امام ابوحنیفہؒ کا مقام محدثین کی نگاہ میں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ابوحنیفہؒ کا مقام محدثین کی نگاہ میں​

حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سنہ۸۰ھ میں کوفہ میں ہوئی جب کہ حضرات صحابہؓ کی بعض بزرگ شخصیتیں موجود تھیں، ان میں سے اکثر سے آپؒ کوملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا، آپ نے اکابر تابعین سے علم حاصل کیا اور اس میں ایسی مہارت پیدا کی کہ معاصر محدثین نے بھی آپ کے فضل اور حدیث دانی کا اعتراف کیا ہے اور اپنی اپنی خراج عقیدت پیش کی ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ بعض محدثین کے وہ اقوال وتاثرات ذکر کیے جاتے ہیں جوانھوں نے وقتا فوقتا آپؒ کے متعلق فرمائے ہیں:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظِ حدیث ہیں، فقیہ امت ہیں، شیخ الاسلام ہیں، آپ کے اساتذہ میں حضرت نافع، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن دینار رحمہم اللہ جیسے محدث حضرات کا شمار ہوتا ہے اور آپ کی شاگردی حضرت عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر، عظیم المرتبت محدث حضرات نے اختیار کی ہے، زبردست فقیہ ومحدث تھے، لوگوں میں مقبول تھے، آپ کی وفات سنہ۱۷۹ھ میں ہوئی۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۷)​
خطیب بغدادیؒ حضرت امام شافعیؒ سے روایت کی ہے کہ امام مالکؒ سے معلوم کیا گیا کہ آپ نے امام ابوحنیفہؒ کودیکھا ہے؟ فرمایا: جی ہاں! میں نے ان کوایسا پایا کہ اگر وہ اس ستون کے متعلق تم سے دعویٰ کرتے کہ یہ سونے کا ہے تواسکوحجت سے ثابت کردیتے۔
(تذکرہ النعمان:۱۴۷)​

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ علمِ حدیث میں امام مالکؒ، اسماعیل بن جعفرؒ، ابراہیم بن یحییٰ رحمہم اللہ وغیرہم کے شاگردِ رشید ہیں اور امام احمد بن حنبلؒ، ابوحمیدؒ، بویطیؒ، ابوثور رحمہم اللہ وغیرہم کے استاذ محترم ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۶۱)
آپؒ فرماتے تھے کہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے محتاج ہیں؛ کیونکہ فقہ اور اس کی دقیق باتوں کے وہ ماہر ہیں۔​
(سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۳)​
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مسعر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ
آپ کی وفات سنہ۱۵۵ھ میں ہوئی، آپؒ سفیان بن عیینہؒ، یحییٰ بن سعید القطان رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیا ہے، آپ کے بارے میں آپ کے استاذ محترم یحییٰ بن سعید القطانؒ فرماتے ہیں:
"میں نے مسعر بن کدامؒ سے زیادہ معتبر وثقہ شخص نہیں دیکھا"۔(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۸)

خطیب بغدادیؒ نے مسعر بن کدامؒ سے روایت کی ہے کہ جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوواسطہ بنالیا، مجھے امید ہے کہ اس کوکوئی خوف نہ ہوگا اور اس نے اپنی احتیاط میں کوئی کمی نہیں کی ہے، قاضی ابوالقاسم بن الکاسؒ نے جعفر بن عونؒ سے روایت کی ہے کہ مسعر بن کدامؒ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے اپنے اصحاب کی رائے چھوڑ کر ابوحنیفہؒ کی رائے کیوں اختیار کرلی؟ توانھوں نے فرمایا کہ ان کی رائے کی صحت کی وجہ سے، آپ حضرت امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے بہتر رائے پیش کریں، میں اس کواپنالونگا؛ انھوں نے مسعر بن کدامؒ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ ہم نے حدیث امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ حاصل کی تووہ ہم پر غالب آگئے؛ پھرہم نے ترکِ دنیا کواپنایا تووہ اس میں بھی فوقیت لے گئے، اس کے بعد فقہ حاصل کی تووہ ہم پر غالب آگئے؛ انھوں نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے روایت کی ہے کہ میں نے مسعر بن کدامؒ کو امام ابوحنیفہؒ کے حلقہ میں دیکھا، امام صاحبؒ کے سامنے بیٹھے سوال کررہے تھے؛ انھوں نے فرمایا: کسی کالے بال والے کوامام ابوحنیفہؒ سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا، مسعر بن کدامؒ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہؒ پر رحم کرے بے شک وہ فقیہ اور بڑے عالم تھے۔ (تذکرہ النعمان:۱۵۹/۱۶۰)


عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ بڑے محدث ہیں، کئی صحابہؓ کی آپ نے زیارت کی ہے، حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ یاحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پیدا ہوئے، آپ کے اساتذہ میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن عباسؓ، ابوسعیدؒ، ام سلمہ رضی اللہ عنہم کا شمار ہوتا ہے اور آپ کی شاگردی حضرت ابوایوب سختیانیؒ، امام اوزاعیؒ، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہم جیسے کبارِ محدثین وفقہاء نے اختیار کی ہے، آپ کی وفات سنہ۱۱۴ھ میں ہوئی۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۸)​

حارث بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم حضرت عطاءؒ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے، جب امام ابوحنیفہؒ آتے توان کے لیے حضرت عطاءؒ جگہ بناتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ابوالقاسمؒ نے ایک مرتبہ حضرت عطاءؒ سے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ بڑے ہیں یاسفیان ثوریؒ؟ توانھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ میرے نزدیک ابنِ جریجؒ سے بھی زیادہ فقیہ ہیں، اُن سے زیادہ فقہ پر قادر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔
(تذکرہ النعمان:۱۷۱)​

عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظِ حدیث ہیں، اونچے درجے کے محدثین میں آپ کا شمار ہوتا ہے، شیخ الاسلام ہیں، فخرالمجاہدین اور قدوۃ الزاہدین ہیں، آپ کے اساتذہ میں سلیمان تیمی اور امام عاصم رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر حضرات ہیں اور آپ کی شاگردی عبدالرحمن بن مہدیؒ، یحییٰ بن معینؒ، ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہم اللہ جیسے اکابر محدثین وائمہ جرح وتعدیل نے اختیار کی ہے، احادیث کے اندر آپؒ کوامیرالمؤمنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلم شریف اور بخاری شریف کے راویوں میں ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۵)
آپ رحمۃ اللہ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردِ رشید ہیں اور ان کے عقیدت مندوں میں ہیں آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص امام ابوحنیفہؒ کا نام برائی سے لے تومیں اس کوگوارا نہیں کرسکتا کہ میں اس کواپنی نگاہوں کے سامنے دیکھوں اور مجھے یہ بات بھی پسند نہیں کہ میں اس کے ساتھ بیٹھوں، مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں اللہ پاک کی طرف سے کوئی آیۃ من آیات اللہ نہ نازل ہوجائے اور میں بھی اسی کے ساتھ ہوجاؤں، اللہ کی قسم امام ابوحنیفہؒ متقی تھے، اپنی زبان کی حفاظت بری باتوں سے کیا کرتے تھے، آپ کی مجلس بہتر ہوا کرتی تھی اور آپ بہت زیادہ حلیم وبردبار تھے۔
(سیراعلام النبلاء:۶/۱۴۰۰۔ خبار ابی حنیفہ واصحابہ:۳۲)​
نیز فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ پر امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ متفق ہوجائیں توچاہئے کہ آدمی اس کوقبول کرلے، آپؒ کی مجلس میں ایک شخص امام صاحبؒ کی طعن وتشنیع کررہا تھا توآپ نے کہا خاموش ہوجاؤ؛ اگرتم امام صاحبؒ کو دیکھ لیتے توزبردست عقلمند اور ذی ہوش پاتے، ابوسلیمان جرجانیؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرمارہے تھے کہ سفیان ثوریؒ اللہ پاک سے زیادہ ڈرتے تھے اور میں کسی کونہیں دیکھا جوامام ابوحنیفہؒ سے زیادہ عقلمند ہو۔
(الانتقاء:۲۰۷،۲۰۶)​

ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا کہ اپنی رائے سے دین کی بابت کچھ کہنا مناسب ہوتا توامام ابوحنیفہؒ اس مرتبہ کے ہیں کہ ان کواپنی رائے سے کہنا مناسب ہونا چاہئے، وہ فرماتے ہیں کہ اگرکسی مسئلہ میں کوئی حدیث نہ مل سکے اور رائے کی ضرورت پڑے توامام مالکؒ، سفیان ثوریؒ اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی رائے کی طرف رجوع کیا جائے گا؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ ان میں سب سے اچھے ہیں، سب سے زیادہ باریک بیں ہیں، علم فقہ میں ان سب سے زیادہ غوطہ زن ہیں اور ان تینوں میں زیادہ فقیہ ہیں۔
خطیبؒ نے حضرت عبداللہ بن المبارکؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر اللہ نے امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوری رحمہما اللہ سے میری دستگیری نہ کی ہوتی تو میں عام لوگوں کی طرح ہوتا؛ اگرہم رسول اللہﷺ اور حضراتِ صحابہؓ کا اثر نہ پائیں توامام ابوحنیفہؒ کا قول ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے رسول اللہﷺ کا اثر، صمیری، منصور بن ہشام سے روایت کی ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے پاس تھے، ایک آدمی امام ابوحنیفہؒ کی برائی بیان کرنے لگا توآپؒ نے فرمایا: برا ہوا تمہارا! کیا تم ایسے آدمی کی برائی بیان کرتے ہو جس نے چالیس سال تک پانچوں نمازیں ایک ہی وضوء سے ادا کی، جوسارا قرآنِ کریم دورکعتوں میں پڑھتا تھا؛ نیزیہ کہ جوکچھ علمِ فقہ ہے وہ میں نے امام ابوحنیفہؒ ہی سے سیکھا ہے، ایک مرتبہ آپ حدیث بیان کررہے تھے طلبہ لکھ رہے تھے؛ اسی درمیان فرمانے لگے:
"حَدَّثَنِیْ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ"۔
کسی نے کہا: "آپ کس کومراد لے رہے ہیں"۔
آپ نے جواب دیا: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوجو علم کے مخزن ہیں"۔
یہ سن کربعض طلبہ نے حدیث لکھنا بند کردیا توآپؒ تھوڑی دیرخاموش رہے، اس کے بعد فرمایا:
"اے لوگو! آپ لوگ کتنے بے ادب ہیں، ائمہ کرام کے مراتب سے کس قدر ناواقف ہیں، علم اور اہلِ علم سے آپ لوگوں کی معرفت کتنی کم ہے، کوئی بھی امام ابوحنیفہؒ سے بڑھ کر اقتداءکے لائق نہیں، اس لیے کہ وہ امام تھے، متقی تھے، صاف وبے داغ تھے، پرہیزگار تھے، عالم تھے، فقیہ تھے؛ انہوں نے علم کو بصیرت، فہم وفراست اور تقویٰ کے ذریعہ اس طرح کھول کر بیان کیا؛ جیسے کہ کسی اور نے نہیں کیا"۔
(تذکرہ النعمان:۱۵۲،۱۵۱،۱۵۰)

 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ
حافظ حدیث ہیں، آپ کی وفات سنہ۱۸۲ھ میں ہوئی، آپؒ علمِ حدیث میں امام احمد بن حنبلؒ، بشربن الولید، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ جیسے اکابر محدثین کے استاذ ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگردِ رشید ہیں، اتنے بلند پایہ کے محدث وفقیہ ہونے کے باوجود جب ہارون الرشیدؒ نے آپ سے امام ابوحنیفہؒ کے احوال دریافت کئے تو آپ نے فرمایا:
"امام ابوحنیفہؒ منکرات ومنہیات سے خود بھی اجتناب فرماتے اور دوسروں کوبھی روکتے، متقی وپرہیزگار تھے، اہلِ دنیا سے بچا کرتے تھے؛ اکثرخاموش رہا کرتے تھے، فکرمند رہا کرتے تھے، اپنے علوم کولوگوں تک پہنچایا کرتے تھے، سخاوت بھی خوب کرتے، غیبت نہیں کیا کرتے تھے، جب کسی کا تذکرہ کرتے توخیر کے ساتھ کرتے"۔
جب ان صفات کوہارون الرشیدؒ نے سنا تواپنے کاتب کوبلوایا اور کہا اس کو لکھ کر میرے بیٹے کودے دو اور اپنے بیٹے سے کہا: اس کویاد کرو، میں ان شاءاللہ اس کے متعلق تم سے سوال کرونگا؛ نیز امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ:
"امام صاحبؒ ہررات ایک رکعت میں پورا قرآن شریف پڑھ ڈالتے تھے"۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۳۱)

قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ بڑے محدث ہیں، حجر بن عبدالجبار سے روایت ہے کہ قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا گیا کہ آپ توحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بیٹے ہیں، کیا آپ یہ بات پسند کرتے ہیں کہ امام صاحب کے اولاد میں سے ہوجائیں، توقاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ نے کہا مجلسیں توبہت ساری لگاکرتی ہیں اور اس سے استفادہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسیں لگتی ہیں؛ لیکن یہ مجلس دوسری مجلسوں کے مقابلہ میں بہت نفع بخش ہوا کرتی ہے، قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ نے حجربن عبدالجبار سے کہا: ذراتم قریب آؤ، جب وہ قریب آگئے توان کواپنے بدن سے چمٹالیا اور فرمایا کہ میں نے دیکھا توبہت سارے عالم دین کو؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی طرح میں نے کسی کونہیں دیکھا، آپؒ بردبار، متقی وپرہیزگار اور سخی تھے۔
(الانتقاء:۲۰۸)

سعید بن ابی عروبہ رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، آپ کی وفات سنہ۱۵۶ھ میں ہوئی، یحییٰ بن معینؒ آپ کی توثیق فرماتے ہیں، امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
"اِن کو جوبھی کتاب ملتی اس کو زبانی یاد کرلیتے"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۷)

آپ فرماتے ہیں کہ:
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عراق کے عالمِ دین تھے"۔
وہ فرماتے ہیں:
"ایک مرتبہ میں کوفہ گیا اور آپ کی مجلس میں بیٹھ گیا، ایک دن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ آیا توانھوں نے ان کے لیے رحمت کی دعاء کی؛ تومیں نے عرض کیا کہ آپ ان پر رحمت کی دعاء کرتے رہیں، اللہ پاک آپ پر رحم کرتے رہیں گے، میں نے اس شہر میں آپ کے علاوہ کسی کوحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعاء کرتے ہوئے نہیں سنا اور اسی وجہ سے میں آپ کی فضیلت کا قائل ہوگیا"۔ (الانتقاء:۲۰۸)

شریک القاضی رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حفاظِ حدیث میں سے ہیں، آپ کی وفات سنہ۱۷۷ھ میں ہوئی ۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۲)

آپؒ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے اور بہت زیادہ خاموش رہا کرتے تھے، امت کی فکر میں رویا کرتے تھے، بہت کم گفتگو کرتے؛ اکثراوقات علمی کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ (سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۰)

شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ
احادیث کے حفظ واتقان میں امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کوجودرک حاصل تھا، وہ کسی صاحب علم پر مخفی نہیں، علامہ ذہبیؒ نے آپ کوحفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴)​

عبدالصمد بن عبدالوارث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میں شعبہ بن الحجاجؒ کے پاس تھا؛ اسی درمیان ان سے کہا گیا کہ امام ابوحنیفہؒ کی وفات ہوگئی توشعبہؒ نے کہا ان کے ساتھ کوفہ کا فقہ چلا گیا، اللہ پاک ان پر اور ہم پرفضل وکرم فرمائے، آپؒ امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں خاص طور سے حسن ظن رکھتے تھے"۔ (الانتقاء:۲۰۲)

 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حسن بن صالح رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، آپؒ کے استاذ میں سلمہ بن کہیل، عبداللہ بن دینار، منصور بن المعتمر رحمہم اللہ وغیرہم جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے اور آپ کی شاگردی وکیع بن الجراحؒ، یحییٰ بن آدمؒ، محمد بن فضیل رحمہم اللہ وغیرہم جیسے کبارِ محدثین نے اختیار کی ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ ثقہ ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۲۱۲)

آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"امام ابوحنیفہؒ متقی تھے، پرہیزگار تھے، حرام کاموں سے بچا کرتے، بہت سی حلال چیزوں کوبھی آپؒ ترک فرمادیا کرتے؛ تاکہ شعبہ سے بچ سکیں، آپؒ جیسا فقیہ میں نے نہیں دیکھا، جواپنے نفس اور اپنے علم کی حفاظت کرنے والا ہو، قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اس کی دردناکی کویاد کرتے اور قبر کی تیاری کیا کرتے تھے"۔ (الانتقاء:۱۹۹)

یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ بڑے محدث ہیں، فن اسماء الرجال کے امام ہیں، امام احمد بن حنبلؒ، علی بن مدینی رحمہما اللہ جیسے محدثین کے استاذ ہیں، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جیسا میری آنکھ نے نہیں دیکھا"۔
علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں:
"اسماء الرجال کے زبردست عالم تھے"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۸)

آپ رحمۃ اللہ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے تھے:
"امام ابوحنیفہؒ کی رائے سب سے بہتر ہوا کرتی تھی؛ اسی وجہ سے میں نے ان کے بہت سارے اقوال کواختیار کیا ہے، یحییٰ بن معینؒ سے روایت ہے کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطانؒ سے سنا ہے وہ ایک مرتبہ سنا رہے تھے کہ کس قدر اچھی باتیں ہیں جوامام ابوحنیفہؒ نے فرمائی ہیں"۔(سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۲)

فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، آپ کے استاذ میں منصور بن المعتمر،عطاء بن السائب رحمہما اللہ وغیرہم کا شمار ہوتا ہےاور آپ کے شاگردوں میں امیرالمؤنین فی الحدیث عبداللہ بن المبارک، یحییٰ بن سعید القطان رحمہما اللہ جیسے محدیثن کا شمار ہوتا ہے، آپ کی وفات سنہ۱۸۷ھ میں ہوئی، خطیبؒ نے فضیل بن عیاضؒ سے روایت کی ہے:
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فقیہ تھے، پرہیزگاری میں معروف تھے، بڑے مالدار تھے، جوان کے پاس جاتا ان پر فضل فرماتے، ان کی بڑی شہرت تھی، رات دن علوم دینیہ کی تعلیم میں مصروف رہتے؛ اکثر خاموش رہتے، کم بولتے؛ البتہ جب کوئی مسئلہ حلال وحرام کا آجاتا توبہت اچھی طرح حق پردلائل قائم فرماتے، بادشاہوں سے دور بھاگتے تھے"۔
(تذکرۃ العنمان:۱۶۱)
علی بن عاصم رحمۃاللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، ولادت سنہ۱۰۵ھ میں ہوئی اور وفات سنہ۲۰۱ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۶)

آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بہت زیادہ عقلمند تھے؛ اگرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی آدھی عقل کولیا جائے اور اہلِ زمین پر جتنے لوگ بستے ہیں، ان تمام لوگوں کی عقلوں کوتولا جائے توسب سے زیادہ عقلمند امام ابوحنیفہؒ ہی ہوں گے، امام ابوحنیفہؒ کا ان کے نزدیک سب سے بلند مقام تھا"۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۳۰)

یزید ہارون رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، آپ کی وفات سنہ ۲۰۷ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۹)

آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سارے حضرات سے ملاقات کی ہے؛ لیکن ان حضرات میں سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے افضل ومتقی حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
"امام ابوحنیفہؒ متقی تھے، دنیا کوٹھکرانے والے تھے، عالم تھے، سخی تھے، سچی زبان والے تھے، اپنے وقت کے سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، ان کے ہم عصروں میں جس کوبھی میں نے پایا، سب کویہ کہتے ہوئے سنا کہ اس نے امام ابوحنیفہؒ سے بڑھ کر فقیہ نہیں دیکھا"۔ (اخبار ابی حنفیہ واصحابہ:۳۰)

عیسیٰ بن یونس رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظ حدیث ہیں، سنہ۱۸۷ھ میں وفات ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۹)

حضرت سلیمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے عیسیٰ بن یونسؒ نے کہا:
"تم لوگ امام ابوحنیفہؒ کے خلاف اپنی زبان مت کھولنا اور تم لوگ ان لوگوں کی ہرگز تصدیق مت کرنا، جوامام صاحبؒ کا نام برائی سے لیتے ہیں اور ان کا احترام نہیں کرتے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے آپ سے افضل کسی بھی شخص کونہیں دیکھا اور نہ آپ سے زیادہ متقی وپرہیزگار شخص کو اور نہ ہی آپ سے زیادہ فقیہ کودیکھا ہے"۔ (الانتقاء:۲۱۲)

زہیر بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظِ حدیث ہیں، آپ کی وفات سنہ۱۷۳ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۲)

علی بن جعد کہتے ہیں کہ میں زہیر بن معاویہؒ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا تواس سے حضرت زہیرؒ نے پوچھا، تم کہاں سے آئے ہو؟ تواس شخص نے کہا امام ابوحنیفہؒ کے پاس سے آیا ہوں، توحضرت زہیرؒ نے فرمایا:
"اگرتم امام ابوحنیفہؒ کے پاس صرف ایک دن بھی رہوگے توتم بہت زیادہ استفادہ کرلو گے اور تمہارے لیے فائدہ مند ہوگا؛ لیکن تم میرے پاس ایک مہینہ بھی رہو توزیادہ فائدہ نہ ہوگا"۔
(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۳۰)​

وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ علیہ
حافظِ حدیث ہیں اور عراق کے محدث ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۷)

آپؒ جب کوئی فتویٰ صادر فرماتے توامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو دیکھتے اور اسی کے مطابق فتویٰ لکھتے، آپؒ فرماتے ہیں:
"میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ فقیہ اور ان سے اچھی نماز پڑھنے والا کسی کونہیں دیکھا"۔(الانتقا:۲۱۱)

سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ بہت بڑے محدث ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۲) آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بامروت اور بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے"۔(تذکرۃ النعمان:۱۶۶)

امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ
جلیل القدر محدث وفقیہ تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۸) ایک مرتب امام اوزاعیؒ نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے کہا یہ کون مبتدع کوفہ میں پیدا ہوا ہے، جس کی کنیت ابوحنیفہؒ ہے؟ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:
"میں نے کوئی جواب نہیں دیا، بعد میں امام ابوحنیفہؒ کے چیدہ چیدہ مسائل ان کودیکھایا، جب انھوں نے ان مسائل کوپڑھا اور دیکھا کہ یہ مسائل نعمان بن ثابت کی طرف منسوب ہیں توفرمایا یہ نعمان بن ثابت کون ہیں؟ میں نے کہا: ایک شیخ ہیں، جن سے عراق میں ملاقات ہوئی ہے، توامام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ مشائخ میں بڑی قابلِ قدر شخصیت معلوم ہوتی ہے، تم جاؤ اور ان سے زیادہ علم حاصل کرو، میں نے کہا یہ وہی ابوحنیفہؒ ہیں، جن سے مجھ کو آپ نے روکا تھا"۔
پھرامام اوزاعیؒ اور امام صاحب مکۃ المکرمہ "زَادَھَا اللہُ شَرْفًا وَعَظْمًا" میں جمع ہوئے اور ملاقات ہوئی توچند مسائل میں آپ سے گفتگو ہوئی، امام ابوحنیفہؒ نے ان مسائل کوبڑی عمدہ تشریح کے ساتھ بیان کیا، جب دونوں حضرات جدا ہوئے توامام اوزاعیؒ نے حضرت عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا:
"کثرتِ علم اور وفور علم پر غبطہ (رشک) ہوا اور میں خداوند قدوس سے استغفار کرتا ہوں، ان کے بارے میں جوکچھ کہا، اس بارے میں کھلی غلطی پر تھا، ان کی صحبت کولازم پکڑلو، کسی طرح ان کا ساتھ مت چھوڑو؛ کیونکہ ان کے بارے میں جوچیزیں مجھ کو پہنچی تھیں، میں نے ان کوان کے خلاف پایا"۔(تذکرۃ النعمان:۱۵۴)



بشکریہ انوار اسلام​
 

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ فی الدارین
بھائی جان اگر میں غلط نہیں ہوں تو میں نے کہیں پڑھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے انکی تعداد 4000 ( چار ہزار ) ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسداللہ شاہ نے کہا ہے:
جزاک اللہ فی الدارین
بھائی جان اگر میں غلط نہیں ہوں تو میں نے کہیں پڑھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے انکی تعداد 4000 ( چار ہزار ) ہے۔

مشہور شیوخ​

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے چار ہزار شیوخ سے استفادہ کیا . چنانچہ ستر کو تو صرف صاحب ''تہذیب الکمال '' نے ذکر کیا ہے جن میں سے تو بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں
حماد بن ابی سلیمان ، سماک بن حرب ، عاصم بن ابی النجود، عامر شعبی ، عبد الرحمٰن بن ھرمز الاعرج، عطاء بن ابی رباح ، عکرمہ مولیٰ ابن عباس ،محارب بن دِثار ، محمد بن مسلم بن شہاب زہری ، نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین.( مناقب الامام الاعظم للموفق بن احمد المکی .)
بحوالہ احناف حفاظ کی فن جرح وتعدیل میں خدمات ص65.​
 
Top