دعا کی قبولیت اور مغفرت خداوندی
بصیرت آموز خطاب
صاحبزادہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی مد ظلہم
بصیرت آموز خطاب
صاحبزادہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی مد ظلہم
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فر ماتے ہیں :
یا ابن آدم انک ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک علیٰ ماکان فیک ولا ابالی . اے ابن آدم جب تک تو مجھ سے مانگتا رہے گالیکن ایک شرط ہے ''ورجوتنی'' آس لگا کر مانگتا رہے گا ، دل لگا کر مانگتا رہے گا ، اس عقیدے کے ساتھ مانگتا رہے گاکہ تیرے درد کو میرے سوا کوئی نہیں دو ر کر سکتا ، تیری جھولی کو میرے سوا کوئی نہیں بھر سکتا ، میرے سوا کسی کے پاس ایسےخزانے نہیں ہے ، جو کبھی نہ خالی ہو ئے نہ خالی ہوں گے میں ہی تیرے درد کو دیکھ رہا ہوں ، تو جو مانگ رہا ہے سن رہا ہوں ،اس آس اور امید کے ساتھ جب تک تو مجھ سے بھیک مانگتا رہے گا ، سوال کرتا رہے گا . غفرت لک علیٰ ما کان فیک . تیرے گناہ ،کیسے بھی ہوں میں ان گناہوں کو معاف کرتا رہوں گا . فر ماتے ہیں ولا ابالی . میں تو بادشاہوں کا باد شاہ ہوں ، میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا .میرا بندہ مجھ سے آس لگائے ہوئے بھیک مانگ رہا ہے میں اسکے گناہوں کو معاف کررہا ہوں . کون ہے جو مجھ سے پوچھنے والا ہو کہ میں نے اپنے بندے کے گناہوں کو کیوں معاف کیا؟ مجھے کسی کی پرواہ نہیں . اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سے آس لاگا کر دعا مانگنا اللہ کو بہت زیاد ہپسند اور محبوب ہے ،اللہ کی رحمت اور مغفرت اس بندے پر برستی ہے جو اللہ سے آس لگا کر بھیک مانگتا ہے . دعا مانگنا انسان کے گناہوں کی مغفرت کابہرتین ذریعہ ہے ، اس لئے ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ ، رات دن ، صبح وشام اللہ سے بھیک مانگنی چاہئے .حد یث پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور علما ء جانتے ہیں کہ حدیث کی ہر کتاب کے اندر ایک مستقل باب ہوتا ہے . جس کو کہا جاتا ہے '' کتاب الدعوات ''اس باب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے ، رات دن اللہ کے نبی کا کوئی کام ایسا نہیں کہ جس کے اندر کوئی نہ کوئی دعا آپ سے منقول نہ ہو ، آپ سو رہے ہیں ،اٹھ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں ، پی رہے ہیں ، فارغ ہو رہے ہیں ، ضرورت کیلئے جارہے ہیں ، سفر کر ہے ہیں ، سفر سے آرہے ہیں ، سواری پر بیٹھ رہے ہیں ، ہر جگہ ایک دعا ہے . جو اللہ کا نبی اپنے اللہ سے مانگ رہا ہے .اس لئے مومن کا یہ فر ض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اللہ سے آس لگائے رہے . یہ ہو سکتا تھا کہ چوبیس گنٹے کے اندر ایک وقت ہوتا اور پانچ نمازیں اد ا کرلی جاتیں بس ایک ہی وقت میں ، مگر اللہ کی مصلحت یہ نہیں ہے ،اس نے ٹھوڑے تھوڑے وقفے سے پانچ نمازوں کو فر ض کیا ، مصلحت بظاہر یہ معلوم ہو تی کہ رات اور دن ، ہر وقت ، ہر جگہ انسان کا رشتہ اپنے اللہ سے جڑنا چاہئے .