اس عید پہ لوٹ کے آ جانا
کچھ یادیں تازہ کرنی ہیں
کچھ لمحے موڑ کے لانے ہیں
کچھ تارے توڑ کے لانے ہیں
وہ مستی اور وہ مدہوشی
وہ بچپن موڑ کے لانا ہے
اس عید پہ لوٹ کے آ جانا
خود تو آئے نہیں اور عید چلی آئی ہے
عید کے روز مجھے یوں نہ ستائے کوئی
احساس آرزو ۓ بہاراں نہ پوچھیے
دل میں نہاں ہے آتش سوزاں نہ پوچھیے
عید آئی اور عید کا سامان نہ پوچھیے
مفلس کی داستاں کسی عنواں نہ پوچھیے
ہے آج وہ بہ حالِ پریشاں نہ پوچھیے
آو مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی رہے نہ کوئی بھی غم عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن
اپنوں میں جو ہے شاد اسے عید مبارک
اور ہم ہیں جسے یاد اسے عید مبارک
عید کے روز بھی نہ ملنے آئے تم
تیری راہوں میں پھول بچھائے ہم نے
اپنا تو کسی طور سے کٹ جائے گا یہ دن
تم جس سے ملو آج اسے عید مبارک
تہوار عید ہے مناؤ تم بھی عید
بھلا کر سارے غم گاؤ خوشی کے گیت
ہو مبارک عالم اسلام کو یہ عید سعید
ہنسی خوشی تیرے جیون کا ہر سفر گزرے
میری دعا ہے کہ تیری عید خوب تر گزرے
ہوتے ہیں افسردہ جب جاتا ہے رمضان
جاتے جاتے عید کا تحفہ دے جاتا ہے رمضان