مسلمانوں نے سندہ پر کیسی حکومت کی۔

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مسلمانوں نے سندہ پر کیسی حکومت کی(1)۔​
محمد بن قاسم کی بہادری، دانائی اور سلامت روی جس طرح مسلم اور مشہور آفاق اسی طرح اس کی یہ صفت خاص بھی معلوم عوام ہے کہ وہ اپنے محسن و مربی حجاج بن یوسف ثقفی کے کسی حکم، کسی مشورے اور کسی ہدایت کی رتی برابر بھی مخالفت نہیں کرتا تھا ۔اور اس نے اس معاملہ میں حیرت انگیز طور پر احتیاط سے کام لیا تھا ۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان ہدایت و نصائح جو حجاج نے محمد بن قاسم کے پاس لکھ لکھ کر سندھ میں بھیجیں۔ فتح دیبل کی خوشخبری سن کر حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ :
"جب ملک پر تم قابض ہو جاؤ تو قلعوں کی استواری اور لشکر کی رفع احتیاج کے بعد تمام اموال وخزانے کو بہبودرعایا اوررفاہ خلق میں خرچ کرواور یاد رکھو کہ کاشتکاروں ،آ کی کاری گروں، سوداگروں اور پیشہ وروں کی خوشحالی دفاع فارغ البالی سے ملک آباد اورسر سبز ہوتا ہے ۔ رعایا کے ساتھ ہمیشہ رعایت کرو تاکہ وہ تمہاری محبت کے ساتھ راغب ہوں"
محمد بن قاسم جب نیرون میں مقیم تھا تو اس کے پاس حجّاج کا خط پہنچا کہ:
" اہل نیرون کے ساتھ نہایت نرمی اور دل دہی کا سلوک کرو ان کی بہبودی کے لئے کوشش کرو ۔لڑنے والوں میں جو تم سے امان طلب کرے اس کو ضرورامان دو۔ کسی مقام کے اکابر و سردار تمہاری ملاقات کو آئیں تو ان کو قیمتی خلعت اور انعام واکرام سے سرفراز کرو۔عقل و دانائی کو اپنا رہبر بناؤ ،جو وعدہ کسی سے کرو اس کو ضرور پورا کرو۔ تمہاری قول و فعل پر تمہاری قول وفعل پر سندھوالوں کو پورا پورا اعتماد
واطمینا ن ہو "
فتح سیوستان کے بعد حجاج کا خط پہنچا کہ"
جو کوئی تم سے جاگیر وریاست طلب کرے تم اس کو ناامید نہ کرو ۔التجاؤں کو قبول کرو ۔امان وعفو سے رعایا کو مطمئن کر و ۔ سلطنت کے چار ارکان ہیں۔ اول مدارودرگزر ومحبت، دوم سخاوت وانعام ۔سوم دشمنوں کی مزاج شناسی اور ان کی مخالفت میں عقل کو ھاتھ سے نہ دینا۔چہارم۔ قوت وشہامت ۔ر آ جاؤ سے جو عہد کو اس پر قائم رہو۔ جب وہ مال گزاری دینے کا اقرار کرلیں تو ہر طرح ان کی اعانت وامداد کرو۔ جب کسی کو سفیر بنا کر بھیجو تو اس کی عقل وامانت کو جانچ لو اور جو شخص توحید الہی کا اقرار اور تمہاری اطاعت کرے اس کے تمام مال و اسباب ننگ و ناموس کو برقرار رکھو لیکن جو اسلام قبول نہ کرے تو اسے صرف اس قدر مجبور کرو کہ وہ تمہارا مطیع ہو جائے۔ جو شخص بغاوت اور سرکشی اختیار کرے اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ شریف اور رزیل میں امتیاز کرو۔ ایسا نہ ابھی نہ ہو کہ تمہاری صلح جوئی کو دشمن ہماری کمزوری محسوس کریں"
محمد بن قاسم نے جب دریا عبور کرلیا اور داہر کی فوج سے مقابلہ شروع ہوگیا تو اس کے بعد حجاج بن یوسف ثقفی کا خط پہنچا کہ:
" نماز پڑھنے میں سستی نہ کرو, تکبیر وقرأۃ۔قیام وقعود اور رکوع وسجود میں خدا تعالیٰ کے روبرو تضرع وزاری کیا کرو۔ زبان پر ہر وقت ذکر الہی جاری رکھو کسی شخص کو شوکت وقوت خدا تعالی کی مہربانی کے بغیر میسر نہیں ہو سکتی ۔اگر تم خدا تعالی کے فضل و کرم پر بھروسہ رکھو گے تو یقینا مظفر منصور ہو گے "
راجہ داہر کے مارے جانے کا حال محمد بن قاسم نے حجاج کو لکھا ۔ قاصہ حجاز کے پاس سے یہ خط لے کر آیا ۔
"تمہار اہتمام و انتظام اور ہر ایک کام شرع کے موافق ہے۔ مگر ہر خاص و عام کو امان دینے اور دوست اور دشمن میں تمیزنہ کرنے سے ایسا نہ ہو کہ کام بگڑ جائے۔ جو لوگ بزرگ اور ذی وقار ہوں ان کو ضرور امان دو لیکن شریر اور بد معاشوں کو دیکھ بھال کر آزاد کیا کرو۔ اپنے عہد و پیمان کا ہمیشہ لحاظ رکھو اور امن پسند رعایا کی استمالت کرو"
اس کے بعد برہمن آباد سے محمد بن قاسم نے جوعریضہ بھیجا اس کے جواب میں حجاز نےلکھا کہ:
" تم نے رعیت نوازی اور رفاء عام میں جو کوشش کی ہے تعریف کے قابل دل ہے"." (آئینہ حقیقت نما)جاری ہے۔
 
Last edited:
Top