اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور...

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۣ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ
ترجمہ:اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں وعدہ ہو چکا اس کے ذمہ پر سچا تورات اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے قول کا پورا اللہ سے زیادہ سو خوشیاں کرو اس معاملہ پر جو تم نے کیا ہے اس سے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔

تفسیر:ف١ اس سے زیادہ سودمند تجارت اور عظیم الشان کامیابی کیا ہوگی کہ ہماری حقیر سی جانوں اور فانی اموال کا خداوند قدوس خریدار بنا۔ ہماری جان و مال جو فی الحقیقت اسی کی مملوک و مخلوق ہے محض ادنیٰ ملابست سے ہماری طرف نسبت کر کے ''مبیع'' قرار دیا جو ''عقد بیع'' میں مقصود بالذات ہوتی ہے۔ اور جنت جیسے اعلیٰ ترین مقام کو اس کا ''ثمن'' بتلایا جو مبیع تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''جنت'' میں وہ نعمتیں ہوں گی جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کے قلب پر ان کی کیفیات کا خطور ہوا اب خیال کرو کہ جان و مال جو برائے نام ہمارے کہلاتے ہیں، انہیں جنت کا ثمن نہیں بنایا نہ یہ کہا کہ حق تعالیٰ ''بائع'' اور ہم مشتری ہوتے، تلطف و نوازش کی حد ہوگئی کہ اس ذرا سی چیز کے (حالانکہ وہ بھی فی الحقیقت اسی کی ہے) معاوضہ میں جنت جیسی لازوال اور قیمتی چیز کو ہمارے لیے مخصوص کر دیا، جیسا کہ ''بالجنۃ'' کی جگہ ''بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃُ فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے
نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
آنچہ درہمت نیاید آں دہد
پھر یہ نہیں کہ ہمارے جان و مال خرید لیے گئے تو فوراً ہمارے قبضہ سے نکال لئے جائیں صرف اس قدر مطلوب ہے کہ جب موقع پیش آئے جان و مال خدا کے راستہ میں پیش کرنے کے لیے تیار رہیں۔ دینے سے بخل نہ کریں خواہ وہ لیں یا نہ لیں۔ اسی کے پاس چھوڑے رکھیں۔ اسی لیے فرمایا ''یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ'' یعنی مقصود خدا کی راہ میں جان و مال حاضر کر دینا ہے۔ بعدہ' ماریں یا مارے جائیں۔ دنوں صورتوں میں عقد مبیع پورا ہوگیا اور یقینی طور پر ثمن کے مستحق ٹھہر گئے ممکن ہے کسی کو وسوسہ گزرتا کہ معاملہ تو بیشک بہت سودمند اور فائدہ بخش ہے لیکن ثمن نقد نہیں ملتا۔ اس کا جواب دیا۔ ''وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِ نْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ۔'' یعنی زرِ ثمن کے مارے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ خدا تعالیٰ نے بہت تاکید و اہتمام سے پختہ دستاویز لکھ دی ہے جس کا خلاف ناممکن ہے۔ کیا خدا سے بڑھ کر صادق القول، راست باز اور وعدہ کا پکا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا اس کا ادھار بھی دوسروں کے نقد سے ہزاروں درجہ پختہ اور بہتر ہوگا پھر مومنین کے لیے خوش ہونے اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے کا اس سے بہتر کون سا موقع ہوگا کہ خود رب العزت ان کا خریدار بنے، اور اس شان سے بنے۔ سچ فرمایا عبداللہ بن رواحہ نے کہ یہ وہ بیع ہے جس کے بعد اقالت کی کوئی صورت ہم باقی رکھنا نہیں چاہتے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل سے ہم ناتوانوں کو ان مومنین کے زمرہ میں محشور فرمائے آمین
[/size]
 
Top