شب برات کے فضائل واحکامات

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شب برات کے فضائل واحکامات​

اللہ تعالی نے شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو ایک خاص فضیلت عطا فر مائی ہے چنا نچہ اللہ کے حبیب ﷺ نے ارشاد فر ماتے ہیں ابن ماجہ شریف کی روایتیں پیش خدمت ہیں
َ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ أَکُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ قَدْ قُلْتُ وَمَا بِي ذَلِکَ وَلَکِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّکَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اپنے بستر پر نہ) پایا تو تلاش میں نکلی دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں آسمان کی طرف سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تمہیں یہ اندیشہ ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے (کہ میں کسی اور بیوی کے ہاں چلا جاؤں گا) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا مجھے ایسا کوئی خیال نہ تھا بلکہ میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی اہلیہ کے ہاں (کسی ضرورت کی وجہ سے) گئے ہوں گے۔ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتے ہیں (بنو کلب کے پاس تمام عرب سے زیادہ بکریاں تھیں)

أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب متوجہ ہوتے ہیں اور تمام مخلوق کی بخشش فرما دیتے ہیں سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے۔ دوسری سند سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے ۔
ِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فاذ َإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَهُ أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ
حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس میں غروب شمس سے فجر طلووع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں۔ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ہے کوئی۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے
مفتی فیاض احمد محمود اپنے مضمون شب برأت شریعت کی نظر میں لکھتے ہیںکہ سنن ابن ماجہ کی اس روایت کو تمام محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔البتہ بعض حضرات نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔لیکن حدیث کا علم رکھنے والے معروف عالم اور مقام شناس مولانا حبیب الرحٰمن اعظمی نے اس کی تر دید کی ہے اور چونکہ یہ حدیث ایک فضیلت والے عمل سے تعلق رکھتی ہے اس لئے ضعیف ہو نے کے باوجود بھی قابل قبول ہے (قاموس الفقہ ،حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۴ؕ۔ ۲۹۹) اس اعتبار سے روزہ مستحب کا درجہ رکھتا ہے ۔البتہ بہتر بات یہ ہے کہ اس روزہ کے ساتھ اس سے پہلے ۱۴ اور ۱۳ شعبان کا بھی روزہ رکھا جائے تا کہ اگر با لفرض یہ حدیث کمزور بھی ہوتو ایام بیض کے روزوں کی سنیت حاصل ہو جائے جیسے کہ علامہ ابن حجر ہیتمیؒ نے اسکی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ وہ فر ماتے ہیں اما صوم یو مھا فھو سنۃ من حیث کونہ من جملۃ الایام البیض لا من حیث خصوصہ ،، کہ شب برات کا روزہ ایام بیض کے طور پر سنت ہے خاص طور پر اس دن سنت نہیں ہے ۔
البتہ بہشتی زیور میں اس طرح لکھا ہے ۔
مسئلہ ۱۳۔ شب برات کى پندرہويں اور عيد کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھى اور نفلوں سے زيادہ ثواب ہے ۔
شب برات کى اتنى اصل ہے کہ پندرہويں رات اور پندرھواں دن اس مہينے کا بہت بزرگى اور برکت کا ہے ہمارے پيغمبر صلى اللہ عليہ وسلم نے اس رات کو جاگنے کى اور اس دن کو روزہ رکھنے کى رغبت دلائى ہے اور اس رات ميں ہمارے حضرت صلى اللہ عليہ وسلم نے مدينہ کے قبرستان ميں تشريف لے جا کر مردوں کے ليے بخشش کى دعا مانگى ہے۔ تو اگر اس تاريخ ميں مردوں کو کچھ بخش ديا کرے چاہے قرآن شريف پڑھ کر چاہے کھنا کھلا کر چاہے نقد دے کر چاہے ويسے ہى دعا بخشش کى کر دے تو يہ طريقہ سنت کے موافق ہے اس سے زيادہ جتنے بکھيڑے لوگ کر رہے ہيں اس ميں حلوے کى قيد لگا رکھى ہے اور اس طريقے سے فاتحہ دلاتے ہيں اور خوب پابندى سے يہ کام کرتے ہيں يہ سب واہيات ہيں۔ سب باتوں کى برائى اوپر ابھى پڑھ چکى ہو اور يہ بھى سن چکى ہو کہ جو چيز شرع ميں ضرورى نہ ہو اس کو ضرورى سمجھنا يا حد سے زيادہ پابند ہو جانا برى بات ہے۔
مسئلہ جس قدر نمازيں يہاں بيان ہو چکيں ان کے علاوہ بھى جس قدر کثرت نوافل کى جائے باعث ثواب و ترقى درجات ہے خصوصا ان اوقات ميں آج کى فضيلت احاديث ميں وارد ہوئى ہے اور ان ميں عبادت کرنے کى ترغيب نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمائى ہے مثل رمضان کے اخير عشرہ کى راتوں اور شعبان کى پندرھويں تاريخ کے ان اوقات کى بہت فضيلتيں اور ان ميں عبادت کا بہت ثواب احاديث ميں وارد ہوا ہے ہم نے اختصار کے خيال سے ان کى تفصيل نہيں کى۔ بہشتی زیور
ایک روایت میںاُم المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی اکرمﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: "چار راتو ں میں اللہ تعالیٰ خیروبرکت کی بارش فرماتے ہیں: عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، پندرہویں شعبان کی رات اس رات اللہ تعالیٰ کاموں (اور بالخصو ص موت)کے اوقات اور رزق لکھ دیتا ہے اور اس سال حج کرنے والوں کے نام لکھ دیتا ہے، اور عرفہ یعنی یوم الحج کی رات۔ ان راتوں میں خیر وبرکت کی برسات اذان فجر تک جاری رہتی ہے۔" ۔

 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
[size=x-large]حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آتی ہے تو ملک الموت کو ایک کتاب دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے جن کے نام اس کتاب میں ہیں اُ ن کی روحیں قبض کرو! بندہ باغات لگا رہا ہوتا ہے ، شا دیاں کر رہا ہوتا ہے اور عمارتیں تعمیر کر رہا ہوتا ہے (اور اسے معلوم نہیں ہوتا) کہ اسکا نام مرنے والوں میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔
احادیث بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ شب برات رحمتوں بخششوں اور مغفرتوں کی رات ہے، کچھ بد نصیب ایسے ہیں جن کی مغفرت اس بخشش بھری رات میں بھی نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ سچی توبہ نہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو سال بھر کے اہم امور کا پروگرام دے دیتے ہیں۔ چونکہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اپنی قضاوں میںتبدیلی بھی فرما دیتے ہیں، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اس رات اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی خیرات و برکات کا سوال کرے اور رب غفور و رحیم کی بارگاہ میں دنیا و آخرت کے مصائب و آلام سے نجات کا سوال کرے۔

اکابرین امت کے اقوال​
علامہ ابن الحاج مالکی ؒ فر ماتے ہیں کہ "اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے اور ہمارے اسلاف اسکی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے ۔امدخل لابن الحاج ۱۔ ۲۹۹
علامہ ابن تیمیہ ؒ کے شاگرد ابن رجب حنبلیؒ فر ماتے ہیں کہ " شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان ؒ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات میںخوب عبادت کرتے تھے ۔ لطائف المعارف ۱۴۴)
علامہ این نجیم ؒ فر ماتے ہیں کہ " اور مستحب ہے شعبان کی پندرھویں رات بیداری کرنا (البحرا لرائق ۲۔ ۵۲
علامہ حصکفیؒ فر ماتے ہیں کہ " مستحب ہے شعبان کی پندرھویں رات عبادت کرنا (الدرمع الرد ۲۔ ۲۴۔۲۵
حضرت تھانویؒ فر ماتے ہیں '"" کہ شب برات کی اتنی اصل ہے کہ پندرھویں رات اور پندھواں دن اس مہینہ کا بزرگی اور برکت والا ہے بہشتی زیور
کفایت المفتی میں ہےکہ پندرھویں شب ایک افضل رات ہے ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اس رات بیداری کرنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی ؒ کا قول ہے (ماثبۃ با السنۃ ص ۳۶۰
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب فر ماتے ہیں فِيها يُفْرَق ُ وغیرہ کے سب الفاظ شب قدرہی کے متعلق ہیں ۔رہا شب برأت کی فضیلت کا معاملہ ،سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایت حدیث میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں اسی لئےقاضی ابو بکر ابن عربی نے اس رات کی فضیلت سے انکار کیا ہے لیکن شب برأت کی فضیلت کی روایات اگر چہ با اعتبار سند ضعف سے کو ئی خالی نہیں لیکن تعدد طرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہو جاتی ہے اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعف روایات پر عمل کر نے کی بھی گنجائش ہے معارف القرآن۔
فتاویٰ محمودیہ میں ہے کہ شب قدر وشب برات کیلئے شریعت نےعبادت ،نوافل؛ ،تلاوت ، ذکر ، تسبیح ،دعا واستغفار کی تر غیب دی ہے ۔
مفتی محمد تقی عثمانی زیدہ مجدہ فر ماتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ شب برات کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ اسکی کوئی فضیلت حدیث سےثابت نہیں ہے ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں جس میں اس رات کی فضیلت نبی کریم ﷺ نے بیان کی ہے ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے سے بے شک کچھ کمزور ہیں لیکن حضرات محدثین اور فقہا کرام کا یہ فیصلہ ہے کہ ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو ، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہو جائیں تو اسکی کمزوری دور ہو جاتی ہے ۔ اصلاحی خطبات ج ۴ ص ۲۶۳ تا۲۶۵
آخر میں شب براۃ کے متعلق دارا لعلوم دیوبند کے فتا وے نقل کئے جاتے ہیں ۔
سوال:شب برأت کی کیا اہمیت ہے؟ کچھ مذہبی علمائے کرام کا یہ نظریہ ہے کہ اگر ہم اس کو خاص اور مقدس رات کے طور پر منائیں تو یہ بدعت ہوگی۔
جواب:جس قدر امور شب برأت میں ثابت ہیں، مثلاً انفرادی طور پر دعا، استغفار، نماز، تلاوت کرلینا، ۱۵/ شعبان کا روزہ رکھنا کبھی کبھی قبرستان چلے جانا، ان کو کرلینا مندوب ہے۔ اس کے علاوہ امور مثلاً حلوا پکانا، فاتحہ کرنا، پٹاخا چھڑانا، اجتماعی طور پر مسجد میں اکٹھا ہونے کا اہتمام کرنا، قبرستان میں چراغاں کرنا، اگربتی، موم بتی جلانا، قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا بطور تہوار کے منانا۔ وغیرہ چیزیں از قبیل رسوم قبیحہ وبدعت کے ہیں۔دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند۔واللہ تعالیٰ اعلم
سوالات :
(۱) شب برات کی حقیت کیاہے؟
(۲) ۵۱/ شعبان کی رات کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔
(۳) عر ب دنیا اس رات سے بے علم کیوں ہیں؟
(۴) ہم نے اس مذہبی تہوارکیوں منانا شروع کیا اور یہ کب سے ہے؟
(۵) کیا قرآن پاک میں اس کا کو ئی تذکرہ ہے؟ کیا کوئی ایسی مستند کتاب ہے جس میں اس رات کے بارے کچھ بھی مذکورہے؟
جوابات ":
۱ و ۲) پندرہویں شعبان کی رات شب براءة کہلاتی ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے بری اور پاک و صاف کرتا ہے، یعنی مغفرت چاہنے والوں کی بے انتہا مغفرت فرماتا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں آیا ہے نیز اس رات میں سالانہ فیصلے کی تجدید فرماتا ہے جیسا کہ قرآن میں سورہٴ دخان میں موجود ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلِّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ․
(۳) چونکہ شب براءة کی فضیلت میں آئی ہوئی احادیث ضعیف ہیں اس لیے وہ لوگ اسے اہمت نہیں دیتے۔
(۴) شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے امام غائب صاحب کی پیدائش کا دن ہے لہٰذا وہ لوگ اس خوشی میں اچھے کھانے حلوے وغیرہ بناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں جھنڈیاں لگاتے ہیں اور خوب چہل پہل کرتے ہیں، غرض شیعہ اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں۔ ان ہی کی دیکھی دیکھا ہمارے سنی حضرات بھی اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں۔ حلوے پکاتے ہیں، چہل پہل کرتے ہیں، یہ جو کچھ ہورہا ہے سب شیعوں کی نقالی ہے۔ ہمارے یہاں صرف اتنا ہے کہ جس کو توفیق ہو اپنے گھر میں بیٹھ کر کچھ عبادت کرلے اور اللہ سے دعا کرلے۔ مسجدوں میں بھیڑ لگانا یہ کہیں ثابت نہیں۔
(۵) جی ہاں! اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ اس موضوع پر خود احقر کی لکھی ہوئی کتاب ”شب براءة“ کے نام سے ہے اس کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سوال:
کچھ حضرات نے شعبان کی پندرہویں تاریخ (شب برأت) کو گلی میں پردے کے انتظام کے ساتھ شامیانہ، ٹینٹ لگوایا ۔ اس کے بعد مسجد میں جاکر اعلان کروایا کہ سبھی خواتین فلاںفلاںجگہ جمع ہوجائیں وہاں اجتماعی طور پر عبادت ہوگی۔ پھر سبھی خواتین اس جگہ جمع ہوتی ہیں، رات بھر وعظ ہوتا ہے نفلی عبادت ہوتی ہے۔ کیا اعلان لگا کر عورتوں کا رات کو وہاں جمع کرنا ٹھیک ہے؟ شب برأت میں اپنے گھروں کو چھوڑکر کسی دوسری جگہ عبادت کے لیے جمع ہونا ٹھیک ہے؟ کچھ کا کہنا ہے کہ گھر میں انفرادی طور پر عبادت کرنے سے نیند آجاتی ہے، عبادت نہیں ہوپاتی ہے۔ ایک جگہ اکٹھا ہوکر اجتماعی طور پر صحیح عبادت ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب مطلوب ہے۔
جواب:
شب برأت میں مختلف مقامات پر خواتین کو جمع کرکے اجتماعی طور پر عبادت کروانا، رات بھر وعظ کرنا درست نہیں۔ اس شب میں عورتوں کو اپنے اپنے گھروں میں تنہا تنہا عبادت کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام سخت مجبوری کے باوجود تہجد ودیگر نوافل گھر میں ادا کرتے تھے۔ اگر تنہا عبادت کرنے میں نیند آنے کا اندیشہ ہو تو متفرق اعمال کرلیے جائیں تاکہ توجہ منقسم رہے، کچھ نوافل پڑھ لے، تلاوت کرنے لگے، ذکر کرنے لگے، اس کے علاوہ جو بھی تدبیریں نیند نہ آنے کی ہوں سب کرے اور اگر باوجود تدبیر کرنے کے پھر بھی نیند غالب ہو تو وہ نیند معتبر ہے یعنی پھر سوجائے۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

[/size]
 

ستار كرله

وفقہ اللہ
رکن
ربِ کائنات اللہ ربِ العزت نے بعض کو بعض پر فضیلت و انفرادیت بخشی ہے یعنی یہ کہ انبیامیں پیارے آقاحضور پُرنور حضرت محمد مصطفی کو سب سے زیادہ فضیلت عطافرمائی ہے اِسی طرح سے تمام آسمانی کتب میں سب سے زیادہ عظمت اور توقیر قرآن مجید فرقانِ حمید کودی ہے اور بعض راتوں اور ایام کو بھی رب تعالی سبحانہ نے فضیلت کا ذریعہ قراردیاہے فضیلت کی راتوں میں شبِ قدر، شبِ برا ت، شبِ معراج اور شبِ عید کو اللہ تبارک تعالی نے بہت پسند فرمایاہے اللہ تعالی کا اِن راتوں کو پسند فرمانا بیشک! اُمتِ مصطفی پر احسانِ عظیم ہے اور دنوں میں عاشورہ کے ایام باعثِ فضیلت ہیں اِن ایام میں زیادہ سے زیادہ یاد الہی کی کوشش کرنی چاہئے ۔

ماہِ شعبانِ المعظم کی پندرہویں شب کو جِسے شبِ برا ت بھی کہاجاتاہے اِس شب کو رب ِکائنات اللہ رب العزت اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت کے سبب بے شمار گناہ گاربندوں کی مغفرت فرماتاہے اِ س شب کی فضیلت اور عظمت سے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرمایا ہے ۔”اِس میں بانٹ دیاجاتاہے ہر حکمت و الاکام“اور یوں اِس ماہِ مبارکہ اور اِس کی پندرہویں شب کی احادیث مبارکہ میں بھی بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ رسول اکرم کا ارشادہے کہ ”ماہِ شعبانِ المعظم بہت ہی برگزیدہ مہینہ ہے اور اِس ماہ ِمبارک کی عبادت کا بے حد ثواب ہے“۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے ”ش، ع، ب، ا،اور ن، کا پھر اِن حرفوں کی وہ تشریح اِس طرح سے فرماتے ہیں کہ ”لفظ شعبان میں حرف ”ش “ سے مراد ہے شرفِ قبولیت اعمال کے، حرف ”ع“ عزت ع عظمت دین ودنیا دونوں میں حاصل ہونا،حرف ”ب“ سے مراد انہوںنے برکتوں کا تمام اہل محمدیہ پر نزول لیا ہے تو اِسی طرح حرف ”الف“ سے مراد انہوں نے دامن و امان کا بکثرت نازل ہونا اور اللہ عزوجل کا اپنے بندوں پر الفت و انوار کی زیادتی کرنااور اِسی طرح علمائے کرام نے لفظ شعبان کے آخری حرف ” ن“ سے مراد نجاتِ نار یعنی جہنم سے نجات کا راستہ کھلنا لیاہے اور برا ت کا پورامطلب بھی انہوں نے نجات والی رات لی ہے۔اِس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس رات میں اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو اپنی خصوصی رحمت سے توازتاہے اِس رات ہر امر کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ رات بڑی مبارک اور اہم ہے اِس رات میں خالقِ کائنات اللہ رب العزت مخلوق میں تقسیم رزق فرماتاہے اور سال بھر میں ہونے والے واقعات و حوادث کو لکھ دیتاہے اور پورے سال میں انسانوں سے سرزد ہونے والے اعمال اور پیش آنے والے واقعات سے بھی اپنے فرشتوں کو باخبر کردیتاہے ۔

ُّّ >پیشِ رب سر کو چھکاو آگئی شبِ برا ت
بگڑیاں اپنی بناو آگئی شبِ برات



میں بجٹ والی رات بھی کہہ سکتے ہیں ۔سیدنا حضرت ابوبکر صدیق سے روایت ہے کہ جنابِ رسول ِاکرم نے فرمایا ” اٹھوشعبان کے مہینے کی پندرہویں رات کو اِس لئے کہ بالیقین یہ رات مبارک ہے فرماتا ہے اللہ تعالی اِس رات کو کہ ہے کوئی ایساجو بخشش چاہتاہو مجھ سے تاکہ بخش دوںاور تندرستی مانگے تو تندرستی دوں اور ہے کوئی محتاج کہ آسودہ حالی چاہتاہوتاکہ اُس کو آسودہ کردوں چنانچہ صبح تک یہی ارشاد ہوتاہے۔
> گڑ گڑا کراے! مسلمانوں یقیں کے ساتھ اَب
جو بھی مانگو رب سے پاو آگئی شبِ برا ت

ُمیرے پیارے حضور پُرنور محمد مصطفی نے اِس ماہِ مبارکہ شعبانِ المعظم کی پندرہویں رات( شبِ برا ت) کی بے انتہا برکتیں بیان کی ہیں جن سے متعلق چند احادیث مبارکہ پیش ہیں۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور اقدس نبی آخری الزماں نے ارشاد فرمایا کہ ” نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالی قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتاہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے اور بدکار عورت کے سوا، تمام لوگوں کو بخش دیتاہے “( غنیتہ الطعالبین)

> تُوبہ کرلو سرجھکاو پیشِ رب العالمین
خودکو دوزخ سے بچاو آگئی شبِ برا ت

حضرت انس کا قول ہے کہ رسول خدا سے افضل روزے دریافت کئے گئے تو آپ نے جواب دیاکہ رمضان کی تعظیم میں شعبان کے روزے رکھناہے“

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شب کو میں نے حضور اکرم کو نہ پایا تو میں تلاش کے لئے نکلی آپ یقیع (قبرستان مدینہ) میں تھے آپ نے فرمایا! کہ اے عائشہ ! میرے پاس جبرائیل ؑ تشریف لائے اور کہا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اِس میں اللہ تعالی اتنے لوگوںکو جہنم سے نجات دے گا جتنے قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بال ہیں (قبائل عرب میں اِس قبیلے کی بکریاں سب سے زیادہ ہوتی تھیں) مگر چند بدنصیب افراد کی طرف اِس رات بھی اللہ تعالی کی نظرِ عنایت نہ ہوگی یعنی کہ! مشرک، کینہ پرور، قطع رحمی کرنے والا، پاجامے یاتہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، والدین کی نافرمانی کرنے والا، شراب نوش اور تصویر بنانے والا“

> ہے یہ بہتر پیشِ داور آنسوو ں سے آج تم
اپنے دامن کو سجاو آگئی شبِ برا ت
تم سے ہیں ناراض گر اچھایہ موقع آگیا
باپ اور ماں کو مناو آگئی شبِ برا ت

اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی ایک اور روایت امام بیہقی نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا! اے عائشہ ! تم جانتی ہو یہ کیسی رات ہے..؟یعنی نصف شعبان کی رات، میں نے کہایارسول اللہ اِس رات میں کیا ہوتاہے..؟تو آپ نے ارشادفرمایا : اولادِ آدم میں سے اِس سال میں جو بچہ پیداہونے والا ہوتاہے اِس کا نام لکھ دیاجاتاہے اورسال بھر میں جتنے انسان مرنے والے ہوتے ہیں اُن کا بھی نام اِس شب میں لکھ دیاجاتاہے اور اِس رات میں بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اِس شب کو بندوں کے رزق بڑھائے اور نازل بھی کئے جاتے ہیں۔
ابونصر نے بالاسناد مردہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ کو بستر پہ نہیں پایا میں (آپ کی تلاش میں) گھر سے نکلی ، تو میںنے دیکھاکہ آپ بقیع کے قبرستان میں موجود ہیں اور آپ کا سرمبارک آسمان کی جانب اٹھاہواہے حضورنبی کریم نے مجھے دیکھ کر فرمایاکیا؟ تمہیں اِس بات کا اندیشہ ہے کہ اللہ اور اُس کا رسول تمہاری حق تلفی کریں گے میں نے عرض کیا یارسول اللہ میراگمان تو یہی تھا کہ آپ کسی بی بی کے یہاں تشریف لے گئے ہیں حضور نے فرمایا! اللہ تعالی نصف شعبان کی رات میں دنیاکے آسمان پر جلوہ فرماتاہے اور 300رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔

گویا شبِ برا ت میں بڑی رحمتوں کا نزول ہوتاہے اور بالخصوص اِس رات کے آخری پہر (حصے) میں جبکہ اکثر لوگ غفلت میں رہ کر اِن رحمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم روف الرحیم کا فرمان عظیم ہے کہ ” جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اِس میں قیام (یعنی عبادت)کرو اور دن میں روزہ رکھو بے شک اللہ تعالی غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاض تجلی فرماتاہے۔

> کیاہی اچھا ہو کہ مل کر ہیں نوافل جتنے بھی
خود پڑھو سب کو پڑھاو آگئی شبِ برا ت

اِسی طرح شیخ ابونصر نے بالاسناد میں حضرت عائشہ ؓسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ؑ !یہ کون سی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اُس کے رسول ہی بخوبی واقف ہیں تو حضور نے فرمایا کہ! یہ نصف شعبان کی رات ہے اِس رات میں دنیا کے تمام بندوں کے اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں(اُن کی پیشی بارگاہ ِرب العزت میں ہوتی ہے)اوراللہ تعالی اِس رات بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتاہے توکیا تم آج کی رات مجھے عبادت کی آزادی دیتی ہو؟میں نے عرض کیا ضرور!پھر آپ نے نماز پڑھی اور قیام میں تخفیف کی ، سورہ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھی پھر آدھی رات تک آپ سجدے میں رہے پھر کھڑے ہوکر دوسری رکعت پڑھی اور پہلی رکعت کی طرح اِس میں قرآت فرمائی (چھوٹی سورت پڑھی) اور پھر آپ سجدے میں چلے گئے یہ سجدہ فجر تک رہا میںدیکھتی رہی اور مجھے یہ اندیشہ ہوگیا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی روح مبارک قبض فرمالی ہے اور پھر جب میرا انتظار طویل ہوا(بہت دیر ہوگئی) تو میں آپ کے قریب پہنچی اور میں نے حضور نبی کریم کے تلوو ں کو چھوا تو حضور نے حرکت فرمائی، میں نے خود سُناکہ حضور سجدے کی حالت میں یہ الفاظ ادافرمارہے تھے۔

” الہی میں تیرے عذاب سے تیری عفو اور بخشش کی پناہ میں آتاہوں تیرے قہر سے تیری رضاکی پناہ میں آتاہوں تجھ سے ہی پناہ چاہتاہوںتیری ذات بزرگ والی ہے میں تیری شایانِ شان ثنابیان نہیں کرسکتا توہی آپ اپنی ثنا کرسکتاہے اور کوئی نہیں“
پھرصبح کو میں نے عرض کیا کہ آپ سجدے میں ایسے کلمات ادافرما رہے تھے کہ ویسے کلمات میں نے آپ کو کہتے کبھی نہیں سُنا تو حضور نے دریافت فرمایا ! کیاتم نے یاد کرلیے ہیں میں نے عرض کی جی ہاں! آپ نے فرمایا! توانہیں خود بھی یادکرلو اور دوسروں کو بھی سِکھاو کیونکہ جبرائیل امین نے مجھے سجدے میں اَن کلمات کو اداکرنے کا حکم دیاتھا“
> بخش دے گا پھر خدا تم کو یہ رکھنا سب یقین
گھر کو جنت میں بناو آگئی شبِ برا ت

ویسے تو ماہ ِ شعبانِ المعظم کے تمام دن ہی رحمت اور برکت کے ہیں مگر اِس ماہِ مبارکہ کی پندرہویں شب جِسے شبِ برا ت بھی کہاجاتاہے اِس شب میں بیشک عبادت کرنے پر اللہ تعالی کی جانب سے بے حساب انعام واکرام کی نوازشیں ہوتی ہیں اور بے شمار رحمتیں اور برکتیں اِس شب ( شبِ برا ت )میں آسمان سے برس رہی ہوتی ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اِس رات کو شیطانی خرافات اور دنیاوی لذتوں میں پڑ کر اِسے یوں ہی ضائع نہ کریںخداجانے اگلے سال ہمیں یہ شب نصیب ہوکہ نہ ہو ہمیں چاہئے کہ ہم اِس عظمت اور بابرکت والی شب کو خالقِ کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوکر اِس کی عبادت میں گزاریں اور اگر ہم کسی وجہ سے اب تک نماز پنچگانہ کی ادائیگی کی پابندی نہیں کرسکے ہیں تو اِس شب کو خود کو اِن کی ادائیگی کا پابندبنانے کا عہد کریں اور اپنے سابقہ گناہوں سے رب ِ کائنات اللہ رب العزت کے حضور گِڑ گِڑا کر معافی طلب کریں اِس یقین کے ساتھ کہ وہ ہمیں ضرور بخش دے گا۔اور اِس رات میں اللہ کی عبادت کریں اور نوافل کثرت سے پڑھیں تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہیں قبرستان میں جاکر اہل قُبور کی مغفرت کی خصوصی دعائیں کریں اور اِس رات آتش بازی جیسے شیطانی اور جہنمی کھیل سے بھی قطاََ اجتناب برتیں اور اُن لوگوں کو بھی شفقت اور محبت سے سمجھائیں کے جو اِس عمل میں اپنی کم علمی کی وجہ سے آتش بازی جیسے خلاف اسلام فعل میں مصروف ہیں انہیں ایسا کرنے سے بھی منع کریں۔

> قرض ہے تم پر یہ اعظم آج گمراہوں کو تم
راستہ حق کا دکھاو آگئی شبِ برا ت

اے مومنو! حضرت عطا بن یسار سے مروی ہے کہ شبِ برا ت جب آتی ہے تو ملک الموت کو ہر اُس شخص کانام لکھوادیا جاتاہے کہ جو اِس شبِ برا ت سے آئندہ شبِ برا ت تک مرنے والا ہوتاہے آدمی بہت سے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندیاں کرتاہے ۔حالانکہ! اُس کا نام مردوں کی فہرست میں شامل ہوچکاہوتاہے بس اِس عرصے میں ملک الموت اِس انتظار میں ہوتاہے کہ اِسے کب حکم ہو اور وہ اِس کی روح قبض کرلے علمائے حق فرماتے ہیںکہ شبِ برا ت کی عبادت پورے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے لہذا اِس شب کو( یعنی 14ویں شعبان کو عصر کی تماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے ٹھیراجائے تاکہ جب 15ویں شعبان کی شب ربِ کائنات کے حضور ہمارے اعمال نامے پیش کئے جائیں تو ہم حالتِ اعتکاف ہی میںہوں اور اِس شب میں جس قدر ممکن ہوسکے وقت ضائع کئے بغیر اللہ کی عبادت کی جائے اور دعا اور استغفار مصروف رہاجائے۔

نوافلِ شبِ برا ت:-
ماہِ شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شبِ برا ت میں جو نماز(سلف سے منقول او ر)وارد ہے اِس میں100رکعتیں ہیں ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کے ساتھ یعنی ہر رکعت میں دس مرتبہ قل ھواللہ ُ اَحد پڑھی جائے اِس نماز کا نام ” صلوہ الخیر “ہے اِس کے پڑھنے سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اِس شب میں قرآن مجید فرقانِ حمید ،درود شریف، صلوت السبیح و دیگر نوافل کے علاوہ آٹھ رکعت نفل اِس طرح سے پڑھیں کہ ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص 25بار پڑھیں اور پندرہویں شعبان کا روزہ رکھیں۔

حضرت مفتی احمد یارخان علیہ الرحمتہ المنان اپنی اسلامی زندگی میں فرماتے ہیں کہ ماہِ شعبانِ المعظم کی پندرہویں (شبِ برا ¿ت )رات کو بیری (یعنی کہ بیر کے درخت) کے سات پتے پانی میں جوش دے کر جب کوئی غسل کرے تو انشا اللہ عزوجل وہ شخص پورے سال جادو ٹونے اثر سے محفوظ رہے گا اور 15ویں شعبانِ المعظم کی شب کو بعد تمازِ مغرب کے چھ رکعتیں دو دو رکعت کرکے پڑھیں کہ دورکعت نفل درازی عمر بالخیر ہونے کی نیت سے اور دورکعت نفل بلائیں دفع ہونے کی نیت سے اور دورکعت نفل مخلوق کا محتاج نہ ہونے کی نیت سے پڑھیں اور ہر نمازِ دوگانہ کے بعد سورہ یاسین ایک بار یا سورہ اخلاص 21بار اور اِس کے بعد دعائے نصف شعبانِ المعظم پڑھے۔ ہماری دعا ہے اللہ عزوجل اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی کے صدقے میں تمام مسلمانوں کو خلوص کے ساتھ اِس شب کونیک عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)
> سب مسلمانوں کی بخشش کی دعائیں مانگنا
خودکوبھی بخشواو آگئی شبِ برا ت
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ستار صاحب
جزاک اللہ خیرا.
عمدہ ،معلوماتی اور بڑا ہی قیمتی مضمون ہے ہمیں امید ہےمزید ایسے ہی مراسلوں سے نوازتے رہیں گے.
والسلام
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن


ربِ کائنات اللہ ربِ العزت نے بعض کو بعض پر فضیلت و انفرادیت بخشی ہے یعنی یہ کہ انبیامیں پیارے آقاحضور پُرنور حضرت محمد مصطفی کو سب سے زیادہ فضیلت عطافرمائی ہے اِسی طرح سے تمام آسمانی کتب میں سب سے زیادہ عظمت اور توقیر قرآن مجید فرقانِ حمید کودی ہے اور بعض راتوں اور ایام کو بھی رب تعالی سبحانہ نے فضیلت کا ذریعہ قراردیاہے فضیلت کی راتوں میں شبِ قدر، شبِ برا ت، شبِ معراج اور شبِ عید کو اللہ تبارک تعالی نے بہت پسند فرمایاہے اللہ تعالی کا اِن راتوں کو پسند فرمانا بیشک! اُمتِ مصطفی پر احسانِ عظیم ہے اور دنوں میں عاشورہ کے ایام باعثِ فضیلت ہیں اِن ایام میں زیادہ سے زیادہ یاد الہی کی کوشش کرنی چاہئے ۔

ماہِ شعبانِ المعظم کی پندرہویں شب کو جِسے شبِ برا ت بھی کہاجاتاہے اِس شب کو رب ِکائنات اللہ رب العزت اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت کے سبب بے شمار گناہ گاربندوں کی مغفرت فرماتاہے اِ س شب کی فضیلت اور عظمت سے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرمایا ہے ۔”اِس میں بانٹ دیاجاتاہے ہر حکمت و الاکام“اور یوں اِس ماہِ مبارکہ اور اِس کی پندرہویں شب کی احادیث مبارکہ میں بھی بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ رسول اکرم کا ارشادہے کہ ”ماہِ شعبانِ المعظم بہت ہی برگزیدہ مہینہ ہے اور اِس ماہ ِمبارک کی عبادت کا بے حد ثواب ہے“۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے ”ش، ع، ب، ا،اور ن، کا پھر اِن حرفوں کی وہ تشریح اِس طرح سے فرماتے ہیں کہ ”لفظ شعبان میں حرف ”ش “ سے مراد ہے شرفِ قبولیت اعمال کے، حرف ”ع“ عزت ع عظمت دین ودنیا دونوں میں حاصل ہونا،حرف ”ب“ سے مراد انہوںنے برکتوں کا تمام اہل محمدیہ پر نزول لیا ہے تو اِسی طرح حرف ”الف“ سے مراد انہوں نے دامن و امان کا بکثرت نازل ہونا اور اللہ عزوجل کا اپنے بندوں پر الفت و انوار کی زیادتی کرنااور اِسی طرح علمائے کرام نے لفظ شعبان کے آخری حرف ” ن“ سے مراد نجاتِ نار یعنی جہنم سے نجات کا راستہ کھلنا لیاہے اور برا ت کا پورامطلب بھی انہوں نے نجات والی رات لی ہے۔اِس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس رات میں اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو اپنی خصوصی رحمت سے توازتاہے اِس رات ہر امر کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ رات بڑی مبارک اور اہم ہے اِس رات میں خالقِ کائنات اللہ رب العزت مخلوق میں تقسیم رزق فرماتاہے اور سال بھر میں ہونے والے واقعات و حوادث کو لکھ دیتاہے اور پورے سال میں انسانوں سے سرزد ہونے والے اعمال اور پیش آنے والے واقعات سے بھی اپنے فرشتوں کو باخبر کردیتاہے ۔

ُّّ >پیشِ رب سر کو چھکاو آگئی شبِ برا ت
بگڑیاں اپنی بناو آگئی شبِ برات



میں بجٹ والی رات بھی کہہ سکتے ہیں ۔سیدنا حضرت ابوبکر صدیق سے روایت ہے کہ جنابِ رسول ِاکرم نے فرمایا ” اٹھوشعبان کے مہینے کی پندرہویں رات کو اِس لئے کہ بالیقین یہ رات مبارک ہے فرماتا ہے اللہ تعالی اِس رات کو کہ ہے کوئی ایساجو بخشش چاہتاہو مجھ سے تاکہ بخش دوںاور تندرستی مانگے تو تندرستی دوں اور ہے کوئی محتاج کہ آسودہ حالی چاہتاہوتاکہ اُس کو آسودہ کردوں چنانچہ صبح تک یہی ارشاد ہوتاہے۔
> گڑ گڑا کراے! مسلمانوں یقیں کے ساتھ اَب
جو بھی مانگو رب سے پاو آگئی شبِ برا ت

ُمیرے پیارے حضور پُرنور محمد مصطفی نے اِس ماہِ مبارکہ شعبانِ المعظم کی پندرہویں رات( شبِ برا ت) کی بے انتہا برکتیں بیان کی ہیں جن سے متعلق چند احادیث مبارکہ پیش ہیں۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور اقدس نبی آخری الزماں نے ارشاد فرمایا کہ ” نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالی قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتاہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے اور بدکار عورت کے سوا، تمام لوگوں کو بخش دیتاہے “( غنیتہ الطعالبین)

> تُوبہ کرلو سرجھکاو پیشِ رب العالمین
خودکو دوزخ سے بچاو آگئی شبِ برا ت

حضرت انس کا قول ہے کہ رسول خدا سے افضل روزے دریافت کئے گئے تو آپ نے جواب دیاکہ رمضان کی تعظیم میں شعبان کے روزے رکھناہے“

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شب کو میں نے حضور اکرم کو نہ پایا تو میں تلاش کے لئے نکلی آپ یقیع (قبرستان مدینہ) میں تھے آپ نے فرمایا! کہ اے عائشہ ! میرے پاس جبرائیل ؑ تشریف لائے اور کہا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اِس میں اللہ تعالی اتنے لوگوںکو جہنم سے نجات دے گا جتنے قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بال ہیں (قبائل عرب میں اِس قبیلے کی بکریاں سب سے زیادہ ہوتی تھیں) مگر چند بدنصیب افراد کی طرف اِس رات بھی اللہ تعالی کی نظرِ عنایت نہ ہوگی یعنی کہ! مشرک، کینہ پرور، قطع رحمی کرنے والا، پاجامے یاتہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، والدین کی نافرمانی کرنے والا، شراب نوش اور تصویر بنانے والا“

> ہے یہ بہتر پیشِ داور آنسوو ں سے آج تم
اپنے دامن کو سجاو آگئی شبِ برا ت
تم سے ہیں ناراض گر اچھایہ موقع آگیا
باپ اور ماں کو مناو آگئی شبِ برا ت

اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی ایک اور روایت امام بیہقی نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا! اے عائشہ ! تم جانتی ہو یہ کیسی رات ہے..؟یعنی نصف شعبان کی رات، میں نے کہایارسول اللہ اِس رات میں کیا ہوتاہے..؟تو آپ نے ارشادفرمایا : اولادِ آدم میں سے اِس سال میں جو بچہ پیداہونے والا ہوتاہے اِس کا نام لکھ دیاجاتاہے اورسال بھر میں جتنے انسان مرنے والے ہوتے ہیں اُن کا بھی نام اِس شب میں لکھ دیاجاتاہے اور اِس رات میں بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اِس شب کو بندوں کے رزق بڑھائے اور نازل بھی کئے جاتے ہیں۔
ابونصر نے بالاسناد مردہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ کو بستر پہ نہیں پایا میں (آپ کی تلاش میں) گھر سے نکلی ، تو میںنے دیکھاکہ آپ بقیع کے قبرستان میں موجود ہیں اور آپ کا سرمبارک آسمان کی جانب اٹھاہواہے حضورنبی کریم نے مجھے دیکھ کر فرمایاکیا؟ تمہیں اِس بات کا اندیشہ ہے کہ اللہ اور اُس کا رسول تمہاری حق تلفی کریں گے میں نے عرض کیا یارسول اللہ میراگمان تو یہی تھا کہ آپ کسی بی بی کے یہاں تشریف لے گئے ہیں حضور نے فرمایا! اللہ تعالی نصف شعبان کی رات میں دنیاکے آسمان پر جلوہ فرماتاہے اور 300رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔

گویا شبِ برا ت میں بڑی رحمتوں کا نزول ہوتاہے اور بالخصوص اِس رات کے آخری پہر (حصے) میں جبکہ اکثر لوگ غفلت میں رہ کر اِن رحمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم روف الرحیم کا فرمان عظیم ہے کہ ” جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اِس میں قیام (یعنی عبادت)کرو اور دن میں روزہ رکھو بے شک اللہ تعالی غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاض تجلی فرماتاہے۔

> کیاہی اچھا ہو کہ مل کر ہیں نوافل جتنے بھی
خود پڑھو سب کو پڑھاو آگئی شبِ برا ت

اِسی طرح شیخ ابونصر نے بالاسناد میں حضرت عائشہ ؓسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ؑ !یہ کون سی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اُس کے رسول ہی بخوبی واقف ہیں تو حضور نے فرمایا کہ! یہ نصف شعبان کی رات ہے اِس رات میں دنیا کے تمام بندوں کے اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں(اُن کی پیشی بارگاہ ِرب العزت میں ہوتی ہے)اوراللہ تعالی اِس رات بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتاہے توکیا تم آج کی رات مجھے عبادت کی آزادی دیتی ہو؟میں نے عرض کیا ضرور!پھر آپ نے نماز پڑھی اور قیام میں تخفیف کی ، سورہ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھی پھر آدھی رات تک آپ سجدے میں رہے پھر کھڑے ہوکر دوسری رکعت پڑھی اور پہلی رکعت کی طرح اِس میں قرآت فرمائی (چھوٹی سورت پڑھی) اور پھر آپ سجدے میں چلے گئے یہ سجدہ فجر تک رہا میںدیکھتی رہی اور مجھے یہ اندیشہ ہوگیا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی روح مبارک قبض فرمالی ہے اور پھر جب میرا انتظار طویل ہوا(بہت دیر ہوگئی) تو میں آپ کے قریب پہنچی اور میں نے حضور نبی کریم کے تلوو ں کو چھوا تو حضور نے حرکت فرمائی، میں نے خود سُناکہ حضور سجدے کی حالت میں یہ الفاظ ادافرمارہے تھے۔

” الہی میں تیرے عذاب سے تیری عفو اور بخشش کی پناہ میں آتاہوں تیرے قہر سے تیری رضاکی پناہ میں آتاہوں تجھ سے ہی پناہ چاہتاہوںتیری ذات بزرگ والی ہے میں تیری شایانِ شان ثنابیان نہیں کرسکتا توہی آپ اپنی ثنا کرسکتاہے اور کوئی نہیں“
پھرصبح کو میں نے عرض کیا کہ آپ سجدے میں ایسے کلمات ادافرما رہے تھے کہ ویسے کلمات میں نے آپ کو کہتے کبھی نہیں سُنا تو حضور نے دریافت فرمایا ! کیاتم نے یاد کرلیے ہیں میں نے عرض کی جی ہاں! آپ نے فرمایا! توانہیں خود بھی یادکرلو اور دوسروں کو بھی سِکھاو کیونکہ جبرائیل امین نے مجھے سجدے میں اَن کلمات کو اداکرنے کا حکم دیاتھا“
> بخش دے گا پھر خدا تم کو یہ رکھنا سب یقین
گھر کو جنت میں بناو آگئی شبِ برا ت

ویسے تو ماہ ِ شعبانِ المعظم کے تمام دن ہی رحمت اور برکت کے ہیں مگر اِس ماہِ مبارکہ کی پندرہویں شب جِسے شبِ برا ت بھی کہاجاتاہے اِس شب میں بیشک عبادت کرنے پر اللہ تعالی کی جانب سے بے حساب انعام واکرام کی نوازشیں ہوتی ہیں اور بے شمار رحمتیں اور برکتیں اِس شب ( شبِ برا ت )میں آسمان سے برس رہی ہوتی ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اِس رات کو شیطانی خرافات اور دنیاوی لذتوں میں پڑ کر اِسے یوں ہی ضائع نہ کریںخداجانے اگلے سال ہمیں یہ شب نصیب ہوکہ نہ ہو ہمیں چاہئے کہ ہم اِس عظمت اور بابرکت والی شب کو خالقِ کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوکر اِس کی عبادت میں گزاریں اور اگر ہم کسی وجہ سے اب تک نماز پنچگانہ کی ادائیگی کی پابندی نہیں کرسکے ہیں تو اِس شب کو خود کو اِن کی ادائیگی کا پابندبنانے کا عہد کریں اور اپنے سابقہ گناہوں سے رب ِ کائنات اللہ رب العزت کے حضور گِڑ گِڑا کر معافی طلب کریں اِس یقین کے ساتھ کہ وہ ہمیں ضرور بخش دے گا۔اور اِس رات میں اللہ کی عبادت کریں اور نوافل کثرت سے پڑھیں تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہیں قبرستان میں جاکر اہل قُبور کی مغفرت کی خصوصی دعائیں کریں اور اِس رات آتش بازی جیسے شیطانی اور جہنمی کھیل سے بھی قطاََ اجتناب برتیں اور اُن لوگوں کو بھی شفقت اور محبت سے سمجھائیں کے جو اِس عمل میں اپنی کم علمی کی وجہ سے آتش بازی جیسے خلاف اسلام فعل میں مصروف ہیں انہیں ایسا کرنے سے بھی منع کریں۔

> قرض ہے تم پر یہ اعظم آج گمراہوں کو تم
راستہ حق کا دکھاو آگئی شبِ برا ت

اے مومنو! حضرت عطا بن یسار سے مروی ہے کہ شبِ برا ت جب آتی ہے تو ملک الموت کو ہر اُس شخص کانام لکھوادیا جاتاہے کہ جو اِس شبِ برا ت سے آئندہ شبِ برا ت تک مرنے والا ہوتاہے آدمی بہت سے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندیاں کرتاہے ۔حالانکہ! اُس کا نام مردوں کی فہرست میں شامل ہوچکاہوتاہے بس اِس عرصے میں ملک الموت اِس انتظار میں ہوتاہے کہ اِسے کب حکم ہو اور وہ اِس کی روح قبض کرلے علمائے حق فرماتے ہیںکہ شبِ برا ت کی عبادت پورے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے لہذا اِس شب کو( یعنی 14ویں شعبان کو عصر کی تماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے ٹھیراجائے تاکہ جب 15ویں شعبان کی شب ربِ کائنات کے حضور ہمارے اعمال نامے پیش کئے جائیں تو ہم حالتِ اعتکاف ہی میںہوں اور اِس شب میں جس قدر ممکن ہوسکے وقت ضائع کئے بغیر اللہ کی عبادت کی جائے اور دعا اور استغفار مصروف رہاجائے۔

نوافلِ شبِ برا ت:-
ماہِ شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شبِ برا ت میں جو نماز(سلف سے منقول او ر)وارد ہے اِس میں100رکعتیں ہیں ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کے ساتھ یعنی ہر رکعت میں دس مرتبہ قل ھواللہ ُ اَحد پڑھی جائے اِس نماز کا نام ” صلوہ الخیر “ہے اِس کے پڑھنے سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اِس شب میں قرآن مجید فرقانِ حمید ،درود شریف، صلوت السبیح و دیگر نوافل کے علاوہ آٹھ رکعت نفل اِس طرح سے پڑھیں کہ ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص 25بار پڑھیں اور پندرہویں شعبان کا روزہ رکھیں۔

حضرت مفتی احمد یارخان علیہ الرحمتہ المنان اپنی اسلامی زندگی میں فرماتے ہیں کہ ماہِ شعبانِ المعظم کی پندرہویں (شبِ برا ¿ت )رات کو بیری (یعنی کہ بیر کے درخت) کے سات پتے پانی میں جوش دے کر جب کوئی غسل کرے تو انشا اللہ عزوجل وہ شخص پورے سال جادو ٹونے اثر سے محفوظ رہے گا اور 15ویں شعبانِ المعظم کی شب کو بعد تمازِ مغرب کے چھ رکعتیں دو دو رکعت کرکے پڑھیں کہ دورکعت نفل درازی عمر بالخیر ہونے کی نیت سے اور دورکعت نفل بلائیں دفع ہونے کی نیت سے اور دورکعت نفل مخلوق کا محتاج نہ ہونے کی نیت سے پڑھیں اور ہر نمازِ دوگانہ کے بعد سورہ یاسین ایک بار یا سورہ اخلاص 21بار اور اِس کے بعد دعائے نصف شعبانِ المعظم پڑھے۔ ہماری دعا ہے اللہ عزوجل اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی کے صدقے میں تمام مسلمانوں کو خلوص کے ساتھ اِس شب کونیک عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)
> سب مسلمانوں کی بخشش کی دعائیں مانگنا
خودکوبھی بخشواو آگئی شبِ برا ت


[/quote]

بہت بہت شکریہ
 
Top