اعمال صالحہ کا ثواب زندہ مردہ تمام لوگوں کو پہنچایا جا سکتا ہپے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اعمال صالحہ کا ثواب زندہ مردہ تمام لوگوں کو پہنچایا جا سکتاہے​

کیا فر ماتے ہیں علمائے دین ،مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا کہ میں آ پکو بچپن سے لے کر اب تک کہ سب نیکیاں دے دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کیا کہ اے اللہ تو میری بچپن سے لے کر اب تک کہ سب نیکیاں میرے دوست کو دیدے اور تین مرتبہ یہ الفاظ کہے اور قسم بھی کھائی لیکن یہ نہیں کہا نفلی نیکیاں یا فر ض کی نیکیاں میں دے رہا ہوں بلکہ یہ کہا سب نیکیاں دے رہا ہوں تو کیا دوست کو سب نیکی مل گئیں ؟


الجواب حامد ومصلیا ومسلما ............. صورۃ مسئولہ میں جس دوست کو ساری نیکیاں دی گئی ہیں اس کو فرض اور نفل عبادات مالیہ اور بدنیہ سب کا ثواب مل گیا اور ثواب دینے والے کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہوئی .نیکیاں دینے والے دوست کے پاس جو نیکیاں تھیں وہ بھی باقی رہیں اور اس کے ساتھ نیکیاں دینے کا ثواب اور مزید ملا ، چنانچہ فقھا ء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیوں کا ثواب تمام امت کو با الخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا نا افضل ہے کہ اس سے امت کے افراد بہت سی نیکیوں سے مالا مال ہو جاتے ہیں اور خود کو نیکیاں پہنچانے کا ثواب مستقل ملتا ہے .علامہ شامی نے ہندیہ سے نقل کیا ہے کہ نماز ،روزہ ،صدقہ اور قرات اور ذکر وطواف ،حج اور عمرہ ،مردہ کی تکفین اور تمام قسم کی نیکیوں ثواب دوسروں کو پہنچایا جا سکتا ہے . اور تا تار خانیہ سے نقل کیا ہے کہ "نفل صدقہ کر نے والے کے لئے افضل ہے "کہ تمام مؤمنین مؤمنات کو ثواب پہنچانے کی نیت کرے .کیونکہ وہ ان تک پہنچتا ہے اور اس کے اجر سے کچھ کمی نہیں ہوتی اور بحر سے نقل کیا ہےکہ فقہا کا مطلق ذکر کرنا فرائض کو شامل ہے لیکن فرض اسکے ذمہ میں لوٹے گا نہیں یعنی دوبارہ فرائض کی قضا لازم نہ ہوگی کیونکہ ثواب کا عدم اس کے ذمہ سے سکوت کے عدم کو مستلزم نہیں اس پر علامہ شامی فر ماتے ہیں ثواب بھی معدوم نہیں ہوتا جیسا کہ معلوم ہو چکا اور صاحب بحر نے بدائع سے نقل کیا ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب زندہ مردہ تمام لوگوں کو پہنچایا جا سکتا ہے صاحب ہدایہ نے ایصال ثواب کے اثبات میں صحیحین سے روایت نقل فر مائی کہ حضور ﷺ نے دو چتکبری بکری کی قربانی فر ما ئی ۔ایک اپنی جانب سے ایک امت کی طرف سے ۔ابن ہمام نے اس روایت کو مختلف الفاظ کیساتھ سات صحابہ سے تقریباً دسیوں طرق کیساتھ نقل کر نے کے بعد فر ماتے ہیں حدیث کا قدم مشترک ہے یعنی آپ ﷺ کا اپنی امت کی جانب سے قربانی فر مانے کا ثبوت حد شہرت کو پہنچ گیا ہے پھر ابن ہمام نے دار قطنی عبادات بدنیہ کے ایصال ثواب کے اثبات میں بھی روایت نقل فر مائی ہے۔ایک آدمی نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ میرے والدین تھےجسکی زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتا تھا تو ان کے موت کے بعد ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ میرے لئے کیا صورت ہے تو نبی ﷺ نے ان سے فر مایا کہ نیکی میں سے یہ بھی ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ تو ان کیلئے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے روزہ رکھو۔
منقول
 
Top