کتب میں ضعیف احادیث - اور ضعیف حدیث پر عمل کا معیار

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ضعیف احادیث کے موضوع سے متعلق دو بھائیوں کی عبارات نظر آئی ہیں ۔ ان کو یہاں پر نقل کر رہا ہوں ۔
یہ آج کل کا مشہور موضوع ہے ۔ کسی کے ذہن میں اس موضوع سے جو پوائنٹ نظر آئے وہ یہاں نقل کریں ۔

احمد قاسمی بھائی نے یہ عبارت نقل کی ہے ۔

ضعیف او ر موضوع احادیث پر مشتمل کتب مع تعداد حادیث
۱۔ امام بیہقی کی کتاب " الاسماء والصفات " میں موضوع اور ضعیف روایات کی تعداد (۳۲۹) ہیں ۔

۲۔ابو بکر محمد بن حسین آجری بغدادی کی کتاب"الشریعۃ " میں مذکور ضعیف اور مو ضوع احادیث کی تعداد(۶۵۷) ہے۔

۳۔ابو بکر احمدبن محمدبن ہارون خلا ل متوفی ( ۳۱۱ھ) کی "کتاب السنۃ" کی ضعیف اور موضوع روایات کی تعداد (۳۸۹) ہے۔

۴۔ امام ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل ؒ شیبانی متوفی ۲۹۰ھ کی "کتاب السنۃ" میں ضعیف اور موضوع روایات کی تعداد (۳۰۳) ہے۔

۵۔حافظ ابو بکر بن ابو عاصم ضحاک بن مخلد شیبانی متوفی ۲۸۷ھ کی "کتاب السنۃ "کی ضعیف اور موضوع روایات کی تعداد (۲۹۸) ہے

۶۔امام بخاری رحمۃ اللہ کی " تاریخ کبیر"بقول دکتور محمد بن عبد الکریم بن عبید حفظہ اللہ کے ۔احادیث مرفوع کی تعداد( ۱۱۲۷) صحیح احادیث تعداد ( ۲۱۰)حسن احادیث ( ۳۷۰)ضعیف اور بالکل نا اعتبار (۳۹۹) اور موضوع احادیث ایک ہے۔

۷۔ امام بخاری علیہ الرحمہ کی"کتاب الا دب المفرد "علامہ جیلانی والے نسخے کی ضعیف احادیث کی تعداد (۹۹) تک پہونچ جاتی ہے۔

نیز عبد الفتاح ابو غدہ نے " الادب المفرد "کے ایسے رواۃکا جو مستور ،ضعیف یا مجہول یا ان جیسے اوصاف سے متصف ہیں "تقریب " کی ورق گردانی کے بعد ان اعداد وشمار ذکر کئے ہیں ۔جن میں مستورین کی تعداد ۲۰ اور ضعیف رواۃ کی تعداد ۲۲ اور مجہول کی تعداد ۲۸ ہے۔

۸۔ حافظ مجد الدین عبد السلام ابن تیمیہ کی کتاب (احکام ) "المنتقیٰ " میں ضعیف احافدیث کی تعداد (۲۶۲) ہے ۔

۹۔ حافظ ابن حجرؒ کی کتاب " بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام " میں درج شدہ احادیث کی تعداد (۱۱۷ ہے ۔

۱۰۔ امام نوویؒ کی کتاب " خلاصۃ الاحکام من مہمات السنن وقواعد الاسلام" میں نقل کردہ احادیث ضعیفہ کی تعداد ( ۶۵۴) تک پہونچ جاتی ہے

۱۱۔ ابن المقلن شافعی فر ماتے ہیں میں نے " تحفۃ المحتاج کی شرح عمدۃ المحتاج الیٰ کتب المنھاج" میں ضعیف احادیث سے جا بجا استدلال کیا ہے ۔

۱۲۔ محقق عصر جناب ڈاکٹر مصطفٰیاعظمی اور عالی مقام شعیب ارناؤط نے ابن خزیمہ کی ضعیف احادیث کی تعداد ( ۳۵۲ ) بیان کی ہے ۔

۱۳۔ صحیح ابن حبان کی ضعیف احادیث محقق عصر جناب ڈاکٹر مصطرفیٰ سباعی اور عالی مقام شعیب ارناؤط کے مطابق ( ۲۹۴) ہے ۔

۱۴۔ حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب " الاحادیث المختارہ" میں موجود ضعیف احادیث کی تعداد (۶۰۶) ہے

۱۵۔ ابو عبد اللہ حاکم کی کتاب " المستدرک " میں ضعیف احادیث کی تعداد بقول ابن المقلن اور علامہ ذھبی ( ۹۰۷) ہے ۔

۱۶۔ سید صدیق حسن خان کی کتاب " نزل الابرار " میں درج شدہ ضعیف احادیث کی تعداد بقول مصنف مقال سرسری تلاش میں (۱۳۳) ملی دقتِ نظری سے تلاش میں اور مل سکتی ہیں ۔

۱۷ؕصلوٰۃ الرسول بقول غیر مقلد عالم مولوی عبد الرؤف انتہائی ضعیف احادیث ( ۸۴ ) ہیں۔
بحوالہ:جماعت تبلیغ پر اعتراضات کے جوابات .کتب فضائل حقائق ۔۔غلطیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں ( تلخیص الخیال ،تلخیص وترجمہ تحقیق المقال۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
احمد پربھنوی بھائی نے لکھا ہے ۔

علماء نےاحکام کے بارے میں شدت برتی لیکن ترغیب میں ایسے راویوں کی حدیث سبھی نے لائی ہیں اسی طرح امام بخاری نے بھی ایک حدیث لائے ہیں جو متابعت میں بھی صحت کے درجہ تک نہیں پہنچتی ـ
ابی بن عباس جس سے امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اصول میں روایت لی ہے
عن ابی بن عباس بن سهل بن سعد عن ابیه عن جدہ قال: کان للنبی في حائطنا فرس یقال له اللحیف“
حافظ نے ابی بن عباس کا کمزور حافظہ بتلاتے ہوئے محدثین کے اقوال پیش کیے اور کہا ان کے بھائی نے اس حدیث میں متابعت بھی کی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے
چنانچہ النکت میں لکھتے ہیں

”وعبد المهیمن ایضاً فیه ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلك انه لیس من احادیث الاحکام‘ فلهذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحته“ انتہی۔

امام مسلم نے تو صحیح کے مقدمہ میں جہاں وہ اصول بتلارہے ہیں ان میں مجہولین سے بھی روایت لی ہیں
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
علامہ عبد الحئی لکھنویؒ نے الاجوبۃ الفاضلۃ میں اس سلسلے میں یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ جن جگہوں پر (فضائل وغیرہ میں) ضعیف احادیث قبول کی گئی ہیں وہ احادیث ضعیف نہیں بلکہ حسن ہیں۔ چونکہ امام ترمذیؒ سے پہلے تک "حسن" احادیث کا تصور نہیں تھا اس لیے ان علماء نے انہیں ضعیف کہا ہے۔
الاجوبۃ الفاضلۃ نظر سے گزرے بہت عرصہ ہو گیا اس لیے اس موضوع کو وہاں ملاحظہ فرما لیجیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بہت سی ایسی احادیث جنہیں ہم ضعیف کہتے ہیں وہ در حقیقت حسن ہوتی ہیں اور ان کے راوی کے صرف حافظے پر جرح ہوتی ہے۔ اگر کسی راوی کی عدالت بیان ہو اور اس کے باوجود اسے "منکر الحدیث" یا "ربما اخطا" وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا جائے تو اس کی روایت کو بھی میرا خیال ہے کہ حسن ہی کہنا چاہیے۔ واللہ اعلم
@احمد پربھنوی
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
علامہ عبد الحئی لکھنویؒ نے الاجوبۃ الفاضلۃ میں اس سلسلے میں یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ جن جگہوں پر (فضائل وغیرہ میں) ضعیف احادیث قبول کی گئی ہیں وہ احادیث ضعیف نہیں بلکہ حسن ہیں۔ چونکہ امام ترمذیؒ سے پہلے تک "حسن" احادیث کا تصور نہیں تھا اس لیے ان علماء نے انہیں ضعیف کہا ہے۔
یہ نظریہ دراصل حافظ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ نے پیش کیا ہے ۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے فیض الباری میں فرمایا ہے کہ یہ درست نہیں ہے ۔بلکہ امام ترمذیؒ سے پہلے ائمہ سے بھی حسن اصطلاح ثابت ہے ۔
قواعد فی علوم الحدیث ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے حاشیہ میں شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ نے اپنے مایہ ناز تلمیذ شیخ عوامہ کی اس بارے میں طویل بحث نقل کی ہے ۔ جو بہت مفید ہے ۔
BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
علامہ عبد الحئی لکھنویؒ نے الاجوبۃ الفاضلۃ میں اس سلسلے میں یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ جن جگہوں پر (فضائل وغیرہ میں) ضعیف احادیث قبول کی گئی ہیں وہ احادیث ضعیف نہیں بلکہ حسن ہیں۔ چونکہ امام ترمذیؒ سے پہلے تک "حسن" احادیث کا تصور نہیں تھا اس لیے ان علماء نے انہیں ضعیف کہا ہے۔
الاجوبۃ الفاضلۃ نظر سے گزرے بہت عرصہ ہو گیا اس لیے اس موضوع کو وہاں ملاحظہ فرما لیجیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بہت سی ایسی احادیث جنہیں ہم ضعیف کہتے ہیں وہ در حقیقت حسن ہوتی ہیں اور ان کے راوی کے صرف حافظے پر جرح ہوتی ہے۔ اگر کسی راوی کی عدالت بیان ہو اور اس کے باوجود اسے "منکر الحدیث" یا "ربما اخطا" وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا جائے تو اس کی روایت کو بھی میرا خیال ہے کہ حسن ہی کہنا چاہیے۔ واللہ اعلم
@احمد پربھنوی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جی محترم مولانا اشماریہ صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہیں متقدمین میں سے بہت سے محدثین منکرالحدیث کا اطلاق منفرد روایات بیان کرنے والے پر کرتے تھے اور اگرچہ اس منکر الحدیث راوی روایت کرنے میں منفرد ہو اور کسی ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو تو پہر تو اس کو رد کیا جاتا تھا لیکن اس منفرد روایت میں کسی کی بھی مخالفت نہ ہو تو ممکن ہے وہ حسن روایت ہو اور راوی اگر روایات کرنے میں غلطیاں کرتا تھا لیکن منفرد روایت جس میں اس مخصوص روایت کو اس راوی کے علاوہ کسی نے روایت نہ کیا ہو تو اس کو حسن کہا گیا آپ اگر الکامل کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو کئ راویوں کے تعلق سے آپ کو یہ بات ملے گی لیکن متقدمین ان حسن روایت سے احکام میں احتجاج نہیں کرتے تھے ـ
واللہ اعلم بالصواب
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
امام شافعیؒ اور ضعیف حدیث سے استحباب پر استدلال
--------------------------------

امام شافعیؒ بھی ضعیف روایت سے استحباب کے قائل ہیں جیسا کہ جمہور علماء فرماتے ہیں

۔ مثلاََ عیدین کی راتوں میں عبادت کے سلسلہ میں کتاب الام میں فرماتے ہیں۔

[الْعِبَادَةُ لَيْلَةُ الْعِيدَيْنِ]

ِ أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيد عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: " مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْعِيدِ مُحْتَسِبًا لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ حِينَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ".

(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى، وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ رَأَيْت مَشْيَخَةً مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ يَظْهَرُونَ عَلَى مَسْجِدِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَيْلَةَ الْعِيدِ فَيَدْعُونَ وَيَذْكُرُونَ اللَّهَ حَتَّى تَمْضِيَ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ،
وَبَلَغْنَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُحْيِي لَيْلَةَ جُمَعٍ، وَلَيْلَةُ جُمَعٍ هِيَ لَيْلَةُ الْعِيدِ لِأَنَّ صَبِيحَتَهَا النَّحْرُ


(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَأَنَا أَسْتَحِبُّ كُلَّ مَا حُكِيَتْ فِي هَذِهِ اللَّيَالِيِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فَرْضًا.

عیدین کی راتوں میں عبادت کی فضیلت کئی مرفوع احادیث میں بھی ہے لیکن وہ مرفوع روایات ضعیف ہیں ۔

جیسا کہ المناویؒ فیض القدیر۳۔۴۵۴ میں ابن حجرؒ سے نقل کرتے ہیں ۔

(خمس ليال لا ترد فيهن الدعوة) من أحد دعى بدعاء سائغ متوفر الشروط والأركان والآداب (أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر) أي ليلة عيد الفطر (وليلة النحر) أي عيد الأضحى فيسن قيام هؤلاء الليالي والتضرع والابتهال فيها وقد كان السلف يواظبون عليه روى الخطيب في غنية الملتمس أن عمر بن عبد العزيز كتب إلى عدي بن أرطاة عليك بأربع ليال في السنة فإن الله تعالى يفرغ فيهن الرحمة ثم سردها
(ابن عساكر) في تاريخه (عن أبي أمامة) ورواه عنه أيضا الديلمي في الفردوس فما أوهمه صنيع المصنف من كونه لم يخرجه أحد ممن وضع لهم الرموز غير سديد ورواه البيهقي من حديث ابن عمر وكذا ابن ناصر والعسكري


قال ابن حجر: وطرقه كلها معلولة

اور امام شافعیؒ جو مرسل اور منقطع وغیرہ روایات کے سلسلہ میں سب سے سخت موقف رکھتے ہیں ۔
وہ بلغنا (ہمیں روایت پہنچی ہے) کے الفاظ سے (جس میں ساری سند ہی چھوڑ دی جاتی ہے )روایت کر کے بھی فرماتے ہیں کہ
"میں ان راتوں میں عبادت کو مستحب سمجھتا ہوں۔۔۔

امام نوویؒ مجموع شرح مہذب۵۔۴۳ میں امام شافعیؒ کے کلام کو نقل کر کے فرماتے ہیں ۔

هَذَا آخِرُ كَلَامِ الشَّافِعِيِّ وَاسْتَحَبَّ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ الْإِحْيَاءَ الْمَذْكُورَ مَعَ أَنَّ الْحَدِيثَ ضَعِيفٌ لِمَا سَبَقَ فِي أَوَّلِ الْكِتَابِ أَنَّ أَحَادِيثَ الْفَضَائِلِ يُتَسَامَحُ فِيهَا وَيُعْمَلُ عَلَى وَفْقِ ضَعِيفِهَا

یعنی امام شافعیؒ اور ان کے اصحاب نے ان راتوں میں عبادت کرنے کے استحباب کے قائل ہیں باوجود اس کے کہ حدیث ضعیف ہے اور جیسا کہ شروع کتاب میں ذکر ہو چکا ہے کہ فضائل کی احادیث میں چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے اور اس کے ضعیف ہونے کے موافق اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔
 
Top