیام فرمائیے، پریشان نہ ہوئیے، اس رات کےوقت میں آپ کہاںکسی کوتلاش کریں گے، بارہ بج رہےہیں، اگلےدن آپ جہاںکہیں گےوہاںہم آپ کوپہونچادیں گے، اس کے بعد ٹیکسی والےسےبات کی تواس نےپوچھاکہ کدھرسےچلوں؟ اندھیری ہوکریاکالیناہوکرچلوں؟ کالینا سن کرحضرت نےفرمایاکہ کالینا؟ ہمارےمولوی منیر(حفظہ اللہ) وہیں رہتےہیں، میں اس دن اس وقت اپنےمدرسین کوبلاکر،ان کی تعلیمی رپورٹ وغیرہ دیکھ کرانہیں تنخواہ دےکرفارغ ہوا تھا، رات بارہ بج کرکچھ منٹ ہوئےتھے، ان سب کام سےفارغ ہوکرآرام کرنے کے لئے کپڑے اتار ہی رہاتھاکہ ہمارےوہی مؤذن صاحب دوڑےہوئےآئےاورکہاکہ حضرت شیخ یونس صاحبؒ تشریف لائےہوئےہیں، ہم سنتےہی دوڑےہوئےجلدی آئے،حضرت سےملاقات ہوئی، اس وقت ہمارےگھرمیں سےان کی ایک رشتہ دارچچیری بہن لگتی ہیں وہاںگئی ہوئی تھیں، وہ اصرار کر رہی تھیں کہ ابھی رک جائیےہم نےفون کیاکہ حضرت تشریف لائےہوئےہیں، ناشتہ جلدی کرانا ہے ،توگھروالےآئے، رات کوبارہ بج رہےتھےاس وقت جوبھی ہوسکاخدمت کیا پھر رات کو حضرت نےقیام کیا، صبح کوان حضرات کوخبرکی گئی جوپالن پورکےاحباب تھے، حضرت شیخ کےیہاںرمضان شریف میں خانقاہ میں جاتےتھے،ان سب کانام حضرت نےہی بتایاتھا، پھروہ احباب آئےاورظہرکےبعدحضرتؒ کواپنےساتھ لےکرگئے۔
عالی پورکاسفر
ایک مرتبہ گجرات کےعالیپوراوردوسرےعلاقۂ گجرات کادورہ تھا، مجھکو معلوم ہواکہ حضرت تشریف لارہےہیں، توملاقات کیلئےایئرپورٹ گیا، حضرت جب گاڑی میں بیٹھ گئے، گجرات جانے کیلئےتوفرمایا:مولوی منیرتمہاراانتظاررہےگا،گاڑی والےنےکہاکہ اب توآپ کوآناہی پڑے گا، اسلئےمناسب ہےکہ گھرپراطلاع فرمادیجئےاورگاڑی میں بیٹھ جائیےورنہ بعدمیں گاڑی کرکےوہ بھی رات میں آناپڑےگا۔ خیر! میں نےگھرفون سےاطلاع کی اور حضرت کےساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس نوع کےبہت سےواقعات ہیں۔
عرفات میں دسترخوان پرکھاناکھانےبیٹھے، تومولانابدرالدین اجمل صاحب نے زور سےآواز دےکرکہاکہ مولانامنیرصاحب! حضرت آپ کویادفرمارہےہیں، پھرقریب جاکربیٹھا، کھاناکھانے کیلئے۔
تمہارےیہاںکھاؤںگا
۱۹۹۳؁ء کی بات ہے، ہم حج کیلئےگئےتھے، والدہ مرحومہ کےساتھ تھے، مفتی حبیب کی والدہ بھی تھیں، شامیہ میں ہماراقیام اوپرتھا، حضرت سےملاقات ہوئی توفرمایاجمعہ بعدکھانا تمہارے یہاںکھاؤںگا، ہم نےعرض کیاحضرت ٹھیک ہے، میںگیا، دومرغی لایا، ہمارےگھرمیں بولی تھیں کہ ہم خودہی ذبح کریںگے، زندہ مرغی لائیے، میںدومرغی زندہ لےآیا، جمعہ کادن تھا، سب کوتیاری بھی کرنی رہتی ہے، خیر!گھرمیںسےانہوںنےذبح کیا، پکایا، جمعہ بعدحضرت اور حضرت کےساتھ اوربھی دوچاراحباب تھے، سب آئے، دسترخوان بچھایا، کھاناکھایا، اس کےبعد فرمایابہت اچھابنایاہے، بہت اچھابنایاہے، کئی بارفرمایا، اورتعریف کی۔
ہمارےحضرت مرشدی مرشدِامت مولاناعبدالحلیم صاحب نوراللہ مرقدہ جب پہلی بار کالیناتشریف لائےتھے، چھیالس سال پہلےکی بات ہے۱۹۷۲؁ءکی بات ہے، حضرت نےہم کو بھیجاتھا، اس وقت ہماری یہ مسجدکل چارصف کی تھی، بہت چھوٹی تھی، اس وقت ایک چھوٹاساکمرہ تھا، بیچ میں پردہ تھا، مشکل سےسات بائی دس کارہاہوگا،زیادہ سےزیادہ ۔اس میں خودہی پردہ باندھ دیااورکھاناکھانےکیلئےحضرتؒ وہاںبیٹھ گئے، ساتھ میں اوربھی ساتھی تھےوہ بھی بیٹھ گئے، ہم کھانا نیچےسےبڑھاتےگئےاورحضرت اورتمام احباب کھاناکھاتےرہے، کھانےسےفارغ ہوکر حضرتؒ نےفرمایابہت اچھاہے، بہت لذیذہے۔ہمارےعبدالولی بھائی مرحوم جنہوں نے حضرتؒ کی سالہا سال خدمت کی ہے، ساتھ رہتےتھے، مجھ سےکہنےلگےکہ میں نےحضرت کوسینکڑوںجگہ کھلایا ہے لیکن حضرتؒ نےکبھی اتنی تعریف نہیں کیاہے۔اس کےبعدمیں نےگھرمیں پوچھاکہ کیابات ہے؟ تو کہا کہ ہم کھاناپکاتےوقت دعاکرتےہیں کہ یااللہ! یہ کھانامہمان کوپسندآجائے، رغبت اورشوق سے کھالیں، اس لئےاللہ پاک اس میں لذت ڈال دیتےہیں، اللہ پاک کااحسان ہے۔
ہمارےاستاذحضرت شیخ مولانامحمدیونس صاحب اللہ پاک ان کادرجہ بلندفرمائے، ایک بارنومبرمیں سہارنپورگیاتھا، ۲ نومبرکوشوریٰ تھی، حضرت مولاناشاہدصاحب کاایک مدرسہ ہے تحفیظ القرآن اس کی شوری تھی، میں یکم نومبرکوپہونچ گیاتھا، ۳کوحکیم عثمان صاحب جومدینہ پاک میں رہتےہیں ان کےمدرسہ کاافتتاح تھا، میں نےسوچاکہ ۲کوشوری ختم ہوجائےگی تو ۳ ؍اور چارکوواپس آجاؤںگا،وہاں جاکرپہلےمیںحضرت شیخ  سےملتاتھااس لئے کہ حضرت میرے استاذ ہیں اوربھی استاذہیں حضرت مولاناعاقل صاحب دامت برکاتہم ہیں،لیکن وہ گھر رہتے ہیں، اسلئے میں پہلےحضرتؒ سے ملاقات کیلئےحاضرہوا۔
خصوصی عنایت وتوجہ
میرےمحلہ کاایک بچہ وہاںپڑھتاہے،میں نےاس سےکہاکہ دیکھو! حضرت اس وقت مشغول ہیں یافارغ تشریف رکھتےہیں، تووہ طالب علم آیاکہنےکہ حضرت یادفرمارہےہیں، میں نے کہاکہ شایدتم نےبتادیاہوگا، خیر! میں حاضرہواخادم بیٹھےہوئےتھےحضرت نےفرمایا، آم لاؤ، کاٹو، پھر پیالہ بھرکےمیرےسامنےرکھااورفرمایا، یہ سب تمہارےلئےہے، سب کھاؤ، حضرت کی طرف سےتھاتومیں نےبھی سب کھایااورپوراکھایا۔
حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاصاحب نوراللہ مرقدہ فرمایاکرتےتھےکہ کسی سےتوقع اورامیدنہ رکھے، اوربغیرتوقع اورامیدکےآجائےتوانکارنہ کرے، مخلوق سےتوقع وامیدنہیں رکھے گاتوکوئی شکوہ وشکایت نہیں ہوگی، ساری شکایتیں امیداورتوقع پرہوتی ہیں، جب مخلوق سےامید نہیں رکھی توشکایت وشکوہ نہیں کرےگا۔
جب توقع اٹھ گئی غالب پھرکیوںکسی سےگلہ کرےکوئی​
تووہ پوراآم میں نےکھایا، اللہ پاک بہت درجہ بلندفرمائیں،یہ سب شفقتیں حسب موقع یادآتی ہیں
محبت بھراطویل کلام
عرفات اورمزدلفہ میں تومشغولی رہتی تھی لیکن اس کےعلاوہ جب فارغ ہوتےتوحاضرہوتا، حضرت وہاں کی باتیں دیرتک فرماتے،مولانامحمدیونس رندیرافلاحی صاحب کہنےلگےحضرتؒ جب آپ کوپاجاتےتھےتودیرتک وہاں کی پوربی زبان میں باتیں فرماتےہیں، اس بارجب میں ملنے کیلئےحاضرہواتوجن صاحب کودیکھنےکیلئےبھیجاتھاوہ باہربیٹھ گئےمیں حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوحضرت گفتگوفرمانےلگے، دیرتک ارشادفرماتےرہے، جب میں حضرت کےپاس سے لوٹاتووہ کہنےلگےکہ میں نےٹائم دیکھاڈھائی گھنٹہ تک حضرت آپ سےگفتگو فرماتےرہے، مجھے نہیں معلوم کہ حضرتنےاتنی لمبی گفتگوکسی سےاکیلےمیں فرمائی ہو۔
مجھےنہیں بھولنا
حج میں حضرتؒ نےمجھ سےفرمایاکہ دیکھو! مجھےنہیں بھولنا، لوگ بھول جاتےہیں، تم مجھے نہیں بھولنا،میں نےعرض کیاکہ حضرت! میں اپنےاساتذۂ کرام کیلئےنمبروارقربانی کرتاہوں، اکٹھےسب کیلئےقربانی کرنامشکل ہے،لیکن ہرسال ایک ایک کرکےاساتذہ کی طرف سےقربانی کرتا ہوں، الحمدللہ ، اللہ پاک قبول فرمائیں۔
فکرآخرت اوربےچینی
ایک مرتبہ ایک صاحب نےزکوۃ کی رقم دےدی تھی اورحضرت کوبتایانہیں تھاکہ یہ زکوۃ کی رقم ہے،کوئی موقع آیاتوحضرت نےاسےخرچ کردیا، وہ صاحب دوبارہ آئےاورتذکرہ ہواتو انہوںنےکہاکہ وہ رقم توزکوۃ کی تھی، توحضرت نےفرمایاکہ بتاناچاہئےتھاکہ یہ زکوۃ کی رقم ہے، آپ نےبتایانہیں، تب حضر ت کی بےچینی دیکھئےکہ اس کےبعدکتنی رقمیں آئیں،حضرت نےان سب کوزکوۃ کی مدمیں خرچ کردیا، اورفرمایاکہ کتنی رقمیں آتی ہیں،میں ان سب کوزکوۃ کی مدمیں خرچ کردیتا ہوں۔ ایک آدمی نےتوکہاکہ حضرت! میں آپ کی طرف سےپورااداکردیتاہوں، پچاس ہزار رقم تھی ، کہاکہ میں آپ کی طرف سےاداکردیتاہوںتاکہ آپ کےذہن پربوجھ نہ رہے،اس کے باوجود کئی باررقم آئی اس کوزکوۃ کی مدمیں خرچ کردیتے، اللہ پاک درجہ بلندفرمائیں، اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائیں۔
ایک ہفتہ پہلےکاخواب
حضرت ؒکےانتقال سےایک ہفتہ پہلےمیں نےخواب دیکھاتھاکہ حکیم الامت حضرت تھانوی کاانتقال ہوگیا، میں نےاس خواب کاتذکرہ کسی سےنہیں کیا، اس سال چوں کہ بڑے بڑےارباب علم وفضل اکابرکاانتقال ہواہے،اس لئےمیرےذہن میں خیال آتاتھاکہ میرے متعلقین میں سےکون ہوسکتاہے؟ ذہن میں یہ خیال رہتاتھا،مگرمیں نےاس کاتذکرہ کسی سےنہیں کیاتھا، جس دن صبح کوحضرتؒ کےانتقال کی خبرملی اس دن فوراًذہن منتقل ہواکہ اس سےمراد حضرت کی ذات گرامی ہے۔
اس سےپہلےبھی ہمیں الحمدللہ حضرت حکیم الامتؒ کی دوبارخواب میں زیارت ہوچکی ہے، یہ تیسری زیارت تھی میں نےاس مرتبہ حضرت حکیم الامت کوبالکل تندرست حالت میں دیکھا، جیسے حضرت استاذیؒ کی شخصیت لحیم شحیم تھی، بالکل اسی طرح حضرت حکیم الامتؒ کودیکھاکہ چارپائی پر لیٹےہیں اور اس حالت میں انتقال ہوگیا،یہ اکابرسےنسبت اورتعلق کی بات ہے۔
شادی کےباب میںاستخارہ
ایک مرتبہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی جونپورمیںحضرت تشریف رکھتے تھے، طلباء کرام تھے، کوئی خاص مجلس ہوگی وہاںفرمایاکہ بیٹو! ایک بارمیں نےسوچاکہ شادی کرلوں، پھر خیال ہواکہ کہیں میری مشغولی کی وجہ سےحق ادانہ کرپاؤںگا، توپھرشادی کیلئےاستخارہ کرناشروع کیاکہ پتہ نہیں زندگی کتنی ہوگی، کب تک ہوگی، معلوم نہیں، تواستخارہ میں پانچ بتایاگیا،اس سے میں سمجھا کہ پانچ سال زندہ رہوں گاپھرمیراانتقال ہوجائےگا، اب میں نےسوچاکہ جب میں پانچ سال میں مرجاؤں گاتواس بیچاری کوکون دیکھےگا، پریشان ہوجائےگی، جب پانچ سال ہی زندہ رہنا ہے تو کیاشادی کروں، لیکن اب اس کی طرف پھرذہن منتقل ہواکہ نہیں اس سےمرادوہ پانچ باتیں تھیں جن کواللہ پاک کےعلاوہ کوئی نہیں جانتا،اس طرح سےوہ بات ذہن میں آئی اورموقع ختم ہوگیا۔
بڑوں کاحق ؎
نام نیک ِ رفتگاںضائع مکن تابماندنام نیکت برقرار
جانےوالوں کےاچھےنام کوباقی رکھو، اللہ پاک تمہارےنام کوباقی رکھیں گے، توبڑوں کا حق ہے، اسلئےحضرت کی شخصیت پرکچھ کام ہوجائے، ان کاحق ہے، جتناہوسکےاورجس سےبھی ہو سکےکرے، اللہ پاک سبحانہ وتعالیٰ قبول فرمائیں، نفع عطافرمائیں۔
جاںنثارخادم
مولانایونس راندیراصاحب ترکیسرکےفارغ ہیں،ترکیسرکےرہنےوالے، اب مدینہ پاک منتقل ہوگئےہیں، وہ ماشاءاللہ بچپن سےہی حضرت مولاناکےساتھ لگ گئے، اور ماشاءاللہ ان کوخدمت کابہت سلیقہ بھی ہے، حضرتؒ کی بہت خدمت کی ہے، حضرت کےقیام، ویزا، سفروغیرہ اہم امورکی ماشاءاللہ بہت فکرکرتےتھے، حج کےزمانہ میں ساتھ رہتے، عرفات، منی، مزدلفہ، تمام جگہوںمیں بہت خدمت کرتےتھے، اللہ پاک ان کوجزائےخیرعطافرمائیں اور قبول فرمائیں، ان کےتعلقات بھی ماشاءاللہ بہت وسیع ہیں،وہاںزمزم ٹاورمیںٹھہرانےوغیرہ کاانتظام وہی کرتے تھے، حرم شریف کےبالکل قریب ہے، مجھ کوبھی اس میں قیام کرایاتھا، لوگوں نےاس میں کمرہ خرید لیاہے، حضرتؒ کاوہیں قیام ہوتاتھا۔
سخاوت ودریادلی
اللہ پاک کی شان ہےکہ میںعصرکےبعدحضرت کی ملاقات کیلئےحاضرہواتوفرمایاکہ مغرب کی نمازحرم شریف میںپڑھنےکوجی چاہتاہے، ہم سب حضرت کےساتھ حرم شریف گئے ، مغرب عشاءپڑھ کرنکلے، عشاءکےبعدمیراایک صاحب سےملاقات کاوعدہ تھاتومیںنے مولانا یونس صاحب رندیراسےکہہ دیاتھاکہ حضرت دریافت فرمائیںتوعرض کردیںکہ ایک صاحب سے ملاقات کاوعدہ تھامیںجارہاہوں، مولانایونس صاحب نےبتایاکہ راستہ میںکئی باردریافت فرمایا مولوی منیر چلےگئے، توانہوںنےحضرت سےکہاکہ حضرت!ایک ضروری کام تھااسلئےچلےگئے ہیں، ابھی آرہےہیں، اللہ کااحسان ہے،اس وقت جدہ سےبھی کھاناآیاتھااورمقامی لوگ بھی کھانا لائے تھے ، مولانااسماعیل سورتی وغیرہ سب لوگ تھے، اس وقت جد ہ سےجوشخص آئےتھے انہوں نےایک لاکھ ریال ہدیہ حضرت کوپیش کیا، میرےسامنےکی بات ہے، میرےسامنےپیش کیاتھا، یہاں کے حساب سے۱۷لاکھ ہوا، حضرت نےمولانایونس رندیراسےفرمایا: مولوی یونس ! اسکوگنو، اورکچھ پہلے سے بھی لوگوںنےہدیےپیش کئےتھے، ایک لاکھ توصرف ایک شخص نےپیش کیا تھا، سب شمار کئے گئے ، ایک لاکھ چھتیس یاچھبیس ہزارکےقریب تھے،مجھےاس وقت لاکھ سےاوپرکی تعداد پوری یاد نہیں ہے، خیر! اس پوری رقم کےمتعلق فرمایایہ سب تحفیظ القرآن کاجونظام یہاں چلتا ہےاس میںخرچ کردو، اس میںسےایک پیسہ بھی نہیںرکھا، معمول یہی تھا، جب کوئی ہدیہ پیش کرتاتواسی طرح کامعمول تھا۔
دینی ادارہ کی فکر
حضرت کےپاس ایک پرس تھا، اس میںروپئےرکھےہوئےتھے، مجھےبلایا، فرمایا، یہ صدقات وزکاۃ کےروپئےہیں، تعدادچارہزاریااس سےزیادہ تھی، مجھےیادنہیںہے، وطن میں میرا مدرسہ چلتاہے، فرمایامیراجی چاہتاہےکہ اللہ پاک اس ادارہ کوترقی عطافرمائیں، اورآگےتک پہونچائیں، یہ رقم اس مدرسہ کیلئےہے۔
احوال عالم اورامت مسلمہ کی فکراورخیرخواہی
اتنی عظیم علمی شان اوررتبہ کےساتھ حضرت احوال عالم کی طرف متوجہ تھے، اس کی خبر رکھتے، امت مسلمہ کی حالت کی فکراوراس کےساتھ خیرخواہی فرماتےتھے، بہت شفقت کے ساتھ امت سےپیش آتے، امت کی فکرمیںدوسروںکوبھی اس کی طرف متوجہ فرماتے، حافظ قرآن کو نوافل میںتلاوت کرنےکی خصوصی تاکیدفرماتے، اس وقت کےحالات کودیکھتےہوئے خصوصیت سےاستغفارکی کثرت پرعمومیت کےساتھ متوجہ فرماتے، اصلاح کیلئےفکرمندرہتے۔
اپنےبڑوںاوراساتذہ کےساتھ محبت
حضرتکےقریب رہنےوالے، حضرت سےاستفادہ کرنےوالے، حضرت کی مجالس اورحلقۂ درس میںحاضررہنےوالےتمام حضرات کواس کامشاہدہ ہےکہ حضرت اپنے محسنین، اکابرومشائخ اوراپنےکرم فرماحضرات اساتذہ کرام کابڑی محبت ، عزت اوروالہانہ انداز میںتذکرہ فرماتےتھے،جس سےایک خاص محبت اورتعلق ظاہرہوتاتھا، اوربعض اساتذہ کرام کاتو محبت کےساتھ دوران سبق تذکرہ فرماتےتھے، خصوصاًاپنےمکرم استاذحضرت مولاناضیاءالحق صاحبؒ کااورہمارےحضرت اقدس الشاہ مولاناعبدالحلیم صاحب نوراللہ مرقدہ کاتذکرہ فرماتے تھے ۔
آپ کےمولانایونس صاحب
ایک مرتبہ ہمارےحضرت اقدس الشاہ مولاناعبدالحلیم صاحب جونپوری  سہارنپور تشریف لائے، اس وقت حضرت استاذمولانامحمدیونس ؒ سےملاقات کیلئےبھی تشریف لےگئے تھے ، حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کےپاس تشریف لائےتوحضرت شیخ الحدیثؒنےفرمایاکہاںچلے گئے تھے؟ تومیرےحضرتؒنےفرمایاکہ آپ کےمولانامحمدیونس صاحب سےملنے، توحضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نےفرمایاکہ مولوی یونس() توتمہارےہیں، اتنی محبت سےتمہارانام لے لےکرقریب ہوتےگئے۔
دیکھئے!حضرت شیخ فرمارہےہیںکہ آپ کامحبت کےساتھ تذکرہ کرکےقریب ہوئے ، حضرت  کی یہ بڑی خصوصیت تھی، اسی سےاللہ پاک ترقی عطافرماتےہیں،اس لئے ہر ایک کیلئےیہ بات ہے،جوشخص اپنےمحسنین کےساتھ محبت کرے، ان کےساتھ اچھابرتاؤکرےتو اللہ پاک اس کوترقی عطافرماتےہیں۔
ہماری ذمہ داریاں
حضرتؒکےدنیاسےرخصت ہوجانےکےبعدحضرت کےتمام متعلقین، ہم تمام تلامذہ، خلفاء، محبین ومریدین پرحق ہےکہ حضرت کی تعلیمات کواپنائیں، ان تعلیمات کوعام کریں، ان کی کتابوںکوعام کرنےکی کوشش کریں ،علمی اورعملی اچھانمونہ پیش کرنےکی کوشش کریں۔
میری کتابوںکی تکمیل ہوجائے
حضرتؒکی طبیعت ایک دوسال پہلےمدینہ پاک میںبہت زیادہ خراب ہوگئی تھی، اس بیماری کےایام میںبھی حاضری کی توفیق الحمدللہ مجھےبھی ملتی تھی، الحمدللہ طبیعت اچھی ہوگئی، حضرت ہندوستان تشریف لائے، طبیعت اچھی ہوجانےکےبعدحضرت کی خدمت میںحاضری کے مواقع ملتےرہے، ایک مرتبہ حضرت نےمجھ سےفرمایاکہ میںنےاس مرض میںاللہ پاک سےدوسال مزید مانگ لیاہےمیراجی چاہتاہےکہ میری کتابوںکی تکمیل ہوجائے، حضرتؒکی اس بات کوہم نےسہارنپورکےتعزیتی جلسہ میںبھی عرض کیاتھا۔
مال کی طرح اعمال کی تقسیم
اوراس وقت یہ بھی عرض کیاتھاکہ غم کےوقت میںصبرکرناعبادت اورصبرکاآجاناعادت ہے، اس وقت اس جلسہ میںہم سب موجودہیں، اللہ پاک سبحانہ وتعالیٰ قبول فرمائیں، یہ سب محبت کی دلیل ہے، ایسےمواقع پرجیسےباپ کےانتقال کےبعداولادمیراث میںباپ کےمال کوتقسیم کرتی ہے اسی طرح آج ہم لوگ حضرت کےانتقال کےبعداعمال تقسیم کرلیں، حضرت کے متعلقین میں، تلامذہ میںماشاءاللہ بہت سےصاحب قلم ہیں، ماشاءاللہ، مضامین لکھتےہیں،کتابیںتصنیف وتالیف کرتےہیں، توچوںکہ حضرت نےمجھ سےخودفرمایاتھاکہ میری خواہش ہےکہ میری کتابوں کی تکمیل ہوجائےاس لئےوہ حضرات یہ طے فرمالیںکہ حضرت کی کتابوںاور سوانح حیات کی ترتیب دیںگے، دروس کوتحقیق کرکےشائع کریںگےتاکہ حضرت کی تعلیمات عام ہوجائیں۔
حضرت لیث بن سعدکےبارےمیں علماءلکھتے ہیںکہ کان لیث ابن سعدأفقہ من مالک، کہ حضرت لیث بن سعد،امام مالکؒ سےبھی بڑےفقیہ تھے، لیکن ان کامسلک نہیںچل سکا اور امام مالک کامسلک، مالکی مسلک چل پڑا، مستقل ایک مسلک ہے، کیوں؟ اس لئےکہ امام مالکؒ کوشاگرد مل گئےتھے، اورحضرت لیث بن سعدؒ کو شاگردنہیںملے، اسلئےان کامسلک نہیںچل سکا، توالحمدللہ حضرتؒ کےبہت سےشاگردہیں، بخاری شریف پڑھاتےہیں،کتابیںلکھتےہیں، اگر ہمارےاس مجمع میںتشریف فرماحضرات اہل علم طےکرلیںکہ جوبھی جوکام کرسکتاہےکرےگا، ہم اس کاذمہ لے لیںتوانشاءاللہ کام آسان ہوجائےگااورعام ہوجائےگا۔
سوانح کی ترتیب
آج کےاس تعزیتی جلسہ میںمیرےبزرگودوستو! ہم یہ طےکرلیںکہ حضرت کی سوانح بھی لکھی جائے، جانےوالےکی سوانح حیات لکھناچاہئے، ہم لوگ بیان میںحضرت کی باتیں، فضائل بیان کرتےہیں، کہتےہیں، لیکن یہ باتیںبعدمیںختم ہوجائیں،گی لوگ بھول جائیںگےاور سوانح حیات لکھی ہوئی باقی رہتی ہے، اس کی وجہ سےشخصیت کاتذکرہ محفوظ ہوجاتاہے۔
اللہ پاک ہم سب کوحضرت کی تعلیمات کاعلمی اورعملی اچھانمونہ پیش کرنے والا بنائیں، حضرتؒکی خدمات کوقبول فرمائیں، درجات عالیات اعلی علیین میں مقربین کےساتھ عطافرمائیں۔ آمین۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
 
Last edited by a moderator:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مدرسہ ریاض العلوم گو رینی ،زمانہ طالبعلمی میں مولانا منیر صاحب حفظہ اللہ کو بار بار دیکھا اور حضرت شیخ کی دو یاتین بار مدرسہ تشریف آوری پر زیارت کی کسی نے کیا خوب کہا ۔
میرے صاحب (حضرت) بھی بہاروں کا اثر رکھتے تھے۔۔۔۔۔پاؤں رکھتے تھے جدھر پھول اُدھر کھلتے تھے۔
مفتی ناصر مظاہری صاحب کا بیحد ممنون ہوں کہ انہوں نے قیمتی مضمون شیئر فرمایا ،جزاک اللہ خیر
 
Last edited:
Top