علم اور علماء کی اہمیت اور ان کا مقام

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علم اور علماء کی اہمیت اور ان کا مقام​
حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ جو کہ خود ایک بڑی علمی درسگاہ یعنی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ تھے اور پھر درس و تدریس میں بھی عمر کا ایک بڑا حصہ گزرا. اس لئے تمام عمر علماء طلبہ اور مدارس دینیہ سے آپکا بہت قریبی اور مظبوط رشتہ رہا۔ دین کی جو خدمت مدارس عربیہ کے ذریعہ ہو رہی ہے اس سے آپ نہ صرف واقف بلکہ اس کے معترف اور مداح تھے اور سمجھتے تھے کہ جیسے جیسے دین کے محنت اور دعوت بڑھے گی مدرسوں اور مکتبوں میں اضافہ ہوگا۔
جب اللہ کے مولا نا محمد یعقوب صاحب سہارنپوری آپ کا اسی سلسلہ میں ایک ملفوظ نقل کرتے ہیں کہ:
دین کی محنت ہوتی ہے تو اللہ دین کے تمام شعبوں کو وجود میں لاتا ہے ،مدرسے بڑھیں گے، مکتب بڑھیں گے حالانکہ ہم مدرسہ بنانے کی دعوت نہیں دے رہے ہیں لیکن اس عمل کے ذریعہ تمام شعبوں کو زندگی مل رہی ہے۔
اس قریبی رابطہ ورشتہ کی بنا پر آپ ہمیشہ کام کر نے والے احباب ورفقا کو کو اہل علم کے ادب و احترامکی تا کید اور اور ان کے ذریعہ ہو نے والی علمی ودینی خدمت کے احترام اور اس کے اعتراف کی تلقین فر ماتے تھے ۔ چنانچہ ایک موقع پر مدارس عربیہ کے تعلق سے خواص مجمع کو اس طرح مشورہ دیا :عربی مدارس عربیہ کا مسئلہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے وہ ایک دینی کام میں لگے ہوئے ہیں اور اگر ہماری طرف متوجہ نہ ہو ں تو ہمارے دل میں اگر کوئی بات ان کے خلاف بیٹھ جائے تو یہ بہت سخت بات ہے۔
ایک مرتبہ ایک مفتی صاحب یہاں مرکز میں آئے۔ ان سے میں نے کہا یہاں آتے رہا کرو انہوں نے کہا یہاں ہمارا کیا کام ہے میں نے کہا کام یہ ہے کہ دیکھتے رہو کہ ہمارا کام شریعت کے خلاف نہیں ہیں ۔
الحمدللہ مدارس آہستہ آہستہ آ رہے ہیں اگر کوئی بات ان کی طرف سے ہو تو جھیلو اور برداشت کرو ان پر زور دینے کا بلکل ارادہ نہ کرو بلکہ اکرام و احترام کا معاملہ ہو سلیقہ کے ساتھ ان سے بات کرو کیونکہ صحیح بات بھی اگر بے ڈھنگے طریقے سے کی جائے تو وہی جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔
ہمارا کام تو دعوت دینا اور ذہن بنانا ہے ۔ایک مرتبہ دعوت و تبلیغ اور مدارس عربیہ میں باہم ربط و تعلق اور ایک کو دوسرے سے تقویت و نفع پہنچنے کو ان الفاظ میں بیان کیا ۔تعلیم دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو خصوصی تعلیم ہے اور ایک عمومی تعلیم ہے ۔خصوصی تعلیم وہ ہے جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے جن لوگوں میں دین کے علم کو حاصل کرنے کی طلب ہوتی ہے وہ ان مدرسوں میں آتے ہیں ۔دوسرے وہ تعلیم جو عمومی ہے وہ یہ دعوت وتبلیغ ہے جن کو دین کے علم کو حاصل کرنے کی طلب نہیں ہے ان میں جا کر دین کی محنت کرنا تاکہ ان کے اندر طلب پیدا ہو یہ عمومی تعلیم اس خصوصی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے ۔اس لیے کہ جب عمومی تعلیم کی فضا بنے گی تو اس کا اثر خصوصی تعلیم پر بھی پڑے گا اور عمومی تعلیم سے خصوصی تعلیم زندہ ہو گی۔ اس لئے مدرسہ والوں کو تعلیم کے ساتھ دعوت کے کام کو بھی اس اہمیت کے ساتھ کرنا چاہیے تاکہ عمومی و خصوصی دونوں تعلیم زندہ ہوں۔ اہل علم کی مجلس میں ایک مرتبہ علماء کے عوام کے ساتھ تعلق کی افادیت اور ضرورت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا !عوام کے ساتھ رابطہ رہا تو یہ امت چلنے والی ہوگی اور علماء کرام اس کو چلانے والے ہونگے اور اگر چلنے والے نہ ہو تو علم کا چراغ جل کر ختم ہوجائے گا اور اس کی روشنی سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا ۔
ربیع الاول ۱۴۰۰؁ھ فروری ۱۹۸۰؁میں سنگاپور وغیرہ کے کام کرنےوالوں کا مرکز دہلی میں جوڑتھا اس میں طلبہ کے تعلیمی اوقات کی رعایت کی طرف متوجہ کرتے ہوئےاس تاثر کی تغلیط کی کہ تبلیغ سے تعلیم کو نقصان پہنچتا ہے فرماتے ہیں !
(دعوت کی بصیرت اور اس کا فہم و ادراک ) بقیہ آئندہ
 
Top