باب الفتاویٰ,مدرسہ عربیہ ریاض العلوم ،جونپور ،اںڈیا

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
باب الفتاویٰ​
مولانا ومفتی طفیل احمد صاحب زیر نگرانی :مفتی عبد اللہ صاحب صدرمفتی وشیخ الحدیث .مدرسہ عربیہ ریاض العلوم .جونپور.​

نوٹ .حضرت مولانامفتی عبد اللہ صاحب مظاہری صدرمفتی وشیخ الحدیث احقر کے استاذ ہیں،علمی قابلیت مسلم ہے ،تفقہ فی الدین میں بے نظیر ،شیخ وقت اور مصلح امت ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت کی ذات بابرکت سے عالم اسلام کو نفع پہنچائے .تادیر سایہ ہم سب پر قائم رکھے ..آمین
.


سوال: مہر فاطمی کی مقدار کیا ہے ؟اور موجودہ مروجہ اوزان سے اس کی مقدار کیا بنتی ہے ؟
جواب: صاحبزادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور آپ کی اکثر ازواجِ مطہرات کی مہر پانچسو درہم تھا ،موجودہ وزن کے اعتبار سے مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پانچسو درہم کو ایک سو اکتیس تو لہ تین ماشہ چاندی کے برابر مانا ہے ( جوا ہر الفقہ : ۴۲۴/۱جو گرام کے مروجہ پیمانہ کے لحاظ سے ایک کلو ۵۳۰گرام ۹۰۰ملی گرام کے برابر ہوتا ہےیہ بھی خیال رہے کہ آجکل بارہ گرام کا تولہ رائج نہیں ہے ، بلکہ دس گرام کے تولہ کے حساب سے سونا چاندی کی خرید وفروخت ہوتی ہے ،اس لحاظ سے مہر فا طمی قریب ۱۵۴تولہ چاندی ہو گی ،اگر روپیہ سے مہر متعین کر نا ہے تو اس وقت بازار میں اتنی چاندی کی جو قیمت بنتی ہو وہی مہر فاطمی کی مقدار ہو گی ۔خیال رہے کہ اگر نکاح میں مہر فاطمی کا تعین ہوا ہے تو جس وقت مہر ادا کیا جا ئیگا اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ (جدید فقہی مسائل :۱۔۱۵۴،کتاب الفتاویٰ :۴۔۳۹۲)

سوال مہر کی کم سے کم مقدار کیا ہے جس سے کم مہر متعین کر نا صحیح نہیں؟
جواب: علمائے احناف کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے ،اور درہم کا وزن دو تولہ ۷۱ماشہ مانا گیاہے اور ایک تولہ ۱۱ گرام ۶۶۴ ملی گرام کے برابر ہو تا ہے ،اس طرح موجودہ مروجہ اوزان سے دس درہم ۳۰ گرام ۶۱۸ ملی گرام کے برابر ہے ،پس اتنی چاندی یا اسکی جو قیمت بنتی ہو وہ مہر کی کم سے کم مقدار ہو گی ۔ لہذا اس سے کم مقدار میں مہر متعین کر نا معتبر نہیں ہے ، اگر کسی نے اس سے کم مقدار متعین کر لیا تو بھی دس درہم ہی کے بقدر واجب ہو گی ، (جدید فقہی مسائل ۔ج ۱ ص ۲۹۳)

سوال : شادی کے موقع پرگولہ داغنا اور پٹا خہ پھوڑنا کیسا ہے ؟
جواب: آتش بازی اور پٹا خے وغیرہ داغنا ،اسراف ،ایذاء اور تشبہ بالکفار جیسے امور قبیحہ پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے نا جائز ہے۔
ّ(فتاویٰ ریاض العلوم :ج ۱ ص ۳۸۱)

سوال : جس شادی میں گناہ کے امور انجام دئے جاتے ہوں مثلاً ٹی وی ،وی سی آر چلتا ہو یا ناچ گانا ہورہا ہو اس میں شرکت کر نا کیسا ہے ؟
جواب: معصیت یعنی گناہ کی مجلس میں شرکت کر نا جائز نہیں ،البتہ اگر گناہ رو کنے کی قدرت ہو تو روکنے کے ارادے سے شریک ہونا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے ۔(کمافی معارف القرآن۲۔۵۸۵،فتاویٰ ریاض العلوم ۱۔۳۸۹)

سوال : جہیز کا لینا دینا کیسا ہے ؟بعض لوگ اس کو سنت قرار دیتے ہیں اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا ،تو کیا یہ دلیل پیش کر نا درست ہے ؟
جواب: جہیز کا لینا دینا سنت نہیں ہے ،آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو چند ضروریات کی چیزیں مثلاً چادر، گدے، کملی، تکیہ ،پیالہ ، مشکیزہ ،بازو بند جہیز میں دیا تھا (اصلاح الرسوم ۳۹)
لیکن کسی بات کا محض آپ ﷺ سے ثابت ہونا سنت ہو نے کیلئے کافی نہیں ہے ، بلکہ سنت اس کو کہتے ہیں جو آپ ﷺ کی عادتِ غالبہ ہو اور جو امر کسی عارض کی وجہ سے آپ ﷺ سے صادر ہو گیا ہو، وہ سنت نہیں ہے ،اور جہیز دینا آپ ﷺ کی عادتِ غالبہ نہ تھی ،کیونکہ آپ ﷺ سے بقیہ صاحبزادیوں کو جہیز دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ،اور نہ ہی صحابہ کرام سے اس کا کوئی ثبوت ہے،لہذا جہیز دینا سنت تو نہیں ہے ،لیکن اگر مندرجہ ذیل شرطوں کے ساتھ جہیز دیا جائے تو یہ صلہ رحمی میں داخل ہو کر جائز ہو گا۔
(۱) نام ونمود اور تفاخر کے طور پر نہ دے ۔
(۲) ضرورت کا لحاظ کر کے دے
(۳) اپنی وسعت سے زیادہ کو شش نہ کرے ،کہ قرض لینے کی نوبت آجائے۔( فتاویٰ ریاض العلوم :۱۔ ۳۹۷)

سوال : شادی میں بارات بلانا یا لے جانا درست ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کتنے آدمی بارات میں جا سکتے ہیں؟
جواب : بارات کا وجود نہ تو خیر القرون میں تھا اور نہ بعد میں ،یہ غیر مسلموں کا طریقہ ہے جس کو ہندوستانی مسلمانوں نے اختیار کرلیا ہے جو مفاسد کثیرہ کی وجہ سے نا جائز ہے (اسلامی شادی واصلاح الرسوم ) البتہ اگر اتنے قلیل تعداد میں لوگ جا ئیں جس کو عرف ورواج میں بارات نہ کہا جا تا ہو مثلاً دو چار آدمی جائیں تو اسکی گنجائش ہے ۔ ( فتاویٰ ریا ض العلوم :۱ .۳۷۶۔۳۹۶)

سوال: نکاح کے بعد کھڑے ہو کر دولہا کو سلام کرنا کیسا ہے ؟
جواب: شریعت میں سلام کا موقع ملاقات کے وقت ہے نہ کہ نکاح کے بعد، لہذا اس موقع پر سلام کرنا محض رسم اور بے محل ہے ، اس سے بچنا چاہئے۔( فتاویٰ ریاض العلوم :۱ ۔۳۸۴)

سوال : کسی دن یا مہینہ یا تاریخ میں نفع ونقصان پہنچانے کا عقیدہ رکھنا اور اس خیال سے اس میں شادی ،بیاہ یا لڑکی کو رخصت نہ کرنا کیسا ہے ؟
جواب: کسی دن یا تاریخ یا کسی مہینہ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھنا ہر گز درست نہیں ہے ،یہ شرکیہ عقیدہ ہے ،کیونکہ شریعت اسلامیہ میں کوئی تاریخ اور کوئی دن اور کوئی مہینہ یا کوئی سال منحوس سمجھ کر اس میں شادی بیاہ اور خوشی کے کاموں سے احتراض کرنا اور بچنا حرام ہے ۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں !اچھی بری تاریخ اور دن کا پو چھنا ،شگون لینا ،کسی مہینہ اور تاریخ کو منحوس سمجھنا کفر اور شرک کی باتوں میں سے ہے ۔
( بہشتی زیور واصلاح الرسوم ۱۴، فتاویٰ ریاض العلوم :۱۔ ۳۹۹..بشکریہ.ماہنامہ "ریاض الجنۃ "جون 2011ء
 
Top