ترجمانِسلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ مولانامحمدیوسف پٹیل

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ترجمان سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ
مفتی ناصرالدین مظاہری استاذمظاہرعلوم(وقف) سہارنپور
اِن انگلیوں نے اپنی مختصرسی عمر میں سیکڑوں اکابر…علماء اورصلحاء کے تذکار وتذکرے لکھے…بے مثال علمی ہستیوں کی بوقلم زندگیوں کے عکس ومناظرکانظارہ کرایا …اذکروامحاسن موتاکم پرعمل کرنے کی اللہ احکم الحاکمین نے باربارسعادت بخشی…لذتوں کوبدمزگی سے…قربتوں کوفرقتوں سے…مسرتوں کوغموں سے…آس کویاس سے …یافت کوزیاں سے…ہست کوبودسے… واہ کوآہ سے…آہ کوکراہ سے…کراہ کوآنکھوں سے …آنکھوں کوپلکوں سے…پلکوں کواشکوں سے… اشکوںکوتقاطرسے… تقاطرکوزمین سے …زمین کومٹی سے… اور…مٹی کوانسان سے جونسب اورنسبت ہے اس کوکون جھٹلاسکتاہے…اس سے کس کوراہ فرارمل سکتی ہے…کس کومجال انکارہوسکتاہے…کچھ نہیں:بس سچ صرف وہ ہے جو’’کلام الٰہی‘‘میں موجودہے …جس کاایک ایک حرف صدق وصداقت کاآئینہ دارہے…جس کاایک ایک پیام نویدجانفزاہے…جس کی ایک ایک آیت آیۂ رحمان ہے…جس کاایک ایک حکم …حکم لازوال ہے…جس نے کشتوں کے پشتوں کی تاریخ بیان کی…جس نے فراعنہ کی زندگیاں پیش کیں…جس نے عمالقہ وجرہم کے خوفناک قصے محض اس لئے سنائے تاکہ بے بصیرتوں کوعبرتوں کاسامان مل سکے۔ان ہذہ تذکرہ فمن شاء اتخذالیٰ ربہ سبیلا۔​
وفات العلماء:
پوراایک سال ہوچکاہےجب دارالعلوم دیوبندکے ناموراستاذحضرت مولانا نعمت اللہ ا عظمی کی زبان مبارک سے دوران درس یہ الفاظ نکل گئے:یہ سال علماء کی وفات کاسال ہوگا،حتیٰ کہ دارالعلوم بھی متاثرہوگا‘‘
بس پھرکیاتھا’’ان من عباداللہ من لواقسم علی اللہ لابرہ‘‘ ( بلاشبہ اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جواگرکسی چیزپرقسم لے لیں تواللہ تعالیٰ اس کوضرورپورافرمائے)تسبیح کے درمیان کادھاگہ اگرٹوٹ جائے توموتی کیسے گرتے ہیں ؟یہ منظرسبھی نے دیکھاہے، بالکل اسی طرح علماء کرام،صوفیاء عظام بالخصوص محدثین حضرات اس تیزی سے دنیاسے رخصت پذیرہوئے ہیں کہ بڑے بڑے مدارس کے خانہ ہائے حدیث پرویرانیوں کی حکمرانی ہوگئی،جیسے کسی بچہ کی موت پرماں کی گودسونی ہوجاتی ہے بالکل ویسے ہی روئے زمین اللہ والوںسے خالی ہوگئی ، حضرت مولاناسلیم اللہ خانؒ،حضرت مولاناعبدالحق اعظمیؒ،حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ،حضرت مولاناشیخ نسیم احمدغازی مظاہریؒ،حضرت مولانا شیخ احمدبدات،حضرت مولاناشیخ محمدیونس جونپوریؒ اوربہت سے اہم علماء کارخصت ہوجاناامت کاگویا’’یتیم‘‘ہوجاناہے۔
مجھے یادہے بیسویں صدی کے اواخرکی بات ہے بالکل یہی کیفیت تھی جب اسلاف واکابرایک ایک کرکے اتنی تیزی سے گئے تھے کہ پوروں پرگننامشکل ہوگیاتھا،چنانچہ عارفِ وقت حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ،حضرت مولاناانعام الحسن کاندھلویؒ،حضرت مولاناوحیدالزمان کیرانویؒ،حضرت مولاناسید اسعدمدنیؒ،حضرت مولاناقاضی اطہرمبارک پوریؒ،حضرت مولانا رشیدالدین حمیدیؒ وغیرہ بہت سی شخصیات نے رخت سفرباندھاتھا۔پھرفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے انتقال پرملال کے اریب قریب بھی یہی کیفیت پیداہوگئی تھی چنانچہ حضرت مولاناسیدانظرشاہ کشمیریؒ،حضرت مولانافضیل احمدقاسمیؒ،حضرت مولاناصفی اللہ خان جلال آبادیؒ،حضرت مولانامصطفی بھیسانویؒ،حضرفت مولاناسیدوقار علی بجنوریؒ،حضرت مولانامحمدحنیف مظاہریؒ،حضرت مولاناخورشیدعالم قاسمیؒ،حضرت مولاناابوبکرغازی پوریؒ،حضرت مولاناقاری امیرحسن مظاہری ہردوئیؒ،حضرت مولاناامیراحمدمظاہر ی للیانویؒ،حضرت مولانامحمداسلم مظاہریؒ،حضرت مولاناحکیم محمدعرفان الحسینی،حضرت مولاناخیرالرحمن احمدآبادیؒ،حضرت مولاناحامدعلی خان سیتاپوریؒ اوردیگربہت سے علماء نے مفارقت کاداغ دیاتھا۔
اب پھررفتنی کاایک ایساتسلسل چل پڑاہے کہ ہرنئے دن کے ساتھ ایک نئی خبر،ہرنئی صبح کوایک دل خراش newsسماعتوں سے ٹکراتی اوردلوں کوپاش پاش کرتی چلی جاتی ہے۔
مولانامحمدیوسف پٹیل :
شیخ الحدیث عالم جلیل محدث شہیرحضرت مولانامحمدیونس جون پوریؒکی رحلت سے نکلنے والے آنسوؤں کی نمی ابھی آنکھوں میں محسوس ہی ہورہی تھی کہ سلسلہ اویسیہ نقشبندیہ کے ترجمان ،مشہورعالم دین جناب مولانامحمدیوسف پٹیل بھی اچانک رحلت فرماگئے۔ ان للّٰہ مااخذولہ مااعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی فلتصرو لتحتسب ؎
بدنیاگرکسے پایندہ بودے
ابوالقاسم محمدزندہ بودے
ایک ہنستا،کھلکھلاتا،مسکراتا،بادنسیم کے ماننداٹھکیلیاں کرتا،خودبھی بادصبح گاہی کی طرح خوش وخرم اوردوسروں کے چہروں پربھی خوشیاں دیکھنے کی عادت،جہاں چلے جائیں سب پرچھاجائیں،بات کریں توپھول جھڑیں،مسکرائیں تومثل گلاب اورخاموش ہوں توسورج مکھی،ہونٹ ہلائیں توکتابوں،بزرگوں اورمثالوں کے انبارلگادیں خاموش ہوں تومن صمت نجیٰ کے پیکرمجسم بن جائیں،علماء کے درمیان ہوں تومتعلم بن جائیں،چھوٹوں کے درمیان ہوں تومعلم نظرآئیں،کسی بھی موضوع پرتقریر کافن، ہرسوال کاتسلی بخش جواب دینے کاہنر،غصہ میں آئیں توچہرہ مثل انار:
جاتارہاوہ ذوق بھراتھاجوقلب میں
غائب ہواوہ ذہن جوحاضردماغ تھا
حضرت مولانامحمد یوسف پٹیل ان ایام اوراوقات کوگزارکرمولائے حقیقی سے جاملےجووہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے لائے تھے اوروہاں چلے گئے جہاںانبیاء، اولیاء، اتقیاء، اصفیاء،صلحاء، صالحین، زاہدین، قانتین،خاشعین، ذاکرین، سالکین سبھی کوجانا ہے اورسبھی جارہے ہیں۔ اینماتکونوا یدرککم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ۔
کل نفس ذائقہ الموت ایک حقیقت اورکل من علیہافان ایک صداقت ہے،فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ایک اعلان اورومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ایک فیصلہ ہے ۔ارشادنبوی القبرروضۃ من ریاض الجنۃ ایک بشارت اوراوحفرۃ من حفرالنارایک مذکرہ …ایک الارم …ایک جرس کارواں… صد ائے مسلسل…اور…ایک کال بیل ہے۔
اِن اللہ والوں کی زندگیاں بھی قابل رشک اوران کی موتیں بھی قابل غبطہ… اللہ کی طرف سے آنے والے بلاوے پرلبیک وسعدیک کہتے نظرآئے توعین عالم سکرات میں اپنی زبان کوذکرالٰہی اورکلمۂ طیبہ سے ترکرنے میں مصروف…دوران درس وتقریر روانگی کی صدائے دلگدازسماعتوں سے ٹکرائی توسبق بند اور حضورِرب میں بصدشوق حاضر…کچھ وہ لوگ بھی ہیں جوفقہ وحدیث کی الجھی گتھیوں کوسلجھانے میں مصروف مگربلاوے کے لئے گوش برآواز…کچھ ایسے بھی ہیں جونمازکے لئے وضوتودنیامیں کیااورنمازقبرمیں …کچھ ایسے بھی نظرآئے جنہوں نے قیام تودنیامیں کیامگرسجودمیں سامان سفرباندھ لیا…کچھ وہ بھی ہیں جودنیامیں آفتاب بنکرچمکے… تومرنے کے بعدخوشبوبنکرمہکے…کچھ وہ بھی ہیں جن کادنیامیں مشغلہ تلاوت قرآن توقبرمیں بھی رضاء رحمان…کچھ وہ ہیں جنہوں نے جام شہادت نوش کیااورابدی وسرمدی زندگی پاکر خلدآبادکے مکین ہوگئے…کچھ وہ ہیں جن کے بارے میں خودخالق باری نے فرمایا:من المؤمنین رجال صدقواماعاہدوااللہ علیہ… پھران میں سے کچھ وہ ہیں جوفمنہم من قضی نحبہ کامصداق ہوئے اورکچھ وہ ہیں جوومنہم من ینتظرکااوراس پراللہ کااعلان باری ومابدلواتبدیلا۔
ہمیں فرمان نبوی العبرۃ بالخواتیم کومدنظررکھتے ہوئے اپنی اپنی قبروںکو روضۃ من ریاض الجنۃ بنانے کافکروخیال کرناچاہئے کیونکہ کوچ کا اعلان ہروقت ہورہاہے…گلستان حیات سے کب کس کاورق الٹ دیاجائے معلوم نہیں… خزانۂ الٰہی سے ہمیں جووقت ملاہے اس کوغنیمت جانیں… وقت اورسمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کوملتے ہیں کیونکہ اکثروقت پرسمجھ نہیں ہوتی اورسمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا…توبہ واستغفارکے لئے وقت کومؤخرنہ کریں… کیونکہ… وقت آنے پرتوبہ کی توفیق بھی چھن سکتی ہے۔
میں سلسلہ اویسیہ کاسالک نہیں ہوں پھربھی اِس سلسلہ کادل سے معترف ہوں کیونکہ میں نے اپنے استاذشیخ الادب حضرت اقدس مولانا اطہرحسین ؒکواس سلسلہ کی تعریف میں رطب اللسان دیکھاہے،اب جب میرے استاذمحترم ہی اس سلسلہ کی تعریف کررہے ہیں تومجھے نہ تومزیدکچھ فضائل جاننے کی ضرورت رہ جاتی ہے نہ ہی کسی شک اورابہام کی گنجائش۔
آنکھوں میں بس کے دل میں سماکرچلے گئے:
حضرت شیخ الادب مولانااطہرحسینؒنے ایک بارسلسلہ کے عظیم بزرگ حضرت مولانااللہ یارخانؒ (مؤلف :دلائل السلوک)کاتذکرہ کیااورپھر فرمایاکہ میراجی چاہتاہے کہ’’ میں مولاناکے پاس جاؤں اورپاس انفاس کروں‘‘یہ اُس وقت کی بات ہے جب راقم السطورکولفظ ’’انفاس‘‘سے بھی واقفیت نہ تھی سوچتاتھاکہ انفاس ،نفس کی جمع ہے توپھر’’پاس انفاس‘‘ کیاچیزہے؟شیخ الادب ؒنہایت بارعب شخصیت تھے، اُن سے اُس زمانہ میں سوال کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔(بعدمیں خودمولانانے ہی شفقت ومروت کاوہ معاملہ فرمایاکہ میں نے مظاہرعلوم کی چہاردیواری میں شایدسب سے زیادہ ان ہی سے اکتساب فیض کیاہے) پھردسیوں سال بعدایک دن دفترمظاہرعلوم میں سناگیاکہ سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کے ایک بڑے بزرگ حضرت احسن بیگ مدظلہ پاکستان سے تشریف لارہے ہیں، ہمارے اِس دیارمیں چونکہ نہ تو’’اللہ یارخان‘‘ جیسے ناموں کاچلن ہے ناہی ’’بیگ ‘‘ وغیرہ کےلاحقہ کامعمول، اس لئے اس لاحقہ پرتھوڑی دیرتک سوچتارہاکہ یہ کیاچیزہے؟ بہرحال پھریہ کہہ کراپنے آپ کوسکون دینے میں کامیاب ہوگیاکہ شایدکوئی برادری ہوگی۔
پھرحضرت احسن بیگ تشریف لائے توگویا’’آنکھوں میں بس کے دل میں سماکر چلے گئے‘‘کیاعجیب بزرگ ہیں،خوبصورت وجیہ، پرکشش، بارعب، ذکرخدا میں زبان ہروقت مصروف ،تسبیح پرانگلیاں ہمہ وقت رینگتی ہوئی، اللہ اللہ سے ان کی زبان ہمہ وقت ہلتی ہوئی، صاف محسوس ہوتاکہ بات کے درمیان بھی ذکرکررہے ہیں۔
دیکھناتقریرکی لذت کہ جواُس نے کہا:
مسجداولیاء (دفتروالی مسجد)میں بین العشائین حضرت احسن بیگ مدظلہ کاخطاب ہوناتھا،مجھے تعجب ہورہاتھاکہ اتنے سارے لوگ کشاں کشاں کیونکر بغیر کسی اعلان و اشتہار کے کہاں سے آتے جارہے ہیں اورپھرمغرب بعدمتصلاً حضرت والاکابیان ہوا،پوری مسجدانسانی ہجوم سے بھری ہوئی،سامعین پرایساسناٹا گویاپہلی بارکوئی نئی اورانہونی بات سن رہے ہیں ،مجمع پرایک کیف اورکیفیت طاری،بہتوں کی آنکھوں سے آنسوجاری ،ہرفردگوش برآواز،تقریرکیاتھی دل کھول کررکھ دیا،عجائبات کے پردے ہٹادئے گئے، غرائبات کے نقشے سامنے رکھدئے گئے،جوبات بھی ارشادفرمائی دل پراثراندازہوئی،تقریرکے بعددعاکرائی اورواللہ ! کیاعجیب وغریب دعاتھی،دل کھنچتا اورڈولتا محسوس ہورہاتھا۔
کشف یاکرامت:
مجھے رہ رہ کربچھتاوا بھی ہورہاتھاکہ کاش میں پروگرام سے پہلے حضرت احسن بیگ مدظلہ سے اپنے والدماجدنظام الدین مرحوم(متوفی۸؍جنوری ۲۰۱۲عیسوی ) کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کردیتاتوممکن ہے اللہ اپنے اس محب ومحبوب کی دعاقبول کرلیتااورمیرے والدماجدکابیڑہ پارلگ جاتا،ابھی میں اپنے دل میں یہ سوچ ہی رہاتھاکہ فوراًحضرت والاکی اگلی دعازبان مبارک سے نکلی:رب ارحمہماکماربیانی صغیرا‘‘یقین جانیے مجھے روناآگیاکہ یااللہ! یہ کیسے بزرگ ہیں ادھرمیں اپنے والدماجدکے لئے دعاکی درخواست نہ کرپانے کاملال کررہاہوں اورادھراللہ تعالیٰ حضرت والاکی زبان سے وہ کلمات جوخالص والدین کے لئے ہی خوداللہ پاک نے اپنے کلام میں ارشاد فرمائے اداکرادئے۔
دعاختم ہوئی تومیرے دل پراطمینان کی ایک مسرت آمیزخوشی تھی اوراللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات رحمت سے پرامیدبھی اللہ نے ضرورمیرے والدصاحب پرکرم کامعاملہ کیاہوگا،میں نے دعاکے بعداپنے دوست ،نوجوان عالم،سلسلۂ اویسیہ کے سالک اورحضرت احسن بیگ مدظلہ کے مسترشدمفتی محمدراشدندوی مظاہری سے یہ واقعہ بتایاتووہ بھی خوشی سے نہال ہوگئے ۔
میں نہیں کہہ سکتاکہ بیگ صاحب مدظلہ کے ’’بیگ‘‘ میں اورکیاکیاکرامات موجودہیں،کہنے کوتووہ اصطلاحی عالم نہیں لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ عالم جوسندیافتہ ہومگرکسی مصلح، مرشداوراللہ والے سے مربوط نہ ہوتواس کابہکنا، بھٹکنا،راہ راست سے ہٹ جانا،راندہ وآوارہ ہوجاناسب کچھ ممکن ہے لیکن جن کواہل اللہ کی صحبت مل جائے ،جنہیں ایک مضبوط آستانہ اورحِصنِ حَصِین میں جگہ مل جائے تواُن کے بہکنے کے امکانات نہایت کم ہوجاتے ہیں۔
احسن بیگ صاحب کے تمام مناظراَحسن ہیں :
اُن کوجن کی صحبت ملی وہ بڑوں کے تربیت یافتہ،عظیم نسبتوں کے حامل،عجیب حالات وکرامات رکھنے والے،زندہ دل،زندہ فکر،زندہ دماغ،علوم نبویہ وروحانیہ سے مالامال ،دین کے پیام بر،سلوک کے پیغام بر،اسلاف کی تعلیمات کے خوگر، روحانیات کے نامہ بر،توپھران کی صحبتوں کااثراحسن صاحب میں کیو نکرنہ آتا،آیااورجم کرآیا،چھایااورجم کرچھایا:؎
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہرمدعی کے واسطے دارورسن کہاں
مولانامحمدیوسف پٹیل بڑوں کے درمیان توچھوٹے تھے لیکن چھوٹوں کے درمیان بڑے تھے،اُن کاوجوداپنے آپ میں محمود،ان کی گفتگومسعود،اِسی مجمع میں اِدھرسے اُدھرچلتے پھرتے،ملتے ملاتے،ہنستے ہنساتے،بات کرتے،رکتے روکتے نظرآئے ،پہلی ملاقات،اجنبیت کااحساس،خودسلسلہ سے یک گونہ ناواقفیت،نئی شکل،نیالہجہ،اس ملاقات میں توصرف مصافحہ تک ہی بات محدودرہی لیکن پھرجب اگلاسفرہوا اوراس میں حضرت احسن بیگ تشریف نہیں لائے تومولانا محمدیوسف پٹیل آئے اوراپنے ہمراہ نورانی چہروں والی پوری جماعت لائے۔
شیخ منہاج :
چنانچہ شیخ منہاج بھی آئے جوعصری علوم کے ماہراورروحانی سلسلہ کے غواص ہیں اوربلاشبہ اس آیت کریمہ کامصداق ہیں وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًاوَّاِذَاخَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْاسَلٰمًا وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدً ا وَّقِیَامًا (الفرقان رکوع ۶)اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور جو راتیں سجدوں او رقیام میں گزارتے ہیں ۔
شیخ نجم الحسن صدیقی:
اس جماعت میں شیخ نجم الحسن صدیقی بھی تھے جوسچے تاجر،امانت دار،مخلص، صاحب دولت وثروت ہونے کے باوجوداللہ کے لئے دردرکی خاک چھاننے اورگھرگھرتک سلسلہ کی آوازپہنچانے میں مست ومگن نظرآتے ہیںجوصحیح معنوں میں اللہ نے چاہاتو التاجرالصدوق مع النبیین والصدیقین والشہدا میں محشورہوں گے۔
شیخ عمرحیات مدظلہ:
میری عقیدتوں کامحورجناب شیخ عمرحیات بھی تھے جن کی عمرحیات کے آخری پڑاؤاورآخری منزل پرہے پھربھی تازہ دم،حوصلہ مند،فکرمند،عزم وعزیمت کاکوہ ہمالہ،خاکساری وفروتنی کانمونہ ،میراجی چاہتاکہ میں ان کوٹکٹکی باندھ کردیکھتا رہوں،وہ ہاتھ دیں اورمیں ان ہاتھوں کواپنی آنکھوں سے ملوں وہ بولیں اورمیں قرطاس وقلم کوحرکت دوں مگرکیاعجیب شخص ہیں بہت کم بات کرتے ہیں، جب بات کرتے ہیں توصرف اللہ ورسول کی باتیں بتاتے ہیں،میں نے توکوئی دنیوی گفتگوان کی زبانی سنی نہیں اورجب تک ان کودیکھااللہ کی یادآتی رہی گویاوہ اذارؤاذکر اللہ کامصداق ہیں کہ جب ان کے چہروں پر نگاہ پڑے تو خد اتعالیٰ یاد آئے ، ظاہرہے خد اکی یاد اس لئے آتی ہے کہ اللہ والے ہر وقت اورہمہ وقت ذکراللہ میں مشغول رہتے ہیں ،اللہ والوں کی یہ صفت خودباری تعالیٰ نے یوں ارشادفرمائی ہے:یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیَامًاوَّقُعُوْدًاوَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ خدا تعالیٰ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے کرتے رہتے ہیں اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ۔
کسی شاعرنے ایسی ہی جماعت اورجمعیۃ کے لئے کہاتھا ؎
خدا یاد آئے جن کودیکھ کروہ نورکے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل سبحانی
کام پرتوجہ دو:
مجھے یادآیاددیوبندمیں ایک صاحب اِن حضرات کولے کرگئے اورخوشی خوشی اپنی خدمات اورکارگزاری جواس سلسلہ میں انھوں نے انجام دی اس کاذکر کیا اورخاص طورپرایک بینرکی طرف توجہ مبذول کرائی ،حضرت اقدس عمرحیات مدظلہ نے خفگی کااظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ ’’بینرشینرچھوڑواورصرف کام پرتوجہ دو‘‘ ظاہرہے کہ ان خدارسیدبرگزیدہ نفوس کوبینروں سے کیاواسطہ،جاہ وشہرت سے کیاعلاقہ،ریاوسمعہ سے کیامناسبت،دکھاواسے کیامطلب یہاں توہرچیزمیں اخفا ہی اخفاہے حتی کہ ذکرکے تمام لطائف اورتمام طریقے زبان سے اداکرنے کی بجائے سانس سے کرائے جاتے ہیں کیونکہ زبان سے ذکراگرکیاجائے توقریب والوں کوپتہ چل جائے گالیکن اگرصرف دل اورسانس سےذکرکیاجائے توکسی کوبھی معلوم نہ ہوسکے گاہاں جس ذات والاصفات کے لئے یہ ساری محنت کی جارہی ہے اسے ایک ایک حرکت اورسکون کاپتہ ہے۔نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔
انجمن فرشتوں کی:
ذراغورکریں یہ فرشتہ صفت نورانی چہرے،جن کی زبانیں ذکرالہٰی میں مصروف،جن کی صبحیں الااللہ کی ضربوں سے شروع،جن کی شامیں اللہ اللہ سے ہری،جن کی سماعتیں آہ سحرگاہی سے تازہ ،جن کی نظریں منبرومحراب سے تابندہ، جن کے قلوب پاس انفاس سے زندہ، جن کے بال پراگندہ،جن کاحال مجنونانہ،جن کاقال عاشقانہ توپھراِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَاعِبَادُاللہ یُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِیْرًا (الدہر)کامصداق یہ نہ ہوں گے توکون ہوگا؟
بلاشبہ اولیاء اللہ قیامت کے دن ایسے پیالوں سے پیٔں گے جن میں کافور ملاہوا ہوگا کافور کا بہشت میں ایک چشمہ ہے جس سے بہشتی پئیں گے اورخوب نہائیں گے۔
وَدَانِیَۃًعَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَاوَذُلِّلَتْ قُطُوْفُہَاتَذْلِیْلًا وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍمِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَا قَوَارِیرْامِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَاتَقْدِیْرًا(پ۲۹)
اور ان پر بہشتی درختوں کے سائے جھکے ہوں گے اور ان پر جو برتن پھیرے جائیں گے وہ چاندی کے ہوں گے جن کو خدام جنت نے ٹھیک اندازے کے مطابق بنالیا ہوگا ۔فَوَقٰہُمُ اللہ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا وَجَزٰہُمْ بِمَاصَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا مُّتَّکِئِیْنَ فِیْہَاعَلَی الْاَرَآءِکَ لاَ یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًاوَّلَازَمْہَرِیْرًا(پ۲۹)
پس اولیاء اللہ نے قیامت کے دن جہنم کے شر سے بچالیا اور ان کو تروتازگی اور خوشی دیدی ان کوان کے صبر کی جزامیں جنت ملی ہے اور ریشم والی پوشاک وہاں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھیں گے نہ اس میں سورج دیکھیں گے اور نہ سردی ۔گویا أعِدت لِعِبَاديَ الصَّالحين فِيهَا مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ۔جنت میںجنتیوں کے لئے جونعمتیں تیارکی گئی ہیں ان کونہ کسی آنکھ نے دیکھانہ کسی کان نے سنانہ ہی کسی کے دل میں ان نعمتوں کاخیال گزراہوگاحتی کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا من يدخل الجنة ينعم لا يبأس لا تبلى ثيابه ولا يفنى شبابه۔
نہ توکوئی رنج وغم ،نہ فکروہم،نہ ملال ،نہ ختم ہونے والی نعمتیں،لمبے لمبے سائے، خوشبودارخوش ذائقہ پھل اورفروٹ،میوہ جات،نہ ان کے کپڑے میلے ہوں گے نہ ہی ان کی جوانی ڈھلے گی۔
بہرحال:ذاکرین وشاغلین کی پوری جماعت آئی،نورانی چہرے،پیشانیوں پرنشان سجدہ،آوازمیں پستی،اندازمیں خلو،طبیعت میں انکساری،لہجہ میں سادگی، گویانورونکہت میں ڈوبی ایک ایسی نورانی جماعت تھی جن کودیکھ کرخدایاد آجائے ۔
کچھ اشکالات اورجوابات
اس سفرمیں مولاناسے تعارف ہوااورخوب ہوا،سینہ سے لگالیا،دیرتک ہاتھ تھامے رہے،کچھ علمی اورکچھ غیرعلمی بات کرتے رہے،ذکرکی مجلس میں شرکت اورساتھ میں کھاناکھانے کی دعوت دی اورپھرحجابات ختم ہوئے،تکلفات کابسترسمیٹ کررکھ دیا، بالکل دوستوں کی طرح ملے،بہت سے سوالات کئے ،سنجیدگی کے ساتھ جوابات دئے چنانچہ میں نے پوچھ لیاکہ مولاناتصرف کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟سوال سنناتھاکہ مولاناٹیپ ریکارڈرکے مانندشروع ہوگئے چونکہ مولانااحمدیوشع سعیدی مظاہری نے تعارف میں میرے بارے میں مبالغہ آرائی کردی تھی اورکہہ دیاتھاکہ انھیں مظاہرعلوم کی تاریخ معلوم ہے تومولانانے یہیں کے ایک بزرگ حضرت مولانا خلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ کاواقعہ سنایا۔
حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒتصرف:
میرٹھ کے ایک عالم پر یہ کیفیت طاری ہوئی کہ خودکشی کو جی چاہتا ہے،چاقو اٹھاتے، کنواں میںجھانکتے کہ بس کسی طرح مرجاؤں، ذکرسے بھی طبیعت اچاٹ ہو گئی، انہوں نے حضرت مولانا خلیل احمد ؒ سہارنپوریؒکو خط لکھا،حضرت نے جواب دیا کہ آپ نے مجھے اس کام کا اہل کیوں کرسمجھا؟ بہت پریشان ہوئے تو میرٹھ سے دیوبند آئے، دیوبند سے سہارنپور اور سہارنپور سے تھانہ بھون جانے کا ارادہ کیا ،مولانا تھانوی کے پاس، مگر تھانہ بھون جانے والی گاڑی نہیں ملی،چھوٹ گئی، اس لئے مجبوراً مدرسہ مظاہرعلوم آئے ،حضرت سہارنپوری نے سینہ سے لگایااپنے پاس بٹھایابات چیت کی پھرفرمایاتعجب ہےتم نے ایسا کیوں لکھا بھلا میں اس کا اہل کہاں، انہوں نے ذرا ہمت سے کام لیااور کہا کہ حضرت اگر کوئی کہے کہ آپ اس کے اہل نہیں تو اعتراض تو حضرت گنگوہی پر ہوگا کہ انہوں نے نا اہل کو خلیفہ بنایا،آپ کو جس در سے سب کچھ ملا ہےمیں نے بھی وہیں پرورش پائی ہے میں مستحق رحم ہوں میرے حال پر رحم کیجئےتو فرمایا اچھا، اس کے بعد ذکر بتلایا، تیرہ تسبیح میں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ اور فرمایا کہ اخیر شب میں تہجد کےوقت یہ ذکر اتنے زور سے کرنا کہ مجھ تک اس کی آواز پہنچے، مدرسہ کے قریب مولانا کا مکان تھا،انہوں نے کہا چھوڑدیجئے مجھ سے نہیں ہوگا یہ ذکر ، مولانا سہارنپوری نے فرمایا گھبراؤ نہیں ۔
رات کے اخیرحصہ میں انہوں نے ذکر کیا پھر صبح نماز کےبعد حجرہ میں چلےگئے اور ان سے کہہ دیا کہ یہاں دروازہ کےقریب بیٹھ جاؤ آنکھیں بند کرکے؛ چنانچہ وہ بیٹھ گئے وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا اندر بیٹھے ہوئے کیا کررہے تھے،جس سے مجھے اپنا قلب زخمی محسوس ہورہا تھا اور اس میں پیپ بھری ہوئی ہے اور حضرت دبادبا کر وہ پیپ نکال رہے ہیں میں کبھی کبھی چونک پڑتا دیکھتا کہ حضرت تو یہاں نہیں ہیں وہ تو اندر ہیں، اشراق کی نماز پڑھ کر حجرہ سے باہر نکلے اور مسکرا کر فرمایا کیا حال ہے؟انہوں نے عرض کیا الحمدللہ ٹھیک ہے۔
اشراق کے بعد میں نے حضرت سے عرض کیا کہ میں تھانہ بھون جاناچاہتاہوں، فرمایا: کہ ضرور ہو آؤ لیکن واپسی میں ایک روز یہاں کے لئے اور رکھنا کیونکہ ابھی کورس مکمل نہیں ہواہے،خامی رہ گئی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا خامی رہ گئی ہے خیر میں تھانہ بھون گیا اور اگلے روز واپس آگیا اور بجائے ایک دن کے دودن حضرت کے پاس سہارنپور ٹھہرا ،اب محسوس ہوتا تھا کہ قلب میں کوئی چیز بھری جارہی ہے جس سے طاقت پیدا ہورہی ہے گویا پہلی حاضری میں قلب کوصاف کیا گندگیوں سے اور دوسری حاضری میں قوت بھری روشنی بھری اس کے بعد فرمایا اب اطمینان ہے جاؤ۔
اس قسم کے بہت سے سوالات وقتاًفوقتاًکرتااورمولاناسادگی کے ساتھ جواب دیتے ،پیام کے ان صفحات کی تنگی کے باوجود لگے ہاتھوں ایک سوال اوراس کاجواب اورلکھتاچلوں:
لطائف کی حقیقت:
سوال:لطائف کی کیاحقیقت ہے؟
جواب: انسان کے جسم میں ایک جگہ ہے جس کو’’محلِ نور‘‘یعنی لطیفہ کہتے ہیں ، اسی کو نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں یہ ایک جوہر ہے جو مادہ سے خالی ہوتا ہے اس کا نام قرآن میں بھی ہے (إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ ۔
ایک موقع پرمولاناکے ساتھ شہرمیں حاجی انورصاحب کے مکان پردعوت کےلئے جارہاتھاگاڑی میں مجھے مولاناکی رفاقت نصیب ہوگئی تومیں نے پوچھاکہ لطائف کی کتنی اقسام ہیں فرمایا:
اہل تصوف کے یہاں لطائف کی الگ الگ تعدادرہی ہے ہمارے حضرت (حضرت اقدس اللہ یارخانؒ)نے اپنی کتاب میں تمام اقوال تفصیل کے ساتھ ذکرکئے ہیں اوراخیرمیں فرمایاہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ لطائف کی کل تعدادپانچ ہے اورہرلطیفہ کااثر،رنگ اورمقام الگ الگ ہے چنانچہ قلب کافعل ذکرہے،روح کاحضور،سری کامکاشفہ،خفی کاشہود،فناکامعائینہ پھرحضرت نے مزیدلکھاہے کہ یہ تعدادبھی محض اوصاف کی وجہ سے ہے ورنہ اصل اورحقیقی لطیفہ توقلب ہے۔
انتقال سے چندماہ قبل بھی بغرض انعقادِمجالس سہارنپورتشریف لائے یہاں عموماًان کے میزبان مولانااحمدیوشع سعیدی ہی ہوتے لیکن چونکہ مولانااحمدیوشع سعیدی کویہاں کاذمہ داربنایاگیاہے اس لئے عام طورپرمجالس کی ترتیب،قیام کانظم اوردیگرانتظامات مولانااپنے رفقائے ذکرسے بعدمشورہ طے کرتے ،بہرحال مولاناتشریف لائے اورمولانااحمدیوشع کے سامنے والامکان مستعارلیکرمجالس ذکر منعقدکی گئیں اورمولاناپورے شرح وانبساط کے ساتھ روزانہ بعدنمازمغرب تاعشابیان اوراجتماعی ذکرفرماتے۔ کاش کہ مولاناکے بیانات کتابی شکل میں شائع ہوجائیںتوایک طرف توسلسلہ کی بہترین ترجمانی کابہترین مجموعہ لوگوں کے ہاتھ لگے گادوسری طرف حضرت مولاناکاوہ فیض جواُن کی حیات میں جاری ہواتھاوہ مرنے کے بعدبھی جاری رہے گا۔
علماء کی موت توبہرحال علم اوردین کانقصان ہے مگرمولانامحمدیوسف پٹیل کاجانا بوجوہ نہایت اہمیت کاحامل ہے ۔مثلاً
(۱)حضرت مولانامحمدیوسف پٹیل ؒاصلاًگجراتی تھے اورپوری دنیابالخصوص یورپی اورافریقی ملکوں میں گجرات اوراہل گجرات کی گہری چھاپ ہے،یعنی مولانا دین کے ساتھ بقدرضرورت دنیابھی رکھتے تھے گویاآپ ’’ربناآتنافی الدنیاحسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘کاعملی مصداق تھے اوران شاء اللہ اس آیت کے اگلے جزء ’’ وقناعذاب النار‘‘کابھی مصداق ہوںگے۔
(۲)حضرت مولانامحمدیوسف پٹیل ؒاس سلسلہ کے ترجمان اورلسان تھے جس سلسلہ کواب بڑی تیزی کے ساتھ لوگ جاننے لگے تھے،لوگوں کارجوع اب صحیح معنوں میں شروع ہواتھا۔
(۳)مولانامحمدیوسف پٹیل ؒچونکہ عالم دین تھے اورایک عالم کسی بھی علمی میدان میں اشکالات کے جومسکت جوابات دے سکتاہے وہ غیرعالم نہیں دے سکتا۔
(۴)برصغیرایشیاء وغیرہ توعلم اورعلمائے دین کے مراکزہیں یہاں چپہ چپہ پرعلماء دین ،مدارس دینیہ اورمراکزروحانیہ موجودہیں لیکن یورپی ملکوں میں ایسانہیں ہے اس لئے جہاں روشنی کی کمی ہو،ایک ہی چراغ ہواوروہی بجھ جائے یہ اس سے کہیں زیادہ بڑانقصان ہے جہاں چراغ ہی چراغ ہوں وہاں ایک آدھ چراغوں کے بجھنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتاگویامولانااس شعرکامصداق تھے۔
چراغ لاکھ ہیں لیکن کسی کے اٹھتے ہی
برائے نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی
مولانامحمدیوسف پٹیل ؒاردو،گجراتی کے ساتھ عربی کے ساتھ انگریزی بھی بہترین جانتے تھے اس لئے وہ انگریزوں کے درمیان جس خوش اسلوبی کے ساتھ دین کاپیغام اوراسلام کی خوبیاں بیان کرسکتے تھے غیرانگریزی والانہیں۔
بہرحال مولاناہمیشہ ہمیش کے لئے ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے اوراپنی بے مثال قربانیاں،بے لوث محبتیں،اہل اللہ سے سچاعشق،سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کابہترین تعارف اورانسانی بنیادوں پرپیام اخوت ومحبت نیزلائق فائق اولادچھوڑگئے ہیں۔اذامات ابن آدم انقطع عملہ الامن ثلاث :صدقۃ جاریۃ اوعلم ینتفع بہ،اوولدصالح یدعوالہ۔
چنانچہ حضرت مولانامحمدیوسف پٹیل علیہ الرحمہ ان تینوں باتوں کابہترین مصداق ہیں مثلاً
(۱)صدقۃ جاریۃ :
علماء نے صدقہ جاریہ کے ذیل میں کئی چیزیں لکھی ہیں جیسے:وقف مسجد یصلی فیہ(کوئی ایسی مسجدجس میں نمازپڑھی جائے)اوعمارۃ توجر ویتصدق باجرتہا(یاکوئی ایسی عمارت جوباعث اجروثواب ہومثلاً مسافرخانے یتیم خانے وغیرہ)اوارض زراعیۃ یتصدق بمایحصل منہا (یالائق کاشت اراضی جس کی آمدنی خیرکے کاموں میں صرف ہو)اومااشبہ ذلک (وغیرہ)فہذۃ صدقۃ جاریۃ یجری علیہ اجرہابعدوفاتہ(تویہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جس کاثواب مرنے کے بعدبھی جاری رہتاہے)
مولانامحمدیوسف پٹیل ؒنے اگرچہ کوئی عمارت یامسافرخانہ نہیں بنوایالیکن کنیڈامیں آپ جس مسجدمیں نمازپڑھارہے تھے وہ مسجداوراس کے علاوہ مختلف مساجدآپ کے توسط سے تعمیرہوئیں اورالحمدللہ وہاں پنجوقتہ نمازیں پڑھی جارہی ہیں۔اسی طرح سلسلہ کے فروغ اورلوگوں کی آسانی کے لئے مخلتف جگہوں پرمراکزسینٹرکاقیام اوراس میں عملاًآپ کی حصہ داری ۔
(۲)اوعلم ینتفع بہ:
اماکتب الفہا،وانتفع بھاالناس(کوئی ایسی کتاب تالیف کی ہوجس سے لوگ فائدہ اٹھاسکیں)اواشتراہاووقفہاوانتفع بھاالناس من کتب الاسلامیۃ النافعۃ (یاکوئی ایسی مفیدکتاب خریدکرعام مسلمانوں کے لئے وقف کی ہو)اونشرہ بین الناس وانتفع بہ المسلمون وتعلموامنہ (یالوگوں کے درمیان اس کی اشاعت کی ہواورلوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایاہوا)فہذاعلم ینفعہ (تویہ ایک ایساعلم ہے جس سے نفع ہواہے )
اس باب میں بھی مولاناماشاء اللہ موفق من اللہ تھے انہوں نے بہت سے علمی کام کئے،اپنے پیرومرشدحضرت احسن بیگ کی تعلیمات کوعام کیا،تقاریرکے ذریعہ گھرگھراوردردردین کی دعوت پہنچائی،سلسلہ کے کتابچوں اورپمفلٹوں کی اصلاح اورمناسب مشورے دئے۔
(۳)الولدالصالح :
الذی یدعوالہ تنفعہ دعوۃ ولدہ الصالح (یاایسی نیک اولادجواس کے لئے دعاء خیرکرے )
مولانانے ماشاء اللہ ہونہار،دیندار،علم دین سے مرصع اوردین وایمان سے مزین نیک وصالح مذکراورمونث اولادبھی چھوڑی جن ان شاء اللہ ہمیشہ اپنے والدماجدکے لئے ایصال ثواب اوردعاء خیرکرتی رہے گی۔
وہ جوبات بھی کہتے تھے نپی تلی کہتے تھے،بسااوقات مزاح اورمذاق کے موڈمیں لطیف پیرائے اورحکمت کے اسلوب میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے کہ جی چاہتاکہ ایک باراورکہدیں۔
ایک صاحب نے سوال کیاکہ حضرت یہ قبرکے بیان میں دوفرشتوں کانام آتاہے ایک کانام منکراوردوسرے کانام نکیر،آپ یہ بتائیں کہ دونوں فرشتے بیک وقت پوری دنیامیں مرنے والوں سے کیونکرسوال وجواب کرسکتے ہیں؟مولانانے برجستہ فرمایاکہ یہ تم سے کس نے کہہ دیاکہ اس نام کے صرف دوفرشتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ملک میں کوئی جرم کرتاہے اورپولیس والے آتے ہیں پکڑکرلے جاتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ پولیس لے گئی حالانکہ پولیس کسی کاخاص طورپرنام نہیں عام نام ہے جس میں پوراشعبہ شامل ہے۔اسی طرح منکرنکیرکاحال ہے ،جہاں جہاں قبرمیں سوال وجواب کی بات آئے توسمجھ لوگ کہ اسی شعبہ کے تحت سوالات ہوئے ہیں۔
اسی طرح کراماًکاتبین کے بارے میں بھی معاملہ ہے ،دونوں کی الگ الگ ذمہ داری ہے ،چنانچہ دن کے فرشتوں کی ڈیوٹی شام کوسورج غروب ہونے کے وقت بدل جاتی ہے،رات والے آجاتے ہیں دن والے چلے جاتے ہیں ،بہرحال وہ نہ توزاہدخشک تھے نہ تنک مزاج مولوی،وہ لاضررولاضرارپرکاربند،لایخدع ولایخدع پرعمل عمل پیرا،سیرت نبوی پرکمربستہ اوراسوۂ رسول کے گرفتہ، تخلقوا باخلاق اللہ کے اصول کواپنائے ہوئے،اپنے علوم ومعارف اورروحانیت کواپنی بذلہ سنجی،خوش طبعی،خوش دلی،خوش خلقی،خندہ روئی میں چھپائے رہتے تھے۔
خوب یادہے ایک دن مہمانخانہ مدرسہ مظاہرعلوم(وقف)سے اس حال میں نکلے کہ ایک ہاتھ میں کوئی کتاب تھی اوردوسرے ہاتھ میں لاؤڈاسپیکر،راستہ میں میری ملاقات ہوگئی ،آگے بڑھ سامان لیناچاہاتوکہنے لگے کہ’’ نہیں جی آپ مفتی جی ہیں اورمیں مولوی جی‘‘میںنے پھرپوچھاکہ یہ سامان کہاں لے جارہے ہیں؟فرمایا’’مولانایوشع جی کے مکان پرآج ابھی خواتین کے درمیان تقریرہے ان کی نشست گاہ میں بیٹھ کرتقریرکرنی ہے میں نے عرض کیاکہ وہاں تومیں بھی چل سکتاہوں فرمایابالکل،چنانچہ وہاں پہن کرمولانانے تقریرشروع فرمادی،اندرپردہ کی اوٹ میں خواتین تقریرسماعت کرتی رہیں ۔
تقریرکے بعدوہیں بیٹھے رہے پانی پینے کے درمیان مولانانے عجیب نکتہ کی بات بتائی کہ متحدرہنے کاطریقہ ہرچیزسے سیکھاجاسکتاہے مثلاًپانی الگ الگ قطرہ قطرہ برستاہے مگرزمین پرپہنچتے ہی ایک ہونے لگتاہے اورنتیجہ نالوں،دریاؤں اورسمندروں کی شکل میں ہمارے سامنے ہےپھرفرمایاکہ بلندی اور عظمت کا درس اورسبق لینا چاہو تو پہاڑوں کی بلند وبالا چوٹیوں سے لواورخودتکلیف میں رہ کردوسروں کوفائدہ پہنچانے کامزاج دیکھناچاہوتوسرسبز درختوں سے سیکھو کہ کس طرح دھوپ میں مل جل کر دوسروں کو سایہ دیتے ہیں۔
کنیڈاکی شہریت:
عجیب خوبیوں کے مالک تھے ،اسراروحکم کی وافرمعلومات رکھتے تھے، ہندوستان کے صوبہ گجرات میں پیداہوئے،وہیں کے بعض مدارس میں تعلیم کی تکمیل ہوئی،کچھ دن ہندوستان میں ہی رہے پھرنقل مکانی اختیارکرکے امریکہ،افریقہ وغیرہ کئی ملکوں میں دینی تعلیم کاموقع ملا،اخیرمیں کناڈامیں شہریت اختیارکرلی اوروہیں مکی مسجدمیں تقریباًبیس سال تک امام وخطیب رہے۔
کچھ کنیڈاکے بارے میں
کنیڈا کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہونے کے باوجود وہاں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے اور ایسا لگتاہے کہ اس خطے میں بہت تاخیر سے اسلام پہنچا ہے ،1871 کی مردم شماری میں وہاں صرف 13یورپی النسل مسلمان پائے گئے تھے،1901 اعداد و شمارکے مطابق 300 سے 400 مسلمان کنیڈا میں آباد تھے جو عرب اور تارکین تھے،مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر کنیڈا کی نئی حکومت نے تارکین کی آمد پر پابندی لگا دی جس سے سال 1911 سے 1915 تک کنیڈا میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو گئی ،1951 میں مسلمانوں کی تعداد 1800 تھی جبکہ 1971 میں یہ 5800 تک پہنچ گئی اس کے بعد 1981 کے اندازے کے مطابق ملک98000 مسلمان ہو چکے تھے۔1991میں ملک میں253265تک پہنچ گئی۔ 2001 میں کینیڈا 579000 مسلمان تھے ،2006کے تخمینہ آبادی میں یہ تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہوچکی ہے ،ان دنوں مسلمانوں وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں،انٹاریواور کیوبک جیسے صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔1934 میں سب سے پہلے وہاں ایک مسلم تنظیم قائی ہوئی تھی ، 1938 میں کناڈا میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی اور 1983 میں سرزمین بہار سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد مظہر عالم نے وہاں الراشد اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے نام سے پہلا مدرسہ قائم کیا جس کا اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور صحیح افکار کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ہے ۔
کنیڈاکے لوگ رحم دل،منصف مزاج،حقیقت پسندواقع ہوئے ہیں،انھیں تعصب سے نفرت ہے،حقائق کوتسلیم کرتے ہیںچنانچہ آج دس لاکھ سے زائدمسلمانوں کاوہاں پرہونااس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں نے شعور، بیدارمغزی اوراسوۂ نبوی کواختیار کرکے اپنی جگہ بنائی ہے۔ مولانامحمد یوسف پٹیل فرمایاکرتے تھے کہ ہم لوگ اتوارکے دن جب چرچ میں جگہ کم پڑجاتی ہے تواپنی مساجدکھول دیتے ہیں اسی طرح جمعہ کے دن جب مساجدتنگ محسوس ہوتی ہیں توعیسائی اپنے چرچ کھول دیتے ہیں۔
کنیڈامیں اسلام اورمسلمان :
میں نے ایک دن پوچھ لیاکہ حضرت آپ ایک عیسائی ملک میں رہتے ہیں وہاں تواسلام اورمسلمان نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہوں گے؟فرمایا ایسانہیں ہے بلکہ وہاں کے مسلمان آپ کے ہندوستان سے زیادہ محفوظ اورمامون ہیں،عیسائی حکومت ضرورہے لیکن احترام مذاہب ان کے یہاں بھی بہت پایاجاتاہے پھرہم لوگ ان کے رسم ورواج میں کبھی حائل نہیں ہوتے اورمائل بھی نہیں ہوتے۔عیسائیوں کے لئے اتوارکادن بالکل ایساہی ہے جیسے اپنے مذہب میں جمعہ کادن،اس لئے اتوارکوان کے چرچ میں بھیڑبہت ہوجاتی ہے،ایسے مواقع پرہم لوگ اپنی مساجدکے گیرج اورصحن کاحصہ ان کے لئے کھول دیتے ہیں تاکہ انھیں دقت نہ ہولیکن جب جمعہ کا دن آتاہے تووہ بھی اپنے چرچ کھول دیتے ہیں کیونکہ جمعہ کے دن عموماًنمازیوں کی تعدادمیں معتدبہ اضافہ ہوجاتاہے۔
مولانانے یہ بھی بتایاکہ کناڈامیں ہردس منٹ کے فاصلے پرایک مصلیٰ (یعنی نمازپڑھنے کے لئے مخصوص جگہ)واقع ہے،ہرمسجدیاچرچ کے لئے ضروری ہے کہ گاڑیوں کے کھڑی کرنے کے لئے گیرج کانظم ہو،بلکہ جب تک گیرج کانظم نہ ہوتوعبادت خانہ بنانے کی منظوری نہیں ملتی۔
تالیف قلب :
اسلام میں تالیف قلب کی تعلیم دی گئی ہے تالیف قلب کہتے ہیں غیروں کواسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے ان کاتعاون کرنے کو۔مولانانے بتایاکہ ہم لوگ رفاہی کام بھی خوب کرتے ہیں بلکہ اگران کے گیرج وغیرہ میں تعمیری کام کی ضرورت ہوتی ہے توہم لوگ اپنے روپوں سے ان کایہ کام کرادیتے ہیں جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ بھی انسانی بنیادوں پرہماراساتھ دیتے ہیں،آسانیاں فراہم کرانے کی کوشش کرتے ہیں،دین کے معاملہ میں حارج چیزوں کوسنجیدگی کے ساتھ ہٹانے میں اپنامخلصانہ تعاون پیش کرتے ہیں اوراس طرح دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں پھرایسابھی ہوتاہے کہ اسلام کی صاف وشفاف تعلیمات سے انھیں واقف کرایاجاتاہے توبغورسنتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے مغربی میڈیاجواسلام پیش کرتاہے وہ نہایت منفی ہوتاہے جب کہ اسلام کی تمام ترتعلیمات نہایت مثبت ہیں۔
اگرہم دعوت اسلام کے پیش نظراُن طریقوں کواختیارکرلیں جن طریقوں کوہمارے نبی نے اختیارکیاہے اورغیرمسلموں کے ساتھ وہ معاملہ کرنے لگیں جوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے توحیرت انگیزتبدلیاں محسوس ہوں گی،فتنوں کاگراف کم ہوگا،غلط فمہیاں دورہوں گی،اعتمادکی فضاہمواراوربدظنی کی دیوارمسمارہوگی،شیطان کومنہ کی کھانی ہوگی اوراسلام کا’’سیل روں‘‘ ’’حسن اخلاق‘‘کے سیلاب بلاخیزمیں خش وخاشاک کے مانندکفروشرک کوبہالے جائے گابس شرط ہے ان اعمال اورافعال کوعملاًاختیارکرنے کی ۔
آج مسلمانوں میں تعلیم کی کمی ہے نہ تمدن کی،علمائے کرام کی قلت ہے نہ وسائل معاش اورذرائع تجارت کی ،اگرکمی ہے تووہ ہے اخلاص اوراخلاق کی،کردارکی بلندی کی،اسوۂ نبوی کی،خودی کی،خودداری کی،انسانی بنیادوں پراسلام کے رفاہی کاموں کی،ہم خیرالناس من ینفع الناس صرف پڑھتے ہیں عمل کوئی اورکررہاہے،ہم خیرکم خیرکم لاہلہ کی صرف منبرومحراب سے پکار لگاتے ہیں جب کہ ہماراپورامعاشرہ اندرونی خلفشاراورکشمکش سے دوچارہے،ہم اپنے بھائی کے ہونہیں پاتے دوسرے بھائیوں کوکیونکرگلے لگاپائیں گے؟
ہم زمین پرمریخ بنانے کی سوچ سکتے ہیں مگراپنے بھوک سے تڑپتے بچوں،دردسے کراہتے غریب مریضوں،ظلم کی چکی میں پستی امت،فسق اورشرک کی دلدل میں دھنستی مسلم قوم،کرداراوروقارکھوتےمسلمان،بزدلی اورمصلحت پسندی کالبادہ پہنے ’’مؤمن‘‘ خداجانے خواب غفلت سے بیدارکب ہوں گے؟
ہم ہندوستانی مسلمانوں کو عقل وبصیرت اورتالیف قلب کی خاطر غیروں پربھی کچھ خرچ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔تاکہ اسلام کارفاہی پہلوغیروں کے سامنے آسکے ،غلط فہمیاں دورہوسکیں۔
اللہ مولاناکی مغفرت فرمائے،وارثین،متعلقین اورذاکرین کی مغفرت فرمائے۔
 
Last edited:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اسی ہفتہ میں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ اور امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب ؒ بھی وفات پاگئے ہیں ۔
اِنا لِلہ و اِنا الیہ راجعون
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
بہت پرکشش مضمون آپ نے لکھا ہے، حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ کی سوانح حیات جاوداں چھپ چکی ہے انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے اسکا مطالعہ فرمائیں
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسی ہفتہ میں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ اور امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب ؒ بھی وفات پاگئے ہیں ۔
اِنا لِلہ و اِنا الیہ راجعون
انا للہ وانا الیہ راجعون
بہت پرکشش مضمون آپ نے لکھا ہے، حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ کی سوانح حیات جاوداں چھپ چکی ہے انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے اسکا مطالعہ فرمائیں
ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے برادر مولانا احمد یوشع سعیدی مدیر اعلیٰ "پیام سہارن پور سہ ماہی" اس بار مولانا محمد یوسف پٹیل نمبر نکالا ہےنہایت بیش قیمت مضامین ہیں۔تواریخ وفات مفتی ناصر مظاہری نے اس طرح لکھا!
قال اللہ المالک ولمن خاف مقام ربہ جنتان
2017
عامل کامل مولانا محمد یوسف پٹیل نقشبندی
۱۴۳۸ھ
مولانا محمد یوسف پٹیل فردوس آسیاں
۱۴۳۸ھ
جامع الکمالات مولانا محمد یوسف پٹیل کناڈا۱
۱۴۳۸ھ
شیریں بیاں حق بیاں مولانا محمد یوسف پٹیل
۱۴۳۸ھ
 
Top