ضمادطبیب کے اسلام میں دلائل نبوت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ضمادطبیب کے اسلام میں دلائل نبوت​
حکیم ضماد بن ثعلبہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کرنے آیا تھا۔ اس نے کفاقریش سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ محمد مجنوں اور پاگل ہے(نعوذ با اللہ) اس نے سوچا کہ اگر میں اس آدمی سے ملا تو اس کا علاج کروں گا ۔ چنانچہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ،اے محمد! میں ریح اور ہوا لگ جانے کا علاج کیا کرتا ہوں اگر آپ چاہیں گے میں پ کا علاج کروں شائد اللہ تعالی فائدہ دے دے۔ لہذا رسول للہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسل نے پڑھا.
اشھد أن لا الہ الا اللہ، وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمد رسولہ
اوراللہ کی حمد کی اورچند کلمات نعت کلام کئے اس کلام نے ضمان کو حیران کر دیا۔ ضماد نے کہا اپنے کلمات میرے سامنے دہرائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے دہرا دئے
اس نے کہا میں نے تو ایسا
کلام کبھی نہیں سنا ہے۔ میں نے تو کاہنوں کا کلام سنا ہے۔ جادوگروں کا سنا ہے ۔شعرا کا سنا ہےمگر اس کے مثل ہر گز نہیں سنا یہ توبحر محیط تک پہنچ گیا ( مراد یہ ہے کہ انتہائی جامع کلام ہے) چنا نحو ضماد مسلمان ہو گیا اور اس نے اپنی طرف سے اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کرلی(دلأئل النبوہ)
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
درج بالا سے متعلق حدیث

صحيح مسلم
جمعہ کے احکام و مسائل
13۔ باب: نماز اور خطبہ مختصر پڑھانے کا بیان۔

حدیث نمبر: 2008
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن المثنى ، كلاهما، عن عبد الاعلى ، قال ابن المثنى: حدثني عبد الاعلى وهو ابو همام ، حدثنا داود ، عن عمرو بن سعيد ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، ان ضمادا قدم مكة وكان من ازد شنوءة، وكان يرقي من هذه الريح، فسمع سفهاء من اهل مكة يقولون: إن محمدا مجنون، فقال: لو اني رايت هذا الرجل لعل الله يشفيه على يدي، قال: فلقيه، فقال: يا محمد إني ارقي من هذه الريح، وإن الله يشفي على يدي من شاء، فهل لك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الحمد لله نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، واشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، اما بعد "، قال: فقال: اعد علي كلماتك هؤلاء، فاعادهن عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، قال: فقال: لقد سمعت قول الكهنة، وقول السحرة، وقول الشعراء، فما سمعت مثل كلماتك هؤلاء، ولقد بلغن ناعوس البحر، قال: فقال: هات يدك ابايعك على الإسلام، قال: فبايعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وعلى قومك "، قال: وعلى قومي، قال: فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فمروا بقومه، فقال صاحب السرية للجيش: هل اصبتم من هؤلاء شيئا؟ فقال رجل من القوم: اصبت منهم مطهرة، فقال ردوها فإن هؤلاء قوم ضماد۔

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ضماد مکہ میں آیا (ضماد ایک شخص کا نام ہے) اور وہ قبیلہ ازدشنؤہ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ کو جھاڑتا تھا تو مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجنون ہیں (پناہ اللہ تعالیٰ کی) تو اس نے کہا: ذرا میں ان کو دیکھوں شايد اللہ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا: اے محمد! میں جنون کو جھاڑتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے شفا دیتا ہے تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ» یعنی سب خوبیاں اللہ میں ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتائے اسے کون بہکائے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتائے، اور گواہی دیتا ہوں میں کہ کوئی معبود لائق عبادت کے نہیں، سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندہ اور بھیجے ہوئے ہیں۔ اب بعد حمد کے جو کہو کہوں۔“ ضماد نے کہا: پھر تو کہو ان کلمات کو ( «الحمدالله» کہ ضماد پر ایمان کا روپ چڑھ گیا) غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا: بھئی میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے، مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے اور تمہاری قوم (کی طرف) سے بیعت لیتا ہوں۔“ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا۔ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے پھیر دو اس لیے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سے امان میں آ چکے ہیں)۔
 
Top