تحفظ کی خاطر روپ بدلتے جانور

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
تحفظ کا احساس ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے۔ لاکھوں سال قبل انسان جب جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی تمدنی زندگی کا آغاز کر رہا تھا تو اس کا مقابلہ ہیبت ناک درندوں سے تھا۔ ایسے درندے جو پل بھر میں اپنے سے کمزور ہر شے کو مٹا دینے پر قادر تھے۔ یہ وہ تاریک زمانہ اور سفاک ماحول تھا جب ہر جان دار صرف طاقت کی بنیاد پر ہی جینے کا حق رکھتا تھا۔
جہاں مقابلہ کرنے سے زیادہ بچاؤکرنا اہم تھا۔ ایسے میں انسانوں نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ہتھیار بنانے شروع کر دےے اور اپنی بقا کا سامان ایجاد کر لیا۔ لیکن وہ جان دار جو فلک بوس پہاڑوں اور عمیق سمندروں، وسیع صحراؤں اور برفانی ٹیلوں کے باسی تھے اور ہتھیار بنانے سے قاصر تھے ۔ حالات کے ستم کا سب سے زیادہ شکار ہوئے۔ کہتے ہیں کہ زندہ رہنے کی خواہش ہی موت کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔
چنانچہ رفتہ رفتہ ان جانداروں نے ، جن میں رینگنے والے کیڑوں سے لے کر گوشت خور جانور تک سبھی شامل تھے، فطرت کے اصولوں اور راستوں پر چلتے ہوئے اپنی بقا کی جنگ لڑنا شروع کر دی۔ دوسرے معنوں میں طاقت اور ذہانت کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ فطرت اور ذہانت کے حسین امتزاج کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کا سب سے اہم ہتھیار ، کیمو فلاج Camouflage تھا جس کا سامان قدرت نے چہار سُو پھیلا رکھتا ہے۔
کیمو فلاج اپنی شناخت کو چھپانے کے عمل کا نام ہے دراصل فطرت کی دی ہوئی بھول بھلیوں میں خود کو اختیاری یا غیر اختیاری طور پر سمونے کا نام ہے جس کا جگہ جگہ اظہار ہمیں جنگلی اور بحری زندگی میں نظر آتا ہے۔ دشمنوں کی نظروں سے خود کو پوشیدہ رکھنا ہو یا پھر شکار پر جھپٹنا مقصود ہو، دونوں صورتوں میں اکثر جانور ایسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں جس کا دارو مدار شکار گاہ کے فطری ماحول اور رنگ و روپ سے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جنگلی یا بحری زندگی دو قسم کا کیمو فلاج کرتے ہیں جن میں سے ایک تو ظاہری اور دوسرے کو اندرونی کیمو فلاج کہا جاتا ہے۔

ظاہری کیمو فلاج :
دراصل فطرت یا ارد گرد کے ماحول سے ادھار لیا ہوا وہ تحفظ ہوتا ہے جس میں ذہانت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔ جیسے دھاری دار چیتے یا چتکبرے تیندوے جھاڑیوں میں دبک کر ان کا حصہ بن جاتے ہیں یا دور دور تک پھیلی ہوئی برف میں برفانی ریچھ اور برفانی الّو خود کو ضم کر لیتے ہیں۔ اسی طرح سے ہرے پتوں میں رینگنے والے سبز رنگ کے ننھے منے حشرات، ہرے مینڈک، پتلی رسی جیسے ہرے سانپ اور انوکھے قسم کے رنگ برنگے پرندے وغیرہ ، ہر یالے ماحول کا حصہ بن کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، جبکہ اڑتی ہوئی ریت میں رینگنے والے جانور (Reptile) ریت اوڑھ کر زمین کا پیوند بن جاتے ہیں یا پھر تتلیاں پروانے اور اڑنے والے حشرات ، پھولوں، پتیوں کے رنگ میں خود کو بآسانی ڈھال کر اپنے ارد گرد ڈھال بنا لیتے ہیں۔

اندرونی کیموفلاج :
وہ کیفیت ہوتی ہے جس کے دوران جانور خطرے کی حالت میں اپنے اندرونی نظام میں تبدیلی کے اثرات اپنی جلد پر لا کر خود خطرے سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اس کا یہ عمل مکمل طور پر فطرت کا عطا کردہ ہے جو خطرے کی حالت میں از خود متحرک ہو جاتا ہے اس قسم کے کیموفلاج میں سب سے اہم کردار رنگ کی تبدیلی کا ہوتا ہے جیسے گرگٹ یا گہرے سمندروں میں پائی جانے والی مخصوص آبی حیات اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔
ایسے جانور اور حشرات، جو اپنے تحفظ کے لےے کیمو فلاج کے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے کیمو فلاج کے طریقے بھی الگ ہوتے ہیں۔

گرگٹ اور چھپکلیاں :
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا محاورہ، اپنے الفاظ اور وعدوں سے پھر جانے والے افراد کے لےے کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ گرگٹ اپنی بقا کے لےے اندرونی تبدیلیوں کے ذریعے اپنی جلد کا رنگ بدل کر دشمن کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ تقریباً 160 انواع کے گرگٹ جو دنیا بھر میں گرم صحراؤںسے لے کر برساتی جنگلات تک میں پائے جاتے ہیں۔ خطرے کی صورت میں رنگ بدلنے پر قادر ہیں، جس کی بنیادی وجہ Chromatophores نام کا وہ رنگین خلوی مادہ ہے جس کی بدولت وہ بآسانی گلابی ، نیلے، لال ، ہرے ، کالے ، بھورے، پیلے اور فیروزی رنگ میں اپنی جلد کے رنگ کو حسب منشا تبدیل کر لیتا ہے جو کہ عموماً پس منظر کی رنگت سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا بچاؤکرتا ہے یا شکار کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
تاہم جدید تحقیق کے مطابق یہ عمل نر اور مادہ گرگٹوں کے درمیان ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رنگ بدلنے کی ایسی ہی صلاحیت Anole اور Gecko نام کی گھریلو چھپکلیوں میں بھی پائی جاتی ہے ، تاہم ان کی اس صلاحیت کا دارومدار، درجہ¿ حرارت پر ہوتا ہے۔ اسی طرح گرینائٹ پتھر کی مشابہت رکھنے والی Granite Spiny Lizard بھی رنگ بدلنے کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ یہ چھپکلیاں زیادہ تر چٹانوں پر پائی جاتی ہےں۔ ایک اور چھپکلی Frilled کی گردن پر جھاڑ نما کھال ہوتی ہے جسے وہ خطرے کے وقت پھیلا کر دشمن کو دھوکا دیتی ہے اس دوران وہ رنگ بدلنے کے بعد درختوں کے اوپر پتوں میں چھپ کر ان کی مدد سے ہم رنگ ہو جاتی ہے۔

مچھلیاں:
پتلی پلیٹ نما مچھلی Flounders خطرے کا احساس ہوتے ہی سمندر کی تہہ میں بچھی ہوئی ریت میں خود کو چھپا لیتی ہے اور اس دوران اپنی جلد کی ظاہری شکل بھی تبدیل کر لیتی ہے۔ اسی طرح سے شہنائی کی شکل کی ایک لمبی مچھلی Trumpet خطرے کے وقت سمندر میں موجود عمودی گھاس کی طرح خود کو ساکن حالت میں سیدھا کھڑا کر لیتی ہے اور گھاس سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔
اِسٹون خِش بھی زبردست طریقے سے کیمو فلاج کا طریقہ اختیار کرتی ہے۔ دریا اور سمندر میں پائی جانے والی یہ مچھلی انسانوں کے لےے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے اس کی جلد کھردری اور ابھری ہوئے پتھر جیسی ہوتی ہے جس کے باعث یہ بآسانی سمندری چٹانوں میں چھپ جاتی ہے اس کے علاوہ چٹانوں ہی میں رہنے والی مچھلی Scorpion Fish بھی خطرے کا احساس ہوتے ہی دھوکا دینے کے لےے اسی کی مانند چٹانوں پر بے سدھ ہو جاتی ہے
اسی طرح بہت سی سمندری مخلوقات مثلاً مونگے (Corals) وغیرہ جسم سے خارج ہونے والے گہرے سرخ، گلابی اور سفید رنگوں میں خود کو بآسانی چھپا لیتے ہیں ۔خود کو خطرے سے محفوظ رکھنے والی ایک اور مچھلی Porcupine (جسے Baloon Fish بھی کہتے ہیں ) ، جو اپنی جسامت کو ہوا یا پانی کی مدد سے پھلا کر دگنی کر لیتی ہے۔ اس طرح سے وہ دشمن مچھلیوں کے منہ میں آنے سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ Cuttle نامی مچھلی بھی رنگ بدلنے پر قادر ہے۔

کچھوے :
بہت سے کچھوے، جوکہ پانی میں رہتے ہیں ، اپنی سخت، بیرونی پشت، کی گہری سبز رنگت اور ساخت کے باعث Algae میں خود کو وقتی طور پر چھپا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ Algae ایک آبی پودا ہے جو خورد نامیاتی شکل Plankion میں پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔
چیتل :
ہرنی کی ایک مخصوص نسل چیتل اپنے لذیز اور تقریباً 99 فیصد چکنائی سے پاک گوشت کے باعث شکاریوں کا اہم ہدف ہے۔ چیتل زیادہ تر جھاڑ جھنکاڑ والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں وہ جھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں۔ اپنی عمر کے پہلے سال ان کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے جس پر وقت گزرنے کے ساتھ سفید دھبے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، جبکہ جسم کا نچلا حصہ سفید ہوتا ہے۔ چیتل خطرے کا احساس ہوتے ہی ایسی جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر پتے نہیں ہوتے کیونکہ اس طرح وہ اپنی جلد کے باعث بآسانی خشک جھاڑیوں میں چھپ کر خود کو بچا لیتے ہیں اس کے علاوہ افریقہ میں پایا جانے والا چھوٹی نسل کا ہر ن Bon Go Antelope کے جسم پر سفید عمودی دھاریاں ہوتی ہیں ، خطرے کے وقت عموماً بانس اور کھڑی جھاڑیوں میں خود کو چھپا لیتا ہے۔

آکٹوپس :
مونگوں اور مرجانوں کی چٹانوں کے درمیان، خاموشی سے آنکھیں موندے آکٹوپس اپنے دفاع کے لےے منفرد طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ آبی جانوروں میں سب سے زیادہ ذہانت کی حامل یہ مخلوق خطرے کا احساس ہوتے ہی کوشش کرتی ہے کہ اپنی جلد کی رنگت جیسی کسی چٹان میں پناہ لے کر نظروں سے اوجھل ہو جائے، لیکن اگر ایسی سہولت نظر نہ آئے تو آکٹوپس اپنے جسم میں موجود تھیلی سے زبردست طریقے سے روشنائی خارج کرتے ہیں جس سے ان کے اور دشمن کے درمیان ملگجے سے بادل آ جاتے ہیں اور دشمن گھبرا کر یاڈر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
مخصوص بوکی حامل یہ روشنائی کثیف اور سیاہ ہوتی ہے جس کی تیز بو سے بھی دشمن بھاگ جاتے ہیں ، حیرت انگیز طور پر اس روشنائی کا بنیادی عنصر Melanin ہوتا ہے یہ وہی کیمیائی عنصر ہے جس کی بنیاد پر انسانوں کی جلد اور بالوں کا رنگ تشکیل پاتا ہے۔اس کے علاوہ گرگٹ کی طرح آکٹوپس بھی Chromatophores کی مدد سے پیلے، بھورے اور کالے رنگ میں خود کو تبدیل کر سکتا ہے اور بعض صورتوں میں جب حملہ آور نہایت خطرناک ہو تو بہت سارے آکٹوپس اپنے لچیلے جسم کو آپس میں ملا کر عجیب و غریب شکلیں اختیار کر لیتے ہیں، جنھیں پہچاننا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

درختوں پر رہنے والے مینڈک :
انھیں European Tree Frog بھی کہتے ہیں۔ ان مینڈکوں کی جسامت صرف چار سینٹی میٹر ہوتی ہے اور ان میں بھی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جلد کا رنگ پتوں کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں جن میں سبز، خاکی،بادامی اور چمکیلا پیلا رنگ شامل ہے۔ اس بہروپ کے ذریعے وہ خود کو درختوں میں چھپا لیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے حشرات کھانے والے یہ مینڈک آسانی سے اپنے کم وزن کی بدولت بڑے بڑے پتوں میں اس طرح چھپ کر بیٹھ جاتے ہیںکہ پتوں کا ہی حصہ نظر آتے ہیں اور جیسے ہی حشرات ان کے قریب آتے ہیں یہ ان کا شکار کر لیتے ہیں۔

تتلیاں:
کوہِ ہمالیہ کے سلسلے میں پائی جانے والی Dead leaf تتلی جب اپنے پر سمیٹتی ہے تو بالکل خشک پتون کی طرح نظر آتی ہے ، حیاتیاتی طور پر Kallima Inachcis کے نام سے پہچانی جانے والی اس تتلی کے پر خشک موسم میں اندرونی جانب سے بالکل خشک پتوں کی مانند ہو جاتے ہیں اور جب کوئی اس پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ اپنے پر سمیٹ کر شاخ پر بالکل خشک پتے کی طرح نظر آنے کی وجہ سے محفوظ ہو جاتی ہے اس دوران یہ اپنے پروں پر پتوں کی مانند رگیں بھی ابھار لیتی ہے جو کہ کیمو فلاج کی ایک عمدہ مثال ہے اس کے برعکس برسات کے موسم میں اس کے پر خوب رنگ برنگے ہو جاتے ہیں جن میں زرد رنگ نمایاں رہتا ہے اس دوران خطرے کا احساس ہوتے ہی یہ خود کو پھولوں اور پتوں میں آسانی سے چھپا لیتی ہے۔

پتنگے :
رنگ برنگے پروں والا ”آئی۔ او “ (i.o) پتنگے کو عموماً تتلی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا تعلق پتنگوں کے خاندان سے ہوتا ہے اس پتنگے کے اوپری پروں کے نیچے مزید دو پر ہوتے ہیں، جنھیں وہ چھپا کر رکھتا ہے اور صرف اپنے دفاع یا حملے کے وقت استعمال کرتا ہے ۔ واضح رہے کہ ان خفیہ پروں پر اُلو کی آنکھوں کی مانند گول گول دیدے ہوتے ہیں اور جیسے ہی اسے خطرے کا احساس ہوتا ہے وہ یہ پر ظاہر کر دیتا ہے جن کو حملہ آور اُلو کی آنکھیں سمجھ کر اپنا ارادہ بدل لیتا ہے اسی طرح سے Pine Hawk نامی پتنگا خود کو آرام کے ساتھ صنوبر کی شاخوں میں چھپا لیتا ہے۔

ہنی :
چوہے کے خاندان سے تعلق رکھنے والا گلر چوہوں سے قدرے بڑا Honey Banger خود کو ساکت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کے سب سے نڈر جانور کا اعزاز رکھنے والے اس جانور کی پشت اور آدھا دھڑ سیاہ اور سفید پر مشتمل ہوتا ہے اور شکار کی گھات میں لگ بھگ پانچ منٹ تک بالکل ساکت رہ سکتا ہے۔ اس عمل کے دوران و ہ ایسا مقام چنتا ہے جو اس کی کھال سے ہم آہنگ ہوتا کہ دشمن دھوکا کھا کر اس کے قریب آجائے۔ بظاہر معصوم سا نظر آنے والا یہ 9سے 10 کلو گرام کا جانور اپنی اس صلاحیت کی وجہ سے اوسط وزن کے مگرمچھ کو بھی اپنے نرغے میں گھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آرماڈیلو (Armadillo): بیس انچ قا مت رکھنے والا جنوبی امریکا کا یہ جانور جس کی پشت پر زبردست سخت چھلکوں کی کئی تہیں ہوتی ہےں عمدہ طریقے سے اپنا دفاع کرنا جانتا ہے، بالخصوص تین تہوں والا Armadillo دشمن کو دیکھتے ہی خود کو سخت گیند کی شکل میں تبدیل کر کے ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے جسے شکار کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے جب کہ9 تہوں والا آرما ڈیلو گیند کی شکل میں لڑھکتے ہوئے دشمن کو حیران چھوڑ کر اس سے دور ہوتا جاتا ہے۔

لال سر ( Bittem):
پگلے کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ پرندہ خطرے کا احساس ہوتے ہی خود کو ایک جگہ ساکت کر لیتا ہے جس کے دوران یہ اپنی گردن یا دم کو اونچا کر لیتا ہے جس کے باعث یہ سر کنڈوں کا حصہ نظر آنے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سریلی آواز والی Bob white نام کی کوئل بھی آسانی سے ساکت ہو کر اپنے دشمنوں کو دھوکہ دیتی ہے۔
گھونگے (Snail): ایک منفرد نسل کے گھونگے جنھیں Gastropoda کہا جاتا ہے ، گہرے چمک دار رنگوں سے اپنا بھر پور دفاع کرتے ہیں چونکہ یہ ایک مضبوط شیل میں ہوتے ہیں ، لہٰذا جیسے ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو رنگوں کی مدد سے ارد گرد کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کر کے دشمنوں کی نظر سے چھپ جاتے ہیں۔

صاریغ (Opossum):
یہ چھوٹا سا تھیلی دار جانور کیمو فلاج کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ خطرے کو سامنے دیکھتے ہی بے سدھ ہو جاتا ہے اور جسم سے ایسی بد بو خارج کرتا ہے جیسے بیمار ہو یا پھر مر چکا ہو۔ اس اداکاری کے دوران اس کے ہونٹ پیچھے کی جانب کھینچ جاتے ہیں اور بھنچے ہوئے دانت نظر آتے ہیں، مند سے جھاگ اور تھوک نکال کر بہانے لگتا ہے ، جسم کے بال جو کہ ہلکے سے بلدار ہوتے ہیںوہ نیچے کی طرف گر جاتے ہیں اور بالآخراس تمام کیفیت سے دشمن دھوکے میں آکر واپس چلا جاتا ہے۔ صاریغ اس کیفیت کو ایک گھنٹے تک خود پر طاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت خوب
یہ بیچارہ تحفط کی خاطر روپ بدلتا ہے
لیکن حضرت انسان کے کتنے روپ ہیں اور کتنے بدلتا ہے یہ خود نہیں جانتا
دورنگی چھوڑ دے اک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا
 
Top