مسلم بچوں اور نوجوان اسلام کے لیے اقبال کی دعا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے۔ مگر صاحب کتاب نہیں
اس مختصر سی نظم میں اقبال مسلمان طالب علموں سے مخاطب ہو کر ان سے یہ کہتے ہیں کہ چونکہ تیرے دل میں صحیح طریق پر دنیا میں ترقی اور سربلندی حاصل کرنے کی اب تک کوئی امنگ پیدا نہیں ہوئی اس لیے میں خدا سے دعا گو ہوں کہ خدا تیرے دل میں اسلام کو سربلند کرنے کا جذبہ پیدا کردے۔خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے۔ مگر صاحب کتاب نہیں
دوسرے شعر میں اقبال" کتاب خواں" اور" صاحب کتاب "کی تراکیب لاکر بہت اہم نکتہ ذہن نشین کراتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ طالب علم سے کہتے ہیں کہ تجھے ساری عمرکتابیں پڑھنے سے تو چھٹکارا نہیں ملے گا مگر پھر بھی صرف کتاب خوانی سے تجھے اپنی زندگی کا مقصد کبھی تجھ پر واضح نہ ہو سکے گا اس لئے کہ تو "صاحب کتاب "نہیں ."صاحب کتاب" اصطلاحا اس شخص کو کہتے ہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی کتاب نازل ہو مگر یہاں اقبال نے مجازی معنی مراد لیا ہے یعنی ایسا شخص جس نے اپنے دل کو پاک و صاف کرلیا ہو تاکہ اللہ تعالی اس پر پفیضان سماوی نازل فرمائے اور یہ نعمت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب مسلمان اللہ سے رابطہ اور قلبی لگاؤ پیدا کرے ۔اس لیے اس شعر میں اقبال طالب علم سے یہ کہتے ہیں اگر تو واقعی" صاحب کتاب" بن کر یعنی اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرکے اپنے دل کو اللہ تعالی کی محبت سے منور کرے تو ترقی اور سربلندی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے ۔
نوجوانان اسلام کے لیے اقبال کی ایک مختصر سی دعا "بال جبریل" کی مثنوی" ساقی نامہ" کا ایک شعر بھی ہے.
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا" عشق " میری نظر بخش دے
مرا" عشق " میری نظر بخش دے
Last edited: