روداد چندہ بلقان اور مولانا قاسم نا نوتویؒ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
روداد چندہ بلقان ان کی دینی ، ملی، تاریخی اہمیت اس منظر ،اور بعد کے عہد پر اس کے اثرات۔قسط1​

از نور الحسن راشد کاندھلوی​

آئندہ صفحات میں جس کتابچہ یا روداد کی نقل پیش کی جارہی ہے وہ ہماری دینی ،ملی، تاریخ خصوصا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حزب ولی اللہی اور اس کے غیور و باحمیت زندگی کی ایک اہم ،قابل ذکر، قابل فخر ،مگر گمشدہ ورق کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ مختصر کتابچہ ہماری اس گم گشتہ تاریخ کا ایک قابل ذکر حصہ ہے جس پر علماء اسلام ہمارے اسلاف کی غیرت و حمیت اور دینی قربانیوں کے لازوال نشان ثبت ہیں ۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را​
اس کتابچہ میں علماء اسلام اورعامۃا لمسلمین کی اہمیت دین ،غیرت ملی جذبہ جہاد اور علم و عمل کی ایک داستان اور دفتر پوشیدہ ہے کہ جب کبھی عالم اسلام پر کوئی سانحہ رونما ہوتا تھا ہمارے بزرگ کس طرح تڑپ جاتے تھے اور مظلوم ستم رسیدہ مسلمانوں کی مدد کے لیے کس عزم و حوصلہ بلند جذبات کے ساتھ آگے بڑھتے تھے اس موقع پر مسلمانوں کی امداد و تعاون کی ترغیب دینے کے لیے کیسی جدوجہد اورکوسش فرمایا کرتے تھے۔ یہ کوشش صرف زبانی جمع خرچ یا رقم فراہم کرنے یا چندہ بھجوانے تک محدود نہیں تھی , بلکہ چاہتے تھے کہ خود موقع پر میدان جنگ میں جاکر اس جماعت اور قافلہ جہاد میں شریک ہوں، قافلہ ایمان کو اپنے لہو سے سیراب کریں اور چمن اسلام کو اپنی جان دے کر سادہ فرمائیں۔
یہ مختصر کتابچہ اس عہد کا ایک گمشدہ نشان ہے جب ہم اسلام کے آفاقی تصور سے سرشار تھے ملت کے قدم سے قدم ملا کر چلنا سعادت سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ :

آبرو باقی تری ملت کی جمیعت تھی
جب جمیت گئی، دنیا میں تو رسوا ہو
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں​
اس کتابچہ میںسب سے پہلے روس کی ترکی پر یورش اور اس کے نقصانات کا مختصرا ذکر کیا گیا ہے کہ کس قدر مسلمان شہید ہو گئے،کس قدر عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے اور کس قدر مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔پھریہ بتایا گیا ہے کہ اس وقت حرمین شریفین کی حفاظت و حرمت خلیفۃ المسلمین ان کی وجہ سے محفوظ ہے اگر خدا نہ کرےخلیفۃ المسلمین اور عالمی نظام نظام خلافت کوکچہ صدمہ پہنچا تو اس کے اثرات حرمین شریفین تک اثر کر سکتے ہیں اور اگر اللہ نہ کرے ok اس مقدس مقامات کی حرمت کسی بھی طرح متاثر ہوئی تو خود مسلمانوں کی کیا حقیقت باقی رہے گی اس لیے خلیفۃ المسلمین کی اعانٹ و حمایت بنیادی اسلامی ضرورت اور گویا فرض عین ہے اگر یہ نظام حکومت نہ رہی تو پورے عالم اسلام کا نظام متاثر ہوگا( بدقسمتی سے ان کا یہ خیال بعد کے دور میں صحیح ثابت ہوا)
اس لیے دینی غیرت کو جگایا گیا اور پوری ملت کو آواز دی گئی اٹھو!غازیان اسلام کے قدم سے قدم ملا کر چلو، اگر اس کا موقع نہیں تو ان کی بھرپور مالی مدد کرو اور یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اس وقت مدرسہ کی خدمت، مسجدوں کی تعمیر اور تمام دینی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں یہ کام اگر وقتی طورپر رک جائیں گے ، یا اس کی تعمیر و ترقی میں کچھ کمی رہ جاتی ہے تو اس سے کچھ بڑا نقصان نہیں ،یہ ادارے اور مسجد بعد میں تعمیر ہو سکتی ہیں ، لیکن اگر ملت پر کوئی حرف آیا اور خدا نہ کرے فرمائے حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ یہ بہت اور غیر معمولی ہے اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آ رہی ہے ،یہی اس کتابچہ کی اصل روح اور دعوت ہے ۔ زیر تعارف کتابچہ یا روداد کی تفصیل یہ ہےکہ:
یہ روداد یا کتابچہ ½٢٠/١١سائز کے 12 صفحات پر مشتمل ہے پہلے پانچ صفحات میں ترکی ،روس کی جنگ کے عالمی ملی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے، اور ترکی کی مدد پر توجہ دلائی ہے ،صفحہ 5،6 پر موصول نہ رقموں کا جو بمبئی کے ترکی کونسل خانہ کو بھیجی گئی، حساب درج ہے۔ اس کے بعد ترکی حکومت کے اس وقت کے کونسلر حسین حسیب عثمان آفندی کے خطوط یا رقومات کی سات رسید درج ہیں،جس میں پانچ ارباب مدرسہ دیوبند کے نام ہیں، اور ایک ایک امداد علی خاں اور جیون خان صاحب سہارن پور کے نام ہے اس کے بعد اردو میں یہ اطلاع ہے کہ خلیفۃ المسلمین کے دفتر خاص سے بھی رقم کی رسیدیں آئی ہیں ،مگر وہ سب ترکی میں ہیں، اس لئے یہاں شامل نہیں کی گئیں۔ اس تین سطری مختصر اطلاع کے بعد، وزیراعظم ترکی ابراہیم ادھم کا شکریہ کا فارسی میں مفصل خط ہے ، جس کا علماء کرام نے بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ مرصع جواب لکھا تھا ،مگر تمام رسیدیں اور جملہ خطوط فارسی میں ہیں، ترجمہ درج نہیں۔ حسابات بھی رقم درج ہے جس کے جاننے پڑھنے والے اب کم ہی رہ گىے ہیں، اس لیے راقن سطور نے اس کو ہندسوں میں لکھ دیا ہے ،رسیدوں اور خطوط کا اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اصل روداد کی تحریر اور کتابت ایسی ہے کہ پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے ،اس لیے اس کو علیحدہ سے کمپوز کر آ کر بھی شامل کر دیا ہے، نیز اصل اشاعت میں کہیں کوئی عنوان درج نہیں تھا ،عنوانات کا بھی اضافہ کیا اور احتیاط کے طور پر اصل نسخہ کا عکس بھی شامل کر دیا ہے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔اس کے بعد حضرت مولانا کا ایک خط اور فتوی ضمیمہ کے طور پر شامل ہے ۔
حضرت مولانا نے ترکی کی حمایت کا فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر مطالعہ واستدلال کی روشنی میں کیا تھا،اور اس سلسلے میں زیر تعارف کتابچہ کے علاوہ کم از کم دو تحریریں اور مرتب فرمائی تھیں، ان میں سے پہلی تحریر( جس کا حضرت مولانا نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے) راقم السطور کو نہیں ملی, اور دوسری تحریر حافظ احمد سعید،مرادا آباد کے نام خط اور مفصل فتوی تھا ،یہ خط اور فتویٰ چھپا ہے اور اس کے پرانے قلمی نسخے بھی موجود ہیں ،یہ فتوی اور خط ایک پرانی تحریر سے اخذ کرکے اس مضمون کے ضمیمہ کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے ۔
مگر تعجب اور افسوس ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے عالی مرتبت علماء اور بانیان کرام اور اس کے فیض یافتگان کی طویل ووسیع تاریخ میں اس کتابچہ کا اب پک غالبا کہیں ذکرنہ آیا،حالان کہ یہ ہماری ملی غیرت کا نشان، حمیت کی علامت اور قومی تاریخ کا ا اہم اور قابل ذکر کا ورثہ ہے ۔
یہاں بھی یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہیے کہ راقم سطور کے خیال میں حضرت شیخ الہند کی زندگی اور اولو العزمی پر حضرت مولانا نانوتوی کی اس خدمت بلکہ کارنامہ کا بہت بڑا حصہ شہرہ اثر معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ 1857 کی تحریک شیخ الہند کے شعور سے پہلے برپا ہوئی تھی، اس وقت شیخ الہند کا حضرت مولانا سے رابطہ تھا نہ کاروان حریت کے اور قافلہ سالاروں سے ۔ روس اور ترکی کی جنگ وہ پہلا اہم واقعہ ہے جس کے حضرت مولانا نانوتوی اور اس کاررواں کے قائدین پر وزیع اثرات کا شیخ الہند نے خود مشاہدہ کیا ہوگا، اس وقت شیخ الہند جوان تھے، شیخ الہند نے اس وقت ان حضرات کی کڑہن اور چبھن دیکھی اور محسوس کی ہو گی اور شیخ الہند نے اسی وقت فیصلہ کر لیا ہوگا کہ ان حضرات کے دل میں جو الاؤ دہک رہا ہے، یہی ہمارا مقصد حیات،اور نشان راہ ہونی چاہیے ۔ چونکہ یہ سب واقعات شیخ الہند کے سامنے پیش آئے تھے، انھوں نے اپنے استاد و مربی مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی بے چینی دیکھی تھی جو یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور علماء کا ایک بڑا قافلہ جہاد میں عملی شرکت کے ارادے سے مکہ معظمہ کےسفر پر نکلا تھا، شیخ الہند بھی اس قافلے میں شریک اور اپنے حضرت استاد کی ہم قدم تھے اوراس میں بھی شبہ نہیں کہ جنگ میں شرکت کے لئے جو خاص مجلس ہوتی ہونگی اور میدان جنگ تک پہنچنے کے لئے جو تجویز یں منظور ہوتی ہونگی شیخ الہند ان سب میں برابر شریک رہتے ہوں گے ۔اس لیے یہی فکر، یہی درد اور غم شیخ الہند کے رگ و پے میں سما گیا،اور یہی وہ چنگاری تھی کہ شعلہ جوالا بن کر ابھری اور شیخ الہند کو کو ایک نہ ختم ہونے والا جذبہ اور صدیوں تک زندہ و تازہ رہنے والا حوصلہ عطا کر گئی، یہی چنگاری اور حوصلہ تھا، جس نے بعد کے دور کی ہند اسلامی تاریخ پر اپنے عزم و حوصلہ کے گہرے اثرات چھوڑے ۔ہیں اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ قافلہ اسی طرح تازہ دم اور رواں دواں رہے گا، اور یہ بزرگان دین اور حضرت شیخ الہند وغیرہ احیائے دین اور احیائے جہاد کے جس جذبے کو لے کر حجاز گئے تھے ، وہ زندہ و پائندہ رہے گا اور تازہ برگ و بار لاتا رہے گا۔جاری
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ ( 2 قسط)​
یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ جب تک خلافت اسلامیہ برقرار رہی اور ترکی میں خلیفۃ المسلمین برسر اقتدار رہے ان کی ذات اور باب عالی ( قصرخلافت استنبول ترکی )عالم اسلام کی سیاست و اقتدار اور مسلمانان عالم کی محبت وعقیدت کا مرکز رہی۔۔جب کبھی عالم اسلام پر کوئی مصیبت آئی خلیفۃ المسلمین نے امداد اور سرپرستی کی اور جب کبھی خلافت اسلامیہ پر کوئی زد پڑی اور باہر کی کسی حکومت ،خصوصا عیسائیوں نے خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں ریاستوں اور صوبوں پر حملہ کیا یا ان کو کچھ نقصان پہنچایا ،تو دنیائے اسلام میں سخت بے چینی پھیل گئی۔
اس طرح کا ایک بہت بڑا اہم اور تاریخی حادثہ اس وقت پیش آیا جب مشرقی یورپ( Eastern Europe) کی ترکی کے زیر نگیں مسلمان ریاستوں کے عیسائیوں نے مسلمانوں اور ترکی حکومت کے اقتدار کے خلاف مسلح بغاوت کی اور روس کی زارشاہی حکومت نے ترکی حکومت سے کیے ہوئے اپنے تمام معاہدے یکسر توڑ کر، عیسائیوں کی اس مجرمانہ تحریک کا ساتھ دینے اور ان ریاستوں کو ترکی اور مسلمان ارباب انتظام سے چھین کر اپنے اختیار میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس غیر متوقع جنگ سے عالم اسلام اور حکومت اسلامیہ کے اقتدار کو جوخطرہ ہو گیا تھا اور روس کی فتوحات کی خبروں سے جو بے چینی پھیل گئی تھی اس کے اثرات ہندوستانی مسلمانوں پر بھی پڑے، اور یہاں بھی اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس وقت اندیشہ کیا جا رہا تھا کہ اگر اس کا توڑ اور موثر مقابلہ نہ کیا گیا تو روسی فوجیں دریا پار کر کے براہِ راست ترکی حکومت پر حملہ کر سکتی ہیں ،اس صورت میں حرمین شریفین بھی غیر ملکی تسلط سے محفوظ نہ رہ سکیں گے، اس اجمال کی کسی قدر تفصیل کے بعد دوسرے پہلوؤں کا ذکر کیا جائے گا۔
مشرقی یورپ اور مشرقی ایشیا کی مسلم ریاستیں صدیوں سے عالمی اسلامی نظام کا حصہ اور ترقی سلطنت (خلافت )کے زیرنگیں تھی, مگر مقامی حکام کی باہمی رقابتوں ، سیاسی نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے یہاں کا نظام بگڑا، کىی مرتبہ بیرونی طاقتوں( عیسائیوں )خصوصا روس نے یہاں مداخلت کی ,کئی کئی مرتبہ جنگیں ہوئیں، صلح کی گئی ،معاہدہ ہوئے، رسم و دوستی کی تجدید کی گئی، مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی حالات بنیں۔خاص طور سے روس نےاور دوسرے مغربی ملکوں نے بھی پرانے معاہدوں اور ترکی حکومت کی عنایات کو پس پشت ڈال کر غداری کی ،مذکورہ ریاستوں میں مرکز خلافت سے علیحدگی کی تحریک چلائی، مسلح بغاوت کرأئی، خود جنگی بگل بجایا، اپنی فوجوں سے مذکورہ ریاستوں کو تاراج کر آیا، غرض یہ کشمکش تقریبا تین سو برس تک چلتی رہی۔
کتنے ہی معاہدے ہوئے اور ٹوٹے، کئی مرتبہصلح اور امن کی عہد و پیمان ہوئے اور ان کی خلاف ورزی کی گئی، اسی سلسلہ جنگ و امن یا اعتماد اور قریب کی ایک بڑی کڑی جنگ کریمیا تھی ۔
1944 ؁میں ،روس کا بادشاہ زار نکولس انگلستان برطانیہ گیا اور برطانیہ کی حکومت سے خلافت عثمانیہ( ترکی حکومت) کی ریاستوں اور صوبوں کے تقسیم کرانے اور ان کی بندر بانٹ کے تجویزیں برطانوی حکومت کے سامنے رکھی، مگر برطانیہ نے ان تجویزوں کو ماننے اور روسی حکمت عملی کو قبول کرنے اور اس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا، مگر نکولس جو ترکی کی حکومت کی ریاست پر حملہ کرنے کی تیاری کر چکا تھا ،موقع کی تلاش میں تھا، یہ موقع اس کو جلد ہی مل گیا ۔ روس نے ترکستان کی مسلم ریاستوں کے عیسائیوں کے حقوق کا سہارا لے کر ترکی پر حملہ کردیا۔ روس کی اس جارحیت پر برطانیہ اور فرانس ترکی کے ساتھ تھے ،دونوں ملکوں نے کھل کر ترکی کی مدد کی، آخر میں روسی پسپا ہونے پر مجبور ہوئے ۔اسی درمیان نکولس زار روس کا آخری وقت آ گیا ،نکولس کے بعد اس کا بیٹا الگزینڈر دوم (alexandroupolis) کو جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا اس وقت جنگ جاری رکھنا روس کے مفاد میں نہیں ,اس لیے آسٹریلیا کے واسطے سے صلح کی گفتگو شروع ہوئی اور مارچ 1956 ؁(راجب ١٢٧٤ھ؁ کو پیرس میں صلح نامہ پر دستخط ہوگئے۔ صلح نامہ کے مطابق کریمیا پر روس کی اجارہ داری تسلیم کی گئی اور دریائے ڈینوب ڈی (danube)کا دہانہ اور-----------کا چھوٹا سا علاقہ ترکی کو دے دیا گیا۔ اس وقت تو صلح نامہ ہوگیا تھا مگر بعد میں روس نے سمجھا کہ یہ صلح نامہ اس کے ارادوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے اس نے بغیر کسی معقول وجہ کے عثمانی ترکی حکومت کی فوجوں پر 1294 (١٢٩٤ ھ) میں ایک اور بڑا حملہ کردیا۔ اٹھارہ سو چھپن کے معاہدے کی وجہ سے اس طرح کے کسی حملے کی امید نہیں تھی اور یہ حملہ اچانک ہوا، اس کی وجہ سے ترکی فوج اور مقامی ریاستوں کے ذمہ داروں اور فوجی افسروں کو مقا بلہ میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہوا، اس پریشانی میں ان ریاستوں کے درمیان سخت اختلافات اور باہمی پنجہ کشی نے بہت بڑھا دیا تھا، جس کے نتیجہ میں ایک کے بعد ایک بلقانی ریاستوں کے علاقے ترکی حکومت کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے۔ یہی وہ موقع تھا جب ہندوستان کے علماء کے قائدین سر بکف میدان میں آئے اور مشرقی یورپ کے مسلمانوں کی حمایت کے لئے حجاز ،وہاں سے ترکی حکومت کے زیرانتظام جنگ کے میدان میں جانے کا فیصلہ کیا ۔کس قدر تفصیل آرہی ہیں۔
نوٹ: روس اور ترکی کی یہ جنگ جس کا بار بار تذکرہ آیا ہے دونوں ملکوں کی تاریخ اور خاص طور سے اس علاقہ کے مسلمانوں اور خلافت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک پر الم مگر اہم باب ہے ،لیکن راقم سطور کو ترکی کی کوئی ایسی مستند و معتبر کتاب دستیاب نہیں ہوئی جس میں اس جنگ کا تفصیلی تذکرہ ملتا ۔پیش نظر کتابوں میں سے صرف ایک کتاب ایسی ہے جس میں جنگ کا تفصیلی تذکرہ ہے ، یہ عزیز لکھنوی کی فارسی مثنوی " قیصر نامہ "ہے جس میں عزیز نے ادبی اور شاندار زبان میں اس کی تفصیلات نظم کی ہیں۔ مثنوی قیصرنامہ انسٹھ(٥٩) صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں سے ص ٢٠ سےآخری صفحات تک روس کی سازش، معاہدہ شکنی اور جنگ جوئی کا اور بعد کے تمام واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے اس مثنوی پر مولانا عبدالعلی آسی مدراسی کا مفصل پراز معلومات علمی حاشیہ ہے جس میں عزیز لکھنوی نے کلام کی خوبیوں،صنائع بدائع،تشبیہات واستعارات ، تاریخی اشارات کی بہت عمدہ تشریح کی ہے، جس سے اس مثنوی کی افادیت افادیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
مثنوی قیصر نامہ حاجی عبدالرحمن کے اہتمام سے مطبع نظامی کانپور سے (١٢٩٦ ھ؁)(١٨٧٥ء) چھپی تھی جو جو اس حادثہ کی روداد اور دستاویز ہے اور جنگ کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات و خیالات کی خوبصورت اور موثر ترجمان ہے۔ مجلہ صحیفۂ نور کاندھلہ ۔١٤٢١ ھ ؁جاری
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ.قسط۔٣​
اگرچہ اس زمانہ میں خصوصا یورپ اور ترکی کی خبریں مقامی اخبارات تک براہ راست پہنچنے کے ذرائع بہت کم تھے ,جو خبریں اطلاعات آتی تھیں ان کا ترجمہ بالاخلاص مقامی اردواخبارات کے حصے میں آتا تھا۔ اس واسطہ در واسطہ کےذریعے سے جو خبریں آتی تھیں ان میں مشرقی یورپ کے مسلمانوں پر عیسائیوں اور روس کی براہ راست یا بالواسطہ مظالم کی تفصیل نیز ترکی حکومت کے مسلمانوں کی مزاحمت کی جدوجہد کا واقعی تذکرہ اور ترکی حکومت کے تعاون اور حوصلہ افزا ئی کا ذکر بہت کم ہوتا تھا ۔عالمی ذرائع ابلاغ مغربی ملکوں کے مفادات کے ترجمان تھے اور اس زمانے میں بھی (آج کل کی طرح) مسلمانوں کے اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنا ان کی وحدت کو مٹانا ان کی کمزوریوں اور حکومتوں کی برائیوں کوپہاڑ بنا کر دیکھنا اور دکھانا ان کا بنیادی مقصد اور معمول تھا، مگر صداقت ہزارپردوں سے نکل کر سامنے آ جاتی ہے ،یہی روس اور ترکی کی جنگ کے متعلق اخبارات میں چھپی ہوئی خبروں کا بھی حال تھا ،اگرچہ ان میں ترکی کے موقف کی ترجمانی کمی ہوتی تھی ،مگر پھر بھی عام مسلمانوں کو ان خبروں سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ ان خبروں کو ( بجاطور پر) خلافت اسلامیہ کے کے ختم کرنے کی سازش کے پہلو سے دیکھتے تھے اور اس وقت س کا خاص ا امکان تھا کہ اگر ترکمانستان اور بلقان کی ریاستوں میں روس اور غیر مسلم قوتوں کو کامیابی ملتی ہے اور اس میں عیسائی ریاستوں کا در پردہ اتحادہو جاتا ہے، جس کی خبریں گرم تھی، تو اس کے اثرات براہ راست تر کی تک پہنچنے میں دیر نہ لگتی اور چونکہ اس وقت حجاز اور ملحقہ ریاستوں کی خودمختار حیثیت نہیں تھی یہاں کے اندرون نظام میں بیرونی طاقتوں کے حملہ سے مقابلے کی صلاحیت بھی کم تھی، اس لئے اس کا بھی بہت اندیشہ تھا کہ حرمین شریفین پر عیسائی مسلط ہو جائیں گے اور عالم اسلام کا مرکز عیسائیوں کی چشم ابرو کے اشاروں کا محتاج نہ کرو اسیر ہو کر رہ جائیں گے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ خطرہ صرف خطرہ نہیں تھا، بعد کے حالات نے بتا دیا کہ حضرات علماء کی بصیرت نے ١٢٩٤ ھ میں 1874ء میں جس خطرہ کوسنہ ١٢٩٤ھ (عیسوی ١٨٧٤) میں محسوس فرما لیا تھا وہ ایک عرصہ کے بعد اس وقت ظاہر ہوا، جب حجاز کی گورنرشریف حسین نے باب عا لی سے کھلی بغاوت کرکے خلافت اسلامیہ اور ترکی کی عظیم الشان سلطنت کو پارہ پارہ کرنے کے عیسائیوں کے منصوبے کو آگے بڑھایا ،اور پھریہ وبا عام ہوتی چلی گئی۔
یہاں تک ک اب عالم اسلام کی حکومتیں اور مسلمان اپنی اس غفلت کی کھلی سزا پا رہے ہیں اور اس ارشاد نبوی کی کھلی تصدیق اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے کہ:
"ترجمہ عنقریب کفر وبددینی کی بعض جماعتیں (دشمنان اسلام) کچھ اور جماعتوں کو تمہاری شو کت ( وقوت) کے توڑنے کے لئے (اس طرح اکٹھا کریں گی) اور بلائیں گئ جس طرح کھانا کھانے والوں کو دسترخوان پر بلایا جاتا ہے( اور وہ لوگ بغیر کسی تامل کے بےروک ٹوک جمع اور اکھٹا ہو جاتے ہیں) اسی طرح وہ مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے مشوروں اور منصوبوں کے لیے بے روک ٹوک جمع ہوجائیں گے اور وہ جمع ہوکرتم کو سخت نقصان پہنچائیں گے اور تمہارے مال و جان کو برباد کریں گے )ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اس دن کم تعداد میں ہونگے، ارشاد فرمایا نہیں ،تم بہت ہوگے لیکن تمہاری تو کثرت ایسی ہوگی جیسے پانی کے جھاگ ہوتے ہیں ،( کہ ذرا سے اشارہ میں ختم اور بے نام و نشان ہو جاتے ہیں) اس وقت االلہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب ختم کر دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا صحابہ نے عرض کیا اےللہ کے رسول وہن کیا چیز ہے؟ فرمایا دنیا کی محبت اور موت کا ڈر( رواہ بیہقی فی دلائل النبوہ عن ثوبان رضی اللہ عنہ"
بہر حال جب یہ بڑا ملی حادثہ پیش آیا تھا ہندوستان میں ایک آگ سی لگ گئی تھی۔ کیونکہ اس وقت ہماری ملی غیرت پامال نہیں ہوئی تھی۔ کچھ حرارت اور چنگاریاں بافی تھیں ہمارے عوام و خواص سب خود کاروانے ملت کا حدی خوان،عالم اسلام سے وابستہ خلافت اسلامیہ کا ہمدرد وفادار سمجھتے تھے، ہر دکھ درد میں عالمی اسلامی قافلہ کے شریک رہتے تھے۔ اس وقت لگتا تھا یہ صدمہ ترکوں کو نہیں پہنچا ،یہ زخم بلقانیوں سینے پر نہیں لگا ،یہ اورترکستانیوں کی نہیں لگتی ہے،یہ کوسوکےرہنےوالوں کی غیرت کا امتحان نہیں ہوا ،بلکہ یہ صدمہ خود ہمیں پہنچا ہے، یہ زخم ہمارے سینوں پر لگے ہیں، یہ آبرو ہماری بہنوں کی لٹی ہے، یہ ہماری ملی غیرت و حمیت کا امتحان ہے ،اور یہ سب ہماری اپنی داستان ،اپنی کہانی اور سوز غم ہے۔

اس وقت تک ہماری غیرت فنا، ہماری قوت فکروعمل مردہ اور ہمارا ضمیر بےحس نہیں ہوا تھا ۔ سیکولرزم کے بھوت ،زبان، علاقے اور برادریوں کے فتنوں اور بے غیرتی نے ہمارے دل و دماغ کو متاثر نہیں کیا تھا اور مغربی پروپیگنڈا اور مقامی مفادات میں ہمارے اعصاب کو بے حس اورنظریات کو اپناغلام نہیں بنایا تھا۔ ہمہارا سوچنا، ہماری جدوجہد اور ہماری تحریکات کا رخ احیائے دین کی مخلصانہ جدوجہد کی طرف تھا ،ہمہارا عالمی اسلامی برادری کے ساتھ مل کر قدم بڑھانے کا اور ہر ایک دینی اصلاح کوشش میں ملت کا ساتھ دینے کا مزاج تھا اس وقت تک ہم خود کو عالمی اسلامی ملی کارواں کا ایک حصہ سمجھتے تھے، اس لیے جب یہ خبر آئی تو عالم اسلام کے ساتھ ہندی مسلمانوں کے بھی دل دھڑکے ،جب جب ہندوستانی مسلمان روس کی پیش قدمی کی خبر سنتے ان کو ترکوں کےصدمہ کا احساس غم زدہ کر دیتا تھا اس وقت تک ہمارا سب کا یہی حال تھا کہ :لگ جائے کہیں چوٹ مگر درد یہیں

حضرات علماء کرام جودینی غیرت کے پتلے تھے اور خود کو عالمی ملی کارواں کا نا چیزخادم اور معمولی حصہ سمجھتے تھے اس حادثہ سے شائد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کے دینی محبت کا تقاضا تھا کہ ںہ اس صدمے کو اپنا ذاتی صدمہ سمجھتے اس کےنقصان کی تلافی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرتے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ بزرگوں اور علماء نے حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی سربراہی اور سر پرستی میں، مولانا کے شوق اور توجہ دلانے سے یہ اہم اور تاریخی فیصلہ فرمایا کہ ہم سب خلافت اسلامیہ اور مشرقی یورپ مسلمانوں کی مدد کے لئے زیادہ سے زیادہ اور جو کچہ بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے پر پور کوشش کریں گے اور اس تعاون اور اس کی دو صورتیں ہوسکتی تھیں:

١.مشرقی یورپ کے مسلمانوں مجاہدین اور ترکی فوج کے جوانوں اور جنگ کے شہداء کے یتیموں اور بیواؤں کی مالی امداد ،جس سے ان کے حوصلہ میں توانائی آئے اور وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں،اور ان کو یہ یاد رہے کہ ہندوستان میں بھی ان کے دینی بھائی موجود ہیں جو اس کی مصیبت کے موقع پر ان کے ساتھ اور ان کے رنج والم میں برابر کے شریک ہیں، اور وہ لوگ آئندہ بھی خود کو تنہا نہ سمجھیں اور جان لیں کہ: دیدہ سعدی و دل ہمراہِ تست ۔۔۔۔تانہ پنداری کہ تنہا می روی​

2 ۔ اس سے بھی کہیں بڑا ، نتا ئج کے لحاظ سے فیصلہ یہ تھا کہ :
مجاہدین کے دوش بدوش میدان جہاد میں قدم رکھنے اور بذات خود جنگی مہمات میں حصہ لے کر دشمنان اسلام سے مقابلہ کیا کیا جائے، ظاہر ہے کہ یہ مرحلہ بہت ہی نازک اور اہم فیصلہ تھا ،مگر جن اصحاب کی زندگانی کا ایک ایک خود کو خدمت دین کے لئے قربان کر دینے سے عبارت تھا وہ اس نازک اور اہم موقع پر کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ،ان حضرات کے فولادی عزم اور حوصلہ اور پہاڑوں کی صلابت نے فیصلہ کیا ہمیں بذات خود میدان جنگ میں پہنچنا ہے اور مسلمانو کے لشکر کے ساتھ شریک ہو کر احیائےاسلام کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنا ہے اور اپنی جانوں کی قربانی دینی ہے۔ دونوں منصوبوں پر ایک ساتھ عمل کی بات طئے ہوئی اور دونوں ہی پر عمل کی کوشش کی گئی، جس کی تفصیل( جس قدر راقم سطور کو معلوم) ترتیب واریش کی جارہی ہے۔جاری ہے


آ
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گزشتہ سے پیوسہ۔قسط۔4​
پہلی ضرورت اس علاقے کی مصیبت زدہ مسلمانوں پ،ترکی فوج کے سپاہیوں اور لڑائی میں شہید ہونے والوں کے بچوں اور بالغوں کے لئے پیسے کا انتظام تھا ،اس کے لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے عام مسلمانوں سے بڑی رقمیں اکھٹی کرکے باب عالی (مرکزی حکومت ترکی, استنبول )بھجوانے کی کوشش شروع کی ,حضرت مولانا نے سب سے پہلے مدرسہ دیوبند( دارالعلوم) کی سب ذمہ دار و ں مدرسین طلبہ اوراہل قصبہ دیوبند سے تعاون کی درخواست وگزار ش فرمائی، اس کے علاوہ اپنے شاگردوں ،متوسلین، نیازمندوں اور خودقائم کیے ہوئے مدرسہ کے ذمہ داروں کو ادھر متوجہ فرمایا اور حسب توقع دیوبند، نانوٹہ، گنگوہ، تھانہ بھون،کاندھلہ کو اور اطراف کے قصبات اور شہروں کے علاوہ دور دراز شہروں میں بھی اس درخواست کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی۔

صرف دیوبند قصبہ دارالعلوم کے اساتذہ ،منتظمین اور مدرسہ کے طلباء نے تقریبا دو ہزار روپے پیش کئے تھے،دیوبند سے پانچ مرتبہ تعاون کی رقم فراہم ہوئی جوترکی حکومت کے کونسلر مقیم بمبئی کو بھیجی گئی۔ ان میں ہر قسط میں طلبہ شامل تھے، پہلی قسط میں سو روپے (١٠٠)کی امداد تھیں, تیسر ی میں 21 روپے کی، چوتھی میں 69 روپے نو آنے کی، پانچویں میں اکیاون روپئے نو آنےکی، اس طرح مدرسے کے ذمہ داروں کی طرف سے جو رقم ذاتی طور پر بھیجی تھی وہ ان حضرات کے حوصلے کی گواہی اور دریا دلی کی ایک مثال ہے ۔ مدرسین مدرسہ اور مہتمم کی جانب سے پہلی قسط میں 84 روپے تیسری قسط میں سات سو بیس روپے بھیجے گئے جو ان حضرات کا ذاتی عطیہ تھا جو کل رقم کا تقریبا 40 فیصد حصہ تھا-

حضرت مولانا کی اہلیہ کے زیورات کا عطیہ:
میرا خیال ہے اس رقم میں حضرت مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ کی اہلیہ کی زیوروں کی قیمت بھی شامل تھی۔ مولانا گیلانی نے ایک قصہ مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت مولانا نے شادی کے فورا بعد اپنی اہلیہ کی اجازت سے ان کا تمام زیورترکوں کے چندہ میں دے دیا تھا ۔ مولاناگیلانی نے لکھا ہے کہ حضرت مولانا نے رخصتی کے بعد پہلی رات میں اہلیہ کو اپنے سب زیورات ترکوں کے چند ہ میں دینے کی ترغیب دی تھی، اہلیہ محترمہ نے اسی رات میں یہ تمام زیورات سلطانی چندہ میں دے دیئے تھے ،جب اہلیہ گھر گئیں اور والد نے جب زیو رات نہ دیکھے تو سوال کیا ، صورتحال معلوم ہوئی تو دوبارہ اسی طرح تمام زیورات بنوا کر دیے ،حضرت مولانا نے اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمایا۔

اگر اہلیہ کا زیوراسی وقت چندہ سلطانی یا کسی اور مقصد کے لیے دیا گیا تھا تو اس کی کوئی اور تدبیر اور صورت ہوئی ہوگی، جو کیفیت مولاناگیلانی نے نقل کی ہے اس میں کئ شبہات اور سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔
دوسرے مولانا گیلانی نے اس واقعہ کو( جنگ آزادی 1857 سے تقریبا چار سال پہلے) 1853 کی روس اور ترکی کی ایک اور (جنگ کریمیا )سے وابستہ کیا ہے, مگر یہ بھی صحیح معلوم معلوم نہیں ہوتان اگر حضرت مولانا کے نکاح نہ کرنے کا ارادہ ،والد کے اصرار مولانا کے انکار متعلقہ واقعات کی ترتیب وہی ہے جو مولانا گیلانی نے تفصیل سے لکھی ہے تو اٹھارہ سو تیرپن عیسوی ( ١٢٦٩ ھ )میں مولانا کا نکاح منعقد ہونا بھی مشتبہ ہے۔اس وقت تک تو مولانا دہلی سے بھی نہیں آئے تھے وہاں صحیح بخاری کی حاشیہ کی تکمیل میں مصروف تھے۔ اس لیے حضرت مولانا دہلی میں تشریف فرما تھے ،نہ وطن آئے نہ اس وقت نکاح ہوا ،نہ ہی یہ قصہ پیش آیا ہوگا ؟

تیسری ترکی اور روس کی یہ جنگ،جنگ کریمیا تھی جنگ کریمیا کیلئے بھی ہندوستان میں عام چندہ ہوا ،راقم سطور کو اس کا تذکرہ نہیں ملا۔ اس لیے حضرت مولانا کی اہلیہ کے زیورات چندہ میں دے نے کا واقعہ کا واقعہ بظاہر اس زمانے میں دہلی تشریف فرما تھے نا وطن آئے اور نہ اس وقت نکاح ہوا یہ قصہ پیش آیا ہوگا تیسری ترکی اور روس کی جنگ کریمیا تھی جنگ کریمیا کے لئے بھی ہندوستان میں اس لیے حضرت مولانا کی اہلیہ کے زیورات چندہ میں دینے کا واقعہ بظاہر اسی دوسری جنگ اور اس کے چندہ کا ہے،جس کاحضرت مولانا اور سب حضرات نے بہت اہتمام فرمایا تھا ۔اس جنگ اور اس کے لیے عطیہ کے وقت تک حضرت مولانا کی اہلیہ حضرت مولانا سے پوری مانوس اور مولانا سے ہم مزاج اور ہم خیال ہو گئی ہو گی ہوں گی، اس وجہ سے ان زیورات کو عطا کر دینے میں تکلف نہیں ہوا ۔ بہرحال حضرت مولانا اوران کے رفقاء نے اس مہم میں خود بھی بھرپور پور حصہ لیا اور اپنے سب جاننے والوں اور رشتہ داروں اور متعلقین کو بھی ادھر متوجہ فرمایا اور سب نےدامے ،درمے، قدمے ،سخنے اس تحریک کو کامیاب بنانے کی انتہائی کوشش کی۔

چونکہ کی یہ ایک ملی ضرورت اورایک دینی شرعی تقاضا تھا اس لئے مدرسہ دیوبند کے سربراہوں کے علاوہ اور بھی متعدد بڑے علماء اس جدوجہد میں مصروف رہے۔ دیوبند کے ضلع سہارنپور میں حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری اور حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی وغیرہ اس کی رہنمائی فرما رہے تھے اور گنگو میں اس تحریک کو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی( رحمہم اللہ) کی سرپرستی حاصل تھی, اس لیے ان علاقوں اور ان کے اطراف سے بھی بڑاچندہ ہوا، جو کئ قسطوں میں کونسلر حکومت ترکی کو بمبئی بھجوایا گیا۔

حضرت مولانا گنگوہی کی معرفت تین قسطیں پہنچیں،پہلی قسط 784 روپے اسی روپۓ کی، دوسری 87 روپے اٹھ انے کی ، تیسری دو سو روپے چار آنے کی تھی، کل رقم 1071 روپے کچھ آنا تھی، اور علماۓسہارن پور نے بھی جوش و خروش سے اس کی آبیاری فرمائی، حضرت مولانا احمد علی کی توجہ سے سب سے زیادہ رقم فراہم ہوئی ،حضرت مولانا کا عطیہ پانج قسطوں میں پہنچا جو 4230 روپے پر مشتمل تھا، یہ رقم اہل سہارن پور کی اس رقم کے علاوہ تھی جوسہارنپور میں مقیم ایک اور باہمیت شخص امداد علی خاں ،مالک کارخانہ شکرم اپنی اور اپنے دوستوں کی طرف سے سے فراہم کرکے بار باربھیجتے رہے ۔

یہ تو وہ رقمیں تھی جن سے حضرت مولانا محمد قاسم اور حضرت مولانا کے قریب ترین دوستوں یا بڑوں کا براہ راست تعلق تھا ،اس کے علاوہ اس طرح کی رقمیں بھی خاصی تھیں جو مولانا کے توجہ دلانے کی وجہ سے مولانا کے شاگردوں وغیرہ نے منگلور، مظفرنگر،تھانہ بھون،انبہٹہ،گلاوٹھی وغیرہ سے اکھٹی کر کے بھیجی تھی،ایک رقم کاندھلہ کی بھی تھی جو "فضیلت ماب مولوی محمد ابراہیم کاندھلوی "کی معرفت ملی تھی, یہ 270 روپے تھے. اس کوشش کی وجہ سے یہ ہوا اطراف و نواح سے نکل کر ملک کے دور دراز گوشوں تک پہنچ گئی تھی، سب طرف سے رقمیں اور چند آرہا تھا اور گویاصحیح معنوں میں ھن برس رہا تھا، ہر طرف ایک جوش اور ولولہ تھا ،رقمیں فراہم کی جا رہی تھیں، بمبئی پہنچ رہی تھیں، ان کی اطلاعات آ رہی تھیں، شکریہ کے خطوط موصول ہو رہے تھے، غرض ایک عجیب کیفیت تھی، ادھر سے تعاون و کشادہ دستی تھی اور ادھر سے شکریہ اور پزیرائی کا اہتمام اور اعلان کیا جا رہا تھا۔جاری ہے
 
Last edited:
Top