تاریخ نزول قرآن

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ نزول قرآن​

صاحبِ قرآن کا آغاز نبوت ۶۱۰؁ء میں ہوا ۔ پہلی وحی اِقْرأ بِاسْمِ ۶۱۰؁ء میں نازل ہوئی ْآپ ﷺ کی عمر مبارک اس وقت بحسابِ شمسی انتالیس سال ساڑھے تین ماہ اور بحساب قمری چالیس سال ساڑھے چھ ماہ تھی سلسلہ وحی تئیس سال کی مدت میں اختتام پذیر ہوا ،آخری وحی سورہ توبہ کی آخری دو آیتوں پر مشتمل تھی جو آپ کی وفات سے ۹ دن قبل ۶۳۳؁ء میں نازل ہو ئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ قرآن کریم کو جن خصوصیات کے ساتھ دنیا کے حوالے کیا تھا جب سے اب تک کسی طرح کے تغیر وتبدل اور ادنیٰ تفاوت کے بغیر بالکل اسی طرح نسلاً بعد نسلٍ مسلمانوں میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ۔ایک لمحہ کیلئے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہو ئے ۔ جب اہتمام وحفاظت یہ حال ہو تو کسی طرح کی باطل
آ میزش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خود ارشاد باری ہے لَا یاْ تِیْہ ِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفَہٖ ۔قرآن میں باطل کے گھسنے کی گنجائش نہ تو سامنے سے ہے اور نہ پیچھے سے ( حٰم سجدہ ) اس کی ذمہ داری خدا ہی نے لی ہے کہ اسے ہر قسم کے اضافے اور کاٹ چھانٹ سے محفوظ رکھے گا ۔۔

قرآن مکتوب ومحفوظ

صرف لکھنے یا صرف یاد کرنے میں سہو اور بھول جانے کے نہ صرف امکانات ہیں بلکہ اس کا مشاہدہ بھی ہے لیکن اگر کسی چیز کے یاد کرلینے کے ساتھ ہی اس کی کتابت بھی کر لی جائے تو پھر سہو کے امکانات نہیں رہ جاتے ،ایک کی کو تاہی اور غلطی دوسرے سے پوری ہو جاتی ہے اور تصحیح ہو جاتی ہے ۔ یہ ہے دوہرا وسیلہ جسے پیغمبر ﷺ نے تحفظ قرآن کے لئے ۔۔۔۔۔۔ اختیار واستعمال فر مایا ۔
یہ نہایت مکمل اور یگانہ ویکتا طریقہ تھا ، تاریخ عالم کسی کتاب کی حفاظت کے لئے یہ اہتمام پیش کر نے سے قاصر ہے ارشاد ربانی ہے : ذٰلِکَ الْکِتَابُ
لَا ر۔یْبَ فِیْہِ ۔ یہ ایک نوشتہ ہے جس میں شک وشبہ نہیں ( بقرہ) کتاب کے معنیٰ نوشتہ اور لکھی ہو ئی چیز کے ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابتداء ہی سے اس کو مکتوبہ صورت میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز ارشاد ہے : وَالطُّوْر ِ و۔کِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ ۔ قسم ہے کوہ طور کی اور لکھی ہوئی کتاب کی
( سورہ طور) اسی کے ساتھ لکھنے والے کی اعلیٰ خصوصیات کو بھی قرآن نے ظاہر کیا ہے ،اور ان کی صحتِ کتابت کی ضمانت بھی دی ہے ۔ارشاد : فِیْ صُحُفٍ مُّکِرَّمَۃٍ ۔مَرْ فُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ صَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ ۔وہ ایک ایسے صحیفوں میں ہیں جو مکرم ہیں ، اونچے درجے کے ہیں ،مقدس ہیں ، جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مکرم ہیں نیک ہیں. (سورہ عبس)

شعبہ کتابت

جیسا کہ ابھی گزارا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلے میں پیغمبر علیہ السلام نے حفظ وکتابت کے دوہرے وسائل سے کا م لیا پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کریم کی کتابت کے سلسلے میں ایک مستقل اور با قاعدہ شعبہ قا ئم فر مایا تھا جس میں جلیل القدر صحابہ کرام کی ایک بڑی تعدادنظر آتی ہے ، جو ــ،، کاتبان وحی،، کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ۔
جمْع وترتیب : ساتھ ہی ساتھ جمع وترتیب کا کام بھی آپ ﷺ کی نگرانی میں ہورہا تھا ، ایسا نہیں تھا کہ صحابہ کرام نے کیف ما اتفق ، جس آیت کو جس جگہ چاہا لکھ دیا ، بلکہ اس سلسلے میں پیغمبر علیہ السلام ہرآیت وسورہ کو اس کے صحیح مقام اور جگہ پر لکھے جانے کی با قاعدہ ہدایت فر ماتے تھے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بحوالہ طبرانی ، مجمع الزوائد میں ہے ہَیْثُمی نقل کرتے ہیں :قَالَتْ کَانَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام یُمْلَیْ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں ، جبریل علیہ السلام قرآن ِ کریم پیغمبر علیہ السلام کو لکھواتے تھے ( جلد ۷ ص ۷۵۱) ۔ مستدرک حاکم میں ایک روایت ہے ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کنا عند النبی ﷺ نُؤَلِّفُ الْقُرْاٰنَِ فِی الرِّقَاعِ ۔ ہم آنحضور ﷺ کے پاس بیٹھ کر رقاع یعنی چرمی ٹکڑے میں قرآن کی تالیف کرتے تھے ( یعنی آیات مقررہ ومتفرقہ کو ان کی سورتوں میں جمع کر کے لکھتے تھے ۔

استماع وتصحیح

صرف جمع وترتیب ہی پر اکتفا نہ فرماتے ،بلکہ اشاعت سے پہلے اسے سنتے اور حسبِ ضرورت اسکی تصحیح فر ماتے مثال کے طور پر جب بطور اضافہ ــ،، غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ کے الفاظ ،آیت لَا یَسْتَوِیِ الْقَاعِدُوْنَ ( نساء آیت ۵۹ )کے متعلق نازل ہو ئے ۔حالانکہ یہ اضافہ بقول حضرت امام مالک ؒ حرفِ واحد کی حیثیت رکھتا تھا ۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔صرف ایک حرفی اضافہ کو بھی نازل ہوتے ہی علیٰ الفور آپ ﷺ نے قلم بند فر مانے کا حکم فر مادیا ۔ بہر حال مکمل درستگی کے بعد اشاعت کا حکم دیا جاتا تھا۔ اس طرح پیغمبر علیہ السلام کے وصال کے بعد سلسلۂ وحی بند ہوا تو اس وقت صحابہ کرام کے پاس پورے کا پورا قرآن مرتب شکل میں لکھا ہوا موجود تھا ۔البتہ کتابی سورت میں نہ تھا ،کیوں کہ پیغمبر علیہ السلام کی موجودگی میں سلسلۂ وحی کے جاری رہنے سے اضافہ جات کی گنجائش تھی ۔
علامہ قسطلانی ؒ الکستانی میں نقل فر ماتے ہیں وَقَدْ کَانَ الْقُرْاٰنُ کُلُّہُ مَکْتُوْباً فِیْ عَھْدَہٖ ﷺ لٰکِنْ غَیْرُ مَجْمُوْعٍ فِیْ مَوْضَعٍ واحدٍ یعنی قرآن پورے کا پورا پیغمبر علیہ السلام کے عہد ہی میں لکھا جا چکا تھا ،ہاں ایک جگہ تمام سورتوں کی اجتماعی شیرازہ بندی نہیں کی گئی تھی ۔
حضرت امام حنبلؒ کے ہمعصر حارث محاسبی اپنی کتاب فھم السنن میں قرآن کی یاد داشتوں کے اس مجموعہ کے بارے میں جو پیغمبر علیہ السلام کے مکان میں تھا لکھتے ہیں :وکان المنتشر فیھا منتشرا مُجْمِعُھَا جامع وربطھا بِخَیْطٍ۔یعنی اس میں قرآنی سورتیں الگ الگ لکھی ہوئی تھیں ۔بحکم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ سورتوں کو جمع کیا اور ایک دھاگے سے سب کی شیرازہ بندی کی (الاتقان ج۱ ص ۸۵) (کاتبین وحی)
 
Top