تحفظ ختم نبوت کی خاطرقُربانیاں

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
مولانا حذیفہ وستانوی

اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا، سنة اللہ کے مطابق اس سلسلة الذہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا، کیوں کہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدابھی لازم اور منتہا بھی لازم، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کو یہ قانون الٰہی لازم آیا اور حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا اور حبیب کبریاء، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا اور جس کا ہونا ﴿ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا﴾ کی روشنی ضروری بھی تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں۔ دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی، جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر و نشر میں بھی اور میزان و حساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوں گی۔ انشاء اللہ!

یہ امر امر بدیہی ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات پُر ہنگامہ تو ہونا ہی تھی اور کوئی معمولی ہنگامہ نہیں، بلکہ زوردار، جیسے کسی عظیم رہنما کی وفات سے فتنے کھڑے ہوتے ہیں، وہ اس کے زندہ رہنے سے دبے رہتے ہیں، جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات پر آپ کو مرقوم ملیں گی۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی عظیم فتنوں نے سر اٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی ، حمیت اسلامی اور بلند حوصلگی۔ اولاً آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص کی برکت سے نصرت الٰہی و تائید غیبی اور ثانیاً آپ نے اپنی حکمت عملی سے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!

عجیب بات
یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب بہود و نصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوت پرکاری ضرب، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو پانچ افراد دعوہٴ نبوت لے کر کھڑے ہوئے الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ یہ سب انہوں نے تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ”اثر اہل الکتاب فی الحروب و الفتن الداخلیة فی القرن الأول“ میں ثابت کیا ہے۔دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ”أ ینقص الدین و أنا حی؟“ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوت کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کا رُخ پھیر دینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکر کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدہٴ ختم نبوت، کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح صحابہ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعوہٴ نبوت کرنے والا کافر ہے ،ا س سے جہاد فرض ہے۔

بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر میدان کارساز میں کود پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یا تو بہ و انابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
قائدین جہت
(1) خالد بن سعید بن عاص مشارف بلادشام
(2) عمرو بن العاص دومة الجندل
(3) خالد بن ولید بُزاخہ، البطاح، یمامہ
(4) عکرمہ بن ابی جہل یمامہ، عمان و مہرہ، حضرموت، یمن
(5) شرحبیل بن حسنہ یمامہ، حضرموت
(6) علاء بن الحضرمی بحرین، دارین
(7) حذیفہ بن محض الغطفانی عمان
(8) عرفجہ بن ہرثمہ البارقی عمان، مہرہ، حضرموت، یمن
(9) طریفہ بن حاجز شرق حجاز، بنوسلیم کی طرف
(10) مہاجربن ابی امیہ یمن، کندہ، حضرموت
(11) سوید بن مقرن الذنی تہامة الیمن

حضرت ابوبکرصدیق کے بارے میں حضرت ابوہریرہ راویة الاسلام فرماتے ہیں ”واللہ الذی لاالہ الا ہو، لولا ان ابا بکر استخلف ما عبد اللہ“اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالة الخفاء: ج1/ص3)

حضرت عبداللہ بن مسعود فقیہ الامة و الاسلام فرماتے ہیں: ”لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامًا کدنا نہلک فیہ لولا ان اللہ مَنَّ علینا بابی بکراجمعنا علی ان لا نقاتل علی ابنة مخاض و ابنة لبون وان نأکل قریٰ عربیة، ونعبد اللہ حتی یأتینا الیقین، فعزم اللہ لابی بکر علی قتالہم“․ (التاریخ الکامل لابن اثیر: ج2/205)

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے، مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا ، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے، مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔

موٴرخ کبیر، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ”رد ة ولا ابا بکرلہا“ کہ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سر اٹھایا ہے، مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صدیق جیسا حوصلہ نہیں ،ان کے جیسی حمیت و غیرت نہیں ۔بلکہ اس موضوع پر آپ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعةً حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے، مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشرعشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین!

حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِ فہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:

جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشق رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبہٴ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جو لوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار رہوں گا، کیوں کہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن‘ تحفظ ختم نبوت کے خاطر شہید کروا دیے تھے (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگی) ۔ (تحریک ختم نبوت، آغاشورش کاشمیری، بحوالہ روزنامہ اسلام)
صداقت کے لیے گر جاں جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے #
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا یا حرف زنی کی مسلمان خلفاء و امراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچا یا، جس کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے، تو آئیے! مدعیان نبوت اور منکرین ختم نبوت کے بدترین انجام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔


دور خلافت و حکومت سن انجام انجام منکرین ختم نبوت شمار
حضرت ابوبکر صدیق 11ھ قتل ہوا عبہلہ بن کعب معروف باَسود العنسی 1
حضرت ابوبکر صدیق 11ھ قتل ہوا مسیلمہ بن کبیر حبیب الکذاب 2
حضرت عبداللہ بن زبیر 67ھ قتل ہوا مختار بن ابوعبدابن مسعود ثقفی 3
عبدالملک بن مروان 79ھ قتل ہوا حارث بن سعید کذاب 4
ہشام بن عبدالملک بن مروان 119ھ قتل کیا گیا مغیرہ بن سعید عجلی 5
ولید بن یزید 126ھ قتل کیا گیا بیان ابن سمعان 6
خلیفہ ابوجعفر منصور معلوم نہ ہو سکا قتل کیا گیا اسحاق اخرس 7
خلیفہ ابوجعفر منصور 150ھ قتل کیا گیا سیس خراسانی 8
خلیفہ ابوجعفر منصور نامعلوم قتل کیا گیا ابوعیسیٰ بن اسحاق یعقوب اصفہانی 9
خلیفہ مہدی 163ھ خود کشی کی حکیم مقنع خراسانی 10
خلیفہ معتصم باللہ 223ھ قتل کیا گیا بابک بن عبداللہ خرمی 11
خلیفہ المعتمد علی اللہ 270ھ قتل کیا گیا علی بن محمد عبدالرحیم 12
خلیفہ المعتضد باللہ 301ھ قتل کیا گیا ابوسعد حسن بن سیرام 13
خلیفہ راضی باللہ 322ھ قتل کیا گیا محمد بن علی شمغانی 14


یہ تھے مشہور منکرین ختم نبوت اور مدعیان نبوت اورجب بھی کسی اسلامی دور میں انہوں نے سر اٹھایا ہمارے خلفاء اور امراء نے ان کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا، یا انہوں نے مجبوراً خودکشی کی یا توبہ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اسی لیے اہل کتاب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی سے خلافت کے عدم قیام یا قیام کے بعد سقوط کی بھرپور کوشش کرتے رہے، مگر13سو سال بعد انہیں اس میں کچھ حد تک مسلمانوں کی اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اور کتاب و سنت سے بُعد کی بنا پر کامیابی ملی، مگر ان شاء اللہ ایک بار پھر خلافت قائم ہوگی۔ وما تشاوٴن الا ان یشاء اللہ* و اللہ متم نورہ و لو کرہ الکافرون!

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سقوط خلافت سے قبل اس کے ضعف کے زمانہ ہی سے ایک بار پھر انکار ختم نبوت کے فتنے نے سر اٹھایا اور انیسویں صدی کے اوائل میں باب اللہ نے پھر بہاوٴاللہ نے اور اسی صدی کے اواخر میں مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ پچھلے دو سو سال میں جتنے مدعیان نبوت و مہدویت کھڑے ہوئے وہ 12سو سال کے مقابلہ میں اضعافا مضاعفہ ہیں گویا دشمن کی یہ ایک منظم سازش ہے کہ وہ ختم نبوت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں، مگر انشاء اللہ وہ قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

منکرین ختم نبوت کے ساتھ جہاد بالسیف کے بعد جہاد بالقلم
جیسا کہ اوپر تاریخ کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیا گیا، مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا تو علماء قلم و کاغذ لے کر میدان کارزار میں کود پڑے اور الحمدللہ ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی ملعون کے رد میں ایک اندازے کے مطابق20 ہزار صفحات اردو میں تحریر کے گئے، احتساب قادیانیت کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے 23 جلدوں پر مشتمل چالیس کے قریب علمائے کے بارہ ہزار صفحات کی طباعت کی ہے، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے۔ تو آیئے! اب میں مختصراً اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔

گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں
تحفظ ختم نبوت کتنا اہم ترین مسئلہ ہے، اس کا اندازہ آپ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ کے اس واقعہ سے کرسکتے ہیں۔

26 اگست 1932 ء کو یوم جمعة المبارک تھا ۔جامع مسجد الصادق بہا ولپور میں آپ نے جمعہ کی نماز ادا فرمانا تھی ۔مسجدکے اندرتِل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔قرب وجوار کے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے، نماز کے بعد آپ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا :

”میں بواسیر خونی کے مرض کے غلبہ سے نیم جاں تھا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈابھیل کے لیے پابہ رکاب کہ اچانک شیخ الجامعہ صاحب کا مکتوب مجھے ملا، جس میں بہاولپور آکر مقدمہ میں شہادت دینے کے لیے لکھا گیا تھا ۔ میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی زادراہ ہے نہیں ۔شاید یہی چیز ذریعہ نجات بن جائے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جا نب دار بن کر یہاں آیا ہوں ۔“

یہ سن کر مجمع بے قرار ہوگیا ۔آپ کے ایک شاگرد مولانا عبد الحنان ہزاروی آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور مجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں تو پھر اس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی ؟اس کے علاوہ کچھ اور بلند کلمات حضرت کی تعریف و توصیف میں عرض کئے جب وہ بیٹھ گئے تو پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا کہ :

”ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا ۔حالانکہ ہم پر یہ بات کھل گئی کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں“۔ (کمالات انوری)(احتساب قادیانیت :ج4/ص36 )

اب آپ اندازہ لگایئے کہ ایک جلیل القدر محدث و فقیہ ایسا کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہ فرماتے تھے ”انور شاہ کشمیری صحابہ کی جماعت کے بچھڑے ہوئے فرد ہیں“ ان کے اخلاق، ان کا علم، ان کا تقویٰ، ان کی دینی غیرت و حمیت کو دیکھ کر یہ جملہ آپ نے کہا۔

ختم نبوت اور قرآن
قرآن کریم نے مسئلہ ختم نبوت کو تقریباً سو مقامات پر ذکر کیا ہے ، کہیں صراحتاً، کہیں کنایةً، کہیں عبارت النص سے، کہیں اقتضاء النص سے، کہیں اشارة النص سے تو کہیں دلالت النص سے، جس کو پوری تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ نے اپنی تصنیف انیق” ختم النبوة فی القرآن“ میں ذکر کیا ہے اور دوسری تصنیف لطیف ”ختم النبوة فی الاحادیث“ میں 210احادیث جمع فرمائی اور ”ختم النبوة فی الآثار“ میں امت کا اجماع اور سینکڑوں علمائے امت کے اقوال ختم نبوت کی تائید میں جمع فرما دیے۔ اللہ حضرت کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!

حضرت مفتی شفیع صاحب مفتئ اعظم پاکستان نوراللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ ”ختم نبوت“ کامل ہر سہ حصہ کی تمہید میں تحریر فرماتے ہیں:

مسئلہ ختم نبوت
یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی نبوت او ر وحی کا اختتام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ورسول ہونا اسلا م کے ان بدیہی مسائل اور عقائد میں سے ہے ،جن کو تما م عام و خاص ،عالم وجاہل ،شہری اور دیہاتی مسلمان ہی نہیں، بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی جانتے ہیں، تقریباً چو دہ سو برس سے کروڑہا مسلما ن اس عقیدہ پر ہیں ،لاکھوں علمائے امت نے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہو ئے واضح فرمایا ،کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہ نبوت کی کچھ اقسام ہیں اور ان میں سے کوئی خاص قسم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی ہے ،یا نبوت کی تشریعی غیر تشریعی یا ظلی وبروزی یا مجازی اور وغیر ہ اقسام ہیں، قرآن وحدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں پوری امت اور علمائے امت نے نبوت کی یہ قسم نہ دیکھی اور نہ سنی ،بلکہ صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک پوری امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام اس عقیدہ پر قائم رہی کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت ورسالت ختم ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ سے پہلے پیدا ہو کر منصب نبوت پر فائز ہو چکے ہیں، ان کا آخر زمانہ میں آنا اس کے قطعاًمنافی نہیں )۔

اس مسئلہ کے اتنا بدیہی اور اجماعی ہونے کے سا تھ اس پر دلائل جمع کر نا اور اس کا ثبوت پیش کرنا درحقیقت ایک بدیہی کو نظر ی اور کھلی ہو ئی حقیقت کو پیچیدہ بنا نے کے مرادف معلوم ہوتا ہے ،بلکہ اس مسئلہ کا ثبوت پیش کرنا ایساہی ہے جیسا کوئی شخص مسلمانو ں کے سامنے لااِلہ الاَّ اللہ کا ثبوت پیش کر ے، ان حالات میں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس موضوع پر کوئی مستقل رسالہ یا کتاب لکھی جائے ،لیکن تعلیمات اسلام سے عام غفلت وجہالت اور روز پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں نے جہاں بہت سے حقائق پر پر دہ ڈال دیا ہے، باطل کو حق او رحق کو با طل کر کے ظاہر کیا ہے، وہیں یہ مسئلہ بھی تختہ مشق بن گیا ۔

اس مسئلہ میں فرقہ وار جماعت کی حیثیت سے سب سے پہلے باب وبہا ء کی جماعت فرقہٴ بابیہ نے اختلاف کیا ،مگر وہ علمی رنگ میں اس بحث کو آگے نہ پہنچا سکے، ا س کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے اس میں خلاف واختلاف کا دروازہ کھولا اور ان کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابو ں میں یہ بحث ایسی منتشر اور متضاد ہے کہ خود ان کے ماننے والے بھی اس پر متفق نہ ہو سکے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ان کا کیا دعوی ہے؟ کہیں بالکل عام مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے اور وحی نبوت کے انقطاع کلی کا اقرار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مطلقا کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا اعتراف ہے ۔کہیں اپنے آپ کو مجازی اور لغوی نبی کہاگیا ہے، کہیں نبوت کی ایک نئی قسم ظلی و بروزی بتلاکر بروزی نبی ہونے کا دعوی کیا گیا، کہیں نبوت کو تشریعی اور غیر تشریعی میں تقسیم کر کے تشریعی کا اختتام اور غیر تشریعی کا جاری ہونا بیان کیا گیا اور اپنے آپ کو غیر تشریعی نبی بتلایا اور وحی غیر تشریعی کا دعوی کیا گیا ہے، کہیں کھلے طور پر صاحب شریعت نبی ہونے اور وحی تشریعی کا دعوی کیا گیا ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے متبعین تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے، ایک فرقہ ان کو صاحب شریعت اور تشریعی نبی ورسول مانتا ہے ،یہ ظہیر الدین اروپی کا فرقہ ہے ،دوسرا فرقہ ان کو بااصطلاح خود غیر تشریعی نبی کہتا ہے، یہ قادیانی پارٹی ہے، جو مرزا محمود کی پیر و ہے، تیسرا فرقہ ان کو نبی یا رسول نہیں، بلکہ مسیح موعود اور مہدی موعود قرار دیتا ہے ۔یہ مسٹر محمد علی لاہوری کے متبعین ہیں ۔

غرض مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین نے اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف و شقاق کا دروازہ کھولا ،عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متأثر، دینی تعلیم سے بیگانہ افرادکی ناواقفیت سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کردیے ،اور ان کی نظرمیں بدیہی مسئلہ کو نظری بنادیا، اس لیے اہل علم اور اہل دین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑا ،کہ ان کے شبہات دور کیے جائیں اور قرآن حدیث کی صحیح روشنی ان کے سامنے لائی جائے۔ ( ختم نبوت:ص 12-10)

حضرت کاندھلوی فرماتے ہیں:
ختم نبوت اور اس کا مفہوم اور حقیقت
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت اور پیغمبر ی حضور کی ذات بابرکت پر ختم ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالکسر)ہیں، یعنی سلسلہ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور آپ صلی ا للہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالفتح)یعنی مہر ہیں ۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا ،مہر کسی چیز کا منہ بند کرنے کے لیے لگا تے ہیں۔ اسی طرح حضور ُپر نور صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء پر مہر ہیں، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔اور قیامت تک کوئی شخص اب اس عہدہ پر سرفراز نہ ہوگا ۔مہر ہمیشہ ختم کرنے اور بند کرنے کے لیے ہوتی ہے، کما قال تعالی ﴿یسقون من رحیق مختوم ختامہ مسک﴾ یعنی سربمہر بوتلیں ہوں گی اور شراب ان کے ا ندر بند ہوگی ۔﴿ختم اللہ علی قلوبہم﴾ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے یعنی کفر اندربند کردیا ہے۔ (احتساب قادیانیت: ج2،ص514) (جاری)
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
مولانا محمد حذیفہ وستانوی

قرآن اور عقیدہٴ ختم نبوت
مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ نے اس کے بعد ﴿ماکان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شيء علیما﴾ پر صفحہ50سے صفحہ133 تک یعنی تقریباً 84 صفحات پر پورے شرح و بسط کے ساتھ کلام کیا ہے، جو قابلِ مطالعہ ہے، لغت، احادیث اور آثار کی روشنی میں بڑی جامع تفسیر کی ہے۔ اس کے بعد مختصراً اس کے علاوہ دیگر تقریباً97آیات کی مختصر تشریح کی ہے۔ وہ آیات یہ ہیں:

(1) سورہ احزاب، پارہ22،ع2،آیت40
(2) سورہٴ مائدہ، پارہ 6، ع5،آیت3
(3) سورہٴ آل عمران، پارہ 3،ع17، آیت81
(4) سورہٴ اعراف، پارہ 9، ع10،آیت158
(5) سورہٴ فرقان، پارہ 18، ع16، آیت۱
(6) سورہٴ نساء، پارہ 5، ع8،آیت79
(7) سورہٴ قلم،پارہ 29، ع4، آیت52
(8) سورہٴ انعام، پارہ7، ع8،آیت19
(9) سورہٴ ہود، پارہ 12، ع2،آیت17
(10) سورہٴ نساء، پارہ6، ع3،آیت170
(11) سورہٴ انبیاء، پارہ 17، ع7، آیت107
(12) سورہٴ نساء، پارہ 5، ع14،آیت115
(13) سورہٴ واقعہ، پارہ 27، ع14، آیت13‘14
(14) سورہٴ واقعہ، پارہ 27، ع15،آیت39‘40
(15) سورہٴ مرسلات، پارہ29، ع21، آیت16‘17
(16) سورہٴ مائدہ، پارہ 7،ع4،آیت101
(17) سورہٴ توبہ، پارہ 10، ع11، آیت33
(18) سورہٴ فتح، پارہ 26، ع12،آیت28
(19) سورہٴ صف، پارہ 28، ع9، آیت9
(20) سورہٴ نساء، پارہ 5، ع5،آیت59
(21) سورہٴ فتح، پارہ 26، ع10، آیت17
(22) سورہٴ نساء، پارہ 5، ع8،آیت80
(23) سورہٴ نساء، پارہ5، ع6، آیت69
(24) سورہٴ حدید، پارہ27، ع20، آیت29
(25) سورہٴ نساء، پارہ 5، ع17، آیت136
(26) سورہٴ بقرہ، پارہ 3، ع8، آیت285
(27) سورہٴ بقرہ، پارہ1، ع5، آیت41
(28) سورہٴ عمران، پارہ 3، ع17، آیت84
(29) سورہٴ نساء، پارہ5، ع6، آیت60
(30) سورہٴ محمد، پارہ 26، ع5، آیت2
(31) سورہٴ نساء، پارہ6،ع4، آیت176
(32) سورہٴ مائدہ، پارہ 6،ع7، آیت15‘16
(33) سورہٴ اعراف، پارہ9، ع8، آیت157
(34) سورہٴ اعراف، پارہ 9، ع9،آیت154
(35) سورہٴ انفال، پارہ 9، ع17 ، آیت20
(36) سورہٴ انفال، پارہ 9، ع17، آیت24
(37) سورہٴ انفال، پارہ 10، ع2، آیت46
(38) سورہٴ انفال، پارہ 10، ع4، آیت64
(39) سورہٴ توبہ، پارہ 10، ع15، آیت71
(40) سورہٴ تغابن، پارہ28، ع15، آیت8
(41) سورہٴ صف، پارہ 28، ع10، آیت10‘11
(42) سورہٴ حدید، پارہ 27، ع17، آیت7
(43) سورہٴ جمعہ، پارہ 28، ع11، آیت2‘3
(44) سورہٴ یوسف، پارہ13، ع6، آیت108
(45) سورہٴ نساء، پارہ 6، ع2، آیت162
(46) سورہٴ نور، پارہ 18، ع13، آیت51
(47) سورہٴ نور، پارہ 18، ع13، آیت52
(48) سورہٴ نور، پارہ 18، ع13، آیت54
(49) سورہٴ نور، پارہ 18،ع13، آیت54
(50) سورہٴ نور، پارہ 18،ع13، آیت56
(51) سورہٴ نور، پارہ 18،ع15، آیت62
(52) سورہٴ یٰس، پارہ 22، ع18، آیت11
(53) سورہٴ نور، پارہ 18،ع15، آیت62
(54) سورہٴ احزاب، پارہ 22،ع6، آیت71
(55) سورہٴ احزاب، پارہ22،ع 17، آیت7
(56) سورہٴ اعراف، پارہ 18،ع8، آیت3
(57) سورہٴ یونس، پارہ 11،ع7، آیت13‘14
(58) سورہٴ انعام، پارہ8،ع7، آیت165
(59) سورہٴ فاطر، پارہ 22،ع17، آیت39
(60) سورہٴ قمر، پارہ 27، ع8، آیت1
(61) سورہٴ انبیاء، پارہ 17،ع1، آیت1
(62) سورہٴ نحل، پارہ 14،ع7، آیت1
(63) سورہٴ ابتداء شوریٰ، پارہ 25،ع2، آیت3
(64) سورہٴ انعام، پارہ 7،ع11، آیت42
(65) سورہٴ آل عمران، پارہ 4،ع10، آیت183
(66) سورہٴ آل عمران، پارہ 4،ع10، آیت184
(67) سورہٴ انعام، پارہ 7،ع7، آیت10
(68) سورہٴ انعام، پارہ 7،ع10، آیت34
(69) سورہٴ یوسف، پارہ12،ع6، آیت109
(70) سورہٴ رعد، پارہ 13،ع11، آیت32
(71) سورہٴ رعد، پارہ13،ع12، آیت38
(72) سورہٴ نحل، پارہ 14،ع12، آیت43
(73) سورہٴ نحل، پارہ 14،ع14، آیت63
(74) سورہٴ فاطر، پارہ 22،ع16، آیت31
(75) سورہٴ بنی اسرائل، پارہ15، ع8،آیت77
(76) سورہٴ انبیاء، پارہ 18،ع2،آیت29
(77) سورہٴ حج، پارہ 17،ع14، آیت52
(78) سورہٴ فرقان، پارہ 18،ع17، آیت20
(79) سورہٴ فاطر، پارہ 22،ع13، آیت4
(80) سورہٴ زمر، پارہ 24،ع4، آیت65
(81) سورہٴ حم السجدہ، پارہ24،ع19، آیت43
(82) سورہٴ شوریٰ، پارہ 25،ع2، آیت3
(83) سورہٴ زخرف، پارہ 25،ع 8، آیت23
(84) سورہٴ زخرف، پارہ 25،ع10، آیت45
(85) سورہٴ زخرف، پارہ25،ع 7، آیت6
(86) سورہٴ فاطر، پارہ 22، ع16، آیت32
(87) سورہٴ احزاب، پارہ22،ع5، آیت66
(88) سورہٴ فرقان، پارہ 19،ع1، آیت27
(89) سورہٴ سبا، پارہ 22،ع9، آیت28
(90) سورہٴ سبا، پارہ 22،ع12، آیت 46
(91) سورہٴ ابراہیم، پارہ13،ع16،آیت27
(92) سورہٴ آل عمران، پارہ 3، ع12، آیت31
(93) سورہٴ محمد، پارہ 26،ع6، آیت18
(94) سورہٴ صٓ، پارہ23،ع14،آیت87‘88
(95) سورہٴ بقرہ، پارہ1،ع11، آیت97
(96) سورہٴ بقرہ، پارہ 1،ع12،آیت101
(97) سورہٴ بقرہ، پارہ1، ع11، آیت91

جیساکہ اس سے پہلے بھی بیان کیا گیا کہ تقریباً دو سودس احادیث سے ختم نبوت کا مسئلہ ثابت ہے، جس میں سے اہم روایت بخاری کی ہے۔

عن ابی ہریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنةٍ من زاویةٍ فجعل الناسُ یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون: ہلا وضعتْ ہذہ اللبنةُ و انا خاتم النبیین۔ (رواہ البخاری فی کتاب الانبیاء ،ومسلم:ج۲/۲۴۸ فی الفضائل، واحمد فی مسندہ:ج۲ص۳۹۸، والنسائی و الترمذی)․ و فی بعض الفاظہ: فکنتُ انا سددت موضع اللبنة وختم بی البنیان وختم بی الرسل ہکذا فی الکنز عن ابی عساکر۔

”حضرت ابوہریرہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ وپیراستہ بنایا، مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی، پس لوگ اُس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان کی تعمیر مکمل ہو جاتی)؟ چناں چہ میں نے اس جگہ کو پُر کیا اور مجھ سے ہی قصرِ نبوت مکمل ہوا اور میں ہی خاتم النبیین ہوں، یا مجھ پر تمام رسُل ختم کردیئے گئے“۔ (ختم نبوت: ص205تا 206 )

اس کے بعد حضرت ابو سعید خدری، حضرت جابر، حضرت ابوہریرہ جبیر بن مطعم حضرت سعید ابن ابی وقاص ، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت ثوبان، حضرت عبداللہ عباس، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی، حضرت ابوذر، حضرت مالک بن حویرث، حضرت نافع، حضرت عوف بن مالک، حضرت حسن، حضرت عرباض بن ساریہ ،زید بن حارثہ ،عبداللہ ابن ابی ثابت، حضرت ام کرز کعبیہ، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت ابی ابن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ختم نبوت پر26 روایتیں تو صرف امام بخاری وامام مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں روایت کی ہے۔

حضرت عقبہ ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت سفینہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بہزبن حکیم، حضرت معاویہ بن فیدہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی مرتضی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اصحاب سنن اربعہ امام نسائی، ابوداوٴد، ترمذی اور ابن ماجہ نے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں۔

اس کے علاوہ امام احمد ابن حنبل نے اپنی سند سے حضرت ابوطفیل، حضرت بریدہ، حضرت ابونضرہ، حضرت زید ابن ابی اوفی، حضرت ابوسعید خدری، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عرباض بن ساریہ سے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں، یہ56 حدیثیں مستند اور صحیح ہے۔

ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ دیگر بے شمار مستند کتابوں میں تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ایسی ہیں جو ختم نبوت پر دلیل بنتی ہیں، جس کو امام دارمی، امام ابن عساکر، امام بغوی، امام سیوطی، امام بیہقی، امام طبرانی، امام ابونعیم، امام ابویعلیٰ، امام علی متقی، امام ابن ابی شیبہ، امام طحاوی، امام ابن کثیر، امام ابن ابی حاتم، امام ابن مردویہ، امام دیلمی، امام ابن سعد، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن النجار،خطیب بغدادی، امام بزار، امام ابن عدی، امام ابوداوٴد الطیالسی، امام ابن جریر طبری، امام ماوردی، امام رافعی، امام حاکم نیشاپوری، امام ابن الجوزی اور امام عیاض نے حضرت علی، حضرت ضحاک بن نوفل، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوامامہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن الزبیر، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت یونس بن میسرہ، حضرت خالد بن ولید، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت عائشہ، حضرت ابوالدرداء، حضرت عبداللہ بن حارث، حضرت ابو زمل جہنی، حضرت زبیر بن العوام، حضرت اکوع، سلمہ بن اکوع، حضرت ابوالطفیل، حضرت عمرو ابی بن قیس، حضرت ابوقتادہ، عبدالرحمن بن سمرہ، حضرت محمد بن حزم، حضرت قتادہ ،عصمہ بن مالک، ابومالک اشعری، حضرت حذیفہ، حضرت ابوالفضل، حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابو قُبیلہ، حضرت حسن بن علی، حضرت مالک، حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت عمرو، حضرت سہل ساعدی، عبیداللہ بن عمر، حضرت ابوبکرہ، حضرت نعیم بن مسعود، حضرت تمیم داری وغیرہ سے تقریباً سو حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جو صراحتاً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

ان مذکورہ احادیث کے علاوہ حضرت مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ نے دوسری 67احادیث ایسی نقل کی ہے جو کنایةً و اشارةً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے جو کلام کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
احادیث مذکورة الصدر سے ختم نبوت کا ثبوت
نبی کریم علیہ الصلاة والتسلیم کی محبت وشفقت جو امت مر حومہ کے ساتھ ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے اور پھر یہ بھی مسلم ہے کہ زمانہ ماضی ومستقبل کے جتنے علوم وحالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیے گئے وہ نہ کسی نبی کو حاصل ہیں اور نہ کسی فرشتہ کو ۔

ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے بعد یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے دین کے راستہ کو ایسا ہموار اور صاف بنا کر چھوڑا کہ جس میں دن ورات برابر ہوں، اس پر چلنے والے کو ٹھوکر لگنے یا راستہ بھولنے کا اندیشہ نہ رہے، اس میں جتنے خطرات اور مہالک کے مواقع ہوں گے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلادئے ہوں گے ،نیز اس راستہ کے ایسے ایسے نشانات ان کو بتلائے ہوں گے جو تمام راستہ میں ان کی رہبری کرتے رہیں۔

چناں چہ جب ہم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفتر پر نظر ڈالتے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے قابل اقتدا ء رہنما پیدا ہونے والے تھے آپ نے اکثر کے نام لے لے کر بتلادیا اور امت کو ان کی پیروی کی ہدایت فرمائی ،جن میں سے ”مشتے نمونہ از خر وارے “ چند احادیث اوپر ذکر کی گئی ہیں، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی انتہائی شفقت ومربیانہ تعلیم اور پھر احادیث مذکورہ بالا کو دیکھتے ہوئے ایک مسلمان بلکہ ایک منصف مزاج انسان یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی (اگرچہ وہ بقول مرزا ظلی یا بروزی ) اس عالم میں پیدا نہیں ہوسکتا، ورنہ لازمی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس نبی کا ذکر فرماتے ،کیوں کہ ان سب کا اتباع امت کی نجات کا مدار نہیں ہے اور نبی خواہ کسی قسم کا ہو جب کسی امت میں بھیجا جائے اس کی پیروی اس امت کے لیے مدار نجات ہو جاتی ہے ،بغیر اس کی پیروی کے ان کے سارے عمل حبط سمجھے جاتے ہیں ۔

مگر عجب تماشہ ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو خلفائے راشدین کی اقتدا کا حکم فرماتے ہیں ،ائمہ دین اور امراء کی اطاعت کی تعلیم دیتے ہیں، بلکہ ایک حبشی غلام کی بھی (جب کہ وہ امیر بن جائے) اطاعت امت پر واجب قرار دیتے ہیں ، مواقع اشتباہ واختلاع میں اہل علم واجتہاد کی تقلید کی تاکید کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود  اور عمار بن یاسر  کی اقتدا کی دعوت دیتے ہیں ، حضرت زبیر  ، ابو عبیدة بن الجراح، معاذ بن جبل عبداللہ بن عباس  وغیرہ صحابہ کرام کے نام لے لے کر انہیں واجب التکریم اور قابل اقتدا فرماتے ہیں ، اویس قرنس کے آنے کی خبر اور ان سے استغفار کرانے کی تعلیم دیتے ہیں، مجددینِ امت کا ہر صدی پر آنا، ابدال کا ملک شام میں پیدا ہونا، اور اُن کا مستجاب الدعوات ہونا وغیرہ وغیرہ مفصل بیان فرماتے ہیں۔

لیکن ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں فرماتے کہ ہمارے بعد فلاں نبی پیدا ہوگا، تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا، حالاں کہ ایک روٴف و رحیم نبی کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ آنے والے نبی کے مفصل حالات سے اپنی امت کو خوب واقف کرادے، اس کا نام، مقام، پیدائش، تاریخ، حلیہ، والدین کا نام وغیرہ بتلادے، تاکہ ان کو آنے والے نبی کی پہچان میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔

اگر پہلو میں دل اور دل میں ایمان یا انصاف کا کوئی ذرہ بھی ہے تو تمام احادیثِ سابقہ کو چھوڑ کر صرف یہی احادیث ایک انسان کو اس پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تا قیامت کسی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

یہ دو سو دس احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ختمِ نبوت کا قطعی اعلان فرماکر ہر قسم کی تاویل اورتخصیص کا راستہ بند کردیا ہے۔

جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے۔ ﴿ان فی ذلک لعبرة لمن کان لہ قلب او القی السمع وہو شہید﴾ (ختم نبوت : ص295تا 296)

اسی لیے علامہ انورشاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
”ختم نبوت کا مسئلہ شریعت محمدی میں متواتر ہے، قرآن و حدیث سے اجماع بالفعل سے اور یہ پہلا اجماع ہر وقت اور ہر زمانہ میں حکومت اسلامی نے اس شخص کو جس نے دعوئ نبوت کیا سزائے موت دی ہے، ایک شاعر کو صلاح الدین ایوبی نے بہ فتویٰ علمائے دین ایک شعر کہنے پر قتل کرادیا تھا #
کان مبدأ ہذا الدین من رجل سعی فأصبح یدعی سید الأُمم (صبح الاعشی: 305، 139)

اس شعر سے اس شخص نے نبوت کو کسبی قرار دیا کہ نبوت ریاضتوں سے حاصل ہوسکتی ہے، اس لیے اسے قتل کروادیا۔ (احتساب قادیانیت: ج4/ص42)

اس سے آپ اندازہ لگایے کہ مسئلہ ختم نبوت کتنا حساس مسئلہ ہے۔

علامہ کشمیری قدس اللہ سرہ ﴿ماکان محمد﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اشخاص نبوت کے بھی خاتم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد نبوت کا عہدہ منقطع ہو گیا ہے۔“ (ایضا)

عقیدہ ختم نبوت پر امت کا اجماع
علامہ انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:

سب سے پہلا اجماع
اسلام میں سب سے پہلا جو اجماع منعقد ہوا وہ اس پر تھا کہ مدعی نبوت کو بغیر اس تحقیق اور تفتیش کے کہ اس کی تاویل کیا ہے اور کیسی نبوت کا دعوی کرتا ہے؟ کفر اور ارتداد ہے ،سزا اس کی قتل ہے ۔ صحابہ کرام کے اجماع سے صدیق اکبر کے زمانے میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت پر جہاد کیا گیا اور اس کو قتل کیا گیا ۔ عبار ت اس حدیث کی بالفاظ ذیل ہے، جو ایک صفحہ تک چلی جاتی ہے۔

”مع نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ای فی زمنہ کمسیلمة الکذاب والأسود العنسی او ادعی نبوة احد بعدہ، فانہ خاتم النبین بنص القرآن والحدیث، فہذا تکذیب اللہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وسلم کالعیسویة“․

جس نے دعوی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا جیسے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی یا بعد کے عیسوی فرقہ جائز قرار دینا کہ نبوت کا کسب ریا ضت سے بھی ہوتا ہے۔ اس سب کا حکم کفر ہے ۔(بلاشبہ وہ کافر ہیں)

خفا جی نے شرح شفاء میں اسی قسم کا مضمون لکھا ہے ۔ جو کتاب مذکورہ بالا کے حاشیہ پر ہے ۔

ابن حزم لکھتے ہیں :
فکیف یستجیز مسلم ان یثبت بعدہ علیہ السلام نبیا فی الارض حاشا ما استثناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الآثار المسند الثابتہ فی نزول عیسی بن مریم علیہ السلام فی آخر الزمان ۔(کتاب الملل والنحل ص/180ج:4 باب ذکر العزائم الموجبة الی الکفر)

وہی مصنف ابن حزم اس کتاب کے ص249ج:3پر لکھتے ہیں: ”او ان بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیاًغیر عیسی ابن مریم فانہ لا یختلف اثنان فی تکفیر بصحة قیام الحجة بکل ہذا علی کل احد“․

شیخ التفسیر والحدیث، محقق دوراں حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی فرماتے ہیں:

”ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے کہ جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں اور عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم، بلاکسی تاویل اور تخصیص کے، خاتم النبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن کریم میں صریح آیات اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، جس کا منکر قطعاً کافر مانا گیا ہے اور کوئی تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔“ (احتساب قادیانیت: ج2/ص10)

یہاں ایک امر قابل غور ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس نازک وقت میں مدعی نبوت اور اس کی امت سے جہاد وقتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد وقتال پر مقدم سمجھا ۔جس سے معلوم ہوا کہ مدعی نبوت اور اس کی امت کا کفر یہود اور نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑھا ہواہے ۔عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے، ان سے جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے، مگر مدعی نبوت سے نہ کوئی صلح ہوسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت اگر آج کل جیسے سیاسی لوگ ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ باہمی تفرقہ منا سب نہیں ۔مسیلمہ کذاب اور اس کی امت کو ساتھ لے کر یہود اور نصاریٰ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حضرت مولانا الشاہ سید محمد انور کشمیری قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ مسیلمہ کذاب اور مسیلمہ پنجاب کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے ۔اس لیے کہ فرعون مدعئ الوہیت تھا اور الوہیت میں کوئی التباس اور اشتباہ نہیں،ادنیٰ عقل والا سمجھ سکتاہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا اور سوتا اور جاگتا اور ضروریات انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں ہوسکتا ہے ؟مسیلمہ مدعی نبوت تھا اورجھوٹے نبی میں التباس بشر سے تھا اس لیے ظاہری بشریت کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی میں التباس ہوسکتا ہے اس لیے مدعئ نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنہ سے کہیں اہم اور اعظم ہے اور ہر زما نے میں خلفاء اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا کہ جس نے نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔ اہل حق نے اس فتنہ کے استیصال کے لیے جو سعی اور جد وجہد ممکن تھی اس میں دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح مدعی نبوت سے جہاد بالسیف والسنان تو ارباب حکومت کا کا م ہے اور جہاد قلمی اور لسانی یہ علمائے حق کاکا م ہے ۔سو الحمد للہ علماء نے اس جہاد میں کوئی کوتاہی نہیں کی ،تقریر اور تحریر ہر طرح سے مدعی نبوت کا مقابلہ کیا۔ (احتسابِ قادیانیت: ج2/ص11 تا 12)
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ختم النبوة فی الآثار کے آغاز میں ختم نبوت پر اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

صحابہٴ کرام کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر اور اُس کے منکر کے مرتدو واجب القتل ہونے پر ہوا ہے۔

مسیلمہٴ کذاب کا دعوئ نبوت اور صحابہٴ کرام کا اس پر جہاد
اسلام میں یہ بات درجہٴ تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دعوائے نبوت کیا اور بڑی جماعت اس کی پیرو ہوگئی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلاجہاد، جو صدیق اکبر نے اپنی خلافت میں کیا ہے، وہ اسی جماعت پر تھا، جمہور صحابہ مہاجرین و انصار نے اس کو محض دعوائے نبوت کی وجہ سے اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بنا پر کافر سمجھا اور باجماع صحابہ و تابعین اُن کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یہی اسلام میں سب سے پہلا اجماع تھا، حالاں کہ مسیلمہ کذاب بھی مرزا قادیانی کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا، بلکہ بعینہ مرزا قادیانی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا، یہاں تک کہ اُس کی اذان میں برابر اشہد ان محمدا رسول اللہ پکارا جاتا تھا اور وہ خود بھی بوقتِ اذان اس کی شہادت دیتا تھا، تاریخ طبری# میں ہے:

وکان یوٴذن للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ویشہد فی الاذان ان محمدا رسول اللہ، وکان الذی یوٴذن لہ عبداللہ بن النواحة، وکان الذی یقیم لہ حجیرُ بن عمیرَ ویشہدُ لہ، وکان مسیلمةُ اذا ادنٰی حجیرُ من الشہادة قال: صرَّح حجیرُ، فیزیدُ فی موتٍ، ویبالغُ التصدیق نفسہ․․․ الخ (تاریخ طبری:ج3/ص244)

”نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے لیے اذان دیتا تھا اور اذان میں یہ گواہی دیتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کا موٴذن عبداللہ بن نواحہ اور اقامت کہنے والا حجیر بن عمیر تھااور جب حجیر شہادت پر پہنچتا تھا تو مسیلمہ بآواز بلند کہتا تھا کہ حجیر نے صاف بات کہی اور پھر اس کی تصدیق کرتا تھا۔ (تاریخ طبری:ج3/ص244)

الغرض! نبوت و قرآن پر ایمان اور نماز روزہ سب ہی کچھ تھا، مگر ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کافر سمجھا گیا اور حضرت صدیق نے صحابہ کرام، مہاجرین و انصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولید کی امارت میں مسیلمہ کے ساتھ جہاد کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا۔

جمہور صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس پر انکار نہ کیا اور کسی نے نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں، کلمہ گو ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اُن کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے؟ حضرت فاروق اعظم کا ابتدا میں اختلاف کرنا اور بعد تحقیقِ حق کے صدیق اکبر کے ساتھ موافقت کرنا جو روایات میں منقول ہے وہ بھی اس واقعہ میں نہیں تھا، بلکہ مانعینِ زکوٰة سے جہاد کرنے کے معاملہ میں تھا۔

بعض لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰة ادا کرنے سے انکار کیا تھا، صدیق اکبر نے اُن سے جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت فاروق نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں کی قلت و ضعف کا عذر پیش کرکے ابتدأً اُن کی رائے سے اختلاف ظاہر فرمایا تھا، لیکن حضرت صدیق کے ساتھ تھوڑے سے مکالمہ کے بعد ان کی رائے بھی موافق ہوگئی۔

الغرض حضرت فاروق کا ابتدا میں اختلاف کرنا بھی مسیلمہ کے واقعہ میں ثابت نہیں، جیساکہ بعض غیرمحقق لوگوں نے سمجھا ہے۔

الحاصل بلاخوف و بلانکیر یہ آسمانِ نبوت کے ستارے اور حزب اللہ کا ایک جم غفیر یمامہ# کی طرف بڑھا، اس کی پوری تعداد تو اس وقت نظر سے نہیں گذری، مگر تاریخ طبری# میں حضرت صدیق اکبر کا ایک فرمان خالد بن ولیدکے نام درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ و تابعین اس جہاد میں شہید ہوئے ان کی تعداد بارہ سو ہے۔ نیز اسی تاریخ میں ہے کہ مسیلمہ کی جماعت جو اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکلی تھی اس کی تعداد چالیس ہزار مسلح تھی، جن میں سے اٹھائیس ہزار کے قریب ہلاک ہوئے اور خود مسیلمہ بھی اسی فہرست میں داخل ہوا، باقی ماندہ لوگوں نے ہتھیار ڈال دیے، حضرت خالد کو بہت مال غنیمت اور قیدی ہاتھ آئے اور پھر صلح کر لی گئی۔

ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کتنی بڑی جماعت اس میدان میں آئی تھی جنہوں نے ایک مسئلہٴ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے نہ وقت کی نزاکت کا خیال کیا اور نہ مسلمانوں کی بے سروسامانی کا، اور نہ اس جماعت کی اذان و نماز اور تلاوت و اقرار نبوت اور تمام اسلامی احکام کے ادا کرنے کا، بلکہ اتنی بڑی جماعت سے جہاد کرنے کے لیے باجماع و اتفاق اٹھ کھڑے ہوئے۔ (ختم نبوت : ص302 تا 304)

ان صحابہٴ کرام کے اسمائے گرامی جو ختم نبوت کے شاہد ہیں
حضرت صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت اُبی بن کعب، حضرت انس، حضرت حسن، حضرت عباس، حضرت زبیر، حضرت سلمان، حضرت مغیرہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابوذر،حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابربن عبداللہ، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابوالدرداء، حضرت حذیفہ،حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عقیل بن ابی طالب، حضرت معاویہ بن جندہ، حضرت بہزبن حکیم، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت بریدہ، حضرت زید بن اوفیٰ، حضرت عوف بن مالک، حضرت نافع، حضرت مالک بن حویرث، سفینہ مولیٰ حضرت ام سلمہ، حضرت ابوالطفیل، حضرت نعیم بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابوحازم، حضرت ابومالک اشعری، حضرت امّ کرز، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن ثابت، حضرت ابوقتادہ، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت ابن غنم، حضرت یونس بن میسرہ، حضرت ابوبکرہ، حضرت سعید بن جثیم، حضرت سعد، حضرت زید بن ثابت، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت زید بن ارقم، حضرت مسعود بن مخرمہ، حضرت عروہ بن رویم، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت تمیم داری، حضرت محمد بن حزم، حضرت سہل بن سعد الساعدی، حضرت ابوزمل جہنی، حضرت خالد بن معدان، حضرت عمرو بن شعیب، حضرت مسیلمہ بن نفیل، حضرت قرة بن ایاس، حضرت عمران بن حصین،حضرت عقبہ بن عامر، جضرت ثوبان،حضرت ضحاک بن نوفل،حضرت مجاہد،حضرت مالک،حضرت اسماء بنت عمیس،حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت عبداللہ بن حارث،حضرت سلمہ بن اکوع،حضرت عکرمہ بن اکوع،حضرت عمرو بن قیس،حضرت عبدالرحمن بن سمرہ،حضرت عصمہ بن مالک،حضرت ابوقبیلہ،حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین!

یہ اسّی (80)حضرات میرے مقدمہ کے گواہوں کی پہلی قسط ہیں، جو مرزاجی کی نبوت کے گواہ کنہیّا لال وغیرہ نہیں، بلکہ آفتابِ نبوت کی شعاعیں، ہدایت کے ستارے، علوم نبوت کے وارث، ثقاہت و دیانت کے مجسمے، علم و عمل کے سارے عالَم کے مسلّم اُستاذ، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کے افراد ہیں #
اولٰئک اٰبائی فجئنی بمثلہم
اذا جمعتنا یا غلام المجامع

یہ میرے مقتدا ہیں پس (اگر دعوی ہے) اے غلام احمد مجلس میں اُن کی مثال پیش کر، اس فرشتہ صفت جماعت پر اگر میں فخر کروں تو بجا ہے
ولے درام جواہر خانہٴ عشق است تحویلش
کہ دار وزیر گردوں میر سامانے کہ من دارم

یہ صحابہ کی جماعت ہے، ہم تو بحمدللہ تعالیٰ اُن کی اقتداء کو ذریعہٴ نجات اور فرمانِ نبوی ما انا علیہ واصحابی کی تعمیل سمجھتے ہیں، اگر یہ حق پر ہیں تو ہم بھی اس کے متبع ہیں اور اگر حق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اُسوہٴ حسنہ کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے تو ہم شرح صدر سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مرزائی حق کی ضرورت نہیں #
ورشادی ان یکنْ فی سلوَتی
فدعونی لستُ ارضٰی بالرشادِ

”اور اگر میری ہدایت اسی میں منحصر سمجھی جائے کہ میں آپ کی محبت سے علیحدہ ہو جاوٴں تو مجھے اپنے حال پر چھوڑو، میں ایسی ہدایت نہیں چاہتا“ (ختم نبوت : ص313 تا315)

اس کے بعد مفتی محمد شفیع رحمہ الله محدثین، مفسرین، فقہاء، متکلمین، صوفیائے کرام کے نام تحریر فرماتے ہیں:

طبقات المحدثین
اس باب میں ہم سب سے پہلے اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی پیش کرتے ہیں، جنہوں نے ختمِ نبوت کے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کی ہیں اور اختلافِ رائے یا تاویل و تخصیص کو اس میں ظاہر نہیں فرمایا، بلکہ اس کو بعینہ اپنی ظاہری مراد میں تسلیم کیا ہے۔اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:

امیر الموٴمنین فی الحدیث امام بخاری، امام المحدثین امام مسلم، نسائی، ابوداوٴد سجستانی، ترمذی، ابن ماجہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، طحاوی، ابن ابی شیبہ، ابوداوٴد طیالسی، طبرانی، ابن شاہین، ابونعیم، ابن حبان، ابن عساکر، حکیم ترمذی، حاکم، ابن سعد، بیہقی، ابن خزیمہ، ضیاء، ابویعلیٰ، محی السنہ بغوی، دارمی، خطیب، سعید بن منصور، ابن مردویہ، ابن ابی الدنیا، دیلمی، ابن ابی حاتم، ابن النجار، بزار، ابوسعید باوردی، ابن عدی، رافعی، ابن عرفہ، ابن راہویہ، ابن جوزی، قاضی عیاض، عبد بن حمید، ابونصر سنجری، ہروی، ابن منذر، دارقطنی، ابن السنی تلمیذ نسائی، روٴیانی، طبری فی الریاض النضرة، خطابی، خفاجی، حافظ ابن حجر در شرح بخاری، قسطلانی در شرح بخاری، نووی در شرح مسلم، صاحب سراج الوہاج در شرح مسلم، سندی در حاشیہ نسائی، شارح ترمذی، شعبی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ (ختم نبوت : ص316، طبقات المحدثین)

طبقات فقہاء
ابن نجیم، ابن حجر مکی، ملا علی قاری، علامہ سید محمود مفتی بغداد، شیخ سلیمان بحیری، عبدالرشید بخاری، فتاوی عالمگیری کے مصنفین، صاحب فصول عماری، صاحب شرح منہاج وغیرہم۔ ان تمام فقہاء نے منکر ختم نبوت اور مدعی نبوت کو کافر، کاذب، دجال قرار دیا ہے۔ (ختم نبوت:ص325)

حضرات متکلمین
ابن حزم اندلسی، امام نسفی، علامہ تفتازانی، حضرت شاہ عبدالعزیز، صاحب جواہر توحید، امام عبدالسلام، عبدالغنی نابلسی، ابوشکوہ سالمی، امام سفارینی، امام غزالی وغیرہم۔

صوفیائے کرام
عبد الرحمن جامی، نظامی گنجوی، صاحب شرح تعرف، عبد القادر جیلانی، عماد الدین اموی، تقی الدین عبدالملک، محی الدین ابن عربی، مجدد الف ثانی وغیرہم۔

علمائے امت کے ہر طبقہ اور ہر جماعت میں سے چند ارکان و عمائد کی شہادتیں آپ کے سامنے آچکی ہیں، جن میں بغیر کسی تاویل و تخصیص اور بلا تقسیم و تفصیل کے جس چیز کا نام عرفِ شریعت میں نبوت ہے اس کو آں حضرت صلی ا للہ علیہ وسلم پر مختتم ما نا گیا ہے۔(ختم نبوت:ص335)

حضرت مفتی شفیع صاحب نے تو قانون فطرت سے بھی مسئلہ ختم نبوت کو ثابت کرکے بتلایا ہے۔ فرماتے ہیں:

قانون فطرت بھی ختم نبوت کا مقتضی ہے
کائنات عالم پر سرسری نظر ڈالنے والا دنیا میں دو چیزیں دیکھتا ہے،ایک وحدت، دوسری کثرت۔ لیکن جب ذرا تأمل کیا جائے اور نظر کو عمیق کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں بھی وحدت ہی اصل الاصول ہے، جتنی کثرتیں سطحی نظر میں سامنے آتی ہیں وہ بھی کسی وحدت میں منسلک نہیں، اس کا شیرازئہ وجو د منتشر ہو کر قریب ہے کہ عدم میں شامل ہو جائے، اس لیے ایسی کثرت کو موجود کہنا بھی فضول ہوگا ۔

مثال کے لیے دیکھیے کہ جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس کے محیر العقول طول وعرض میں بے شمار کثرتیں کھپی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، لیکن جب ان کثرتوں کے سلسلہ میں نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کثرتیں ایک ہی مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں اور ایک ہی محور پر حرکت کررہی ہیں اور اگر ان کا سلسلہ اس وحدت پر منتہی نہ ہوتا تو یہ نظام سماوی کسی طرح باقی نہ رہ سکتا تھا ۔

آسمان سے نیچے ابر کے موالید ثلاثہ میں بھی یہی فطر ی قانون نافذ ہے ۔جمادات کے ذرے ذرے پر نظر ڈالو تو کس قدر بے شمار کثرتیں سامنے آتی ہیں ،لیکن وہ سب بھی اسی طرح ایک وحدت میں منسلک ہیں اور جب رشتہٴ انسلاک ٹوٹتا ہے تواس کے لیے موت کا پیام ہوتا ہے ۔

نباتات میں بے شمار شاخیں ،پتے اور پھل پھول نئے نئے رنگ اور نئی نئی وضع میں کثرت کی شان لیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،لیکن اگر ان کی انتہا ایک جڑ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو فرمائیے کہ اس باغ و بہار کی عمر کتنی رہ سکتی ہے ؟

حیوانا ت میں ہاتھ ،پاوٴ ں ،آنکھ ،ناک اور تین سو ساٹھ جوڑوں کی کثرت موجود ہے، لیکن اگر یہ سب ایک رشتہ وحدت میں منسلک نہ ہو تو یہی اس کی موت ہے ۔

اس کے بعد دنیا میں تمام مشینوں ، انجنوں، گاڑیوں، برقی تاروں اور واٹر ورکس کے نلوں ،وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیے تو سب کو اسی قانونِ فطرت کی جکڑ بند سے آباد پائیں گے اور جب کسی انجن کے کل پر زے اس کے روح (اسٹیم )سے علیحدہ ہوں ،یا گاڑیوں کا باہمی ربط ٹوٹے یا برقی تاروں کا اتصال بجلی کے خزانہ کے ساتھ نہ رہے، یا پانی کے نل واٹر ورکس سے منقطع ہو جائیں تو ان کا وجود بھی بے کار ہے ۔

کائنات عالم کی ان مثالوں پر نظر کرکے جو قانون قدرت ذہن نشین ہوتا ہے ، نبوت اور رسالت بھی اس سے علیحدہ نہ ہونی چاہیے ،بلکہ عالم کی تمام نبوتوں کا سلسلہ بھی کسی ایسی نبوت پر ختم ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ اقوی واکمل ہو اور جس کے ذریعہ سے نبوتوں کی کثرت ایک وحدت پر منتہی ہو کر اپنے وجود کو قائم اور مفید بناسکے اور مسلم ہی کہ اس سیادت وفضیلت کے حق دار صرف حضرت خاتم الانبیا ء ہی ہو سکتے ہیں ،جن کی سیادت پر انبیا ئے سابقین اور ان کی کتب سماوی اور پھر ان کی امتیں خود گواہ ہیں ،جن کی تصریحات ابھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔

اور یہی رمز ہے اس میثاق میں جو تمام انبیاء ورسل سے لیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدد کریں ،ارشاد ہے :

﴿لتوٴمنن بہ ولتنصر نہ﴾ ”ضرور آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں ۔“

اور اس میثاق کی تصدیق اور سیادت کو ثابت کرنے کے لیے خداوند عالم نے دومرتبہ دنیوی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع فرمایا اور یہ سیادت اس طرح ظاہرفرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے امام ہوئے ،جس کا مفصل واقعہٴ اسراء ومعراج کے تحت تمام کتبِ حدیث میں صحیح ومعتبر روایات سے منقول ہے ، پھر آخر ِزمانہ میں انبیائے سابقین میں سے آخری نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت کا صریح طور پر متبع بنا کر بھیج دیا ،تاکہ اس میثاق پر صاف طور سے عمل ہوجائے۔
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
قانون فطرت کی دوسری نظیر
دنیا کی اکثر چیزوں پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتاہے کہ ایک مقصد کے پورا کرنے کے لیے سینکڑوں اسباب وآلات کام میں آتے ہیں اور ایک زمانہٴ دراز ابتدائی مقدمات طے کرنے میں صرف ہوتا ہے ،سب سے آخر میں مقصود کی صورت نظر آتی ہے ،مثال کے لیے درختوں کو دیکھیے اور بیج بونے کے وقت تک تمام درمیانی مراحل پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام کا وشوں کا اصلی مقصود یہ تھا جو آج سامنے آیا ہے؛ اسی طرح تمام کائنات کی پیدائش کا اصلی مقصد اور تمام نبوتوں کا خلاصہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور قانونِ فطر ت کے موافق آخر میں تشریف لائے ہیں ۔اسی مضمون کو سندی شیخی واستاذی حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے اس بلیغ شعر میں ادا فرمایا ہے ۔
اے ختم رسل امتِ تو خیر الامم بود
چوں ثمرہ کہ آبد آید ہمہ در فصل نضیری

تیسری نظیر
اسی طرح شاہی درباروں پرنظر ڈالو کہ ایک مدت پہلے سے اس کا انتظام کرنے کے لیے سینکڑوں بڑے چھوٹے حکام بر سرِ کار آتے ہیں، لیکن ان سب کا اصلی مقصد سلطانی دربار کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے اور اسی لیے جب دربار کا وقت آتا ہے اور بادشاہ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر مقاصد دربار کی تکمیل کرتا ہے تواس کے بعد اور کسی کا انتظار باقی نہیں رہتا اور اسی پر دربار ختم ہوجاتا ہے ۔

مسئلہ زیر بحث میں بھی اسی طرح سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہ نبوت کا ختم ہوجانا بالکل قانون ِ فطرت اور مقتضائے عقل کے موافق ہے۔

اسی قسم کی سینکڑوں نظیریں ذرا تأمل سے ہر شخص نکال سکتا ہے ۔

قرآن وحدیث اور اجماع امت اور اقوال اور پھر عقلی وجوہ کا جس قدر ذخیر ہ اب تک اس رسالہ میں جمع ہو چکا ہے ایک بصیر ت والی آنکھ اور سماعت والے کان کے لیے کفایت سے بہت زائد ہے او ر ازلی بدبخت کا کوئی علاج نہیں ۔”ارجو ان ینفعنی والمسلمین بہ وہو ولی التوفیق وخیر الرفیق فی کل مضیق․“ (ختم نبوت: ص357 تا 260)

ختم نبوت پر میرے گواہ کے عنوان سے مفتی صاحب فرماتے ہیں:

مسئلہ زیر بحث: یعنی ختم نبوت پر میرے گواہ
اولئک اشہادی فجئنی بمثلہم
اذاجمعتنا یا غلام المجامع

آخر میں ہم اپنے ان گواہو ں کی فہرست پیش کرتے ہیں جن کی شہادتیں اس رسالہ میں میں موقع بموقع قلم بند ہو چکی ہیں ،تاکہ ناظرین خود مقدمہ کا فیصلہ کر سکیں اور ہر شخص اپنی عاقبت کو پیش نظر رکھ کر کسی جانب کو اختیار کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ میں کس گروہ میں داخل ہوتا ہوں اور کس کو چھوڑتا ہوں ۔

خدا وند عالم جل ّ ذکرہ ومجدہ
سب سے پہلے خدا ئے جل وعلا کا کلام پاک ہمارا گواہ ہے (وکفی باللہ شہیدا ) جس نے نہ صرف دو چار آیتوں میں، بلکہ پوری سو 100آیات میں صراحتاً واشارةً اس مسئلہ کو بیان فرماکر ہر تاویل وتخصیص کا راستہ بند کردیا ہے اور جن میں کسی ایک جگہ اشارہ بلکہ شبہ اور وہم بھی اس معنی کا نہیں ہوتا جو مرزا قادیانی اور ان کے متبعین نے ایجاد کیے ہیں ۔

انبیاء علیہم السلام
یہ برگزیدہ جماعت، جس کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے کم نہیں، جب ان میں سے ایک رسول دنیا میں آیا اس نے اپنے فرائض منصبی میں اس کو بھی اہم ترین فرض سمجھا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی نبوت کے اختتام کا اعلان کردے ،جیسا کہ بحوالہ روح المعانی اخذمیثاق کی تفسیر میں گذر چکا ہے، کہ ازل میں انبیاء علیہم السلام سے جومیثاق لیا گیا تھا ، اس میں یہ بھی داخل تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا دنیا میں اعلان فرمائیں ۔

اس لیے ہر نبی اور رسول کا فرض تھا کہ آں حضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کے اعلان کے ساتھ اس کو بھی بیان کر دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد اور کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔

چناں چہ اس مقدس جماعت نے اس کی تکمیل کی، جن میں سے حضرات ذیل کی تصریحات ان کی آسمانی کتب وصحائف سے ابھی نقل کی جا چکی ہیں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام ۔

اس جماعت نے بھی مطلقاً انقطاعِ رسالت ونبوت کی خبر دی، کوئی اشارہ بھی اس طرف نہیں کیا کہ نبوت کی کوئی قسم غیر تشریعی یا ظلی یا بروزی پھر بھی باقی رہے گی۔

خاتم الانبیاء علیہم السلام
ان کے بعد خود حضور صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو احادیث میں اس مسئلہ کو مختلف عبارتو ں اور مختلف عنوانات سے مجالس میں اس طرح بیان فرمایا کہ مسئلہ کا کوئی پہلویا اس کی کوئی قید وشرط مخفی نہ رہی ۔

لیکن ان تمام احادیث کے طویل دفتر میں بھی کہیں نہ بیان کیا گیا کہ اختتام نبوت سے ہماری مراد صرف شریعت جدید ہ کا اختتام ہے ،غیر تشریعی یا ظلی بروزی طور پر کوئی قسم نبوت کی ہمارے بعد بھی باقی رہے گی اور پھر یہ ہی نہیں ،بلکہ بہت سی احادیث میں صراحتاً ہر قسم کی نبوت کا انقطاع صاف طور پر بیان کرکے تمام تحریفات کی جڑ کاٹ دی جو مرزا قادیانی اور ان کی امت نے ایجاد کی ہیں ۔

صحابہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین
میرے گواہوں کی چوتھی قسط صحابہ وتابعین کی وہ مقدس جماعت ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات اولین وآخرین سے افضل ہیں، جن میں سے ترانوے حضرات کی شہادتیں اس رسالہ میں قلم بندہوچکی ہیں۔ لیکن ہمیں ا ن کے بیانات میں بھی کوئی لفظ ایسا نظر نہیں پڑتاجس میں تشریعی، غیر تشریعی ، یا ظلّی بروزی، یا لغوی، مجازی نبوت کی تفصیل کرکے کسی قسم کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی باقی بتلایا گیا ہو، بلکہ نہایت وضاحت کے ساتھ جمیع اقسام نبوت کے اختتام کا اعلان کرکے مدعی نبوت کے کفر وارتداد کے حکم پر اجماع کیا گیا ہے۔

حضرات محدثین
ہمارے گواہوں کی پانچویں قسط وہ حضرات ہیں جنہوں نے احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک ایک زیروزبر کی تحقیق کے لیے سینکڑوں ہزاروں میل کے سفر قطع کیے، اور اپنے عمل کے لیل و نہار ان کے الفاظ کی تحقیق اور معانی کی تشریح میں صرف کرکے ایسا منقح اور صاف کردیا کہ کسی شبہ کی گنجائش نہ رہے، اس جماعت سے اڑسٹھ حضرات کی شہادتیں اس مقدمہ میں پیش کی جاچکی ہیں، لیکن ان میں بھی کسی کی زبان سے نہ نکلا کہ اختتامِ نبوت سے صرف شریعتِ جدیدہ کا اختتام مراد ہے، غیر تشریعی یا ظلی، بروزی طور پر نبوت باقی ہے، بلکہ انہوں نے پہلے حضرات سے زیادہ وضاحت سے ہر قسم کی نبوت و وحی کا انقطاع اور ہر مدعئ نبوت کے کفر و ارتداد کا حکم دیا۔

حضرات مفسرین
میرے شہداء کی چھٹی قسط حضرات مفسرین ہیں، جنہوں نے قرآن کریم کے ایک ایک حرف، بلکہ زیروزبر اور حرکت و وقف کی تشریح و تفسیر کے لیے اپنی عمروں کو وقف کرکے آیاتِ فرقانیہ کو اس طرح واضح فرمادیا کہ کسی شبہ کا راستہ باقی نہ رہے، جن میں سے پچیس حضرات کی شہادتیں اسی رسالہ میں گذر چکی ہیں۔

حضرات فقہاءِ مذاہب اربعہ (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ)
مسئلہ زیر بحث اگرچہ اصولی مسئلہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے فرائض سے علیحدہ ہے، لیکن کہیں کہیں ضمنی طور پر کلماتِ کفر اور موجباتِ ارتداد کو بیان کرتے ہوئے ان حضرات نے بھی اس سے تعرّض کیا ہے، جن میں سے مذاہبِ اربعہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ کے دس حضرات کی عبارتیں نقل کی جا چکی ہیں، جن میں ہر مدعئ نبوت اور اس کی تصدیق کرنے والوں کو ہی کافر ومرتد نہیں بتلایا گیا، بلکہ اس شخص کو بھی بہ اتفاق کافر کہا گیا جو مدعئ نبوت کے دعوے میں سچائی کا احتمال بھی پیدا کرے۔

یہ حضرات اگرچہ بال کی کھال نکالنے والے ہیں، مگر انہوں نے بھی کوئی تفصیل نہ فرمائی، کہ یہ سنگین جرم (کفر) صرف اس شخص پر عائد ہے جو نبوت مستقلہ اور شریعت جدیدہ کا مدعی ہو، یا اس کی تصدیق کرنے والا ہو، غیرتشریعی یا ظلی بروزی یا لغوی یا مجازی طور پر اگر کوئی دعویٰ کرے یا اس کی تصدیق کرے تو اس میں داخل نہیں۔

حضرات متکلمین
گواہانِ ختم نبوت کی ساتویں قسط حضرات متکلمین ہیں، جن میں سے سولہ حضرات کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں، اُن حضرات کے یہاں اگرچہ بات بات پر اور حرف حرف پر بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہے، ایک عبارت میں جتنے احتمالات عقلی طور پر ہوسکتے ہیں ان کے یہاں تقریراً تا تردیداً زیر بحث آجاتے ہیں، لیکن ان میں بھی کسی کے منھ سے یہ نہیں نکلا کہ ختم نبوت سے صرف شریعت جدیدہ و مستقلہ کا اختتام مقصود ہے، غیرتشریعی طور پر نبوت بعد میں بھی ہوسکتی ہے۔

صوفیائے کرام
آخرمیں ہم وہ گواہ پیش کرتے ہیں جن کے مقالات و حالات مقامِ نبوت کے اظلال (سایہ)ہیں، جن کے علوم و معارف کا میدان صرف اوراقِ کتب نہیں، بلکہ الہام رحمانی اور مکاشفات بھی اُن کی مشعلِ راہ ہیں، جن میں سے دس حضرات کی شہادتیں ابھی درج کی گئی ہیں۔

اس نکتہ رس اور دقیقہ سنج جماعت نے بھی امت کو یہ اطلاع نہ دی کہ اصطلاحِ شریعت اور قرآن و حدیث میں جس کو نبوت کہا جاسکتا ہے ،اس کی کوئی قسم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی باقی رہے گی، بلکہ علمائے ظاہر اہلِ سنت والجماعت کے عقائد اور بیانات کے مطابق انہوں نے بھی مطلقاً ہر قسم کی نبوت کو حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم سمجھا اور سمجھایا۔

الغرض ! ابتدائے آفرینش سے آج تک انبیاء علیہم السلام اور صحابہٴ کرام اور علماء و صلحاء کی بے شمار جماعتیں جس چیز کی گواہی دیتی چلی آئیں اور کسی نے اس میں تاویل و تخصیص کی شاخ نہ نکالی، بلکہ اپنے اطلاق پر تسلیم کیا، اور کرایا۔ آج اگر کوئی شخص ان سب کے خلاف اس میں تحریف کرنے لگے تو اس کے سوا کیا کہا جائے #
سرِّ خدا کہ عارف و زاہد کسے نہ گفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید

اور میں تو پھر وہی عرض کروں گا جو پہلے کرچکا ہوں، کہ اگر حق وہدایت ان حضرات انبیا و صحابہ وغیرہم کے راستہ کے سوا کہیں اور ہے تو مجھے ایسے حق کی ضرورت نہیں، میں ایسی ہدایت سے معافی چاہتا ہوں #
و رشادی ان یکن فی سلْوَتی
فدعونی لستُ ارضٰی بالرشاد

”اور میری ہدایت اگر اس میں مضمر ہے کہ میں ان حضرات سے علیحدہ ہو جاوٴں تو تم مجھے چھوڑدو، میں ایسی ہدایت کا خواہاں نہیں۔“

اور نہایت شرح صدر کے ساتھ کہوں گا کہ اگر ان حضرات کا اتباع گمراہی ہے تو وہ گمراہی ہی میرا مذہب ہے، مجھے اس سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

و لنعم ما قال الشافعی #
ان کان رفضا حبُّ اٰلِ محمدٍ
فلیشہد الثقلان انی رافض

”اگر آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نام رافضیت ہے تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں بھی رافضی ہوں“

اگر کسی مجنون کے نزدیک یہ سارے افضل الخلائق ،خلاصہٴ کائنات (معاذ اللہ) گمراہ ہیں تو میں تنہا ہدایت پاکر کیا کروں گا #
وما انا الا من غزیةَ اِن غوَتْ
غویتُ وان ترشُدْ غزیَّةُ ارشُد

”میں قبیلہٴ غزیہ کا ایک فرد ہوں، اگر غزیہ سب گمراہ ہوئے تو میں بھی گمراہ ہوں اور اگر وہ ہدایت پر ہیں تو میں بھی ہدایت پر ہوں۔“ (ختم نبوت: ص361تا 265)

ویسے تو ختم نبوت پر بہت کچھ لکھا گیا۔ احقر نے اس موضوع پر سب سے مضبوط اور مدلل تحریر حضرت مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ کی پائی، لہٰذا اسی سے زیادہ استفادہ کیا ہے؛ گویا ختم نبوت کامل کی تلخیص ہے، البتہ کہیں درمیان میں احتساب قادیانیت سیٹ سے بھی اقتباسات نقل کیے ہیں اور تمہیدی بات میں ائمہ تلبیس، فتوی تکفیر صحیح، تاریخ الطبری وغیرہ سے بھی استفادہ کیا ہے۔

ختم نبوت پر قلم اٹھانے کا داعیہ مجلس احرار انڈیا کے صدسالہ پروگرام میں شرکت کے بعد پیدا ہوا اور اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ مقالہ قلم بند کیا ،اس امیدسے کہ آخرت میں باعثِ نجات ہو جائے۔

اخیر میں بندہ حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی قدس اللہ سرہ العزیز کی ایک بہترین اور عمدہ تحریر پر اپنے مضمون کو سمیٹتا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:

مسئلہ ختم نبوت اور اس کی اہمیت
خدا وند ذوالجلال والا کرام کی توحید کے بعد سرور عالم، سید نا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت کا مسئلہ ہے، جس طرح بغیر توحید کے اقرار کے مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح بغیر ختم نبوت کے اعتراف کے مسلمان نہیں ہوسکتا ۔بلکہ توحید کا اقرار شرعاًوہی معتبر ہے جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے خدا تعالی کو وحدہ لا شریک لہ مانے، ورنہ جو شخص یہ کہے کہ میں حق تعالی کو وحدہ لا شریک لہ سمجھتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا آخری نبی مانتا ہوں، مگر حضور پور نور کے کہنے سے میں خدا کو ایک نہیں سمجھتا۔بلکہ میری ذاتی تحقیق یہی ہے کہ خدا ایک ہے تو یہ شخص شرعاًمسلمان نہیں ۔مسلمان وہ ہے جو رسول اللہ کے کہنے سے خدا کو ایک مانے۔(احتساب قادیانیت:ج2/ص463)

خلاصہ یہ کہ ختم نبوت پر ایمان و کفر کا مدار ہے ، جیسے توحید کا منکر کافر ہے، اسی طرح ختم نبوت کا منکر بھی کافر ہے۔

مذکورہ تفصیل کو پڑھنے کے بعد قادیانی کو نبی ماننے والے اپنے نفس سے دریافت کریں کہ کیا وہ مسلمان ہوسکتے ہیں؟ کیوں کہ حدیث میں ”استفت نفسک“ تو اپنے نفس سے فتوی پوچھ؟ قادیانی میں نبی ہونے کی دور دور تک ذرہ برابر بھی نہ لیاقت ہے، نہ صلاحیت ہے۔ ہاں! البتہ دجال ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں۔ حضرت کاندھلوی نوراللہ مرقدہ نے جب مشاہدہ کیا کہ اب تو بارش کے مینڈکوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح، جس کو دیکھو دعوئ نبوت لے کر کھڑا ہو جاتا ہے تو آپ نے ”شرائط نبوت“ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا، جس کی تلخیص پیش خدمت ہے، ویسے تو ختم نبوت کے بعد اب کسی نبی کی بعثت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،مگر پھر بھی لوگوں کے علم میں لانے کے لیے شرائط نبوت کو بیان کیا جارہا ہے، کیوں کہ اب کسی میں بھی یہ شرائط قیامت تک نہیں پائی جائیں گی۔

سلاطین عالم کایہ طریقہ رہا کہ ہر کس وناکس کو اپنا وزیر اور سفیر نہیں بناتے، وزارت اور سفارت کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جو عقل اور فہم میں یگانہ روزگار ہو، بادشاہ اور اس کی حکومت کا وفادار اور اطاعت شعار ہو، صادق اور راست باز ہو، امانت دار اور دیانت دار ہو، جھوٹا اور مکار نہ ہو، زیرک اور دانا ہو کہ احکام شاہی کے سمجھنے میں غلطی نہ کرتاہو، وغیرہ وغیرہ ۔جب تک اس قسم کے اوصاف فاضلہ اور صفات ِکاملہ نہ ہوں گی اس وقت تک اس کو منصب وزارت وسفارت پر فائز نہیں کیاجائے گا۔

جب شاہان دنیا کی مجازی اور فانی حکومت کی وزارت اور سفارت کے لیے یہ شرائط ہیں تو اس احکم الحاکمین اور شہنشاہ حقیقی کی نبوت اور خلافت کے لیے اس سے ہزارہا درجہ بڑھ کر شرائط ہوگی، حافظ تورپشتی  المعتمد فی المعتقد میں فرما تے ہیں ۔

انبیائے کرام ہمیشہ فرمان الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا نفس اطاعت خداوندی میں ہمیشہ ان کا تابع اور مطیع ہوتاہے، یہی وجہ کہ ہر بزرگ خدا تعالیٰ کی معصیت سے معصوم ہوتے ہیں ۔اگر انبیاء معصوم نہ ہوتے تو حق تعالیٰ مخلوق کو ان کی بے چون وچرااطاعت و متابعت کا حکم نہ دیتا، انبیاء کی عقل دوسرے لوگوں کی عقل سے ارفع اور اکمل ہوتی ہے، ان کے ادراکات دوسروں کے ادراکات سے بہت زیادہ سریع اور تیز ہوتے ہیں ،خطا اور غلطی سے محفوظ اور مامون ہوتے ہیں، ان کی رائے دوسروں کی رائے سے زیادہ تیز اور قوی ہوتی ہے یہی وجہ کہ علوم وحی کو جس طرح انبیاء سمجھتے ہیں دوسروں سے ممکن نہیں، ان کا حافظہ سب سے قوی ہوتا ہے اور فصاحت اور بلاغت اور تاثیر سخن میں بھی انبیاء اور تمام ابنائے عصر پر غالب رہتے ہیں، ان کی ظاہری اور باطنی قوت سب سے زیادہ قوی ہوتی ہے ان کا خلق نہایت نیک اور ان کی صورت بڑی وجیہ اور ان کی آواز نہایت عمدہ اور خوش اور غایت درجہ موٴثر ہوتی ہے، غرض یہ کہ انبیاء جس طرح سیرت اور معنی کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں، اسی طرح صورت اور ظاہر میں بھی خوب تر اور پسندیدہ ترہوتے ہیں ۔(انتہی مترجما من الفارسیة بالہندیة)

اس زمانے میں لوگوں نے نبوت اور رسالت کو کھیل بنالیا ہے، جس کا جی چاہتا ہے نبوت کا دعوی کردیتا ہے، وحی اور الہام کے اشتہار شائع کرنے شروع کردیتا ہے، اس لیے ہم مختصر طور پر نبوت کے کچھ شرائط ذکر تے ہیں جو عین عقل سلیم کے مطابق ہوں اور انشاء اللہ تعالی کسی عقل والے کو ان کے قبول کرنے میں تردد نہ ہوگا۔ (احتساب قادیانیت:ج2/ ص96 تا 97)

شرائط نبوت
عقل کامل حفظ کامل علم کاملعصمت کاملہ و مستمرہ صداقت و امانت کاملہعدیم توریث زہد کاملحسب و نسب اعلیٰ ہو مرد ہواخلاق کاملہ۔

تلک عشرة کاملہ۔ان شرائط کا نبی میں ہونا ضروری ہیں۔ اب آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کو ن ان شرائط پر اترتا ہے اور کون نہیں اترتا ۔ اور پھر خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کون نبی تھا اور کون نبی نہیں ۔

اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، ہرقسم کی ضلالت گمراہی، شہوات وشبہات کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور کل قیامت کے دن خاتم الانبیاء و المرسلین، احمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھ سے جام کوثر نصیب فرمائے اور اللہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جائے۔

آمین یا رب العالمین!

ماخذ
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
تحفظ ختم نبوت اورمظاہرعلوم سہارنپور

تحفظ ختم نبوت
ناصرالدین مظاہری
[size=large]سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی منبع ہدایت اورسرچشمۂ سعادت ہے ،سسکتی انسانیت اوردم توڑتی شرافت کیلئے ایک تریاق ہے ،ضلالت وذلالت کے مسموم حالات میں آپ کی بعثت خدا وند قدوس کا بیکراں انعام ہے لیکن اسلام اورانسان کے ازلی وابدی دشمن ملعون شیطان کو یہ کب گوارا ہوسکتا ہے کہ اسلام کی ابدی صداقتوں اورلافانی حقیقتوں پرصالح انسانیت کی تعمیر ہو،بدی کے شیدائی ،ابلیسی قوتیں اورطاغوتی نظام روز اول سے انسان اوراس کے خدائی مذہب سے متصادم رہا ہے ،صالح فکر اورصالح افراد ہمیشہ شیطانی قوتوں کی نظروں میںخارِ مغیلاںبن کر کھٹکتے ہیں اورموقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب اسلام کے سفینہ کو ڈبویا اورکب ان کے دینی جذبہ کو دفنایا جاسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں اوربدکاروںکے دو الگ الگ محاذ قائم کردئے ہیں ،نیکی پر بدی کی حکمرانی کبھی نہیں ہوسکتی ،نیکوکارلوگ ہی کامیاب رہیں گے لیکن اپنے غلط اعمال کی پاداش اوراسلام مخالف تحریکات کے باعث وقتی آزمائشیں اورامتحانات بھی ناگزیر ہیں ،سعادت مندیوں کے بیکراں سمندر میں شقاوت کا وجود ناممکن ہے ،اسلام کے شفاف دامن پر کفر اورطاغوت کی چھینٹیں دیرپانہیں ہوسکتیں،چاند پر تھوکنا اورسورج کو پتھر مارنا دانائی کے خلاف ہے ،حق کا گلا گھونٹ کرباطل کو تخت طاؤس سپرد کردینا صالح طبیعتوں کے خلاف ہے اورصالح وسعید لوگ کفر کے مکراورطاغوت کے فریب میں آجائیںناممکن ہے ،سعادت اورشقاوت تو ہر انسان کی تقدیر سے جڑی ہوئی ہیں ،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی صفائی کے ساتھ فرمادیا ہے کہ السعید من سعد فی بطن امہ والشقی من شقی فی بطن امہ اس واضح ارشاد اورلافانی صداقت کے بعد اسلام کے خلاف کفر کی جنگ ،مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمن تحریکات کا زور اورقوانین اسلام کے خلاف مغربی میڈیاکا شورباعث فکر توہوسکتا ہے لیکن اسلام کے تعلق سے کسی مایوسی کا شکار نہیں ہواجاسکتا ، اسلام میں کثرت سے زیادہ وحدت پر زوردیا گیا ہے ،تکثیراورہجوم کسی مسئلہ کا حل نہ پہلے تھااورنہ آج ہے، لیکن وحدت ،اتفاق ،اتحاد،منشور،صالح جذبہ ،نیک عزائم ،مستحکم ارادے ،شاہین صفت استقامت اورفولادی ذہنیت (جو ایک زندہ مذہب کا خاصہ ہیں ) کی ہر دورمیں اہمیت رہی ہے ۔ اسلام کی شاندار تعلیمات پر چاہے جتنے اعتراضات کئے جائیں ،شریعت ِ محمدی کا کتنا ہی تمسخراڑایا جائے ، قرآ ن کی تحریف کے کتنے ہی منصوبے بنائے جائیں ،انبیاء سابقین کی شان میںکتنی ہی گستاخیاں کی جائیں ، صالحین اورداعیان اسلام کے دامن شرافت پر الزامات اوراتہامات کے کتنے ہی داغ لگائے جائیں اسلام پر کوئی حرف اورشریعت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی کیونکہ یہ تو اسلام کی فطرت اوراس کی سرشت میں شامل ہے کہ اس کو دبانے ،مٹانے اورنابود کرنے کے جتنے جتن کئے جائیں گے اتنا ہی اس میں ابھار پیدا ہوگا کفر کی بمباری کے بعد جب بھی بادل چھٹے ،آب وہوا نے رخ بدلا تو اسلام کا سورج اپنی تمام ترحشر سامانیوں اورنظروں کو خیرہ کردینے والی شعاؤں کے ساتھ طلوع ہوکر ’’اتنا ہی ابھرے گا جتناکہ دباؤ گے ‘ ‘ کا پیغام دیتا ہوا یہ چیلنج بھی دے گیا کہ

’’آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا ‘‘
فکر رسا اورچشم بینا افراد پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ خیر القرون سے ہی اسلام کے خلاف باطل تحریکات اٹھتی ، ابھرتی اورمٹتی رہی ہیں ،چنانچہ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر کے دورِ مسعود سے آج تک ہزاروں اسلام دشمن سازشیں اٹھیں اورنابود ہوگئیں ،کتنے ہی مسیلمہ کذاب ،اسود عنسی،طلیحہ اسدی،سجاح بنت حارث،،مغیرہ بن سعید،بیان بن سمعان،صالح بن طریف برغواطی،اسحاق اخرس،استادسیس خراسانی،علی بن محمدخارجی،مختاربن عبیدثقفی،حمدان بن اشعث قرمطی،علی بن فضل یمنی،عبدالعزیزباسندی،ابوطیب احمدبن حسین،عبدالحق مری، بایزیدروشن جالندھری،میرمحمدحسین مشہدی،زکرویہ بن ماہر،یحیٰ بن زکرویہ،ابوعلی منصور،نویدکامرانی،اصغربن ابوالحسین،رشیدالدین ابوالحشر،محمدبن عبداللہ تومرت،ابن ابی زکریا،محمودواحدگیلانی،عبدالحق بن سبعین، عبداللہ راعی اورعبدالعزیز طرابلسی جیسے ملعون ،کذاب،مفتری اورمدعیان نبوت پیداہوئے اورزمین کا حصہ بن گئے ،حسن بن صباح اورتاتاری فتنے آئے اورپھر خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے ،عیسائی اوریہودی لابیوں نے خرمن اسلام کو ہزاروں بار جلاکر خاکسترکرنے کی کوششیںکیں اورخود ہی بھسم ہوگئے، ان واضح سچائیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ’’وأنتم الأعلون ان کنتم مؤمنین ‘‘کو د ل ودماغ میں راسخ کرکے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ہم کہاںجارہے ہیں ،کہاں کہاں ٹھوکریں لگی ہیں ، ہمارا سا حل اورہماری منزل کہاں ہے اورسفینہ جس پر ہم سوار ہیں کس سمت رواں دواں ہے ۔ ’’ ختم نبوت ‘‘کا موضوع اسلام کے کلیدی اوربنیادی عقائد میں سے ہے ،ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ صحیفہ ٔ ہدایت قرآن کریم کو خاتم الکتاب، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی مسجدکو خاتم المساجد اورآپصلی اللہ علیہ وسلمکی امت کو خاتم الامم جانے مانے اورزبان ودل سے اس کا اقرار کرے ۔ ختم نبوت کا منکر باتفاق امت کافر ہے ،دنیا میں جن بد دماغوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کے بعد اپنے نبی ورسول یا مہدی ومسیح موعود ہونے کے دعاوی کئے وہ سب شیطانی تحریک کے تانے بانے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تو اس قصر کی سی ہے جس کو بڑی عمدگی کے ساتھ آراستہ وپیراستہ بنایا گیا لیکن اس کے اندر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی گئی ،لوگ اس خوبصورت محل کو دیکھ کر کاریگروںکی کاریگری کی تعریف کے دوران یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوںنہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان مکمل محسوس ہوتا ) قصرنبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے مکمل ہوا ،اورنبوت کے اس عالیشان قصرکی خشت آخرآپ کی ذات بابرکات قرار پائی ، ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتاً فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذی اللبنۃ وانا خاتم النبیین ۔(بخاری ،مسلم ،نسائی ،ترمذی ) کنزالعمال اورابن ابی حاتم نے نیزمسند احمد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد گرامی میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔فکنت أنا سددت موضع اللبنۃ وختم بی النبیون وختم بی الرسل ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر احادیث شریفہ کا ایک بڑا دفتر کتب احادیث میں موجود ہے اسی طرح ام الکتاب قرآن کریم کی سیکڑوں آیات بھی واضح الفاظ اورمفہوم کے ساتھ موجود ہیں اس لئے ایک ابدی وسرمدی صداقت سے انحراف یا چشم پوشی اورتاویلات وتلبیسات صرف قصورفہم کا نتیجہ ہیں ۔ یوں تو منکرین ختم نبوت کی ایک مستقل تاریخ ہے( اورجن کو صاحبان علم ودانش کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے)لیکن انیسویں صدی کے ابتدائی حصہ میں قادیان سے ایک فتنہ پیدا ہوا جس کو ’’فتنۂ قادیانیت ‘‘کہا جاسکتا ہے ۔

کسی بھی تحریک کے پس پشت ا گر ذاتی ومادی منفعت کار فرماہوگی تو وہ تحریک بٹتی ،مٹتی اورسمٹتی چلی جاتی ہے چنانچہ انگریزوں کی خو شامد ،تملق، چاپلوسی ،اقتدارکی ہوس ،سنہرے سکوں کی چمک اوردولت وثروت کے لالچ میں پیدا ہونے والی یہ جماعت اندرونی خلفشار اورانتشارکا شکار ہوکر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ،’’ لڑاؤ اورحکومت کرو ‘‘کا فارمولہ وضع کرنے والی استعماری قوتیں چاہتی بھی یہی ہیں چنانچہ ظہیرالدین اروپی نے مرزاغلام احمد قادیانی کو صاحب شریعت تشریعی نبی ورسول مان کر الگ جماعت بنالی تو مرزا محمود نے باصلاحِ خود غیر تشریعی نبی ہونے کا نعرۂ مستانہ لگاکر اپناڈیڑھ اینٹ کامحل الگ قائم کرلیاپھر محمد علی لاہوری مسیح موعود اورمہدی موعود کا لیبل لگاکر جدا ہوگیا ،مقصد اورقدر مشترک سب کا یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانسا جائے، اسلام کو بدنام کیا جائے اوردوسروںکو اُلو بناکر اپنا الو سیدھا کیاجائے ۔
قادیانیت کی صحیح اورسچی تصویرکوسمجھنے کے لئے قادیانی لٹریچراورقادیانیوں کے تعلقات ومراسم سے بھی واقفیت ضروری ہے،قادیانیوں کا اصل منشاء صرف یہ ہے کہ مادی دولت کے حصول کے لئے اسلام کو’’بلی کابکرابنادیاجائے‘‘چنانچہ صہیونیت کی تعلیم اورصہیونی مقاصدمیں تعاون جس قدرقادیانیوں سے ملا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،دینی فہم رکھنے والوں پربھی یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قادیانیت دراصل صہیونیت کاچربہ ہے، پرفیسرخالدشبیرصاحب نے تحریک ختم نبوت کے ترجمان’’نقیب ختم نبوت میں تحریرفرمایاہے کہ ’’اسلامی عقائد میں تحریف اورعیسائیت کی تکذیب کے ساتھ قادیانیوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہودی مذہبی نظریات کااحیاء کیاہے،قادیانیوں نے یہودیوں کو خوش رکھنے کیلئے جہاں مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے وہیں پر انہوں نے یہودیوں کی خوشنودی کی خاطراورصہیونیوں کا قرب حاصل کرنے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پروہ تمام الزامات عایدکئے جویہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرروزاول سے لگاتے چلے آئے ہیں،قادیانیوں نے اس سلسلہ میں حضرت مریم علیہاالسلام کوبھی معاف نہیں کیاجن کے تقدس اوراحترام کی گواہی قرآن کریم سے بھی ملتی ہے،مرزاقادیانی نے یہودیوں کی تقلیدکرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرتبے کو کم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگایااوراپنی شان کو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بڑھانے کیلئے زمین وآسمان کے قلابے ملادئے،ان تمام جسارتوں کامقصدصرف اورصرف یہ تھا کہ صہیونیت کا قرب حاصل ہو،ان کا اعتمادحاصل کرکے ان کی مالی معاونت سے قادیانیت کے فروغ کی راہیں تلاش کی جائیں اوربلاداسلامیہ میں یہودیوں کی سازشوں کوکامیاب بنانے کیلئے کام کیا جائے۔ علامہ اقبال سمیت عرب دنیاکے اسلامی اسکالروں کا بھی یہی خیال ہے چنانچہ عباس محمودالعقاد،شیخ ابوزہرہ،شیخ محب الدین الخطیب،شیخ محمدالمدنی جیسے بالغ نظرعلماء یہی کہتے ہیں کہ قادیانیت اورصہیونیت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ،یہ تحریک استعماریت کی ایک شاخ ہے‘‘(نقیب ختم نبوت) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان مسلمانوں سے پہنچا ہے اتنا شاید کسی قوم سے نہیں پہنچا ، شیطان ملعون نے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو مختلف تاویلات وتلبیسات کے ذریعہ راہِ مستقیم سے بہکانے میں پوری طاقت جھونک دی کیونکہ شیطان نے خدا تعالیٰ سے بنی نوع انسان کو بہکانے اورراہِ راست سے ہٹانے کی اجازت لے لی تھی اوراللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا ’’قال رب فانظرنی الی یوم یبعثون‘‘اورشیطان لعین کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ’’فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم‘‘ شیطان نے پھر اپنے عزائم اورارادوں کو ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا ’’قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین، الا عبادک منھم المخلصین ‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان اوراس کی ذریت کو دھمکی آمیزلہجے میں فرمایا تھا ’’قال فالحق والحق اقول ۔لأملئن جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین ‘‘(پ ۲۳،ص ) مذکورہ قرآنی شہادت کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان تا قیامت اللہ کے نیک بندوں کو بہکاتا،پھسلاتا اورراہِ خدا سے درماندہ کرنے کی کوشش کرتارہے گا اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندے شیطانی مشن سے محفوظ ومامون رہیںگے اورجو لوگ شیطانی تحریک کا حصہ بن جائیں گے تو ان ہی لوگوں سے جہنم کو بھردیا جائے گا ۔ موجودہ دورکی اسلام دشمن تحریکات ،کفار ویہود کی نت نئی سازشیں،ہنود کی اسلام دشمن سرگرمیاں،عیسائی تخریب کاریاں ،اپنوں کی دل آزاریاں،باطل منصوبہ بندیاں ،مسلمانوں کو اسلام سے بدظن وبرگشتہ کرنے کی حکمت عملی ،محض دولت کے حصول ،اقتدار کے لالچ ،جاہ کے عفریت ،شہرت کے فریب اوراَنا کی وقتی تسکین کیلئے غیرت وحمیت کے جنازے نکالنے کا ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل وجود میں آچکا ہے، ذرا ذرا سی بات پر اپنی جماعتیں اورجمعیتیں بنانے کا زور برساتی مینڈکوں کے شورکی طرح بڑھ رہا ہے اسلام کے نام پر اسلام کو ختم کرنے کی لاتعداد جمعیتیںاورتحریکات وجود میں آچکی ہیں ،کچھ لوگ فروعات کو لے کر میدان میں کو د پڑے ہیں ، کچھ نے مسائل کے بازار میں فضائل کی دوکانیں چمکانی شروع کردی ہیں ،وہ اقوام جو ایک دوسرے کی ازلی دشمن تھیں (اوراندرخانہ اب بھی ہیں)لیکن اسلام اورمسلمانوں کو زیر کرنے کیلئے ایک ہوچکی ہیں ،عیسائی کبھی یہودیوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ،یہودی ہمیشہ عیسائیوں کے بد خواہ رہیں گے یہ قرآنی شہادتیں ہیں لیکن آج یہ دونوں اقوام سر میں سر ملاکر پرانی رنجشیںپس پشت ڈال کر متحد ہوکر اسلام کے خلاف صف آرا ہیں اورپس پردہ یہ منصوبے بھیبناتی رہی ہیں کہ اسلام کے قلعے میں عقب سے نقب لگانے کے لئے گھر کے بھیدی اورمکان کے مکین سود مند ثابت ہوں گے اس لئے مسلمانوں ہی کے طبقہ سے بعض بے ضمیر افراد اغیارکی سازشوں کا شکار ہوکر اسلام کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں ،شاہ فیصلؒمرحوم کے قاتل ،جمال وکمال کے فرسودہ وژولیدہ افکار ،جنرل ضیاء کی موت ،شمالی اتحاد کے سیاہ کارنامے ،کردوں کے باغیانہ تیور،الفتح کے جانبازوں کی درندگیاں، دیریسین کا مقتل ،سقوط قرطبہ وغرناطہ ،افغانستان ،مصر،لبنان ،اردن،سوڈان اورفلسطین میں تباہ کاریاں،جعفروصادق کی ضمیرفروشیاں،مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے کشیدگیاں،افریقی ممالک میں اسلامی نسل کے خاتمے کی سازشیںاورمختلف اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی عیش پرستیاں روشن دل اورروشن فکر رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہیں اورآج اسلام کو حقیقی معنوں میں اپنوں ہی کی بے توجہی وغفلت سے نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بر صغیر میں باطل تحریکات کا زیادہ ہی زور ہے ،وجہ یہ ہے کہ اسلام کی اصلی تصویراورسچی شبیہ اگر کسی جگہ مل سکتی ہے تو وہ بر صغیر ہے(۱)باطل اَدیان ومذاہب نہیں چاہتے کہ اسلام اپنے صحیح خد وخال کے ساتھ اُبھر سکے ، اسی لئے ڈالرویورواورسنہرے سکوں کے لالچ دے کر مسلمانوں کی صفوں میں دراڑڈالنے کی مذموم کوششیں یہاں پہلے کی طرح اب بھی نسبۃًجاری ہیں ۔ ختم نبوت کا منکر کوئی بھی ہواورکہیں بھی ہو کافر ہے ،اس پر علماء امت کا اتفاق ہے لیکن محض یہ تصورکرلینا کہ ختم نبوت کے منکرین صرف قادیانی ہیں یہ غلط ہے ،موجود ہ دورمیں قادیانیوں کے علاوہ بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو منصوبہ بندی اورپوری رازداری کے ساتھ ختم نبوت کا منکر ہے چنانچہ کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیۃ ‘‘میں ہے ۔ ’’ہمارے مذہب کی ضروریات میں داخل ہے کہ کوئی فرشتہ اوررسول ہمارے بارہ اماموں کی عظمت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔‘‘ ( الحکومۃ الاسلامیۃ ص :۴۰) کتاب حکومت اسلامیہ میں ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ ’’تمام انبیاء بشمول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں عدل وانصاف کے اصولوں کی تعلیم دینے اور مساوات قائم کرنے میں ناکام رہے ۔ ‘‘ (تعمیرحیات لکھنؤ۱۰؍اگست ۱۹۸۰ء ) مذکورہ دونوں اقتباسات کے قائل شیعہ مذہب کے سرخیل خمینی صاحب ہیں اورذیل میں انہیں کے پیروکارملا باقرمجلسی کی ذہنیت ملاحظہ فرمائیں ۔ ’’جب بارہواں امام ظاہر ہوگا تو سرسے پاؤں تک ننگا ہوگا اوردنیا اس کے ہاتھ پر بیعت کرے گی سب سے پہلے جو شخص اس کے ہاتھ پر بیعت کرے گا وہ محمد رسول اللہ ہوں گے (معاذ اللہ )(حق الیقین ص :۲/۲۰۷) اسی طرح ایک اورشیعہ مصنف محمد بن مسعود عیاشی کے قلم سے یہ غلیظ عبارت نکلتی ہے ۔ ’’حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر وباطن میں تضاد تھا ‘‘ (تفسیر عیاشی ۲/۱۰۱)

ایک اور کتاب ’’حیات القلوب ‘‘کی یہ عبارت بھی پڑھتے چلیں ’’جس پیغمبر نے ولایت علی ؓ کے اقرار میں توقف کیا اسے اللہ نے عذاب میں مبتلا کردیا ‘‘ (حیات القلوب مترجم اردو ،۱/۵۶۸) شیعی مصنفین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ صرف ایک پیراگراف اتمام حجت کے لئے نقل کرتا ہوں۔ ’’پیغمبر حضرت علی ؓ کے درکے بھکاری ہیں ‘‘۔( خلعت تبرائیہ ،۱/۱۰۲) یہ چند مثالیں تو اسلام کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دینے والے ایک فرقہ کی ہیں لیکن اگرتحقیق کی جائے تو دیگر فرقوں میں بھی ختم نبوت کے منکرین اورسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر طعن وتشنیع کرنے والے مل جائیںگے جنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام کاماسک اوراپنی پیشانیوں پر ’’مسلمانی ‘‘کا لیبل لگارکھا ہوگا لیکن ا ن کے کردار وگفتار کی تضاد بیانیاں ،ضمیر کی بے حسی ،قلم کی بے بسی اورفکر ونظر کے جمود وتعطل سے صاحبان فکر ودانش حقائق کا ادراک کرسکتے ہیں ،عیاریوں اورمکاریوں کے نقاب اٹھاکر سیاہ کاریوں کے چہرے دیکھ سکتے ہیں اوربآسانی نفاق وریا کی قلعی کھل سکتی ہے ۔ مظاہر علوم سہارنپورجواسلام کا قدیم اورمستحکم قلعہ ہے ،دینی تعلیم کا عظیم مرکز اورسلوک وتصوف کا منبع وسرچشمہ ہے اس آسمان علم وفضل کے بادلوں نے گرجنے سے زیادہ برسنے کو ترجیح دی ہے ،خلوص وللہیت اور استغناء وبے نیازی ان کی گھٹی میں سمائی رہی ، انہوں نے نام سے زیادہ کام پر اپنی توجہات مرکوزکیں اورپوری دنیا ان کے اخلاص کی خوشبو سے معطر ومعنبرہوگئی ۔ سادگی وقناعت پسندی اوراستغنائی شان کو حرز جان بنانے کے ساتھ ساتھ تربیتی ،تعلیمی ،اخلاقی ،روحانی ، دعوتی ،تبلیغی اورہمہ جہت خدمات بھی انجام دیتے رہے ،باطل تحریکات کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں کیا اورجب کفروارتدادکی آندھیوں نے زورپکڑلیا ، نت نئی سازشوں نے خطرناک شکلیں اختیار کرلیں ،شدھی سنگھٹن اورآریہ سماج نے اپنی تحریک کے تمام دروازے وا کردئے اورمسلمانوں کی ایک بڑی جماعت ارتداد کی راہوں پر چل پڑی تو دعوتی کام میں تیزی پیدا کرنے کے لئے باقاعدہ انجمن ہدایت الرشید قائم فرمائی،چنانچہ مدرسہ کی سالانہ رودادبابت ۱۳۴۹ھ میں اس وقت کا اسلام دشمن ماحول،کفریہ سازشوں،ملحدانہ ومشرکانہ سرگرمیوں اورعیسائی وشدھی منصوبہ بندیوں کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے۔ ’’ناظرین کرام!دشمنان اسلام کی موجودہ سرگرمیوں نے مسلمانوں کی ایذارسانی میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا ہے،اگرایک طرف عیسائیت کا بڑھتاہواسیلاب اورشدھی وغیرہ کی فتنہ خیزآندھی ہے تودوسری طرف مرزائیت وشیعیت ودیگرباطل پرستوں کاشررانگیزسیلاب ہے،تمام مخالفین اسلام کھلم کھلاشب وروزاسی فکرمیں اپنی تمام قوت بے دریغ صرف کررہے ہیں کہ اسلام کوصرف ہندوستان سے نہیں بلکہ صفحۂ دنیاسے نیست ونابودکردیاجائے،چنانچہ اس کام کیلئے عیسائیوں کا عالم گیرمشن ہرشہرمیں قائم ہے،جس نے صدہامسلمانوں کواپنی زرپاشیوں کاسبزباغ دکھاکرآغوش اسلام سے نکال لیاہے،علیٰ ہذالقیاس آریوں بھارتیہ ہندوشدھی سبھاکاہیڈآفس دہلی میں قائم ہے،جس کی شاخیں تمام ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں،جن کا فرض منصبی یہی ہے کہ مسلمانوں کومرتدبناکراسلام کومٹادیاجائے۔ شدھی سماچاردہلی کے ماہ مئی ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں ۱۹۲۹ء کے مرتدین کی جوفہرست درج ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ شدھی سبھا دہلی اوراس کی دیگرشاخوں نے ۴۰۱۷مسلمانوں کومرتدبنایاہے،خداکرے کہ یہ غلط ہو۔اس سلسلہ میں شدھی سبھاکو۱۹۲۹ء میں جوآمدنی ہوئی وہ بائیس ہزارایک سوچون روپے آٹھ آنہ ہے،اگرچہ اس ہوش رباخبرکوسن کرہرمسلمان اپنی غیرت مذہبی سے بے چین نظرآئے گالیکن واقعات بتارہے ہیں کہ مسلمانوں کی عملی حا لت سے جموددورہونے کی امیدکم ہے ،بہرکیف اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی مذہبی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے حسب استطاعت آتشِ ارتداد کو فروکرنے میں اورمسلمانوں کے اخلاقی ومذہبی اصلاح میں مردانہ وار نکل کر علم جدو جہد بلند کرے اورتحریر وتقریر ودیگر وسائل سے ان فتنوں کا سر کچل دے اوراگر آ پ اپنی مجبوریوں سے ایسانہیں کرسکتے ہیں تو ایسی انجمنوں کی مالی امداد آپ پر فرض ہے جو بڑی تندہی سے تبلیغی خدمات کو انجام دے رہی ہیں ۔۔

جاری ہے دوسری قسط اگلی پوسٹ میں:
 
Top