مذہب کی بنیاد پر امتیاز(Religious Discrimination)

abusufiyan

وفقہ اللہ
رکن
مذہب کی بنیاد پر امتیاز(Religious Discrimination)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

امتیاز کی جو سب سے شدید اور نازک قسم ہمارے ہاں پائی جاتی ہے، وہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔ ہمارے ہاں مذہب اور دین کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا ہم نے غور و فکر کرکے انتخاب کیا ہو۔ ذات پات کی طرح مذہب بھی ہمارے لئے ایک نسلی چیز بن گیا ہے۔ ہم اسی لئے مسلمان ہیں کہ ہمارے والدین مسلمان تھے۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والا اس لئے عیسائی ہے کہ اس کے والدین عیسائی تھے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں کے طرزعمل میں کوئی فرق نہیں۔
ہمارے بہت سے لوگ مذہب کے فرق کی بنا پر دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کھانا پینا پسند نہیں کرتے اور انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسی قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعینہ یہی صورتحال فرقوں اور مسالک میں بھی پیدا ہو چکی ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسرے مسلک کے کسی فرد سے ہاتھ ہی ملانے پر نکاح کے ٹوٹ جانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔

اس بات کا خیال رکھئے کہ دین اسلام کسی نسلی مذہب کا نام نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہدایت ہے جو آفاقی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اگر اپنے رب کی طرف خلوص نیت سے مائل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے کھلی دعوت ہے کہ وہ اس دین کا انتخاب کرلے۔ قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرکے کوئی بھی شخص ہر مسلمان کے برابر درجہ پاسکتا ہے اور اس میں کسی ذات پات یا رنگ و نسل کی قید نہیں۔

اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے طرز عمل سے اللہ کی حجت تمام کریں اور انہیں اس کے دین کا پیغام پہنچائیں۔ دعوت دین کے لئے محبت، شفقت، نرمی اور عدل و احسان مطلوب ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان پایا جاتا ہے۔

بعض لوگ اس معاملے میں قرآن کی چند آیتوں کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ان سے استدلال کرکے غیر مسلموں سے بدسلوکی کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں واضح طور پر ان غیرمسلموں ، جنہوں نے کبھی مسلمانوں سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھا ہو، کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے: لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ (الممتحنہ 60:8) ’’جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور نہ ہی تمہیں جلاوطن کیا ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے اللہ تمہیں منع نہیں کرتا بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"

ہمارے ہاں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ قرآن کی ان آیتوں میں صرف ان غیر مسلموں کے ساتھ سختی کا حکم دیا گیا ہے جنہوں نے ہم سے جنگ کی ہو۔ اسلامی ریاست میں رہنے والے ہر غیر مسلم کو پوری طرح تمام انسانی حقوق فراہم کرنا اسلامی حکومت اور مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنا اور ان کے حقوق انہیں پہنچانا ، یہ مسلمانوں پر لازم ہے اور جو اس سے روگردانی کرتا ہے ، اللہ اس سے باخبر ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ (المائدہ 5:8) ’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ اور سچائی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہ (عدل) تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ ‘‘

خیبر کی فتح کے بعد مسلمانوں کا یہودیوں سے معاہدہ ہوا کہ وہ زمینوں میں کاشت کاری کریں گے اور پیداوار کا نصف حکومت اسلامیہ کو بطور خراج دیں گے۔ مسلمانوں کی حکومت کے جو اہل کار ان سے فصل کا حصہ وصول کرنے جاتے، وہ کل پیداوار کے دو برابر حصے کرتے اور ان یہودیوں کو کہتے کہ ان میں سے جو چاہو لے لو۔ کئی یہودی بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسی انصاف پر زمین و آسمان قائم ہیں۔

اسی طرح شام کے شہر حمص کی فتح کے بعد وہاں کے یہودی اور عیسائی عوام کے ساتھ مسلمانوں کا یہ معاہدہ ہوا کہ جزیے کے بدلے مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ ایک جنگی حکمت عملی کے تحت مسلم افواج کو وہ شہر خالی کرنا پڑا۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جزیہ واپس کردیا جائے کیونکہ ہم معاہدے کے مطابق ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ وہ منظر بڑا ہی رقت آمیز تھا جب یہودی اور عیسائی روتے ہوئے اپنا جزیہ واپس لے رہے تھے اور یہ دعا کررہے تھے کہ خداوند تمہیں دوبارہ واپس لائے۔ ہمارے ہم مذہب حکمران تو بس ہم سے وصول کرنا ہی جانتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ اسلامی لشکروں کے لئے راستے ہموار کرنے، ان کے گزرنے کے لئے پل بنانے، شہروں کی فصیلوں میں سرنگیں کھود کر ان کے لئے خفیہ راستے بنانے اور انہیں کھانا فراہم کرنے کی خدمت یہی غیر مسلم بڑے شوق سے انجام دیتے۔ امریکہ کے ایک ممتاز مصنف اور تجزیہ نگار جان ایل ایسپوزیٹو اپنی کتاب The Islamic Threat میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں کی مقامی آبادی عیسائی، یہودی اور مجوسیوں پر مشتمل تھی جو آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے تھے۔ سلطنت روم اور ایران کے اکثر علاقوں میں غیر ملکی حکومتیں قائم تھیں۔ ان مقامی لوگوں کے لئے اسلامی حکومت صرف حکمرانوں کی تبدیلی تھی ۔ نئے حکمران ان کی آزادی کو سلب کرنے والے نہیں بلکہ پہلوں سے کہیں زیادہ رواداری کے حامل تھے۔اب ان آبادیوں کی اکثریت پہلے سے زیادہ خود مختار تھی اور پہلے سے کہیں کم ٹیکس اداکرتی تھی۔عرب علاقوں میں نئے حکمران مقامی آبادی کے ہم زبان بھی تھے۔مذہبی اعتبارسے اسلام ایک زیادہ روادار دین ثابت ہوا، جس نے مقامی یہود و نصاریٰ کو زیادہ مذہبی آزادی دی جبکہ بازنطینی سلطنت میں بہت سے عیسائی چرچ ایسے تھے جن پر غیر ملکی چرچ (مرکزی چرچ ، روم) نے بدعتی اور گمراہ ہونے کا فتویٰ لگا کر ان پر پابندی لگا دی تھی۔انہی وجوہات کی بنیاد پرکئی یہود اور عیسائی کمیونیٹیز نے مسلمان افواج کی مدد کی تھی۔جیسا کہ فرانسس پیٹرز کہتے ہیں۔ ’مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا لیکن انہوں نے اس کی حکومت ختم کردی۔ عیسائی زندگی، عقائد، رسومات اور سیاست اب ایک پبلک کی بجائے پرائیویٹ معاملہ بن گئی۔اسلام نے عیسائیوں کے مرتبے کو پہلے سے ایک درجہ گرا دیا جیسا کہ عیسائیوں نے ایسا یہودیوں کے ساتھ کیا تھا لیکن اس میں ایک فرق تھا: وہ یہ کہ عیسائیوں کا درجہ کم کرنا محض قانونی تھا۔ اس میں persecution یا مذہبی جبر شامل نہ تھا۔اور یہ سب کچھ، اگرچہ ہمیشہ نہیں ، نفرت کے رویے سے پاک تھا‘۔ ‘‘(Francis E. Peters, The Early Muslim Empires: Umayyads, Abbasids, Fatimids. p. 79)

افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب معاملہ بالکل الٹ ہو چکا ہے۔ بہت سے غیر مسلم ممالک میں تو مسلمان آزادی سے اپنے دین پر عمل کرتے ہیں لیکن یہ سہولت بعض مسلم ممالک میں انہیں حاصل نہیں۔
__________________________________
 

ابن الرشید

وفقہ اللہ
رکن
جناب ابو سفیان صاحب کا یہ مضمون چشم کشا ہے اور ان ممالک اسلامیہ کی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جو صرف نام کے مسلمان ہیں اور خود اہل اسلام کے لئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اللہ ان کو نیک توفیق دے ۔
 
Top