غزل

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
غزل
شاہد عباس رضوی شاہد لکھنوی

شاخ پر کیوں کیوں غشی سی طاری ہے
پھول کیا پتھروں سے بھاری ہے

تیرے نقشے قدم زمین پے تھے
آسماں نے نظر اتاری ہے

جاں بچا کر کدھر سے گزرے ہم
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے

بے ضرورت نہ گھر سے نکلے ہم
زندگی قید میں گزاری ہے

وہ تیرے انتظار کی شب تھی
جب ہوا ایک دئیے سے ہاری ہے

اس نے ملنے سے کر دیا انکار
یار کچھ نہ کچھ خطا ہماری ہے

کوئی سایہ بھی اب دکھائی نہ دے
تیرگی روشنی سے پیاری ہے

آؤ ہم تم بھی مول بھاو کریں
اب محبت بھی کاروباری ہے

ایک دن پی تھی اس کی آنکھوں سے
عمر گزری وہ یہ خماری ہے

بند کمرے میں اس کی بات نہ ہو
تذکرہ اس کا اشتہاری ہے

پھول کھلتے ہیں جھک گئی شاخیں
کیا یہی موسم بہاری ہے

کٹ چکی ہے میری زبان لیکن
آج تک وہ بیان جاری ہے ہے

گرم لہجے بھی سرزد ہوا شاہد
شہر میں آج برف باری ہے
 
Top