غزوۃ الہند ؛ پیشین گوئی اور اس کا مصداق
شمع فروزاں : فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ، سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈے سنگھ پریوار والوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور اس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ، ان میں ایک یہ ہے کہ اسلام میں غزوۂ ہند کی پیشین گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان آئیں گے ، ہندوستان کے ہندوؤں کو قتل کریں گے ، یہاں کی مال و دولت پر قابض ہوجائیں گے ، اس کو لوٹ لیں گے اور جو یہاں کے حکمراں ہوں گے ، ان کو قید کرکے ہتھکڑیاں ڈال کر یہاں سے لے جائیں گے ، اس پروپیگنڈہ کو مسلمانوں اور غیر مسلم بھائیوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لئے بہت ہی شدت کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے ، اور کہا جارہا ہے کہ مسلمان ہندوؤں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ؛ لہٰذا اس کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔شمع فروزاں : فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ، سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
اس سلسلہ میں تین نکات پر غور کرنا چاہئے :
( ۱ ) اس سلسلہ میں جو حدیثیں منقول ہیں ، وہ فنی اعتبار سے معتبر ہیں یا معتبر نہیں ہیں ، ان کا درجہ کیا ہے ؟
( ۲ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ’’ ہند‘‘ سے کون سا علاقہ مراد تھا ؟
( ۳ ) یہ واقعہ پیش آچکا ہے یا پیش آنے والا ہے ؟
ان تینوں نکات پر غور کیا جائے تو مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجائے گا اور اس اعتراض کی حقیقت معلوم ہو جائے گی ، جہاں تک احادیث کی بات ہے تو اس سلسلہ میں بحیثیت مجموعی چار حضرات سے روایتیں منقول ہیں :
( ۱ ) حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
( ۲ ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
( ۳ ) صفوان بن عمروؒ
( ۴ ) کعب احبارؒ
غزوۃ الہند سے متعلق حدیثیں :
الف : اس سلسلہ میں بعض راویوں پر کلام کے باوجود جو روایت فی الجملہ معتبر تسلیم کی گئی ہے ، وہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی ہے ، اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا ، ایک وہ گروہ جو ہندوستان سے غزوہ میں شریک رہے گا ، دوسرے : وہ جو (دجال کے مقابلہ) حضرت عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ہوگا ۔ (مسند احمد ۵:۲۷۸ ، حدیث نمبر : ۲۲۴۴۹ ، نسائی ، حدیث نمبر : ۳۱۷۵)
اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو الگ الگ واقعات کی پیشین گوئی فرمائی ہے ، ایک واقعہ ہندوستان سے متعلق ہے ، اور دوسرا : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد آپ کے ساتھ جہاد سے ، اس سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان پر فوج کشی ہوگی ؛ لیکن یہ فوج کشی کیوں ہوگی ؟ کیا مسلمان اس میں حملہ آور ہوں گے ، یا یہاں کے کسی حکمراں کی زیادتی کی وجہ سے مسلمان فوج کشی پر مجبور ہوں گے ، جیسا کہ راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسمؒ کو قدم اٹھانا پڑا تھا ؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ، دوسرے : اس روایت میں حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کو حملہ کرنا چاہئے ؛ بلکہ صرف خبر ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی کہ مسلمان فوج کشی کریں گے ، اُس وقت اس میں شرکت باعث ثواب ہوگی ۔
ب : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ، تو اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو بہترین شہداء میں ہوں گا ، اور اگر لوٹ آیا تو ابوہریرہ دوزخ سے آزاد ہوگا ۔ (مسند احمد : ۲؍۲۲۹ ۔ نسائی ، ۳۱۷۳، ۳۱۷۴، باب غزوۃ الہند)
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ؛ کیوں کہ اس میں ایک راوی جَبر بن عَبیدہ آئے ہیں ، اور ان کے بارے میں اہل فن جیسے : علامہ مزیؒ کا خیال ہے کہ وہ معتبر نہیں ہیں ، علم رجال کے بڑے ماہر حافظ ذہبیؒ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں بھی ان کی حدیث کو منکر یعنی ناقابل قبول قرار دیا ہے ، (دیکھئے : ۱؍۳۸۸) اور موجودہ دور کے دو بڑے محدثین نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ، ایک تو علامہ ناصر الدین البانیؒ ، انھوں نے ضعیف سنن النسائی میں حدیث نمبر : ۲۰۲۔۲۰۳ کے تحت اس کا ذکر کیا ہے ، دوسرے : ڈاکٹر شعیب ارناؤط ، جنھوں نے مسند امام احمدؒ پر تحقیق کی ہے ، انھوں نے بھی مسند احمد کی تخریج میں جلد :۱۲؍ صفحہ : ۲۹ پر لکھا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔جاری