کیا اسلام اور قرآن میں فرق ہے؟ جناب جاوید چوہدری صاحب کی خدمت میں
الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
اللہ تعالیٰ نے قلم و قرطاس، زبان و بیان اور تحریر و تقریر کو غوروغوض اور فکر و نظر کے اظہار کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا ہے۔ جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں اور صلاحیتوں کو دین و شریعت، تہذیب و اخلاق، عقائد و اعمال، سیرت و کردار، اسلام اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور انسانیت کی درست راہنمائی میں استعمال کرکے اپنے لئے نجاتِ آخرت کا سامان اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول ممکن بنا سکتا ہے، وہاں ان کو جہالت جدیدہ کی ترویج و اشاعت، دین بیزار لوگوں کی ترجمانی، عبادات اور دینی اعمال بجالانے والوں کا تمسخر، ان کی توہین و تنقیص اور قرآن و سنت کے معنی ومفہوم میں تغیر و تبدل اور تحریف و تشکیک پیدا کرکے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں اپنی عاقبت خراب اور برباد کرسکتا ہے۔
یہ فتنوں کازمانہ ہے اور جس شخص کے ذھن اوردل ودماغ میں جوبات آتی ہے وہ اسے حرف آخرسمجھ کربلاتحقیق وتفتیش بیان کرناشروع کردیتاہے، خصوصا میڈیاسے وابستہ افراد کچھ زیادہ ہی اس بارہ میں بے باک نظرآتے ہیں۔ایسا ہی کچھ روزنامہ ایکسپریس ۱۸/ جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ، مطابق ۲۲/ مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں ایک کالم بنام ”اسلام اور قرآن“ چھپا ہے، جسے جناب جاوید چوہدری صاحب نے تحریر کیا ہے۔
جناب جاوید چوہدری صاحب قلم و قرطاس کی ”نعمت“ اور میڈیا سے وابستگی کی ”سعادت“ سے بہرہ مند ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو لکھنے کا خوب ملکہ اور ڈھنگ ودیعت فرمایا ہے، وہ طویل عرصہ سے لکھنے لکھانے سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، دینی، مذہبی اور معلوماتی ہمہ قسم کے موضوعات پر انہوں نے کالم لکھے ہیں جو قارئین میں پسند کی سند لئے ہوئے ہیں، لیکن درج ذیل کالم کا ہر وہ قاری جو دین کی بنیادی باتوں کا علم رکھتا ہے اور دینی فہم و ادراک سے روشناس اور بہرہ ور ہے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ کالم واقعی جناب جاوید چوہدری صاحب نے ازخودسپرد قلم کیا ہے؟ یا ان کے نام پر غلطی سے چھپ گیا ہے؟ اگر غلطی سے چھپا ہے تو اس کا تدارک اور تلافی ہونی چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ انہوں نے دیدہ و دانستہ قارئین کو مغالطہ میں ڈالنے اور دھوکا دینے کی کوشش کیوں کی ہے؟
محسوس یوں ہوتا ہے کہ شاید جناب جاوید چوہدری صاحب نے ”چلو اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کے مصداق ماحول، اربابِ اقتدار کے مزاج اور بین الاقوامی پالیسیوں کو مد ِ نظررکھ کر یہ کالم تحریر کیا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو اس پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ کلام کہیں اس شعر کا مصداق نہ بن جائے کہ:”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے“جناب جاوید چوہدری صاحب لکھتے ہیں:
”یہ سوال بھی دلچسپ تھا، پوچھنے والے نے پوچھا: ”میں کوئی نماز قضا نہیں کرتا، میں ہمیشہ وضو میں رہتا ہوں، میں گیارہ سال کی عمر سے روزے رکھ رہا ہوں، میں دن میں دس گھنٹے تسبیح کرتا ہوں، میں تین عمرے اور دو حج بھی کرچکا ہوں، میں ہر سال زکوٰة بھی دیتا ہوں اور میں راتوں کو گڑ گڑا کر دعائیں بھی کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میرا کاروبار نہیں چل رہا، میں اور میرا خاندان ترقی نہیں کررہا، میں پریشان ہوں، میری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں؟ میرے حالات تبدیل کیوں نہیں ہورہے؟“ یہ سوال انوکھا نہیں تھا، ہم میں سے اکثر مسلمان یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کے بہترین دین کو ماننے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین نبی کے امتی ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ریاضت میں بھی مصروف رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں، ہم دنیا کے بہترین وسائل کے بھی مالک ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا کے پسماندہ ترین لوگ ہیں اور ہم سجدوں، تسبیحوں، ذکر، عمرہ ،حجوں، خیرات اور روزوں کے باوجود بھی دنیا میں مار رکھا رہے ہیں، کیوں؟ یہ سوالات آج دنیا کے ہر مسلمان کے سامنے کھڑے ہیں اور ہم ان کا جواب تلاش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے شکوے شروع کردیتے ہیں، ہم یہ شکوے کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔ ہم جب تک اسلام اور قرآن مجید کا فرق نہیں سمجھیں گے، ہم اس وقت تک ترقی کا راز نہیں پاسکیں گے، ہم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکیں گے، لیکن آپ قرآن مجید اور اسلام کے فرق کی طرف جانے سے پہلے اسلامی دنیا کی ایک اور تبدیلی بھی نوٹ کیجئے۔ آپ آج کے زمانے کا دس بیس سال پرانے زمانے سے تقابل کرکے دیکھئے، آپ کو ماضی کے مقابلے میں آج مسجدیں زیادہ ملیں گی، آپ کو نمازیوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ دکھائی دے گا، آپ جمعے کی نماز کے لئے کسی مسجد میں چلے جائیں، آپ کو گلی تک صفیں ملیں گی، آپ رمضان میں روزہ داروں کا تجزیہ کریں، آپ کو رمضان اور اہتمام رمضان میں بھی اضافہ ملے گا، آپ مذہبی جماعتوں کی وسعت اور طاقت کا بھی اندازہ لگایئے، آپ کو مذہبی جماعتوں اور ان کے زائرین کی تعداد میں بھی اضافہ دکھائی دے گا، آپ کو ملک کے اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں تسبیح بھی دکھائی دے گی، آپ کو داڑھی رکھنے، شلوار قمیض پہننے اور شعائر اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے رجحان میں بھی اضافہ نظر آئے گا، آپ کو ہر سال عمرہ اور حج کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ملے گا، آپ کو دنیا بھر میں نو مسلم بھی ملیں گے اور آپ زکوٰة دینے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ پائیں گے۔لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے عبادات کے رجحان میں اس اضافے کے باوجود عالم اسلام پوری دنیا میں مار کیوں کھارہا ہے؟ دنیا کے ۵۸ اسلامی ممالک میں سے ۵۵ کا شمار تیسری دنیا اور پسماندہ ترین خطوں میں کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے اور اس سوال میں ہماری پسماندگی اور ترقی یافتہ اقوام کا عروج چھپا ہے، ہم لوگ بنیادی طور پر اسلام کے ذریعے ترقی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ترقی قرآن مجید کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے، کیا اسلام اور قرآن مجید میں فرق ہے؟ جی ہاں! ان دونوں میں بہت فرق ہے اور ہم نے آج تک اس فرق کو سمجھنے کی کوشس نہیں کی۔ قرآن مجید دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہے، اسے ہندو بھی خریدسکتے ہیں اور اسے سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی اور بودھ حتی کہ لادین بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کتاب پوری انسانیت کے لئے ہے، لہٰذا اس کا عربی میں پڑھنا بھی ضروری نہیں، دنیا کا کوئی بھی شخص اس کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرسکتا ہے، لوگ یہ ترجمہ پڑھ سکتے ہیں، ہم اگر قرآن مجید کسی دوسرے مذہب کے شخص کے ہاتھ میں دیکھیں تو ہمیں بُرا نہیں لگتا، اس کی وجہ نفسیاتی اعتراف ہے، ہم جانتے ہیں قرآن مجید سب کا ہے، جب کہ قرآن مجید کے مقابلے میں اسلام صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ اسلام پانچ ارکان کا نام ہے، تو حید، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج، یہ پانچوں رکن صرف اور صرف مسلمانوں تک محدود ہیں۔ ہم کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھتا دیکھیں تو ہمیں بُرا لگے گا، ہم کسی سکھ، ہندو اور پارسی کو اپنی مسجد میں نہیں گھسنے دیں گے، ہم کسی غیر مسلم کو روزے رکھتے دیکھ کر بھی اچھا محسوس نہیں کریں گے، ہم غربت کی انتہا پر پہنچ کر بھی کسی غیر مسلم سے زکوٰة نہیں لیں گے اور رہ گیا حج تو کوئی غیر مسلم حرمین شریفین کی حدود تک میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگ ان ارکان کی ادائیگی کے لئے بھی ایک خاص ضابطے اور عربی زبان کے پابند ہیں۔ آپ کلمہ ہر صورت میں عربی زبان میں پڑھیں گے، آپ اس کی جگہ اس کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوسکتے، اسی طرح آپ نماز اور حج بھی عربی زبان ہی میں ادا کریں گے اور آپ روزے اور زکوٰة کے لئے بھی ایک خاص ضابطے کے پابند ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کے پانچوں ارکان مسلمان کے لئے وقف ہیں، ہم کسی غیر مسلم کو اس وقت تک یہ پانچ رکن ادا نہیں کرنے دیں گے، جب تک وہ اسلام قبول نہیں کرلیتا، ہمارے ذہن میں اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ قرآن مجید کیا ہے ؟ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر اتاری ہوئی ایک ایسی فائنل اتھارٹی ہے، جس نے انسان کے کروڑوں سال کے سماجی تجربے کو دستاویزی شکل دے دی، یہ سماجی تجربہ کیا ہے؟ ہمارا سماجی تجربہ ہمارے معاشرتی تجربے سے ملتی جلتی چیز ہے، انسان نے جس طرح کروڑوں سال کے تجربے سے سیکھا آگ جلادیتی ہے، برف سن کر دیتی ہے، دھوپ سے بچ کر رہنا چاہئے، بلندی سے چھلانگ نہیں لگانی چاہئے اور طاقتور جانوروں سے بچ کر رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح انسان نے کروڑوں برسوں میں ۲۰ سماجی اصول بھی سیکھے ہیں، یہ اصول انصاف، مساوات، قانون، امن، سچائی، دیانت داری، علم، تحقیق، رحم دلی، دوسروں کے حقوق کا احترام، خواتین، بچوں، بزرگوں اور بیماروں کے ساتھ مہربانی، تجارت اور صنعت، جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، مضبوط دفاع، وعدے کی پابندی، سادگی، ویلفیئر، شائستگی، دوسروں کے عقائد کا احترام اور برداشت ہے۔ یہ وہ بیس اصول ہیں، جن کے بغیر دنیا کا کوئی معاشرہ معاشرہ بن سکتا ہے اور نہ ہی یہ ترقی کرسکتا ہے اور قرآن مجید ان ۲۰ اصولوں کا گواہ ہے، قرآن مجید نے دنیا کے ہر انسان، دنیا کے ہر معاشرے کو یہ سمجھانے کا بیڑا اٹھالیا کہ تم اگر دنیا میں امن، سکون، خوشی اور آرام سے زندگی گزارنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں یہ بیس کام کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تم دنیا میں ذلیل ہوجاؤگے، یہ بیس اصول دنیا کے ہر انسان کے لئے ہیں، یہ انسان گورا ہو، کالا ہو، سرخ ہو یا پیلا ہو اور یہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو، ہمارا المیہ اب یہ ہے کہ ہم ان ۲۰ اصولوں پر عمل نہیں کر رہے جو انسان نے کروڑوں سال میں سیکھے ہیں اور قرآن مجید ان کا گواہ بن گیا، اور ان کی جگہ توحید، نماز، روزے، زکوٰة اور حج سے اللہ تعالیٰ اور قدرت کو متاثرکرنے کی کوشش کررہے ہیں، لہٰذا ہم دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کی ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں، جب کہ ہمارے مقابلے میں اہل مغرب اور ترقی یافتہ ممالک ان ۲۰ اصولوں پر عمل کررہے ہیں اور ان پر ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں، یہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے، دنیا میں بے انصاف، بے قانون، بے امن چھوٹے بڑے اور امیر غریب کی تقسیم کے شکار، کم تولنے، کم ماپنے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں، مسکینوں اور جانوروں پر ظلم کرنے والا معاشرہ ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا، خواہ لوگ دن میں تیس تیس نمازیں پڑھ لیں، پورا سال روزے رکھ لیں، ہر سال حج کرلیں، اپنی ساری جمع پونجی زکوٰة میں دے دیں اور ہر سیکنڈ اللہ اور اس کے رسول کا نام لیتے رہیں، ہم مسلمان ہوں یا نہ ہوں، ہمیں معاشرتی اور ذاتی ترقی کے لئے بہرحال ان ۲۰ اصولوں پر عمل کرنا پڑے گا، جو انسان نے کروڑوں سال میں وضع کئے اور قرآن مجید نے انہیں تحریری شکل دے کر ہمارے سامنے رکھ دیا، قرآن مجید بنیادی طور پر ایک آئیڈیل معاشرے کی ٹیکسٹ بک ہے اور ہم جب تک اس ٹیکسٹ بک کی طرف نہیں آئیں گے، ہم ترقی نہیں پاسکیں گے۔ ہمارے سامنے اب یہ سوال سر اٹھاتا ہے، دنیا کے وہ لوگ جو قرآن مجید سے ترقی کا سبق سیکھ لیتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن اسلام کے پانچ ارکان پر عمل نہیں کرتے تو ان کی آخری زندگی کیسے گزرے گی؟ ان لوگوں کی ترقی دنیا کی حد تک محدود رہتی ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں شعائر اسلام اور قرآن مجید کے ۲۰ اصولوں پر عمل کرنے والے مسلمان دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اسلام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید پر بھی عمل کرنا ہوگا، ہمیں مسلمان کے ساتھ ساتھ ایسا انسان بھی بننا ہوگا جو انسانیت کو دنیا اور دنیا کو انسانیت سمجھتا ہو،ورنہ دوسری صورت میں قدرت کو ہماری داڑھیوں، تسبیحوں، نمازوں، روزوں، زکوٰة اور حجوں پر رحم نہیں آئے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کم تولنے والے کی نماز اور دعا دونوں سے لاتعلق ہوجاتا ہے اور میرا وہ دوست اور پورا عالم اسلام اس وقت اسی کشمکش سے گزر رہا ہے۔“ (روزنامہ ایکسپریس، ۲۲/ مئی ۲۰۱۱ء )
جناب جاویدچوہدری صاحب کے اس کالم کامفہوم اورخلاصہ جومیں سمجھاہوں وہ یہ ہے کہ:
۱:۔نماز ،روزہ،زکوٰة ،اورحج کی کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں۔
۲:۔مسلمانوں کی پستی اورپسماندگی کاسبب اسلام اورقرآن کافرق نہ سمجھناہے۔
۳:۔اسلام اور قرآن مجیدمیں فرق ہے۔
۴:۔مسلمان صرف اسلام پرعمل کرتے ہیں اورمغربی اقوام قرآن کریم پر ۔
۵:۔اسلام پانچ ارکان کانام ہے :توحید،نماز،روزہ ،زکوٰة،اورحج ۔
۶:۔قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پراتاری ہوئی ایک ایسی فائنل اتھارٹی ہے،جس نے انسان کے کروڑوں سال کے تجربے کو دستاویزی شکل دے دی ۔
اس کے علاوہ انہوں نے ضمناً اوربھی بہت کچھ لکھاہے، لیکن اختصاراً انہیں باتوں کاترتیب وارتجزیہ پیش کیاجاتاہے۔
۱:۔جناب چوہدری صاحب!معلوم نہیں کہ آپ نے کالم نگاری کے لئے یہ سوال فرضی بنایا ہے یا واقعی کسی نے یہ سوال کیا ہے؟ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ کی ذہنی اختراع ہے۔ لیکن نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے فرائض کی ادائیگی اس انداز اور ان الفاظ میں پیش کرنا گویا قارئین کو یہ تاثر دینا ہے کہ ان فرائض کے اہتمام اور بجاآوری کی کوئی اہمیت او ر وقعت نہیں، جیسا کہ آگے چل کر آپ نے بڑے تحقیرانہ انداز میں لکھا ہے کہ: ”خواہ لوگ دن میں تیس تیس نمازیں پڑھ لیں، پورا سال روزے رکھ لیں، ہر سال حج کرلیں، اپنی جمع پونجی زکوٰة میں دے دیں اور ہر سیکنڈ اللہ و رسول کا نام لیتے رہیں.. ترقی نہیں پاسکیں گے۔“جناب! نماز فرض ہے اور اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار دیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
”واقیموا الصلوٰة ولا تکونوا من المشرکین“ (روم:۳۱) ترجمہ:۔ ”اورنمازکی پابندی کرواورشرک کرنے والوں میں سے مت رہو“۔
سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے تذکرہ اور ان کی تعریف و توصیف کے بعد فرمایا:
”فخلف من بعد ہم خلف اضاعوا الصلوٰة واتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیاً۔“ (مریم:۵۹)
ترجمہ:۔”پھران کے بعد(بعضے)ایسے ناخلف پیداہوئے جنہوں نے نمازکوبربادکیااور (نفسانی ناجائز)خواہشوں کی پیروی کی یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے“۔
اسلامی دنیا کی اس تبدیلی اور ایمان و اسلام کے اعمال و عبادات میں اضافے سے ایک مسلمان تو خوش ہوتا ہے اور اسے خوش ہونا بھی چاہئے، اس لئے کہ ایسے لوگ اپنے مقصد تخلیق پر عمل کررہے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔“ (الذاریات:۵۶)
ترجمہ:۔”اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیداکیاہے کہ میری عبادت کیاکریں“۔
لیکن نامعلوم جناب جاوید چوہدری صاحب اس اسلامی دنیا کی تبدیلی سے کیوں ناخوش نظر آرہے ہیں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”العھدالذی بیننا وبینہم الصلوٰة فمن ترکہا فقد کفر....رواہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ ۔“ (مشکوٰة:۵۸)
ترجمہ:۔”وہ عہدجوہمارے اور ان کے درمیان ہے وہ نمازہے ،پس جس نے نمازچھوڑی تواس نے کفرکیا“۔
۲:...حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”اوصانی خلیلی ان لاتشرک باللّٰہ شیئاً وان قطعت وحرقت ولا تترک صلوٰة مکتوبة متعمداً فمن ترکہا متعمداً فقد برأت منہ الذمة...رواہ ابن ماجة۔“ (مشکوٰة:۵۹)
ترجمہ:۔”میرے دوست (حضورصلی اللہ علیہ وسلم )نے مجھے وصیّت کی(یعنی تاکیدکی)کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تم کاٹ دئے جاؤیاجلادئے جاؤاورجان بوجھ کرفرض نمازنہ چھوڑو،جس نے فرض نمازکوجان بوجھ کرچھوڑاتو اس کی ذمّہ داری ختم ہوگئی “
۳:...حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں گورنروں کو خط لکھااورفرمایا:
”ان اہم امورکم عندی الصلٰوة من حفظہا وحافظ علیہا حفظ دینہ ومن ضیعہا فہولما سواہا اضیع...رواہ مالک۔“ (مشکوٰة :۶۰)
ترجمہ:۔”میرے نزدیک تمہاراسب سے اہم کام نمازہے ،جس نے اس کی حفاظت اور پابندی کی تو اس نے اپنے دین کو محفوظ کیااور جس نے اسے ضائع کیاتووہ اس کے علاوہ (باقی فرائض )کو زیادہ ضائع کرنے والاہوگا“۔
۴:۔حضرت عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفرالا الصلوٰة۔“ (مشکوٰة: ۵۹)
ترجمہ:۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کسی عمل کے چھوڑنے کو کفرنہیں سمجھتے تھے ،سوائے نمازکے“۔
اسی طرح روزہ کی فرضیت، روزہ کا وقت، روزہ کی قضا اور اس کا مقصد ایک ایک چیز کو قرآن کریم نے بڑے پیارے انداز میں بیان فرمایا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
۱:۔”یا ایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون، ایاماً معدودات، فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدة من ایام اُخر... وان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون۔“ (البقرہ:۱۸۳،۱۸۴)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیاگیا،جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے)لوگوں پر فرض کیاگیاتھا،اس توقع پرکہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ)متقی بن جاؤ،تھوڑے دنوں روزے رکھ لیاکرو،پھر(اس میں بھی اتنی آسانی کہ)جوشخص تم میں بیمارہویاسفرمیں ہوتو دوسرے ایّام کا شمار رکھنا ہے..... اور تمہارا روزہ رکھنازیادہ بہترہے ،اگرتم خبررکھتے ہو“۔
۲:...”ثم اتموا الصیام الی اللیل۔“ (البقرہ:۱۸۷)
ترجمہ:۔”رات تک روزہ کوپوراکیاکرو“۔
نماز اور روزہ کی طرح زکوٰة بھی فرض ہے، قرآن کریم میں بارہا نماز کے ساتھ ادائیگی زکوٰة کا بھی حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
۱:...”واقیموا الصلوٰة واٰتوا الزکوة وارکعوا مع الراکعین۔“ (البقرہ:۴۳)
ترجمہ:۔ ”اورقائم کروتم لوگ نمازکواوردوزکوٰة کواورعاجزی کروعاجزی کرنے والوں کے ساتھ“۔
۲:... ”والذین یکنزون الذہب والفضة ولا ینفقو نہا فی سبیل اللّٰہ فبشرہم بعذاب الیم، یوم یحمیٰ علیہا فی نار جہنم فتکویٰ بہا جباہھم و جنوبہم وظہور ہم ،ہذا ماکنزتم لانفسکم فذوقوا ماکنتم تکنزون۔“ (التوبہ:۳۴،۳۵)
ترجمہ:۔”جولوگ سوناچاندی جمع کرکررکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سوآپ ان کو ایک بڑی دردناک سزاکی خبرسنادیجئے جو کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا،پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کوداغ دیاجائے گا،یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کر کرکے رکھاتھا،سواب اپنے جمع کرنے کامزہ چکھو“۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکوٰة دینے سے انکاری ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”واللّٰہ لاقاتلن من فرق بین الصلوٰة والزکوٰة، فان الذکوٰة حق المال، واللّٰہ لو منعونی عناقاً کانوا یؤدونہا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقاتلتہم علی منعہما...متفق علیہ“ (مشکوٰة: ۱۵۷)
ترجمہ:۔ ”اللہ کی قسم !میں اس آدمی سے ضرورقتال کروں گاجو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا،زکوٰة مال کاحق ہے۔اللہ کی قسم!اگروہ مجھے اونٹنی کابچہ دینے سے رکے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تومیں ان سے اس روکنے پر قتال کروں گا“۔
الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
اللہ تعالیٰ نے قلم و قرطاس، زبان و بیان اور تحریر و تقریر کو غوروغوض اور فکر و نظر کے اظہار کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا ہے۔ جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں اور صلاحیتوں کو دین و شریعت، تہذیب و اخلاق، عقائد و اعمال، سیرت و کردار، اسلام اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور انسانیت کی درست راہنمائی میں استعمال کرکے اپنے لئے نجاتِ آخرت کا سامان اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول ممکن بنا سکتا ہے، وہاں ان کو جہالت جدیدہ کی ترویج و اشاعت، دین بیزار لوگوں کی ترجمانی، عبادات اور دینی اعمال بجالانے والوں کا تمسخر، ان کی توہین و تنقیص اور قرآن و سنت کے معنی ومفہوم میں تغیر و تبدل اور تحریف و تشکیک پیدا کرکے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں اپنی عاقبت خراب اور برباد کرسکتا ہے۔
یہ فتنوں کازمانہ ہے اور جس شخص کے ذھن اوردل ودماغ میں جوبات آتی ہے وہ اسے حرف آخرسمجھ کربلاتحقیق وتفتیش بیان کرناشروع کردیتاہے، خصوصا میڈیاسے وابستہ افراد کچھ زیادہ ہی اس بارہ میں بے باک نظرآتے ہیں۔ایسا ہی کچھ روزنامہ ایکسپریس ۱۸/ جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ، مطابق ۲۲/ مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں ایک کالم بنام ”اسلام اور قرآن“ چھپا ہے، جسے جناب جاوید چوہدری صاحب نے تحریر کیا ہے۔
جناب جاوید چوہدری صاحب قلم و قرطاس کی ”نعمت“ اور میڈیا سے وابستگی کی ”سعادت“ سے بہرہ مند ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو لکھنے کا خوب ملکہ اور ڈھنگ ودیعت فرمایا ہے، وہ طویل عرصہ سے لکھنے لکھانے سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، دینی، مذہبی اور معلوماتی ہمہ قسم کے موضوعات پر انہوں نے کالم لکھے ہیں جو قارئین میں پسند کی سند لئے ہوئے ہیں، لیکن درج ذیل کالم کا ہر وہ قاری جو دین کی بنیادی باتوں کا علم رکھتا ہے اور دینی فہم و ادراک سے روشناس اور بہرہ ور ہے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ کالم واقعی جناب جاوید چوہدری صاحب نے ازخودسپرد قلم کیا ہے؟ یا ان کے نام پر غلطی سے چھپ گیا ہے؟ اگر غلطی سے چھپا ہے تو اس کا تدارک اور تلافی ہونی چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ انہوں نے دیدہ و دانستہ قارئین کو مغالطہ میں ڈالنے اور دھوکا دینے کی کوشش کیوں کی ہے؟
محسوس یوں ہوتا ہے کہ شاید جناب جاوید چوہدری صاحب نے ”چلو اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کے مصداق ماحول، اربابِ اقتدار کے مزاج اور بین الاقوامی پالیسیوں کو مد ِ نظررکھ کر یہ کالم تحریر کیا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو اس پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ کلام کہیں اس شعر کا مصداق نہ بن جائے کہ:”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے“جناب جاوید چوہدری صاحب لکھتے ہیں:
”یہ سوال بھی دلچسپ تھا، پوچھنے والے نے پوچھا: ”میں کوئی نماز قضا نہیں کرتا، میں ہمیشہ وضو میں رہتا ہوں، میں گیارہ سال کی عمر سے روزے رکھ رہا ہوں، میں دن میں دس گھنٹے تسبیح کرتا ہوں، میں تین عمرے اور دو حج بھی کرچکا ہوں، میں ہر سال زکوٰة بھی دیتا ہوں اور میں راتوں کو گڑ گڑا کر دعائیں بھی کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میرا کاروبار نہیں چل رہا، میں اور میرا خاندان ترقی نہیں کررہا، میں پریشان ہوں، میری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں؟ میرے حالات تبدیل کیوں نہیں ہورہے؟“ یہ سوال انوکھا نہیں تھا، ہم میں سے اکثر مسلمان یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کے بہترین دین کو ماننے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین نبی کے امتی ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ریاضت میں بھی مصروف رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں، ہم دنیا کے بہترین وسائل کے بھی مالک ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا کے پسماندہ ترین لوگ ہیں اور ہم سجدوں، تسبیحوں، ذکر، عمرہ ،حجوں، خیرات اور روزوں کے باوجود بھی دنیا میں مار رکھا رہے ہیں، کیوں؟ یہ سوالات آج دنیا کے ہر مسلمان کے سامنے کھڑے ہیں اور ہم ان کا جواب تلاش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے شکوے شروع کردیتے ہیں، ہم یہ شکوے کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔ ہم جب تک اسلام اور قرآن مجید کا فرق نہیں سمجھیں گے، ہم اس وقت تک ترقی کا راز نہیں پاسکیں گے، ہم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکیں گے، لیکن آپ قرآن مجید اور اسلام کے فرق کی طرف جانے سے پہلے اسلامی دنیا کی ایک اور تبدیلی بھی نوٹ کیجئے۔ آپ آج کے زمانے کا دس بیس سال پرانے زمانے سے تقابل کرکے دیکھئے، آپ کو ماضی کے مقابلے میں آج مسجدیں زیادہ ملیں گی، آپ کو نمازیوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ دکھائی دے گا، آپ جمعے کی نماز کے لئے کسی مسجد میں چلے جائیں، آپ کو گلی تک صفیں ملیں گی، آپ رمضان میں روزہ داروں کا تجزیہ کریں، آپ کو رمضان اور اہتمام رمضان میں بھی اضافہ ملے گا، آپ مذہبی جماعتوں کی وسعت اور طاقت کا بھی اندازہ لگایئے، آپ کو مذہبی جماعتوں اور ان کے زائرین کی تعداد میں بھی اضافہ دکھائی دے گا، آپ کو ملک کے اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں تسبیح بھی دکھائی دے گی، آپ کو داڑھی رکھنے، شلوار قمیض پہننے اور شعائر اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے رجحان میں بھی اضافہ نظر آئے گا، آپ کو ہر سال عمرہ اور حج کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ملے گا، آپ کو دنیا بھر میں نو مسلم بھی ملیں گے اور آپ زکوٰة دینے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ پائیں گے۔لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے عبادات کے رجحان میں اس اضافے کے باوجود عالم اسلام پوری دنیا میں مار کیوں کھارہا ہے؟ دنیا کے ۵۸ اسلامی ممالک میں سے ۵۵ کا شمار تیسری دنیا اور پسماندہ ترین خطوں میں کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے اور اس سوال میں ہماری پسماندگی اور ترقی یافتہ اقوام کا عروج چھپا ہے، ہم لوگ بنیادی طور پر اسلام کے ذریعے ترقی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ترقی قرآن مجید کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے، کیا اسلام اور قرآن مجید میں فرق ہے؟ جی ہاں! ان دونوں میں بہت فرق ہے اور ہم نے آج تک اس فرق کو سمجھنے کی کوشس نہیں کی۔ قرآن مجید دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہے، اسے ہندو بھی خریدسکتے ہیں اور اسے سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی اور بودھ حتی کہ لادین بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کتاب پوری انسانیت کے لئے ہے، لہٰذا اس کا عربی میں پڑھنا بھی ضروری نہیں، دنیا کا کوئی بھی شخص اس کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرسکتا ہے، لوگ یہ ترجمہ پڑھ سکتے ہیں، ہم اگر قرآن مجید کسی دوسرے مذہب کے شخص کے ہاتھ میں دیکھیں تو ہمیں بُرا نہیں لگتا، اس کی وجہ نفسیاتی اعتراف ہے، ہم جانتے ہیں قرآن مجید سب کا ہے، جب کہ قرآن مجید کے مقابلے میں اسلام صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ اسلام پانچ ارکان کا نام ہے، تو حید، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج، یہ پانچوں رکن صرف اور صرف مسلمانوں تک محدود ہیں۔ ہم کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھتا دیکھیں تو ہمیں بُرا لگے گا، ہم کسی سکھ، ہندو اور پارسی کو اپنی مسجد میں نہیں گھسنے دیں گے، ہم کسی غیر مسلم کو روزے رکھتے دیکھ کر بھی اچھا محسوس نہیں کریں گے، ہم غربت کی انتہا پر پہنچ کر بھی کسی غیر مسلم سے زکوٰة نہیں لیں گے اور رہ گیا حج تو کوئی غیر مسلم حرمین شریفین کی حدود تک میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگ ان ارکان کی ادائیگی کے لئے بھی ایک خاص ضابطے اور عربی زبان کے پابند ہیں۔ آپ کلمہ ہر صورت میں عربی زبان میں پڑھیں گے، آپ اس کی جگہ اس کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوسکتے، اسی طرح آپ نماز اور حج بھی عربی زبان ہی میں ادا کریں گے اور آپ روزے اور زکوٰة کے لئے بھی ایک خاص ضابطے کے پابند ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کے پانچوں ارکان مسلمان کے لئے وقف ہیں، ہم کسی غیر مسلم کو اس وقت تک یہ پانچ رکن ادا نہیں کرنے دیں گے، جب تک وہ اسلام قبول نہیں کرلیتا، ہمارے ذہن میں اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ قرآن مجید کیا ہے ؟ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر اتاری ہوئی ایک ایسی فائنل اتھارٹی ہے، جس نے انسان کے کروڑوں سال کے سماجی تجربے کو دستاویزی شکل دے دی، یہ سماجی تجربہ کیا ہے؟ ہمارا سماجی تجربہ ہمارے معاشرتی تجربے سے ملتی جلتی چیز ہے، انسان نے جس طرح کروڑوں سال کے تجربے سے سیکھا آگ جلادیتی ہے، برف سن کر دیتی ہے، دھوپ سے بچ کر رہنا چاہئے، بلندی سے چھلانگ نہیں لگانی چاہئے اور طاقتور جانوروں سے بچ کر رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح انسان نے کروڑوں برسوں میں ۲۰ سماجی اصول بھی سیکھے ہیں، یہ اصول انصاف، مساوات، قانون، امن، سچائی، دیانت داری، علم، تحقیق، رحم دلی، دوسروں کے حقوق کا احترام، خواتین، بچوں، بزرگوں اور بیماروں کے ساتھ مہربانی، تجارت اور صنعت، جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، مضبوط دفاع، وعدے کی پابندی، سادگی، ویلفیئر، شائستگی، دوسروں کے عقائد کا احترام اور برداشت ہے۔ یہ وہ بیس اصول ہیں، جن کے بغیر دنیا کا کوئی معاشرہ معاشرہ بن سکتا ہے اور نہ ہی یہ ترقی کرسکتا ہے اور قرآن مجید ان ۲۰ اصولوں کا گواہ ہے، قرآن مجید نے دنیا کے ہر انسان، دنیا کے ہر معاشرے کو یہ سمجھانے کا بیڑا اٹھالیا کہ تم اگر دنیا میں امن، سکون، خوشی اور آرام سے زندگی گزارنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں یہ بیس کام کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تم دنیا میں ذلیل ہوجاؤگے، یہ بیس اصول دنیا کے ہر انسان کے لئے ہیں، یہ انسان گورا ہو، کالا ہو، سرخ ہو یا پیلا ہو اور یہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو، ہمارا المیہ اب یہ ہے کہ ہم ان ۲۰ اصولوں پر عمل نہیں کر رہے جو انسان نے کروڑوں سال میں سیکھے ہیں اور قرآن مجید ان کا گواہ بن گیا، اور ان کی جگہ توحید، نماز، روزے، زکوٰة اور حج سے اللہ تعالیٰ اور قدرت کو متاثرکرنے کی کوشش کررہے ہیں، لہٰذا ہم دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کی ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں، جب کہ ہمارے مقابلے میں اہل مغرب اور ترقی یافتہ ممالک ان ۲۰ اصولوں پر عمل کررہے ہیں اور ان پر ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں، یہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے، دنیا میں بے انصاف، بے قانون، بے امن چھوٹے بڑے اور امیر غریب کی تقسیم کے شکار، کم تولنے، کم ماپنے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں، مسکینوں اور جانوروں پر ظلم کرنے والا معاشرہ ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا، خواہ لوگ دن میں تیس تیس نمازیں پڑھ لیں، پورا سال روزے رکھ لیں، ہر سال حج کرلیں، اپنی ساری جمع پونجی زکوٰة میں دے دیں اور ہر سیکنڈ اللہ اور اس کے رسول کا نام لیتے رہیں، ہم مسلمان ہوں یا نہ ہوں، ہمیں معاشرتی اور ذاتی ترقی کے لئے بہرحال ان ۲۰ اصولوں پر عمل کرنا پڑے گا، جو انسان نے کروڑوں سال میں وضع کئے اور قرآن مجید نے انہیں تحریری شکل دے کر ہمارے سامنے رکھ دیا، قرآن مجید بنیادی طور پر ایک آئیڈیل معاشرے کی ٹیکسٹ بک ہے اور ہم جب تک اس ٹیکسٹ بک کی طرف نہیں آئیں گے، ہم ترقی نہیں پاسکیں گے۔ ہمارے سامنے اب یہ سوال سر اٹھاتا ہے، دنیا کے وہ لوگ جو قرآن مجید سے ترقی کا سبق سیکھ لیتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن اسلام کے پانچ ارکان پر عمل نہیں کرتے تو ان کی آخری زندگی کیسے گزرے گی؟ ان لوگوں کی ترقی دنیا کی حد تک محدود رہتی ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں شعائر اسلام اور قرآن مجید کے ۲۰ اصولوں پر عمل کرنے والے مسلمان دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اسلام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید پر بھی عمل کرنا ہوگا، ہمیں مسلمان کے ساتھ ساتھ ایسا انسان بھی بننا ہوگا جو انسانیت کو دنیا اور دنیا کو انسانیت سمجھتا ہو،ورنہ دوسری صورت میں قدرت کو ہماری داڑھیوں، تسبیحوں، نمازوں، روزوں، زکوٰة اور حجوں پر رحم نہیں آئے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کم تولنے والے کی نماز اور دعا دونوں سے لاتعلق ہوجاتا ہے اور میرا وہ دوست اور پورا عالم اسلام اس وقت اسی کشمکش سے گزر رہا ہے۔“ (روزنامہ ایکسپریس، ۲۲/ مئی ۲۰۱۱ء )
جناب جاویدچوہدری صاحب کے اس کالم کامفہوم اورخلاصہ جومیں سمجھاہوں وہ یہ ہے کہ:
۱:۔نماز ،روزہ،زکوٰة ،اورحج کی کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں۔
۲:۔مسلمانوں کی پستی اورپسماندگی کاسبب اسلام اورقرآن کافرق نہ سمجھناہے۔
۳:۔اسلام اور قرآن مجیدمیں فرق ہے۔
۴:۔مسلمان صرف اسلام پرعمل کرتے ہیں اورمغربی اقوام قرآن کریم پر ۔
۵:۔اسلام پانچ ارکان کانام ہے :توحید،نماز،روزہ ،زکوٰة،اورحج ۔
۶:۔قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پراتاری ہوئی ایک ایسی فائنل اتھارٹی ہے،جس نے انسان کے کروڑوں سال کے تجربے کو دستاویزی شکل دے دی ۔
اس کے علاوہ انہوں نے ضمناً اوربھی بہت کچھ لکھاہے، لیکن اختصاراً انہیں باتوں کاترتیب وارتجزیہ پیش کیاجاتاہے۔
۱:۔جناب چوہدری صاحب!معلوم نہیں کہ آپ نے کالم نگاری کے لئے یہ سوال فرضی بنایا ہے یا واقعی کسی نے یہ سوال کیا ہے؟ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ کی ذہنی اختراع ہے۔ لیکن نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے فرائض کی ادائیگی اس انداز اور ان الفاظ میں پیش کرنا گویا قارئین کو یہ تاثر دینا ہے کہ ان فرائض کے اہتمام اور بجاآوری کی کوئی اہمیت او ر وقعت نہیں، جیسا کہ آگے چل کر آپ نے بڑے تحقیرانہ انداز میں لکھا ہے کہ: ”خواہ لوگ دن میں تیس تیس نمازیں پڑھ لیں، پورا سال روزے رکھ لیں، ہر سال حج کرلیں، اپنی جمع پونجی زکوٰة میں دے دیں اور ہر سیکنڈ اللہ و رسول کا نام لیتے رہیں.. ترقی نہیں پاسکیں گے۔“جناب! نماز فرض ہے اور اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار دیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
”واقیموا الصلوٰة ولا تکونوا من المشرکین“ (روم:۳۱) ترجمہ:۔ ”اورنمازکی پابندی کرواورشرک کرنے والوں میں سے مت رہو“۔
سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے تذکرہ اور ان کی تعریف و توصیف کے بعد فرمایا:
”فخلف من بعد ہم خلف اضاعوا الصلوٰة واتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیاً۔“ (مریم:۵۹)
ترجمہ:۔”پھران کے بعد(بعضے)ایسے ناخلف پیداہوئے جنہوں نے نمازکوبربادکیااور (نفسانی ناجائز)خواہشوں کی پیروی کی یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے“۔
اسلامی دنیا کی اس تبدیلی اور ایمان و اسلام کے اعمال و عبادات میں اضافے سے ایک مسلمان تو خوش ہوتا ہے اور اسے خوش ہونا بھی چاہئے، اس لئے کہ ایسے لوگ اپنے مقصد تخلیق پر عمل کررہے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔“ (الذاریات:۵۶)
ترجمہ:۔”اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیداکیاہے کہ میری عبادت کیاکریں“۔
لیکن نامعلوم جناب جاوید چوہدری صاحب اس اسلامی دنیا کی تبدیلی سے کیوں ناخوش نظر آرہے ہیں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”العھدالذی بیننا وبینہم الصلوٰة فمن ترکہا فقد کفر....رواہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ ۔“ (مشکوٰة:۵۸)
ترجمہ:۔”وہ عہدجوہمارے اور ان کے درمیان ہے وہ نمازہے ،پس جس نے نمازچھوڑی تواس نے کفرکیا“۔
۲:...حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”اوصانی خلیلی ان لاتشرک باللّٰہ شیئاً وان قطعت وحرقت ولا تترک صلوٰة مکتوبة متعمداً فمن ترکہا متعمداً فقد برأت منہ الذمة...رواہ ابن ماجة۔“ (مشکوٰة:۵۹)
ترجمہ:۔”میرے دوست (حضورصلی اللہ علیہ وسلم )نے مجھے وصیّت کی(یعنی تاکیدکی)کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تم کاٹ دئے جاؤیاجلادئے جاؤاورجان بوجھ کرفرض نمازنہ چھوڑو،جس نے فرض نمازکوجان بوجھ کرچھوڑاتو اس کی ذمّہ داری ختم ہوگئی “
۳:...حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں گورنروں کو خط لکھااورفرمایا:
”ان اہم امورکم عندی الصلٰوة من حفظہا وحافظ علیہا حفظ دینہ ومن ضیعہا فہولما سواہا اضیع...رواہ مالک۔“ (مشکوٰة :۶۰)
ترجمہ:۔”میرے نزدیک تمہاراسب سے اہم کام نمازہے ،جس نے اس کی حفاظت اور پابندی کی تو اس نے اپنے دین کو محفوظ کیااور جس نے اسے ضائع کیاتووہ اس کے علاوہ (باقی فرائض )کو زیادہ ضائع کرنے والاہوگا“۔
۴:۔حضرت عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفرالا الصلوٰة۔“ (مشکوٰة: ۵۹)
ترجمہ:۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کسی عمل کے چھوڑنے کو کفرنہیں سمجھتے تھے ،سوائے نمازکے“۔
اسی طرح روزہ کی فرضیت، روزہ کا وقت، روزہ کی قضا اور اس کا مقصد ایک ایک چیز کو قرآن کریم نے بڑے پیارے انداز میں بیان فرمایا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
۱:۔”یا ایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون، ایاماً معدودات، فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدة من ایام اُخر... وان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون۔“ (البقرہ:۱۸۳،۱۸۴)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیاگیا،جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے)لوگوں پر فرض کیاگیاتھا،اس توقع پرکہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ)متقی بن جاؤ،تھوڑے دنوں روزے رکھ لیاکرو،پھر(اس میں بھی اتنی آسانی کہ)جوشخص تم میں بیمارہویاسفرمیں ہوتو دوسرے ایّام کا شمار رکھنا ہے..... اور تمہارا روزہ رکھنازیادہ بہترہے ،اگرتم خبررکھتے ہو“۔
۲:...”ثم اتموا الصیام الی اللیل۔“ (البقرہ:۱۸۷)
ترجمہ:۔”رات تک روزہ کوپوراکیاکرو“۔
نماز اور روزہ کی طرح زکوٰة بھی فرض ہے، قرآن کریم میں بارہا نماز کے ساتھ ادائیگی زکوٰة کا بھی حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
۱:...”واقیموا الصلوٰة واٰتوا الزکوة وارکعوا مع الراکعین۔“ (البقرہ:۴۳)
ترجمہ:۔ ”اورقائم کروتم لوگ نمازکواوردوزکوٰة کواورعاجزی کروعاجزی کرنے والوں کے ساتھ“۔
۲:... ”والذین یکنزون الذہب والفضة ولا ینفقو نہا فی سبیل اللّٰہ فبشرہم بعذاب الیم، یوم یحمیٰ علیہا فی نار جہنم فتکویٰ بہا جباہھم و جنوبہم وظہور ہم ،ہذا ماکنزتم لانفسکم فذوقوا ماکنتم تکنزون۔“ (التوبہ:۳۴،۳۵)
ترجمہ:۔”جولوگ سوناچاندی جمع کرکررکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سوآپ ان کو ایک بڑی دردناک سزاکی خبرسنادیجئے جو کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا،پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کوداغ دیاجائے گا،یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کر کرکے رکھاتھا،سواب اپنے جمع کرنے کامزہ چکھو“۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکوٰة دینے سے انکاری ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”واللّٰہ لاقاتلن من فرق بین الصلوٰة والزکوٰة، فان الذکوٰة حق المال، واللّٰہ لو منعونی عناقاً کانوا یؤدونہا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقاتلتہم علی منعہما...متفق علیہ“ (مشکوٰة: ۱۵۷)
ترجمہ:۔ ”اللہ کی قسم !میں اس آدمی سے ضرورقتال کروں گاجو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا،زکوٰة مال کاحق ہے۔اللہ کی قسم!اگروہ مجھے اونٹنی کابچہ دینے سے رکے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تومیں ان سے اس روکنے پر قتال کروں گا“۔