صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں بنیادی عقائد

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں بنیادی عقائد​

۱ - ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے دل اور اپنی زبان کو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بالکل صاف ستھری رکھے ۔ اس پر اجماعِ امت ہے ۔

۲ - جو مسلمان اپنے آپ کو صحیح نبوی طریقے پر رکھنا چاہتا ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ بلا تفریق تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرے اور ان کے ساتھ محبت کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لے اور ان میں کسی ایک سے محبت اور اس کے مقابلے میں دوسرے سے بغض کسی صورت میں درست نہیں ؛ بلکہ یہ بدعت اور ضلالت ہے ۔

۳ - اہل سنت والجماعت یعنی پکے اورسچے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ میں جو آپسی اختلاف اورجنگیں ہوئیں اس پر سکوت اختیار کرے ؛ لہٰذا انہیں کوئی بھی بہانہ بناکر برا بھلا کہنا سراسر ضلالت ہے ۔

۴ - صحابہ کے بارے میں صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کی افضلیت کو برقرار رکھی جائے ، اس کی بنیادی ترتیب اس طرح ہے :
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔

۵ - جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی وہ جنتی ہیں ، اس پر مکمل یقین رکھے ۔ جیسے عشرۂ مبشرہ یعنی وہ صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی ۔ خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیرابن العوام اور حضرت سعید ابن زید ۔

۶ - اہل سنت والجماعت کے نزدیک آیتِ کریمہ ’’ وکلا وعد اللہ الحسنیٰ ‘‘ کے مطابق تمام صحابہ فضیلت کے حامل ہیں ، ان میں فضل مراتب ہے جیسے انبیاء میں بھی ہے ۔ البتہ شرف صحابیت میں سب مشترک ہیں ۔

۷ - اہل سنت کے عقیدے کے مطابق مہاجرین افضل ہیں انصار سے ۔

۸ - اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اہل بدرکے تمام صحابہ کواللہ نے بخش دیاہے ؛ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ’’ اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم ‘‘ اسی طرح بیعت رضوان والے ۱۴۰۰ ؍ سے زائد صحابہ میں سے بھی کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ، اس لیے کہ اعلان خداوندی ہے : { لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ } ۔

۹ - اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو اختلاف ہوئے اس کے بارے میں سکوت اورخاموشی واجب ہے ۔ اس پر کسی بھی طرح کا کلام جائز نہیں ، چاہے وہ حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہو یا حضرتِ علی رضی اللہ عنہ اور حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف ۔

۱۰ - اہل سنت و الجماعت کے نزدیک صحابہ کا شمار خیر القرون میں ہوتا ہے ، وہ معصوم نہیں مگر محفوظ ضرور ہیں ، اگر صحابہ میں کسی سے کوئی چوک یا گناہ بھی ہوگیا ، تو ان کی مغفرت ہوجائے گی اس لیے کہ وہ مغفرت اور شفاعت نبوی کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ، اگر ان میں سے کسی سے کوئی خطا بھی ہوگئی تو تمام صحابہ اجتہاد کے درجہ پر فائز تھے ، لہٰذا اجتہاد ی خطاؤں کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوں گے بل کہ خطاپر بھی ماجور ہوں گے ۔
( عقیدہ اہل السنۃ فی الصحابۃ )

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مذکورہ دس عقائد کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور امت کا چودہ سوسال سے اس پر اجماع چلا آرہا ہے ؛ لہٰذا کسی کے لیے ہر گز یہ گنجائش نہیں کہ وہ اس سے اختلاف کرے یا یہ کہے کہ وہ دینی امور میں عدالت کے حامل تھے اور سیاسی امور میں نہیں ؛ جیساکہ بعض حضرات سیاسی مسئلہ بتلاکر بعضے صحابہ پر تنقید اور جرح کو درست تصور کرتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے : ’’ الصحابۃ کلہم عدول ‘‘ تمام کے تمام صحابہ عدول ہیں ، یعنی ان پر کسی صورت میں جرح کی کوئی گنجائش بالکل نہیں ۔ اجمالی محبت ضروری ہے ، جن کے نام ہمیں معلوم نہیں اور جن کے نام معلوم ہیں ان سے انفرادی طورپر بھی محبت ضروری ہے ۔
منقول.... بشکریہ*قاسمی آواز گروپ
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کچھ تذکرہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سب سے پہلے کون ایمان لائے
--------------

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ قَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيْ هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِيْنَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَّاءِ خَدِيْجَةُ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘

الحديث رقم 4 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734.
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تمام فرقِ باطلہ کے مقابلہ میں اہل حق کا امتیازی نشان صحابہ کرامؓ کی عظمت ومحبت رہا ہے، تمام اہل حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیا ہے کہ:
’’ونکف عن ذکر الصحابۃؓ إلا بخیر‘‘۔
’’اور ہم صحابہؓ کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے‘‘۔
گویا اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابہ کرامؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے۔ جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو، ان کو موردِ الزام قرار دیتا ہو، اور ان پر سنگین اتہامات کی فردِ جرم عائد کرتا ہو، وہ اہل حق میں شامل نہیں ہے۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف کو باغی سمجھتا تھا، اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!

باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ، لعن طعن کرنا بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا )". ( ٢ / ٩٦ )

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو)۔

فتح الباري لابن حجرمیں ہے:

"واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك، ولو عرف المحق منهم؛ لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجراً واحداً، وأن المصيب يؤجر أجرين". (کتاب الفتن باب إذا التقیٰ المسلمان، ١٣ / ٤٣ )

ترجمہ: اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے، اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا ؛ کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔

بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني شرح الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيبانيمیں ہے:

"( قال النووي:) ... واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد، و مذهب أهل السنة و الحق: إحسان الظن بهم و الإمساك عما شجر بينهم و تأويل قتالهم، و أنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية و لا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق و مخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلي امر الله، و كان بعضهم مصيباً و بغضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ؛ لأنه لاجتهاد، و المجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب، هذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهةً حتى أن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين و لم يقاتلوا و لم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدتهم، و الله اعلم". ( باب إحسان النية علي الخير و مضاعفة الاجر بسبب ذلك و ما جاء بسبب العزم و الهم، ١٩ / ٧ ، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ترجمہ: اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے؛کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سے گر خطا سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا
 
Top