مقبوضۃ بیت المقدس ( یروشلم) میں بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی سرائے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مقبوضۃ بیت المقدس ( یروشلم) میں بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی سرائے
تحریر: زبیر احمد​
بیت المقدس (یروشلم )یعنی وہ شہر جسے یہودی، عیسائی اور مسلمان مقدس زمین کے طور پر جانتے ہیں لیکن یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس قدیم شہر کے ایک علاقے کا تعلق ہندوستا سے ہے ۔
یہ در اصل ایک سرائے ہے ، صوفی بزرگ بابا فرید نے تقریبا آٹھ سو برس قبل اسی سرائے میں قیام کیا تھا۔ اس سرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں وہ عبادت کیا کرتے تھے ،گذشتہ سو برس سے اس سرائے کی دیکھ بھال ہندستان کا ایک خاندان کر رہا ہے ۔اس خاندان کے بزرگوں کا تعلق اتر پردیش کے سہا رن پور شہر سے تھا۔

آٹھ سو برس سے زیادہ پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا ۔اس سے پہلےاس شہر پر مسیحیوں کی حکومت تھی ۔صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو اسلامی ماحول دینے کیلئے صوفیوں اور درویشوں کو اس شہر میں بسنے کی دعوت دی تھی ۔ یہاں آنے والے میں سے ایک بابا فرید الدین بھی تھے ۔ ہندوستان اور پا کستان کے پنجاب میں ان کے ہزاروں مرید ہیں ۔بابا فرید لمبے عر صے تک اس شہر میں رہتے رہےلیکن یہ واضح نہیں کہ وہ یہاں سے ہندوستان کب واپس لوٹے۔ ان کی واپسی کے بعد صدیوں تک حج کے لئے جانے والے افراد راستے میں بابا فرید کی سرائے میں رک کر کچھ دن گزارتے تھے۔

یروشلم کے مفتی نے دعوت دی تھی :
یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم تک جاری ریا۔اس درمیان مسجد اقصی اور شہر کی دوسری اسلامی عمارتوں کی حالت اچھی نہیں تھی ۔ان دنوں عرب ممالک بھی غریب تھے ۔اگر دولت تھی تو ہندوستانی نوابوں اور سلطانوں کے پاس۔ ۱۹۲۳ میں مقبوضہ بیت المقدس کے مفتی نے چند افراد کو رقم لینے کے لئے ہندوستان بھیجا۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑنے والے مولانا محمد علی جو ہر نے اس کام میں ان کی مدد کی ۔ مفتی نے یہ بھی کہا کہ بابا فر ید کی سرائے کی دیکھ بھال کے لئے ہندوستان سے کسی کو بھیجا جائے ،اس طرح ۱۹۲۴ میں نذیر حسن انصاری نام کے ایک نو جوان کو اس کا م کے لئے یروشلم بھیجا گیا جہاں جاکر انہوں نے اس سرائے کی دیکھ بھال شروع کر دی ۔ کچھ عرصہ بعد انصاری نے ایک فلسطینی لڑکی سے شادی کر لی اور یروشلم کے ہو کے رہ گئے۔

مشہور ہستیوں کی تصاویر:
جب میں پرانے شہر میں واقع اس ہندوستانی سرائے پہنچا تو انصاری کی دو پو تیوں نے میرا خیر مقدم کیا ۔ دونوں بہنیں ان کے شوہر اور ان کے بچے ابھی بھی اسی سرائے کے اندر رہتے ہیں ۔ سرائے میں داخل ہو نے کے لئے ایک بڑا بھا ٹک ہے ۔ داخل ہو نے کے تقریبا سو قدم چلنے کے بعد ایک لو ہے کا گیٹ آتا ہے جس پر تالا لگا تھا ۔دونوں بہنوں نے تالا کھولا اور مجھے اندر آنے کی دعوت دی اور ایک بڑا احاطہ ہے جس کی داہنی طرف ایک پرانی مسجد ہے ۔ بائیں طرف ایک کمرہ تھا جس میں ہندوستان سے آنے والی بڑی ہستوں کی تصاویر لگی ہو ئی تھیں ۔

تصاویر والا کمرہ:
انصاری خاندان نے سرائےسے متعلق نا یاب اشیا ء ایک کمرہ میں سجا رکھی ہیں ،ان میں پہلی جنگ عظیم میں مقبوضہ بیت المقدس ( یرو شلم ) میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کی تصاویر بھی ہیں ۔ قدیم عمارتوں کی تصاویر ہیں ۔ان کے علاوہ نذیر انصاری کے جوانی کے دنوں کی تصاویر بھی ہیں ۔ان کا انتقال اسی سرائے میں سنہ ۱۹۵۱ میں ہوا تھا ۔ اب ان کے صاحبزادے یعنی دونوں خواتین کے والد اسی سرائے کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ان کی عمیر ۸۰ برس سے زائد ہو چکی ہے ۔ جب میں وہاں پہنچا اس وقت وہ اردن گئے ہو ئے تھے۔اس کے بغل میں وہ کمرہ ہے جہاں بابا فرید رہا کرتے تھے۔

تہہ خانہ میں عبادت :
وہ کمرہ جس میں بابا فرید رہا کرتے تھے وہ کا فی چھوٹا ہے لیکن شائد بابا فرید کو اس سے بڑے کمرہ کی ضرورت ہی نہ تھی ۔ بیشتر اوقات وہ اس کمرہ کے تہہ خانہ میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ دونوں بہنوں میں سے چھو ٹی بہن نور جہاں نے مجھے بتا یا کہ دادا بتا تے تھے کہ بابا فرید ایک بار میں ۴۰ دنوں تک لگا تار اسی تہہ خانہ میں بند ہو عبادت کیا کرتے تھے ۔بابا فرید کی نجی استعمال کی ہو ئی کو ئی چیز اس تہہ خانہ میں مو جود نہیں ہے ۔لیکن ان کی یادیں اور ان سے وابسطہ دا ستانیں اس سرائے اور اس شہر میں آج بھی سنائی جا تی ہیں ۔
اس سرائے پر ہندوستان کا ما لکانہ حق ہے ۔آج بھی اس جگہ کو دیکھنے کے لئے ہندوستان سے مشہور ومعروف ہستیاں آتی ہیں ، ہندوستان سے آنے والوں کے لئے یہاں چھ کمرے بھی ہیں جن میں وہ قیام کر سکتے ہیں ۔ یروشلم میں کئی جنگیں ہو ئیں اور یہ شہر کئی بار اجڑا لیکن ہندوستان اور با بافرید سے منسوب یہ کونا ۸۰۰ سال بعد بھی آباد ہے ۔( بشکریہ صحافت ممبئی )
 
Top