سلام کے جواب کا افضل اور اعلیٰ درجہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
۱- سلام کے جواب کا افضل اور اعلیٰ درجہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ ہے اور صرف ”وعلیکم السلام“ کہنا بھی جائز ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)
۲- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”علیکم“ کہا تو یہ سلام کا جواب نہیں سمجھا جائے گا۔(حوالہ سابق)
۳- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہا تو دونوں قول ہیں: جواب ہوجائے گا، دوسرا قول یہ ہے کہ کافی نہیں ہوگا۔(ایضا)
شریعت میں الفاظ بھی مقصود ہیں
حضرت جابر بن سلیم رضی ا للہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ”علیک السلام“ کہنے کی ممانعت آئی ہے؛ اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سلام میں الفاظِ منصوصہ مسنونہ کی پیروی ضروری ہے۔
اِس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ الفاظِ شرعیہ میں ا پنی طرف سے اضافہ ،کمی اور ردّو بدل جائز نہیں؛ بلکہ اِس میں نص کی اِتّباع ضروری ہے، بطور دلیل کچھ روایات پڑھیے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم اپنی خواب گاہ میں آوٴ تو اِس طرح وضو کرو، جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاوٴ اور یہ دعا پڑھو:
اللّٰہم أسْلَمتُ وَجْہِي إلیک، وفَوَّضتُ أَمْرِي إلیک، وأَلْجأتُ ظَہْري إلَیک، رَغْبَةً ورَہْبَةً إلَیک، لا مَلْجَأَ ولا مَنْجیٰ مِنْکَ إلاَّ إِلَیکَ․ آمَنْتُ بکتابک الذي أنْزَلتَ وبِنَبِیِّکَ الذي أرْسَلْتَ․
اگر تم اسی رات فوت ہوئے تو مسلمان ہوتے ہوئے فوت ہوگے؛ لہٰذا تم اِن کو اپنے آخری کلمات بناوٴ، میں نے کہا: میں تو وَبِرَسُولک الذي أرسلتَ یاد کرتا ہوں(بخاری کی دوسری روایت میں ہے :کہ میں نے یہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دُہرائے، جب میں نے وَبِرَسُولک پڑھا) تو آپ نے فرمایا: نہیں، وبِنَبِیِّک الذي أرسلتَ پڑھو۔ (بخاری، رقم: ۵۹۵۲، الدعوات)
دیکھیے رسول اور نبی میں، عام علماء کے نزدیک تَرادُف ہے یا بعض کے نزدیک رسول خاص ہے، یعنی معنی میں اعلیٰ ہے نبی سے؛ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء کو اِس طرح پڑھنے سے منع فرمادیا۔
حضرت نافع کہتے ہیں: ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس چھینکا اور کہا:
الحمد للّٰہ والسلام علی رسول اللّٰہ، تو ابن عمر نے کہا میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں؛ لیکن یہ طریقہ نہیں ہے (کہ الحمد للّٰہ کے ساتھ والسلام کو ملایا جائے)ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر یہ تعلیم دی ہے کہ ہم الحمد للّٰہ علی کل حال کہیں۔(ترمذی، رقم: ۲۷۳۸)
اِن نُصوص سے یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ الفاظِ شرعیہ کی پیروی ضروری ہے، اِس کے اندر کمی بیشی جائز نہیں؛ لہٰذا سلام اور جوابِ سلام کے وہی الفاظ معتبر ہوں گے، جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں، اور اگر سلام کے الفاظ بالکلیہ ترک کردئیے جائیں اور اُن کی جگہ دوسرے الفاظ: عربی یا علاقائی زبانوں کے اختیار کیے جائیں تو وہ اسلامی تحیہ نہیں ہوگا، اسلامی سلام وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابتایا ہوا ہے اور عربی میں ہے؛ ہاں اگر اسلامی سلام کے بعد، علاقائی کلماتِ ملاقات بولے جائیں، جیسا کہ بولا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
اس حدیث (اس سے مراد وہ روایت ہے، جس میں ہے کہ حضرت جابر بن سُلیم نے ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں سلام کیا تھا: علیک السلام یا رسول اللّٰہ! تو آپ نے منع فرمادیا تھا، (ابوداوٴد، رقم:۵۲۰۹) سے ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی، جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں، وہ یہ کہ احادیث سے معنی، مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی؛ لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں، دیکھیے ”السلام علیکم“ اور ”علیکم السلام“ دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں، یعنی تم پر سلامتی ہو؛ لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سُلیم رضی اللہ عنہ کو پہلی ملاقات ہی میں اِس امر پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم“ کہو، ایسا کیوں کیا؟ اِس لیے کہ اس کے ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ ”شریعت“ اپنی مرضی سے راستہ بتا کر چلنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ ”شریعت“ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام ہے۔
آج کل لوگوں کی زبانوں پر ا کثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے، ظاہر اورالفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، معلوم نہیں لوگ الفاظ کے بغیر روح تک کیسے پہنچ جاتے ہیں، اُن کے پاس کون سی ایسی خورد بین ہے، جس میں اُن کو روح نظر آتی ہے؛ حالاں کہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے، سلام ہی کو لے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت ”السلام علیکم“ کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں ”سلامتی ہو تم پر“ دیکھیے معنی اور مفہوم تو اِس کے وہی ہیں جو ”السلام علیکم“ کے ہیں؛ لیکن وہ برکت، وہ نور اور اتباعِ سنت کا اجر وثواب، اِس میں حاصل نہیں ہوگا، جو ”السلام علیکم“ میں حاصل ہوتا ہے۔(اصلاحی خطبات: ۶/۱۸۶)
وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
ویکرہ تغییر صیغة السلام المشروعة ہکذا بمثل قول بعضہم: ”سلام من اللّٰہ“ فذلک بدعة منکرة․صیغہ سلام کی تبدیلی مکروہ ہے، مثلاً کچھ لوگوں کا سلام من اللّٰہ کہنا بدعت اور منکر ہے۔(الفقہ الإسلامي۴/۲۶۸۵)
مسنون سلام ”السلام علیکم“سے ہی ادا ہوگا
آداب عرض یا اِسی قسم کے دوسرے الفاظ، شرعی اسلامی تحیہ کے قائم مقام نہیں ہوں گے، اور سنتِ سلام ادا نہ ہوگی۔ (کفایت المفتی:۹/۹۰)__________________________
 
Top