سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
ازافادات:حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ



حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق پیشنگوئی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:کہ ان میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو علم کو اگر ثریا پر بھی ہوگا تو وہاں سے لے آئے گا“،حضرات علمأ کی رائے یہ ہے کہ یہ اشارہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف ہے‘ کیونکہ وہ فارسی النسل ہیں۔(ملفوظات)

ایک مخنّث کے سوالات کے جوابات
خلیفہٴ وقت کے سامنے امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے کسی مخنث نے سوال کیا کہ تمام دنیا کی مردم شماری کتنی ہے؟ فرمایا کہ جتنے آسمان میں ستارے‘ اگر اتنے نہ ہوں تو شمار کرلے۔ دوسرا سوال کیا کہ زمین کا بیچ کہاں ہے؟ فرمایا کہ جہاں تو بیٹھا ہے‘ یقین نہ ہو تو ناپ لے،تیسرا سوال کیا کہ چار پائے زیادہ ہیں یا دو پائے؟ فرمایا کہ چار پائے زیادہ ہیں‘ یقین نہ آئے تو گن کے دیکھ لے،چوتھا سوال کیا کہ نرزیادہ ہیں یا مادہ؟ فرمایا کہ پہلے تو بتا تو کن میں سے ہے؟ اس پر وہ نادم ہوکر خاموش ہوا۔

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت
ایک مرتبہ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے حج کے موقعہ پر حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی اور گفتگو بھی ہوئی جب امام مالک رحمتہ اللہ علیہ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو شاگردوں نے دریافت کیا کہ آپ نے امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو کیسا پایا؟ تو امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: وہ ایسا شخص ہے اگر اس ستون کو سونے کا کہہ دے گا تو اس پر دلائل قائم کردے گا اور تم کو جواب نہ آئے گا تم اس کے دلائل کو توڑ نہ سکوگے۔

بھنگی کا ادب
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بھنگی سے دریافت کیا کہ کتا کب بالغ ہوتا ہے؟ اس نے کہا: جب ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگے‘ اس کے بعد امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ حال ہوگیا تھا کہ جب اس بھنگی کو دیکھتے تو مؤدب کھڑے ہوجاتے۔

امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو خلیفہ منصور کا قید کرانا
امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بادشاہِ وقت خلیفہ منصور نے قید کرادیا تھا اور دس کوڑے روزانہ ان کو لگواتاتھا‘ وجہ یہ تھی کہ بادشاہ وقت جو قانون بناتا اور عوام پر اس کو نافذ کرتا تو لوگ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے آکر دریافت کرتے کہ یہ قانون شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟اگر آپ فرماتے شریعت کے مطابق ہے تولوگ اس قانون پر عمل کرتے‘ ورنہ عمل نہ کرتے‘ بادشاہ نے ایک محتسب بھی مقرر کیا کہ نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیا کرے‘ چنانچہ وہ محتسب ایسے لوگوں کو سزا دینے لگا جو قانونِ شاہی کی خلاف ورزی کرتے‘ ایک مرتبہ وہ محتسب امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ حضرت! میری توبہ کی بھی کوئی شکل ہے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ بالکل پکی توبہ کرلو کہ آئندہ ایسا نہ کروں گا‘ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے۔ اس نے توبہ کرلی‘ اس کے بعد بادشاہ نے ایک قانون نافذ کیا اور اس کو بلاکر کہا کہ ہم نے فلاں قانون نافذ کیا ہے‘ تم اپنے کام کے لئے تیار ہوجاؤ یعنی جو شخص ا س کے خلاف کرے اس کو سزا دو۔ اس نے کہا: میں اس کا جواب کل دوں گا‘ رات کوامام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ: مجھے بادشاہ نے ایسا حکم دیا ہے‘ میں کیا کروں؟ مشورہ دیجئے! امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: تمہارے امتحان کا وقت آیاہے کہ آیا تم نے پکی توبہ کی ہے یا کچی؟ اس پر اس نے کہا کہ اچھا! میں اس کام کے لئے ہرگز نہ جاؤں گا‘ چنانچہ صبح کو جاکر بادشاہ سے انکار کردیا کہ میں اس کام کے لئے تیار نہیں ہوں۔ بادشاہ نے تحقیق کرائی کہ دیکھو یہ رات کس کے پاس گیا تھا‘ معلوم ہوا کہ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا تھا اور ان سے مشورہ کرکے آیا ہے‘ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا! ہم یہاں کا قاضی امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہی کو بنائیں گے اور انہیں کے ذریعہ اپنے احکامات کا اعلان کرائیں گے ‘چنانچہ اس نے امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو قاضی بنانا چاہا‘ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے انکار کردیا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ: آپ جھوٹ کہتے ہیں‘ آپ اس کے اہل ہیں۔ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: اگر میں جھوٹ کہتاہوں تو میرا دعویٰ بالکل سچا ہے‘ کیونکہ جھوٹا اہل نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے اصرار کیا‘ تب بھی امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے انکار کردیا‘ بالآخر جب امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نہ مانے تو ان کو قید کرادیا اور دس کوڑے روزانہ لگواتا۔ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس جیل خانہ ہی میں ایک ہزار طالب علم سبق پڑھنے کے لئے آنے لگے‘ بادشاہ کو ا س کا علم ہوا تو فکر ہوئی کہ کہیں یہ ان سب کو لے کر بغاوت نہ کردے‘ اس لئے امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو زہر پلانا چاہا‘ جب امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس زہر کا پیالہ لایا گیا‘ تو آپ کو بذریعہ کشف ا سکا علم ہوگیا آپ نے اس کے پینے سے انکار کردیا تو زبردستی پلادیا گیا‘ آپ اس کو پیتے ہی سجدے میں گر پڑے اور اسی حالت میں وہیں وفات ہوگئی رحمہ اللہ رحمة واسعة

صبر کا پھل
امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو لوگوں نے بہت تنگ کیا‘ ایک مرتبہ ان کے مکان پر ایک شخص آیا اور آپ سے کہا کہ میں آپ کی والدہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں‘ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: دیکھو بھائی! میری والدہ عاقلہ بالغہ ہیں‘ ان پر کسی کو ولایت اجبار حاصل نہیں‘ میں ان سے معلوم کرآؤں‘ اگر وہ اجازت دے گی تو کردوں گا‘ ورنہ نہیں‘ اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے پھر جو باہر تشریف لائے تو وہ شخص مقتول ملا‘ معلوم ہوا کہ غیب سے ایک تلوار نمودار ہوئی اس نے اس کو قتل کردیا‘ اس پر امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: میرے صبر نے اس کو قتل کردیا۔

امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد ان کے نامور ولائق ترین شاگرد امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ قاضی بنے اور قاضی القضاة کا لقب ان کو دیا گیا‘ لیکن بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملاکر نہیں رہے‘ بلکہ ہرمعاملہ میں شریعت کا اتباع کرتے‘ یہاں تک کہ بادشاہ کا مزاج درست کردیا۔امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الخراج تصنیف فرمائی اورحکومت کو مجبور کردیا کہ اس کے موافق عمل کرنا ہوگا۔

امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اوپر سے بھی اوپر ہیں
امام محمد رحمتہ اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا‘ پوچھا کہ: انتقال کیسے ہوا؟فرمایا کہ کتاب المکاتب کا ایک مسئلہ سوچ رہا تھا‘اسی دوران جان نکل گئی۔ پوچھا وہاں کیا گذری؟ تو فرمایا کہ: کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا اے محمد! اگر تمہیں عذاب دینا ہوتا تو اپنا علم تمہارے سینے میں نہ رکھتے۔ خواب دیکھنے والے نے پوچھا کہ: امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ کہاں ہیں؟ فرمایا کہ: وہ اور اوپر ہیں پھر پوچھا کہ: امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہاں ہیں؟ تو فرمایا کہ وہ تو اوپر سے بھی اوپر ہیں۔

صحیحین کا امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی روایت سے خالی ہونا کیا ان کے حدیث میں کمزور ہونے کی دلیل ہے؟
مجھ سے بعض لوگوں نے کہا کہ صحیحین (بخاری ‘مسلم) امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی روایت سے خالی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ حدیث میں کمزور تھے۔ میں نے عرض کیا کہ: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو مشہور محدث ہیں‘ صحیحین ان کی روایت سے کیوں خالی ہیں؟ نیز امام بخاری کے استاذ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ ہیں‘ مدت تک امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ان کی خدمت میں رہے‘ لیکن بخاری میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے‘ وہ بھی احمد بن حسن کے واسطے سے اور تین مقام پر ان کا تذکرہ بغیر روایت کے ہے‘ کہیں قال احمد کے لفظ سے کہیں ذکرلنا کے لفظ سے ۔ معلوم ہوا کہ صحیحین کا امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی روایت سے خالی ہونا ان کے حدیث میں کمزور ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی‘ ورنہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وامام احمد رحمتہ اللہ علیہ جیسے مشہور محدثین کو بھی ضعیف کہنا پڑے گا اور آپ اس کے لئے تیار نہ ہوں گے۔

ترمذی ونسائی میں امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے روایت
تقریب التہذیب میں امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ترمذی اور نسائی میں امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے‘ لیکن نسائی میں لفظ نعمان سے ہے‘ البتہ ترمذی میں کتاب العلل کے اندر لفظ ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہی سے ہے‘ مگر مصری نسخہ میں ہے‘ ہندی میں نہیں۔ طحاوی اور مؤطا امام محمد میں بھی چند روایات ہیں‘ عقود الجواہر المنیفہ فی ادلة الامام ابی حنیفہ دو جلدوں میں ہے‘ اس میں سب روایات امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہی سے ہیں۔

ماہنامہ بینات کراچی
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
لئے پھرتی بلبل چونچ میں گل
شہیدِ ناز کی تربت کہاں ہے​
 
Top