حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا(3)

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
۔
تیسرے نمبر(یادوسرے) پر جلیل المرتبۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا شرف حاصل کرنے والی
نام ونسب
عائشہ نام،صدیقہ اور حمیرا لقب ام عبداللہ کنیت ،افضل الناس بعد الانبیاء ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
آپ کے والدگرامی ہیں،والدہ کانام زینب تھا ان کی کنیت ام رومان تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں
ولادت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چاربرس بعدشوال کے مہینے میں پیداہوئیں
صدیق اکبر ؓ کا کاشانہ وہ برج سعادت تھاجہاں خورشیداسلام کی شعاعیں سب سے پہلےپر توفگن ہوئیں اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں کہ جب سے میں نےاپنے والدی کو پہچانامسلمان پایا(بخاری۔ج ۱ص۲۵۲)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے عقدنکاح میں

امہات المؤمنین میں سے ہر ایک کو منفردشرف حاصل رہاہے چنانچہ
تمام ازواج مطہرات میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی کنواری بیوی تھیں۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت خولہؓ بنت حکیم کے ذریعے سے اپنی لاڈلی بیٹی کاعقد نکاح حضورﷺ سے طے کرایا
۵۰۰ سودرہم مہرقرارپایا۔یہ نبوت کے 10 ویں سال کا واقعہ ہے۔اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھ سال تھی
یہ نکا ح ا سلام کی سادگی کی حقیقی تصویرتھا۔حضرت عطیہؓ اس کا واقعہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کھیل رہی تھیں ان کی اناآئی اوران کو لے گئی۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آکرنکاح پڑھایا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود کہتی ہیں کہ جب میرانکاح ہواتومجھ کو خبر تک نہ ہوئی جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرانکاح ہوگیا،اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھابھی دیا
(طبقات ابن سعدج ۸ ص۴۰)
جہاد میں شرکت
غزوات میں غزوہ احداور غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کی شرکت کاپتہ چلتاہےصحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہاکودیکھاکہ مشک بھر بھر کرلاتی تھیں اورزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں
(بخاری ج۲ص۵۸۱)

حلیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاخوش رواورصاحب جمال تھیں رنگ سرخ وسفیدتھا
علم اور فضل وکمال
علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف عورتوں پرنہ صرف دوسری امہات المؤمنین رضوان اللہ علیھن پرنہ صرف خاص خاص صحابیوں پربلکہ باستثنائےتمام صحابہ پرفوقیت حاصل تھی وہ علم کا دریا تھیں۔اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگاسکتے ہیں کہ
جامع ترمذی میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کوکبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کو ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا ہواور ان کے پاس اس کے متعلق معلومات نہ ملی ہو
امام زہری جومایہ ناز اور سرخیل تابعی ہیں فرماتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں بڑے بڑے اکابر صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے ۔۔(طبقات ابن سعد ج۲قسم۲ص۲۶)
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے
میں نے قرآن فرائض، حلال وحرام فقہ، اسلامی شاعری،طب،عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کرکسی کو نہیں دیکھا
اس کے علاوہ اور بہت سارے فضائل ہیں لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر صرف نظرکیاجارہاہے

اخلاق وعادات
اخلاقی حیثیت سے بھی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابلندمرتبہ کی مالکہ تھیں،وہ نہایت قانعہ تھیں غیبت سے کڑی نفرت کرتی تھیں،احسان کم قبول کرتیں تھیں،تکبر سے اعلان بیزاری کیا کرتی تھیں اور سب کو صفت کبر سے دور رہنے کی تلقین کرتی تھیں نہایت خوددار،باہمت،شجاعت،دلیری اورسخاوت کا عملی نمونہ تھیں
وصف سخاوت میں اپناثانی نہیں رکھتی تھیں،حضرت عبداللہ بن زبیرؓفرمایاکرتےتھےکہ میں ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا،ایک مرتبہ کاتب وحی حضرت امیر معاویہ ؓنے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہوتے سب خیرات کردیے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھااتفاق سے اس دن روزہ رکھاتھالونڈی نے عرض کیا کہ افطارکے لیے کچھ نہیں ہےفرمایا پہلے سے کیوں یادنہ دلایا
(مستدرک حاکم،ج ۴ص۱۳)

وفات وتدفین

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کااخیر زمانہ خلافت تھاکہ رمضان ۵۵یا۵۶یا۵۷یا۵۸ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اس دنیا سے رحلت فرمائی اس وقت ان کی عمر۶۴سال یا۶۵یا۶۷یا۶۶یا۶۸سال میں ہوئی مہینے میں بھی اختلاف ہے کہ رمضان ہے یا شوال لیکن محقق قول ۵۸ ھ ماہ رمضان المبارک ہے
ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو کہ اس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینے کے گورنرتھے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجناز ہ ر ات کے وقت میں اٹھایا جائے اورمجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔چنانچہ ایساہی کیاگیا
اور ان کو قبر میں اتارنے والےحضرت قاسم بن محمدؓ،عبداللہ بن عبدالرحمنؓ،عبداللہ بن ابی عتیقؓ،عروہ بن زبیرؓاورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے
 
Top