چمگادڑوں کامقامی لہجہ

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
کہا جاتا ہے کہ ہر دس کلومیٹر کے بعدکی آبادی میں انسانوں کا لب ولہجہ بدل جاتا ہے حتیٰ کہ بات کرنے کے انداز سے مخاطب سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والے کا تعلق کس خطے سے ہو سکتا ہے۔صرف انسان ہی نہیں ہیں جن کا لب و لہجہ ہر خطے میں مختلف ہوتا بلکہ چمگادڑیں بھی ایسا لب و لہجہ اختیار کر لیتی ہیں جو کسی خاص ماحول کے عین مطابق ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہی ہوتی ہیں۔
آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اِس نئی دریافت کی مدد سے چمگادڑوں کی مختلف اقسام کی الگ الگ شناخت میں آسانی ہو گی اور ان کے تحفظ کے لئے زیادہ بہتر اقدامات کئے جا سکیں گے۔
’فاریسٹ سائنس سینٹر‘ Forest Science Centreسے وابستہ محقق بریڈ لا Brad Lawنے یہ پتہ چلایا کہ ریاست نیو ساوتھ ویلز کے مشرقی ساحلوں کے ساتھ ساتھ واقع جنگلات میں بسنے والی چمگادڑوں کی بولی مختلف تھی۔ لا کے مطابق اگرچہ سائنسدانوں کو دیگر جانوروں کے ساتھ مرتب کئے جانے والے کچھ تحقیقی جائزوں کی روشنی میں بہت عرصہ پہلے سے یہ شک تھا کہ چمگادڑوں کی بولی الگ الگ ہو سکتی ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ یہ بات باقاعدہ تجربات سے ثابت بھی کی گئی ہے۔
بریڈلا نے مزید بتایا کہ چمگادڑوں کی تیس مختلف اقسام کی مختلف آوازیں استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے، جس کی مدد سے سائنسدان ساحلی علاقے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی چمگادڑوں کو شناخت کر سکتے ہیں، ان کی تعداد کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور ان کے بچاو کے لئے اقدامات کر سکتے ہیں جبکہ چمگادڑ کی یہ قسم صرف کیوبا میں پائی جاتی ہے۔
بریڈلا اور اس کے ساتھی سائنسدانوں نے پہلے چار ہزار چمگادڑوں کی آوازیں ریکارڈ کیں اور پھر ایک خاص طور پر تیار کئے گئے کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے ایسی کلیدیں تیار کیںجن کی مدد سے نیو ساوتھ ویلز کے مختلف حصوں کی چمگادڑوں کی آوازوں کو الگ الگ شناخت کیا جا سکتا تھا۔ چمگادڑ یہ آوازیں اپنا راستہ تلاش کرنے اور شکار کرنے کے لئے نکالتے ہیں۔ وہ بلند فریکوئنسی والی ایسی آوازیں نکالتے ہیں جنہیں انسانی سماعت سننے سے قاصر ہوتی ہے۔
یہ صوتی لہریں جب چمگادڑ کے شکار کے جسم سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو چمگادڑ کوصرف یہی نہیں پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا شکار کس سمت میں بلکہ وہ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ شکار کتنے فاصلے پر موجود ہے۔لا اور اس کے ساتھی سائنسدان اپنے تجربات جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ابھی اِس طریقے پر پیسہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے اور وقت بھی تاہم سائنسدان امید کر رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اِس طریقے کو اتنا بہتر کر لیں گے کہ یہ کم خرچ بھی ہو اور نتائج بھی جلدی سے فراہم کرے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ما شاء اللہ بہت خوب شئیرنگ ہے ۔
جزا ک اللہ زوہا صاحبہ
 
Top