سیدسالارمسعودغازی رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی آستانہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدسالارمسعودغازی رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی آستانہ
اودھ میں قومی یکجہتی کا ایک بڑا مرکز​
بہرائچ اترپردیش میں اودھ کا ایک پسماندہ ضلع ہے لیکن زمانہ قدیم ہی سے بے مثال تاریخی اور روحانی اقدار کا حامل چلا رہا ہے بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ اس ضلع کی تاریخ مسلم حکمرانوں سے ہی شروع ہوتی ہے پھر بھی شرارتی پھر بھی سلہٹ،مہلٹ دگوں(نان پارہ) بھنگا اور چروہ کے جوار میں جو پرانے سکے ،مورتیاں برتن اور کتبہ وغیرہ دستیاب ہو ئے ہیں ان کی قدامت کے آثار نمایاں ہیں
بہرائچ کیسے نام پڑا یہ ایک پہیلی بھی ہے پرانی کتابوں کے مطابق برہماجی نے اپنی راجدھانی کا انتخاب اسی ضلع کو کیا تھا دوسروں حوالے سے پتہ چلتا ہےکہ یہاں پہلے گندرہ ابن تھا یہاں پانڈوں نے اپنی جلاوطن کے دن گزارے تھے ہندو دیومالائی عقیدے سے پتہ چلتا ہے کہ برہماجی نے بہت سے رشیوں کی ایک کانفرنس یہاں بلائی تھی اسی باعث یہ جگہ برہم رائج کے نام سے مشہور ہو گئی۔
ضلع گزیٹر لکھتا ہے کہ مہاراج چندر جی کے ایک مہاراجہ لو اپنی حکومت اتر کو شل کا نظام یہاں سے چلاتے تھے ضلع کے پرانے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ مسلم سلاطین کی حکمرانی سے پہلے یہاں بھڑ قوم آباد تھی جس کے نام پر یہ بھڑائچ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بعد میں کثرت استعمال سے اب بہرائچ ہو گیا ہے۔
عبد الرحمن ابن بطوطہ کے سفر نامے کے بموجب بہرا ئچ ایک خوبصورت شہر ہے جو دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے اور یہ دریا اپنے کنارے بدلتا رہتا ہے دریا کی یہ خصوصیت آج بھی قائم ہے
با یں صف اسی ضلع میں بدھ مذہب کی ایک بڑی تیر تھ گاہ ،،سرا وتیِ،، بھی واقع ہے اگر تاریخ پر قیاس کو دخل ہوتا تو بالا رک رشی کے آشرم کایقین بھی بہرائچ میں کیا جاسکتا ہے ۔
بہرحال شراوستی بدھ مذہب کا ایک بڑا تیرتھ استھان ہے جہاں مورخین کی رائے میں مہاتما گوتم بدھ نے اپنی ریاضت اور فیضان کے لئے 18چوما سے(یعنی 24 برساتیں)گزارے تھے اس کے علاوہ یہی شراوستی جین دھرم کی بھی عبادت گاہ کے لیے مشہور ہے اور ان کے چودھویں گروہ سمبھو ناتھ جین کاجنم بھی اسی مقام پر ہوا تھا الغرض بہرائچ روحانی اقدار کا حامل چلا رہا ہے اس روحانی اور تاریخی پس منظر کے ساتھ اسی بہرائچ سے سلطان محمود غزنوی کے عہد حکومت میں ایک نوجوان صالح اورممتاز بزرگ حضرت سید سالار مسعود غازی کے غیر معمولی کارنامے انسانیت نوازی کے اعلی نمونے، مظلوموں کے حق میں ظالموں سے جہاد کر نے اور جام شہادت نوش کر کے اسی سرزمین میں آسودہ خواب ہونے کی ایک ناقابل فراموش داستان حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے ۔
تاریخ فیروز شاہی ،سفرنامہ ابن بطوطہ، طبقات اکبری، خزین الاصفیہ، تاریخ فرشتہ، منتخبالتواریخ، اخبار الاخیار اور عہد جہانگیری کے ممتاز مورخ مولانا عبدالرحمن بجنوری کی اہم تصنیف مراة مسعودی وغیرہ جیسی اہم تاریخ کتب کے مطالعہ سے اس عظیم بزرگ کے حالات اور کردار کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔
اس طرح ِ شمالی ہندوستان کا یہ منفرد آستانہ اپنی گوناگوں خصوصیات کے لئے آج بھی ہندو مسلم یکتا کی ایک علامت بنا ہوا ہے ہر سال یہاں بسنت پنچمی کے تہواروں گرمیوں میںجیٹھ کے سالانہ میلہ کے مراسماور ماہ رجب میں اسکے عرس کے تقریبات کے موقع پر لاکھوں انسانوں کا ایک سیلاب امڈ کر آجاتا ہے جس میں غیرمسلموں کی نمایاں اکثریت ہوتی ہے جو اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرکے اپنے دامن مراد کوامیدوں سے بھر کر واپس ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ تقریبا ایک ہزار برس سے جاری و ساری ہے مستند تاریخی حوالوں کے بموجبد سید سالار مسعود غازی 21 رجب 405 ہجری مطابق 15 فروری 1015 کو سلطان محمود غزنوی کے قلعہ اجمیر کی تسخیر کے دوران عالم وجود میں آئے آپ کا اصلی نام امیر مسعود ہے والد صاحب سالار ساہو کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں جن کا مزار سترہ ضلع بارہ بنکی میں ہے جو سلطان محمود کے بہنوئی اور ان کی فوج کے سپہ سالار تھے چار سال کے عمر میں آپ کی تعلیم کا آغاز حضرت ابراہیم نامی ایک بزرگ کی معلمی اور نگرانی میں ہوا تقریبا نو برس کی عمر میں اپنے مروجہ تعلیم اور علوم ظاہری کی تکمیل کر لی تھی اور دس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے علوم باطنی کی طرف راغب ہو گئے تھے مسلسل شب بیداری اور عبادت الہی کا شوق ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا اس لئے ہروقت باوضو رہتے تھے اور درویشان اہل باطن کی صحبت بابرکت میں اپنا وقت گزارتے تھے عمدہ لباس اور خوشبو کے دلدادہ تھے بایں اوصاف حمیدہ آپ فن فن سپہہ گری میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے ۔سلطان محمود غزنوی کے ساتھ کئی
جنگوں میں شریک رہے اس محاذ آرائی کے سلسلے میں ملتان، دہلی می، میرٹھ ،قنوج بلگرام اور بدایوں سے ہوتے ہوئے آپ سترہ ضلع بارہ بنکی تک پہنچ گئے۔
کہا جاتا ہے یہاں کا راجہ ہر سال رعایا کی پہلی اولاد نرینہ کودیوی کی بھینٹ چڑھواتا تھا۔
اتفاق سے اس سال ایسے شخص کی اولاد کی باری تھی تو اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھی اس کا باپ پریشان تھا اور دوسرے لوگوں کے ہمراہ سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی فریاد بیان کی یہ سن کر حضرت غازی بہرائچ کے لئے کوچ کر گئے اور اس مقام پر پہنچ گئے جہاں لڑکے کو بھینٹ دئیے جانے کا انتظام تھا اور آپ نے فورا راجہ کے سپاہیوں سے جنگ کی اور لڑکے کو موت کے منھ سے بچا لیا لیکن خود لڑتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا یہ واقعہ ۱۴رجب۴۲۴ھ مطابق ۱۰جولائی ۱۰۳۳کا ہے آپ کا مزاراسی جگہ ہے جہاں آپ نے عالم فانی سے عالم جاویدانی کا سفر اختیار کیا ۔
مشہور ہے کہ ایک بار محمد شاہ تغلق نے درگاہ شریف میں حاضری دی ان کے ہمراہ ممتاز سیاح ابن بطوطہ بھی تھا یہ وہ وقت جبکہ بادشاہعین الملک کی بغاوت کر کے فرو کر کے دریا سر جو کو پار کرتا ہوا حضرتمسعود غازیؒ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تھا ۔سالانہ میلہ کے ایام تھے ،گر میوں کا زمانہ تھاصرف ایک دروازہ تھا اس لئے بادشاہ اندر نہ جاسکا ۔
ایک اور تاریخی حوالے سے پتہ چلتا ہے کے تغلق خاندان کا ایک دوسرا بادشاہ فیروز شاہ تغلق بنگال کی مہم کی کامیابی کے بعد آستانے پر حاضر ہوا اور وہاں اس کی ملاقات بہرائچ کے بزرگ حضرت امیر ماہہ سے ہوئی اس نے مزار شریف پرخلقت کا ہجوم دیکھ کر پوچھا اس آستانے کی کیا کرامت ہے کہ اتنا بڑا مجمع یہاں حاضر ہے حضرت امیر ماہؒ نے جواب دیا یہ کرامت کیا کم ہے کہ ایک جلیل القدر بادشاہ وقت اور میرا جیسا فقیر دونوں اس مزار پر حاضر ہیں۔
بادشاہ اس گفتگو سے بہت متاثر ہوا پھر اس نے مزار شریف کی چوہدی قائم کروائیں اور موجودہ سنگی قلعہ تعمیر کرایا ۔مزار شریف کی تعمیر جدید کی اور سب سے بڑی بات یہ کہ مزار شریف کے انتظام کے لیے اس نے موضع سنگھا پر اسی وقف کردیا جو ابھی تک قائم ہے ۔
حضرت سید سالار مسعود غازی ؒکا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔
( تحریر راحت علی خان ماہنامہ نیا دور فر،وری1994
 
Top