غربت انسان کوفٹ بال بنادیتی ہے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
غربت انسان کوفٹ بال بنادیتی ہے
مفتی ناصرالدین مظاہری
اسلام ایک مکمل دین ،مستقل تہذیب ہے …اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیمات میں دلوں کواپیل کرنے والی خوبیاں اور خصوصیات ودیعت فرمائی ہیں…اسلام کج فکری،تعصبات،عناداورمفادپرستی سے اوپراٹھ کرباہمی اخوت ،محبت اوررواداری وہمدردی کی تعلیم دیتاہے…اسلام ہم سے تقاضاکرتاہے کہ ہم گرتوں کوتھامیں،غفلت کی چادروں میں خواب خرگوش کے مانندسونے والوں کوجگائیں …معاشرہ کے ان افرادکی دادرسی اورفریادرسی پرہم کان دھریں جوظلم اورسفاکی کا شکار ہیں… جوغلامی کی ذلت اورمحکومیت کے قعرمذلت میں پھنسے ہوئے ہیں،جواپنوں کی چیرہ دستیوں اورغیروں کے جبرکا شکار ہیں… معاشرہ کے ان تمام لوگوں کے گھروں میں خوشیاں لائیں جن کے چہروں سے مسکراہٹیں چھن گئی ہیں… بے کس وبے بس اور لاچاربچوں کو مسکرانے کاموقع دیں …ان بچوں کوتعلیم سے آراستہ کریں جوغربت کے باعث تعلیم کی دولت سے دورہیں…ان چولہوں کوروشن کریں جوبے رحم معاشرہ کی عدم توجہی کی مارجھیل رہے ہیں…ان یتیموں کی کفالت کریں جن کے سروں سے ان کے والدین کاسایہ اٹھ گیاہے…ان بچوں کے ہاتھوں میں قلم اوردوات تھمائیں جن کی عمرپڑھنے کی ہے لیکن وہ اپناپیٹ پالنے کے لئے چندٹکوں کی نوکریاں کرنے پرمجبورہیں … ان مغموم افرادکے غموں کودورکریں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا…معاشرہ کی ان بیماریوں کوختم کریں جوناسوربن چکی ہیں…ایک ایساخوشنماانقلاب برپاکریں جس سے اپنے بھی خوش ہوں اوربیگانے بھی جھوم جائیں۔
ایسی کیفیت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ہم خیرکے ہرکام میں پوری لگن کے ساتھ شریک ہوں…یہ نوبت اس وقت حاصل ہوگی جب ہمیں مالی فراوانی نصیب ہو…ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم بھی صدقات جاریہ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں…ہم سب کی تمناہے کہ خوشی سے عاری اورمصیبت کی ماری دنیاکے چہروں پر خوش گوارہنسی اورمسکراہٹ لائیں لیکن کیسے؟
اس کاجواب یہی ہے کہ ہم دینے والے تبھی بن سکتے ہیں جب ہماری جیبیں بھی حلال کمائی سے بھری ہوں…ہمارے بینک اکاؤنٹ میں اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی پونجی جمع ہو…ہمارے کھیت اورکھلیان میں سبزہ اور برگ وبارتب ہی آئیں گے جب ہم بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح دین کی مکمل پیروی کے ساتھ اپنی معاشی اوراقتصادی حالت کوسدھارنے کی فکرکریں…حضرت عمرفاروقؓ،حضرت عثمان غنیؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف یہ وہ شخصیات ہیں جن کے دراوردروازے غرباء ومساکین کے لئے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے …حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ، اورجنیدبغدادیؒکی ذات گرامی سے کون ناواقف ہے ؟ایک طرف تودنیاان کے دینی کارناموں سے آج بھی تابندگی حاصل کرتی ہے دوسراپہلودیکھیںکہ اُن حضرات کاتجارتی سلسلہ ملکی پیمانے پرنہیں بلکہ غیرملکوں تک میں پھیلاہواتھا،وہاں غرباء کے لئے ذاتی سرائے بنی ہوئی تھیں،امراء کی امارتیں ان حضرات کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں ۔
دولت ایک بنیادی ضرورت ہے…اگردولت ہمارے پاس نہیں ہے…اگر اپنے گھروں میں چولھاجلانے کی ہمارے اندرسکت نہیں ہے…ہمارے بچے بھوک سے بلبلارہے ہیں…بیوی صبروشکیبائی کاپیکرمجسم بن کراپنی قسمت کوکوس رہی ہو…بوڑھے والدین کے علاج ومعالجہ کے لئے ہمارے پاس خاطرخواہ رقم نہ ہو…بچے اچھے کھانے اوراچھے کپڑے کوترستے ہوں…توآپ کے دل پرکیاگزرے گی؟کبھی آپ نے سوچاکہ ہماری غربت اورہماری نکبت وپستی نے غیروں کی نظروں میں ہماری کیاحیثیت کردی ہے…؟ایک کلمہ گومسلمان جب کفرکے آگے کاسۂ گدائی لئے ہوئے کھڑاہو،اُس وقت ذلت اس غریب کی نہیں اسلام کی ہوتی ہے…ایک داڑھی والامسلمان جب صبح صبح گلیوں،نالیوں اورچوک وچوراہوں کی صفائی کرتانظرآتاہے… تو…ہردردمنددل اورہرفکرمندآنکھ تڑپ اٹھتی ہے…کیونکہ کل تک ہمارے آباء واجدادنے اِس ملک پرصدیوں شان وشوکت کے ساتھ حکمرانی کی تھی…کل تک ہم اُن حکمرانوں کے وارث اورجانشین تھے…کل تک ہماری دیوڑھیاں اورہمارے دربارفقراء اور غرباء کے لئے کھلے رہتے تھے …اور…آج ہم اغیارکے دَراوردروازوں پر’’بھکاری‘‘ بنے کرکھڑے نظرآتے ہیں…کیاکبھی سوچاکہ مسلمانوں کے لئے ’’ریزرویشن‘‘ کی مانگ کرنابھیک مانگناہے… پہلے توہماری بہنوں کی عصمتیں لوٹی جائیں…ہمارے والدین شہیدکئے جائیں…ہمارے بچے ناحق انکاؤنٹرکئے جائیں…ہمارے بھائیوںکوپس دیوارزنداں کیاجائے…ہماری ماؤں کوآنسوبہانے پرمجبورکیاجائے…ہمارے گھربربادکردئے جائیں…ہمیں نرم بسترسے گرم راکھ پرپہنچادیا جائے، بعدمیں چندٹکوں اورکھنکتے سکوں سے ہمارے آنسوپونچھے جائیں…ہماری امدادکے نام پرہمیں ہماری حیثیت یاددلائی جائے…ہمارے خون کی ارزانی…ہماری آبروکی بے وقعتی اس سے زیادہ اورکیاہوسکتی ہے…کہ ہمارے نظریات بدل دئے گئے…اب بہنوں کی عصمتوں کی ہم قیمتیں لے کرظالموں کے گن گانے لگتے ہیں…ظالم دندناتاپھرتاہے اس کابال بیکانہیں ہوتا…اور…ہماری لاشوں پرسیاست شروع ہوجاتی ہے…ہماراخون خشک نہیں ہونے پاتاکہ پھربے قصورمسلمان کے قتل وخون کی خبریں سماعتوں سے ٹکراجاتی ہیں…ہماری یادوں سے اپنے بچوں کی آہیں اورکراہیں محوبھی نہیں ہونے پاتیں کہ پھرایک اوربچہ کوگرفتارکرکے ایسے ایسے کیس اورایسی ایسی دفعات لگادی جاتی ہیں کہ ُان سے نکل پانے کے لئے خزانۂ قارون ، عمرنوح اورصبرایوب درکارہوتا ہے۔
ملیانہ اورہاشم پورہ حادثہ کوزمانہ گزرگیا…مگرانصاف محوانتظارہی نظرآتا ہے… ؟ مرادآبادسانحہ کوجاننے والے یکے بعد دیگرے ختم ہوتے جارہے ہیں… مگرحقائق سے نئی نسلوں کوواقف نہیں کرایاگیا…بھاگلپورفسادات کے جاننے والے گواہی دیں گے کہ قصورکس کاتھااورگرفتایاں کس کی ہوئیں…۶؍دسمبر۱۹۹۲ء کوہماری عبادت گاہ شہیدکردی گئی اورپوری دنیاتماشائی بنی رہی…خون کی ندیاں بہہ گئیں…کتنے ہی خانوادے اجڑگئے اورظالم: حق اورصداقت ،حقائق اورانصاف کامذاق اڑاتے نظرآ رہے ہیں…مکہ مسجدسے لے کرجامع مسجددہلی،مالیگاؤں ،سمجھوتہ ایکسپریس اوراجمیردھماکوں کی گونج اورگرج سے پوراملک دہل گیا… مگر’’انصاف‘‘ ہنوز ’’انصاف‘‘ کوترس رہاہے …آرڈی ایکس کون مہیاکرتاہے …پاکستان اوردیگرممالک سے دہشت گردی کیلئے روپے کہاں اورکس کوپہنچتے ہیں…؟پاکستان کوخفیہ اطلاعات کون فراہم کررہاہے…؟ خون سے ہولیاں کون کھیلتاہے…لاشوں کی سیاست کون کرتاہے…انارکی کیوں کرپھیل رہی ہے… اِن سچائیوں سے پردہ اٹھنے ہی والاتھا…امیدتھی کہ اب تاج ہوٹل کی سچائیاں سامنے آویں گی…اوراقراری مجرموں پرگیہ سادھوی،کرنل پروہت اوران جیسے ملک مخالف دہشت گردوں کوپھانسیاں دے کرپوری دنیاکویہ پیغام دیاجائے گاکہ انصاف کے معاملہ میں ہندوستان اب بھی ایک امتیازی شان رکھتاہے…لیکن ہوااس کے برعکس…نہ توپھانسیاں دی گئیں…نہ عمرقیدملی بلکہ ابھی ابھی اخبارات میں یہ خبرپڑھ کربجلی گری کہ سادھوی پرگیہ کوضمانت مل رہی ہے؟
مجھے تولگتاہے موجودہ سرکارآئی ہی اسی لئے ہے تاکہ مجرموں کوجیلوں کی سلاخوں سے نکال کرشاباشی دی جائے…ضمانت دے کرپھران کے لئے جرم کے مواقع تلاش کئے جائیں…ان کی جگہ بے قصوروں کوتختۂ دار پر لٹکاکرہمیشہ کے لئے یہ فائل ہی بندکردی جائے…
امیدجاگی تھی کہ اب ہیمنت کرکرے جی کے ذریعہ حقیقت واضح ہوگی… مجرموں کوان کے جرم کی سزائیں ملیں گی… قصورواربہت جلدتختہ ٔ دارپرلٹکے نظرآویں گے… لیکن ظالموں نے ہیمنت کرکرے کوہی مروادیا…تاکہ’’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کرکرے جی بے قصوروں کامسیحا،مظلوموں کی امیدوں کامرکزاوربے قصوروں کی آس تھے ۔
گجرات کے قاتل دندناتے پھررہے ہیں…آسام کے ظالموں کوسلاخوں سے دور دیکھاجاسکتاہے… ردرپور اور مظفرنگرکے فسادات کانتیجہ کیاہوا…ظالموں کواُن کے ظلم کی سزائیں مل گئیں؟قاتلوں کوجیلوں میں پہنچادیاگیا؟نفرت کی خلیج اورکھائی کھودنے والے عدالتوں میں پیش کئے گئے ؟اگرآپ جواب جانناچاہتے ہیں توجواب یہ ہے کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوا… البتہ مرنے والے ہی قصوروارقراردئے گئے…فرقہ وارانہ فسادکوبرادری کاجھگڑاکہہ دیاگیا…مظلوموں کوفرقہ پرست سیاسی جماعتوں کاآلۂ کاربتایاگیااورچندروپوں کے عوض انھیں خاموش رہنے کی تلقین کی گئی ۔
پہلے کبھی سننے میں نہیں آیاکہ کوئی مسلمان دائرۂ ایمان سے نکل گیاہولیکن اب آئے دن ایسی خبریں آنکھوں کونمناک اورقلوب کوغمناک کردیتی ہیں کہ فلاں جگہ اتنے لوگوںنے مرتدہوکرہندودھرم اپنالیا…انھیں دامن اسلام سے منحرف اورہندودھرم اختیارکرنے کے لئے ہندوتنظیموں نے کیاکیاحکمت عملی اختیارکی ہوں گی… اس سچائی سے پردہ اٹھناممکن نہیں ہے۔
غورکریں توسچائی کھل کرآپ کے سامنے آجائے گی کہ مسلمانوں کے ایمان کومتزلزل کرنے والی سب سے بنیادی چیز اُن کی غربت ،مفلسی اورجہالت ہے۔اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :کادالفقران یکون کفرا کہ فقرانسان کوکفرکے قریب پہنچادیتاہے۔
طاغوتی قوتیں اسلام اورمسلمانوں کی جڑوں کوکھوکھلاکرنے کے لئے زن، زراورزمین کے لالچ دیتی ہیں…انھیں شراب اورشباب کی ظاہری رنگینیاں دکھائی جاتی ہیں…انھیں دولت وثروت کے سبزباغ دکھاکران کی ایمانی قوتوں اورعرفانی فکروں کوژولیدہ کیاجاتاہے…دنیوی ٹھاٹ اورظاہری شان سے غریبوں کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں…وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دینے والی طاقتیں ہم سے کچھ چھین نہیں رہی ہیں…ہمارے دردمیں ہمدردہیں…ہمارے غم میں مغموم …ہمارے رنج میں رنجور…ہمارے کرب میں مکروب ہیں… حالانکہ ان کی ہمدردیاں خودغرضانہ، ان کی طفل تسلیاں منافقانہ اوران کی رواداریاں شاطرانہ ہوتی ہیں… وہ کچھ نہ لے کربھی سب سے عزیزمتاع ’’ایمان‘‘کاسوداکرلیتے ہیں،ایسی راہوں اورراستوں پرلے جاکرکھڑاکردیتے ہیں جہاں پیچھے کی طرف کھسکناجسمانی ہلاکت اورآگے کی طرف بڑھناایما نی ہلاکت ہوتاہے…غریب،مجبوراورزمانے کے بے رحم افرادکی بے رحمی کاشکارافرادیہ سوچنے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ’’ کل کوآخرت میں جوکچھ ہوگادیکھاجائے گادنیامیں عیش کرلو‘‘یہ سوچ اورفکرجب انسان کے اندرپیداہوجاتی ہے توحسن اورقبح،اچھابرا،خوب وناخوب ،نفع نقصان سب یکساں ہوجایاکرتے ہیں۔اس کی نظروں میں ’’تثلیث‘‘ کے پجاری…مندروں کے پنڈٹ…مسجدوں کے امام…گرجاؤں کے پادری سب یکساں نظرآنے لگتے ہیں… جب مرض کی قباحت اورشناعت ’’خوبیوں‘‘ کاروپ دھارلیتی ہے توپھرنظرئے بدلتے چلے جاتے ہیں۔
ایسی کیفیت اس لئے پیداہوتی ہے کیونکہ دولت چندتجوریوں میں سمٹ چکی ہے،غریب شخص مزیدغریب ہوتاجارہاہے…امیرکی امارت ترقی پذیرہے … غریب کاخون اورپسینہ امیرکی دولت بنتاجارہا ہے… مہنگائی سے ہرغریب کی کمرٹوٹ رہی ہے…بازاروں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کوچھورہی ہیں…ہماری کرنسی گھٹ گھٹ کر موت اورزیست کے درمیان ہچکولے لے رہی ہے…ہماری معیشتیں دم توڑرہی ہیں…ہماری اقتصادیات ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تباہ کرکے رکھ دی ہیں،غیرملکی کمپنیاں دھڑادھڑ اپنااثاثہ لگاکرہمارے گلوں میں’’مزدوری‘‘کاشناخت نامہ لٹکارہی ہیں…اورہم خوش ہیں کہ غربت اورمفلسی کے اس دورمیں کچھ توسکون ملا…لیکن یہ نہیں سوچاکہ آج جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں تک ہمیں کس نے پہنچایا؟ہمیں کہاں ہوناچاہئے تھااورکہاں کھڑے ہوئے ہیں؟دینے والاہاتھ اوپرہواکرتاہے لینے والاہاتھ ہمیشہ نیچے ہوتاہے… کبھی سوچاکہ ہماراہاتھ کہاں ہے؟ ہم کس سے لے رہے ہیں؟
نبی کریم انے اسی دورنگی ،اس تفاوت اوراسی فرق کوختم کیاہے،آپ ا نے مزدورکواس کی مزدوری پوری پوری دینے کانہ صرف حکم دیابلکہ یہ بھی فرمایاکہ مزدورکواس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی دے دیاکرو۔
اسلام میں رہبانیت کاکوئی مقام نہیں ہے،نہ ہی اسلام نے رہبانیت کی کوئی حمایت کی ہے،اسلام نے دولت کمانے سے کبھی منع نہیں کیاہے ہاں برے طریقے سے کمانے اورحرام خوری سے منع کیاہے۔
نبی کریم ا نے ارشادفرمایا:التاجرالصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء۔ سچے امانت دار تاجرکاحشرصدیقین،انبیاء اورشہداء کے ساتھ ہوگا۔(مسنداحمد،ترمذی،نسائی)
جائزکاروبارکوئی بھی ہے اسلام نے اس کی ترغیب دی ہے،عہدنبوی میں مختلف طبقات کامنفرد کاروبارتھا، بہت سے حضرات کاشتکاری کرتے تھے ،ان کے پاس کھجوروں،زیتون اورانجیرکے باغات تھے ،شرفائے عرب کا شتکار اور زراعت کو معزز پیشہ نہیں شمار کرتے تھے… ایسے ہی دستکاری کو بھی اپنے لئے باعث ننگ وعار تصور کرتے تھے …اونٹو ں ، دنبوں ،بھیڑ اور بکریوں کا پالنا بھی عربوں کا ایک پیشہ تھا… یمن کے لوگ اون کی کاشت کے علاوہ اون کی کتائی ، کمبلوں کی بنائی اور دیگر ملبوسات میں کمال رکھتے تھے …فارس کے قالین اس زمانے میں بھی شہرت رکھتے تھے … عربوں کے یہاں سپہ گری کا عام رواج تھا… اس لئے کہیں کہیں آلاتِ جنگ بھی تیار کئے جاتے تھے… اِن وجوہ کے باعث عربوں کو اپنے کھانے پینے اور دیگر بنیادی ضروریات کا سامان باہر سے امپورٹ کرنا پڑتا تھا… ایسے ہی عرب لوگ اپنی مصنوعات کو دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کرتے تھے … اپنے سامان کی نقل وحمل اور ارسال وترسیل کیلئے قافلوں کے قافلے تشکیل پاکر یمن ،شام، فارس ،مصراورعراق کا رخ کرتے تھے ، ان قافلوں کی بحفاظت نقل مکانی اور قزاقوں سے بچانے کا باقاعدہ ٹیکس لیا جاتا تھا ۔
آپ ا نے نبوت سے پہلے مختصر مدت کے لئے بکریا ں چرائی تھیں اور پھر اپنی عمر عزیز کے بارہ سال صرف اور صرف تجارت پر صرف فرمائے تھے ، اس سلسلہ میں مدینہ منور ہ ،بصرہ ،شام وغیرہ کے متعدد اسفار بھی کئے جن کی تفصیلات سیرت کی کتب میں موجود ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ا نے معاشی اور اقتصادی معاملات میں اپنی امت کو بہت سے رہنما اصول بتلائے ،امت کے غریبوں کی تجارت کی ترغیب دی ،تجارت اور دستکاری کو پسند فرمایا حتی کہ ایک مزدور سے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ کھردرے کیوں ہیں اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں اپنے ہاتھوں سے کماکر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہوں تو نبی کریم ا نے نہ صرف اس غریب کی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ فرمایا کہ جن ہاتھوں نے حلال کمایا کھایا اور کھلایا وہ ہاتھ کبھی جہنم میں نہیں جائیں گے ۔
مال حلال اور کسب حلال کے فضائل بکثرت ارشاد فرمائے…تجارت کی شکلیں اور منافع کی حکمتیں بتلائیں … مسائل تجارت سمجھائے …اصول تجارت بتلائے…جن کاموں میں نقصان کا اندیشہ ہے ان کو اختیار کرنے سے منع فرمایا… ہر اس کام کو کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جس سے رزق حلال ملتا ہو … تجارت کی ضرورت اور اہمیت سے واقف کرایا اور اپنے رفیق عبد اللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا کہ حلال کمائی تلاش کرنادیگر فرائض کے بعد ایک فرض ہے ۔
(مارچ۲۰۱۷ء)
 
Top