امہات المؤمنینؓ کے حجرات

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امہات المؤمنینؓ کے حجرات

مسجد نبوی ﷺ کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ نے ازواج مطھرات کے لئے حجرات بھی تیار کرائے۔تعمیرِ مسجد کے وقت آپ ﷺ کے نکاح میں صرف حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ تھیں۔ لہذا مسجد کی شرقی سمت صرف دو حجرے بنے جو نونو دس دس فٹ فٹ چوڑے اور پندرہ پندرہ فٹ لمبے تھے۔ کچی دیواریں اور کھجور کے چھپروں کی چھت جو اتنی اونچی تھی کہ آدمی ہاتھ اوپر اٹھاتا تو چھت کو جا لگتا اور دروازہ پر شروع میں کمبل پڑا رہتا تھا ، پھر ایک ایک کواڑ کے دروازے لگ گئے ، حجرے میں عموما رات میں چراغ نہیں جلتا تھا ۔

پھر جیسے جیسے ازواج آتی گئیں ،ان کے لئے الگ الگ حجرے بنتے گئے ۔مسجد کے شرقی جانب جگہ نہ رہی تو حجروں کا سلسلہ شمالی جانب شروع ہو گیا ،کچھ حجرے مسجد کی جنوبی جانب تھے ، مشرقی جانب غالبا حضرت عائشہؓ اور حضرت سودہؓ کے حجروں کے درمیان ایک حجرہ حضرت فا طمہؓ کا بھی تھا ،ان سب کی حالت فی الجملہ یکساں تھیں یا کھجور کی ٹٹیاں کھڑی کر کے ان پر مٹی لیپ دی گئی تھی۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کا مکان مسجد کی مغربی جانب اس مقام پر تھا جہاں اب باب صدیق ہے۔


حفاظتِ الٰہیہ:اب حجروں میں سے کوئی باقی نہیں رہا، ولید بن عبد المالک اموی کے عہد میں تو سیع مسجد کے لئے ازواج مطھرات کے حجرے توڑ دئیے گئے تو اہل مدینہ زار وقطار رو رہے تھے ، کہ کاش ان حجروں کو ان کی اصل حالت میں محفوظ کر لیا جاتا کہ دنیا دیکھتی کہ ہمارے رسول اللہ ﷺنے حیات طیبہ کس زہد وسادگی میں بسر فر مائی۔البتہ حضرت عا ئشہؓ کے حجرے کا صرف وہ حصہ محفوظ ہے جہاں رسول اللہ ﷺ ، صدیق وفاروقؓ کے مر قد ہائے مبارک ہیں ۔ یہ حصہ حضرت عائشہؓ کے اس حصے سے الگ کردیا گیا ۔ جہاں آپ رہتی تھیں ، جب تک حضرت عائشہؓ زندہ رہیں ، کسی کو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفیقوں پر سلام عرض کر نے کے لئے اندر حاضرہو نے کا شوق ہوتا تو آپؓ (حضرت عائشہؓ ) سے اجازت لیتا ، ورنہ لو گ عموما با ہر ہی سے سلام عرض کر کے چلے جاتے ۔۱۷ رمضان المبارک ۵۸ھ (۱۳ جولائی ۶۷۸ء؁ ) کو حضرت عائشہؓ کا انتقال ہو گیا تو حجرے کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔

۸۸ھ (۷۰۹) میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ مدینہ منورہ کے گورنر تھے ،انہوں نے حجرے کے ارد گرد پنج گو شہ دیواریں بنوادیں ، جن پر چھت کے بجائے برنجی جا لیاں تان کر غلاف ڈلوادیا ۔اس عمارت میں نہ کو ئی دروازہ تھا، اور نہ کوئی کھڑکی۔ پھر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی عمارت کے با ہر کچھ جگہ چھوڑ کر ایک مر بع عمارت بنا لی گئی ، جس پر موجودہ سبز گنبد قائم ہے ،اسے گنبد خضر ا کہتے ہیں ۔دراصل گنبد پر سیسے کی موٹی چادر چڑھا کر اور گہرا سبز رنگ کر دیا گیا ہے ۔مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ کہ بارش کا پانی گنبد پر اثر انداز نہ ہو ۔پنج گو شہ عمارت کی دیواریں خوبصورت پر دے میں مستور ہیں ۔اس کے اندر حجرہ اپنی اصل حالت میں اب تک محفوظ ہے ، قاضی سلیمان مر حوم منصور پوریؒ ، پہلی مرتبی حج کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے پو ری چھان بین کے بعد تحریر فرمایا تھا ۔

سرور عالم ، فخر عالم سید ولد آدم ﷺ کا کچا حجرہ مبارک اب تک اصل حالت میں قائم ہے ۔ دنیا میں کسی اور نبی یا رسول کے گھر اور قبر کی حفاظت قدرت الٰہیہ کی جانب سے ایسی نہیں ہو ئی
(منقول)
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
کاش ان حجروں کو ان کی اصل حالت میں محفوظ کر لیا جاتا کہ دنیا دیکھتی کہ ہمارے رسول اللہ ﷺنے حیات طیبہ کس زہد وسادگی میں بسر فر مائی۔

اللہ اکبرکبیرا کس سادگی سے زندگی گزاری

اللہ پاک ہمیں بھی سیرت طبیبہﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
Top