آئینہ ہم نے دکھایا تو برامان گئے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
آئینہ ہم نے دکھایا تو برامان گئے
مفتی ناصرالدین مظاہری
مرحوم بہادرشاہ ظفرنے کہاتھا ؎
ظفرآدمی اس کونہ جانئے گاہوکیساہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یادخدانہ رہی جسے طیش میں خوف خدانہ رہا
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم وقتی جوش میں ہوش کھودیتے ہیں اور فوری طورپرجذبات میں آکرکوئی بھی کام کرگزرتے ہیں ،اس وقت ہمیں یہ تک سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی کہ جوکام ہم سے سرزدہورہاہے اس کانقصان کس کوپہنچے گا۔
اگرغورکریں تو دونوں صورتوں میں نقصان ہماراہی ہوتاہے کیونکہ اس سے ایک طرف تودنیا کو یہ پیغام جاتاہے کہ مسلمان وقتی جوش میں آکر انتہاپسندی پر اترآیاہے اور دوسرا نقصان یہ ہوتاہے کہ ہمارے وقتی جوش سے دوسری اقوام وملل بہت ہی دوررس اور مثبت نتائج و فوائد حاصل کرلیتی ہیں، وہ وقتاً فوقتاً ہمیں جوش دلاکر ہماری توجہات کسی ایک چیز کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں،ہمیں مسلکی، گروہی اوربرادری وادجیسے معاملات میں پھنساکر ہماری تباہی اور بربادی کے مواقع فراہم کرلیتی ہیں، غیرضروری امور میں مصروف کرکے اپنے ’’مشن‘‘کو کامیابی کے ساتھ انجام دے لیتی ہیں اور ہم اسلام دشمنوں کے منصوبوں سے یکسر مجرمانہ غفلت برتتے رہتے ہیں،پھر جب پانی سر سے اونچا ہوجاتاہے تب ہمیں ہوش آتاہے لیکن اس وقت ہمارا ہوش میں آنا نفع بخش ثابت نہیں ہوپاتا،حالانکہ امت مسلمہ کو ہمہ وقت بیداروتیاررہنے کی تاکیدبہت پہلے کی جاچکی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاَعِدُّوالَہُمْ َماسْتَطََعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرہِبُونَ بِہٖ عَدُوَّااللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ-اس آیت سے صاف واضح ہے کہ اے مسلمانو!جہاں تک تمہارے بس میں ہو قوت پیداکرکے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ میں اپنا ساز وسامان مہیاکئے رہو کیونکہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ اوراپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھوگے نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں-
کیایہ تاریخ کاروشن باب نہیں ہے کہ ٹھیک اس وقت جب حضرت رسول کریم ﷺ عالم مرض میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے حجرہ ٔشریفہ میں تشریف فرماہیں ،چراغ میں تیل نہیں رہا،تیل خریدنے کیلئے پیسے بھی نہیں تھے اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے رسول اکرم ﷺکی زرہ رہن رکھ کرتیل حاصل کیاتھالیکن دوسراپہلویہ ہے کہ اسی حجرہ میں رسول اللہ ﷺکی نوتلواریں دیوارسے لٹک رہی تھیں…آج فجرسے قبل وبعدہندونوجوان سڑکوں پرورزش کرتے اوردوڑلگاتے نظرآتے ہیں تودوسری طرف مسلمان نوجوان دس گیارہ بجے تک بستر کی زینت بنارہتا ہے ۔
آرایس ایس اپنے ممبران کویوگاکے نام پرتلواربازی،نیزہ بازی اوردیگراسلحے چلانے کے طریقے سکھاتی ہے اورہم اپنے نوجوانوں کوکرکٹ،فٹ بال،والی بال،ٹینس،گلی ڈنڈے ،گیم ،تاش ،پتنگ بازی اورکبوتربازی وغیرہ میں ملوث دیکھ سکتے ہیں۔
ہندودوکانداراورتاجرخوش اخلاقی کامعاملہ اورمظاہرہ کرکے مسلمانوں کواپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہے اورمسلمان نوجوان اپنی بداخلاقیوں کی وجہ سے صبح سے شام تک ’’مندی‘‘کاروناروتانظرآتاہے۔
گرمیوں میں سڑکوں،بس اڈدوں اورریلوے اسٹیشنوں پرہندونوجوان پانی پلاتے مل جائیں گے توبعض جگہوں پرسکھ نوجوان بھوکوں اورمسافروں کوکھاناتک کھلاتے دیکھے جاتے ہیں جبکہ مسلمان نوجوان اپنے فیس بک،واٹس اپ ، کھیل کوداورموبائل میں لگارہتاہے۔
مسلمان کالونیوں میں ہرسوگندگی ،سڑی نالیاں،نالیوں کے کنارے بندھے جانور،جانوروں سے پریشان راہ گیر، تعلیمی اوقات میں گلی گلی میں کھیلتے ننھے بچے ملتے ہیں جب کہ ہندوکالونیوں میں صفائی، ڈسپلن، خاموش ماحول اورسنجیدہ منظرہوتا ہے۔ ہمارے نبی نے ہم سے فرمایاتھانظفواافنیتکم۔اپنے گھروں کے باہری حصہ کوصاف ستھرارکھولیکن اس ارشادپرعمل کوئی اورکررہاہے۔اوراب تونوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ صفائی کادرس غیرمسلم حکومتیں دینے لگیں۔
ہماری ایک عادت اوربھی بدسے بدترہوتی جارہی ہے کہ ہم کافروں کے اچھے کاموں پربھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے حالانکہ ہروہ کام جوشریعت سے متصادم نہ ہواوراس کے اچھے اثرات مرتب ہونے کایقین ہوتوہمیں ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ حمایت بھی کرنی چاہئے،تعاونوا علی البر والتقوی مثلاً صفائی ستھرائی جس کوایمان کانصف کہاگیاہے،اسی طرح شراب جس کوتمام گناہوں کی جڑ کہا گیا ہے،نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کاآپسی تعلق جس کوشریعت میں حرام کہاگیاہے ،ملک سے وفاداری جو اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ،ہماری ذراسی حمایت حکومت کے بہت سے فتنوں کوبندکرانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
مسلمانوں کو ممکن ہے وقتی حالات اورمخالف ہواؤںسے شکست وہزیمت کا سامنا کرنا پڑجائے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ اسلام اس دنیا سے ناپید ہوجائے ، رسول اللہ ﷺ کا پاک ارشاد ہے مَنْ قَالَ :ھَلَکَ الْمُسْلِمُوْنَ فَھُوَ اَھْلَکُھُمْ جوشخص یہ کہتا ہے کہ مسلمان ہلاک ہوگئے وہ ان سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ۔چانچہ حضرت عمر وبن العاصؓ کی وہ وصیت جواس وقت اہل مصرکے لئے تھی لیکن آج اس کامصداق ہرمسلمان ہے تحریر فرمایا:
’’اس بات کو کبھی نہ بھولنا کہ تم قیامت تک خطرہ کی حالت میں ہو اورایک اہم ناکہ پر کھڑے ہوئے ہو،اس لئے تم کو ہمیشہ ہوشیار اور مسلح رہنا چاہیے کیونکہ تمہارے چاروں طرف دشمن ہیں اوران کی نگاہیں تم پر اور تمہارے ملک پر لگی ہوئی ہیں ‘‘
موجودہمسلمانوں نے اس فرمان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا لیکن یہودیوں اورعیسائیوں نے بھرپوررہنمائی حاصل کی اورآج پوری دنیاانہی کی غلام بنی ہوئی ہے۔
اللہ ہمار امقصود ومطلوب ہے رسول اللہ ﷺ ہمارے مقتدا ورہبر ہیں ،قرآن کریم ہمارا دستور ہے اوراللہ کے راستہ کی موت ہماری سب سے بڑی معراج ہے یہ بنیادی اصول ہر مسلمان کو حرزجاں بنالینا چاہیے ۔نفاق ، ریا،دوغلی پالیسی اورمجرمانہ غفلت ہمارے لئے صرف تباہی اوربربادی کے راستے ہی تلاش کرسکتی ہے ۔
(مئی ۲۰۱۷ء )
٭٭٭
 
Top