درس حدیث

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دعا کی قبولیت اور مغفرت خداوندی
بصیرت آموز خطاب
صاحبزادہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی مد ظلہم​

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فر ماتے ہیں :
یا ابن آدم انک ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک علیٰ ماکان فیک ولا ابالی . اے ابن آدم جب تک تو مجھ سے مانگتا رہے گالیکن ایک شرط ہے ''ورجوتنی'' آس لگا کر مانگتا رہے گا ، دل لگا کر مانگتا رہے گا ، اس عقیدے کے ساتھ مانگتا رہے گاکہ تیرے درد کو میرے سوا کوئی نہیں دو ر کر سکتا ، تیری جھولی کو میرے سوا کوئی نہیں بھر سکتا ، میرے سوا کسی کے پاس ایسےخزانے نہیں ہے ، جو کبھی نہ خالی ہو ئے نہ خالی ہوں گے میں ہی تیرے درد کو دیکھ رہا ہوں ، تو جو مانگ رہا ہے سن رہا ہوں ،اس آس اور امید کے ساتھ جب تک تو مجھ سے بھیک مانگتا رہے گا ، سوال کرتا رہے گا . غفرت لک علیٰ ما کان فیک . تیرے گناہ ،کیسے بھی ہوں میں ان گناہوں کو معاف کرتا رہوں گا . فر ماتے ہیں ولا ابالی . میں تو بادشاہوں کا باد شاہ ہوں ، میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا .میرا بندہ مجھ سے آس لگائے ہوئے بھیک مانگ رہا ہے میں اسکے گناہوں کو معاف کررہا ہوں . کون ہے جو مجھ سے پوچھنے والا ہو کہ میں نے اپنے بندے کے گناہوں کو کیوں معاف کیا؟ مجھے کسی کی پرواہ نہیں . اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سے آس لاگا کر دعا مانگنا اللہ کو بہت زیاد ہپسند اور محبوب ہے ،اللہ کی رحمت اور مغفرت اس بندے پر برستی ہے جو اللہ سے آس لگا کر بھیک مانگتا ہے . دعا مانگنا انسان کے گناہوں کی مغفرت کابہرتین ذریعہ ہے ، اس لئے ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ ، رات دن ، صبح وشام اللہ سے بھیک مانگنی چاہئے .حد یث پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور علما ء جانتے ہیں کہ حدیث کی ہر کتاب کے اندر ایک مستقل باب ہوتا ہے . جس کو کہا جاتا ہے '' کتاب الدعوات ''اس باب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے ، رات دن اللہ کے نبی کا کوئی کام ایسا نہیں کہ جس کے اندر کوئی نہ کوئی دعا آپ سے منقول نہ ہو ، آپ سو رہے ہیں ،اٹھ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں ، پی رہے ہیں ، فارغ ہو رہے ہیں ، ضرورت کیلئے جارہے ہیں ، سفر کر ہے ہیں ، سفر سے آرہے ہیں ، سواری پر بیٹھ رہے ہیں ، ہر جگہ ایک دعا ہے . جو اللہ کا نبی اپنے اللہ سے مانگ رہا ہے .اس لئے مومن کا یہ فر ض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اللہ سے آس لگائے رہے . یہ ہو سکتا تھا کہ چوبیس گنٹے کے اندر ایک وقت ہوتا اور پانچ نمازیں اد ا کرلی جاتیں بس ایک ہی وقت میں ، مگر اللہ کی مصلحت یہ نہیں ہے ،اس نے ٹھوڑے تھوڑے وقفے سے پانچ نمازوں کو فر ض کیا ، مصلحت بظاہر یہ معلوم ہو تی کہ رات اور دن ، ہر وقت ، ہر جگہ انسان کا رشتہ اپنے اللہ سے جڑنا چاہئے .
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فر ماتے ہیں یا ابن آدم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرتنی غفرت لک ولا ابالی. اے آدمی ! اگر تو نے دنیا میں اتنے گناہ کئے ، اتنے گناہ کئے کہ اگر تیرے گناہوں کو اوپر نیچے رکھا جائے تو پہاڑ بن جا ئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچ جائے ،اگر اتنے گناہ کر نے کے بعد بھی تو نے سچے دل سے تو بہ اور استغفار کی کہ ائے اللہ ! میرے گناہوں کو معاف فر مادے ، تو فر ماتے ہیں ''غفرت لک ' میں تیرے گناہوں کو معاف کر دوں گا . ''ولا ابالی ' اور مجھے کسی کی پرواہ نہیں . میرے بھائی !اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا اپنے اللہ سے رشتہ ضوڑنا، دعا ما نگنا، استگفار کرنا یہ مومن کیلئے ایک بہترین سہارا ہے خدا کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کر نے کا، ہم جس طرح قدم قدم پر گناہ کرتے رہتے ہیں ،اللہ نے ہمیں استغفار ایک بہترین وسیلہ اور سہارا دیا ہے کہ ہم ان گناہوں کی مغفرت کیلئے راستہ ہموارکر سکیں .اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار کی تاکید فر مائی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فر ماتے ہیں کہ ہم ایک ایک مجلس میں کبھی کبھی گناہ کرتے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی مرتبہ استغفار کرتے ہیں ، ایک ایک مجلس میں ستر ستر مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کرتے تھے .اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو طریقہ بتلا رہے ہیں ،اللہ کا نبی تو گناہوں سے معصوم ہے وہ یہ بتلا رہا ہے کہ مومن کو ہر وقت اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرتے رہنا چاہئے.
 
Top