توحید کی شرائط

اسرار حسین الوھابی

وفقہ اللہ
رکن
توحید کی شرائط

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شرط کا معنی یہ ہے کہ جب وہ نہ پائی جائے تو مشروط بھی موجود نہ ہو مگر یہ ضروری نہیں کہ جب بھی شرط پائی جائے تو مشروط بھی پایا جائے۔ شرط مشروط سے مقدم ہوتی ہے یعنی مشروط سے پہلے شرط کا ہونا لازم ہے شرط کی اس اہمیت کی بنا پر ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ توحید کی شرائط معلوم کرے اور ان کو اپنے اندر پیدا کرے اس لئے کہ ان شروط کے نہ ہونے سے توحید بھی معدوم ہوجاتی ہے اور توحید ایمان کی بنیاد ہے گویا ایمان ہی ناپید ہوجاتا ہے جس طرح کہ نماز کی شرائط میں سے اگر کوئی شرط یعنی قبلہ رخ ہونا، ستر ڈھانپنا وغیرہ فوت ہوجائے تو نماز ہی باطل ہوجاتی ہے اس لئے کہ نماز کی صحیح ادائیگی اور قبولیت کے لئے یہ شرائط ہیں ان کی عدم موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اسی طرح توحید کی شرائط اگر نہ ہوں تو توحید بھی نہیں ہوگی توحید کی شرائط سات ہے۔


۱۔ علم :
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :فاعلم انہ لا الہ الا اﷲ(محمد :۱۹)اس بات کو جان لو کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اللہ کے بارے میں یہ علم اس لئے ضروری ہے کہ اللہ کے ایک ہونے اور اکیلے ہی مستحق عبادت ہونے سے لاعلمی بندے کے قبول اسلام میں رکاوٹ ہے اس لئے کسی بھی انسان پر اسلام قبول کرنے کیلئے اللہ کی وحدانیت اور مستحق عبادت ہونے کا علم لازم ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

من مات وھو یعلم انہ لا الہ الا اﷲ دخل الجنة۔

جو اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ آدمی جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے علماء نے لا الہ الا اﷲ کے معانی اس کے منافی اور اس کو ثابت کرنے والے امور ذکر کئے ہیں جن کا جاننا ضروری ہے کہ انکا جاننا اللہ نے ضروری قرار دیا ہے۔

ابو المظفر وزیر کہتے ہیں کہ لا الہ الا اﷲ ایک گواہی ہے اور جو شخص کسی بات کی گواہی دے رہا ہو تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف ہو جس بات کی گواہی دے رہا ہے لہٰذا جو مسلمان لا الہ الا اﷲ کا اقرار کر رہا ہے اسے اس شہادت اور گواہی کے بارے میں علم ہونا چاہیئے اس لئے کہ اسکا حکم اللہ نے دیا ہے کہ :

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ
اس بات کو جان رکھو کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔

یعنی الوہیت صرف اسی کے لئے واجب ہے کوئی اس کا حق نہیں رکھتا اس طرح اس کلمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طاغوت کا انکار لازم ہے اللہ پر ایمان ضروری ہے جب کوئی انسان تمام مخلوق سے الوھیت کی نفی کرکے صرف اللہ کے لئے اسے ثابت کرتا ہے تو یہ کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ ہے۔
(الدررالسنیۃ ۲/۲۱٦)

شیخ عبدﷲ بن عبدالرحمن ابابطین کہتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:

ھٰذَا بَلٰغُ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ (ابراہیم: ۵۲)۔

یہ لوگوں تک پہنچانا ہے اور تاکہ اس کے ذریعہ سے (یہ انبیاء) لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ لوگ جان لیں کہ وہ اکیلا معبود ہے اور تاکہ عقلمند نصیحت حاصل کریں۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے لیعلموا انما ھو الہ فرمایا ہے جس کا معنی ہے تاکہ وہ اللہ کی وحدانیت کا علم حاصل کریں یہ نہیں فرمایا کہ لیقولوا انما ھو الہ وہ کہیں کہ وہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے یعنی صرف کہنا نہیں بلکہ جاننا ضروری ہے دوسری آیت میں فرمایا:

اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ(زخرف:۸٦)۔

جس نے حق کی گواہی دی اور وہ اس کا علم بھی رکھتے ہوں۔

یعنی جس بات کا زبان سے اقرار کر رہے ہیں اس کے بارے میں علم بھی ہو علماء نے اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیات سے استدلال کیا ہے کہ انسان پر سب سے پہلے اللہ کے بارے میں معلومات کرنا واجب ہے لا الہ الا اللہ کے بارے میں علم بھی فرائض میں سے ہے اور اس کلمہ کے معنی سے لاعلمی سب سے بڑی جہالت ہے مگر آج کل کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جب ان کے سامنے لا الہ الا اللہ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی و مطلب کو سیکھیں یاد رکھیں تو وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے ہم پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی کہ ہم لا الہ الا اللہ کا معنی بھی سمجھیں تو ہم ان سے یہ عرض کریں گے کہ آپ پر توحید کو سمجھنا لازم ہے وہ توحید جس کے لئے اللہ نے جن اور انسانوں کو پیدا کیا ہے اور تمام رسولوں کو توحید سمجھانے اور اس کی طرف دعوت دینے کے لئے ہی مبعوث فرمایا ہے۔ اور یہ بھی انسان پر لازم ہے کہ وہ توحید کے مخالف اور متضاد عمل سے بھی واقفیت حاصل کرے یعنی شرک سے جس کی مغفرت کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔

اگر کوئی لاعلمی کی بنا پر بھی شرک کر بیٹھے تو یہ بھی ناقابل معافی ہے اس بارے میں عدم واقفیت کاعذر قبول نہیں ہوگا اس طرح شرک میں کسی کی تقلید و پیروی بھی جائز نہیں جس طرح توحید اسلام کی بنیاد ہے اس طرح شرک اس بنیاد کو ختم کر دینے والا ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کی معذرت قابل قبول نہیں ہوتی اس لئے کہ جو شخص معروف کو جانتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ منکر کو بھی معلوم کرے تاکہ اس سے اجتناب کر سکے خاص کر سب سے اہم معروف اور اہم منکر یعنی توحید اور شرک۔
(الدررالسنیۃ ۱۲/۵۸)

شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن فرماتے ہیں شیخ محمد بن عبدالوہاب کا قول ہے کہ صرف لفظی طور پر لا الہ الا اللہ کی شہادت بغیر معنی و مطلب کے سمجھے کافی نہیں ہے اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کئے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ اگرچہ یہ کرامیہ فرقہ کا عقیدہ و نظریہ ہے مگر ان کی یہ باتیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو زبانی اقرار کے باوجود جھوٹا قرار دیا جیسا کہ ارشاد ہے:

اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اﷲِ وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاﷲُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ۔ (المنافقون:۱)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس منافقین آکر یہ کہیں کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔

حالانکہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار کے لئے جو الفاظ استعمال کئے تھے وہ تاکید کا فائدہ دیتے ہیں یعنی اپنے قول کو اچھی طرح ثابت کرنے کی کوشش کی مگر اللہ نے بھی ویسے ہی الفاظ سے انکی تردید و تکذیب کر دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے لئے صدق و عمل دونوں لازمی ہیں تب ایمان کہلائے گا اب اگر کوئی شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی زبان سے دیتا ہے مگر غیر اللہ کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس کا یہ لفظی و زبانی دعوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا اگرچہ وہ نماز پڑھتا رہے قربانیاں دے روزے رکھے دیگر اسلامی رسوم ادا کرتا رہے اﷲ کا ارشاد ہے:

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔
تم کتاب کے کچھ حصہ پر ایمان لاتے ہو کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟

(بقرۃ:۸۵۔ الدار السنۃ ۱۲/۵۳۵)

لہٰذامسلمان پر جس طرح توحید کو سمجھنا اور اس کو اپنانا لازم ہے اسی طرح تمام قسم کے شرکیہ افعال و اقوال سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

۲۔ دوسری شرط: یقین۔

یعنی توحید اور لا الہ الا اللہ کے معنی ومطلب کو سمجھنے کے بعد اس پر یقین رکھنا اسمیں کسی قسم کا شک نہ کرنا اس بات پر دل سے یقین کرنا کہ اللہ ہی تمام قسم کی عبادات کا اکیلا مستحق ہے اس میں ذرا سا بھی شک یا تردد نہ کرے اللہ تعالی نے مؤمنین کی یہی تعریف کی ہے اور انہیں اپنے دعوی ایمان میں سچا قرار دیا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَ مْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔(الحجرات:۱۵)

مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر شک نہیں کیا اور اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی لوگ سچے ہیں۔

اس طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد میں اللہ کا رسول ہوں اور پھر اس گواہی میں شک نہیں کیا تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم)۔



۳۔ تیسری شرط: قبول کرنا

یعنی توحید اور لا الہ الا اللہ کے معنی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کرے اور عبادات میں سے کسی بھی قسم کی عبادت کو رد نہ کرے یعنی انکار نہ کرے۔ اللہ تعالی نے کفار کی یہی خرابی بیان کی ہے:

اِنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ یَسْتَکْبِرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ (صافات:۳۵)۔

جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے تو یہ لوگ تکبر کرتے تھے (کہتے تھے) کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے قول پر اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں؟۔


۴۔ چوتھی شرط: تابعداری۔

یعنی توحید کو سمجھنے اس پر یقین کرنے اسے قبول کرنے کے بعد اس کے تقاضا کے مطابق عمل کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ ہر طاغوت کا انکار اور بیزاری صرف ایک اللہ پر ایمان اس کیلئے خود کو مختص کر دینا۔

فَلَا َورَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (ساء:٦۵)

تیرے رب کی قسم (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیئے ہوئے فیصلے سے اپنے دل میں کوئی خلش محسوس نہ کریں اس فیصلہ کو مکمل طور پر تسلیم کر لیں۔

شرط ثالث اور رابع میں فرق یہ ہے کہ قبول کرنا اقوال میں ہوتا ہے اور تابعداری افعال میں ہوتی ہے۔

علامہ عبدالرحمن بن حسن کہتے ہیں اسلام صرف دعوے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام کا مطلب ہے اللہ کی توحید کو اپنانا اور اس کی اطاعت کرنا اس کے سامنے جھکنا اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنا اور اللہ کی صفات کو تمام مخلوق سے نفی کرنا جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی

جس نے طاغوت کا انکارکیا اور اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔(بقرہ:۲۵٦)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ
حکم صرف اللہ کا ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اس کی عبادت کرو یہی سیدھا اور قائم رہنے والا دین ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

(یوسف ۴۰،الدارالسینۃ کتاب التوحید۲/۲٦۴)


۵۔ پانچویں شرط: صدق

یعنی توحید اور کلمہ کے مطلب کو سمجھنے یقین کرنے قبول کرنے تابعداری کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان امور میں انسان سچائی سے کام لے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

ما من احد یشھد ان لا الہ الا اﷲ و ان محمدا عبدہ ورسولہ صدقا من قلبہ الا حرمہ اﷲ علی النار۔

جس شخص نے اللہ کی وحدانیت محمد کی رسالت و عبدیت کا اقرار دل کی سچائی سے کرلیا تو اللہ نے اسکو جہنم پر حرام کر دیا ہے۔ (بخاری و مسلم)

ایک اور مقام پر فرمایا ہے :

من قال لا الہ الا اللہ صادقا من قلبہ دخل الجنة (مسنداحمد)
جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہدیا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔

مگر جو شخص زبان سے اقرار کرتا ہے مگر دل سے کلمہ کے مطالب سے انکاری ہے تو زبانی اقرار کوئی نتیجہ مرتب نہیں کرتا جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

نشھد انک لرسول اللہ

ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

اللہ نے فرمایا:

وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاﷲُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ(منافقون:۱)

اللہ بھی گواہی دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔

اسی طرح ایک اور آیت میں بھی اللہ نے ایسے لوگوں کی تکذیب کی ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ (بقرہ:۸)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔


٦۔ چھٹی شرط: اخلاص۔

مذکورہ تمام باتوں کو تسلیم کرنے میں اخلاص سے کام لے اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ عبادت خالصتاً اللہ کے لئے ہو عبادات میں سے کسی بھی قسم کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے نہ بجالائے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ (البینہ:۵)

انہیں صرف یہی حکم دیاگیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے یکطرف ہوکر۔

اس طرح اخلاص کا معنی یہ بھی ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کسی اور کی خاطر کسی اور کی خوشنودی کے لئے نہ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

فان اﷲ حرم علی النار من قال لا الہ الا اللہ یبتغی بذلک وجہ اﷲ ۔(بخاری و مسلم)

اللہ نے جہنم پر حرام کر دیا ہے اس شخص کو جو لا الہ الا اللہ صرف اللہ کی رضا مندی کے لئے کہتا ہے۔

دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا:

اسعد الناس بشفاعتی یوم القیامة من قال لا الہ الا اللہ خالصا مخلصا من قلبہ۔

قیامت کے دن میری شفاعت اس خوش نصیب کو حاصل ہوگی جس نے دل کے انتہائی اخلاص کے سا تھ لا الہ الا اللہ کہا۔ (بخاری)۔


۷۔ ساتویں شرط: محبت۔

مذکورہ تمام شرائط کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ اس کلمہ کے ساتھ دلی محبت رکھے اور اس محبت کا اظہار زبان سے بھی کرے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ ﷲِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ ﷲِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ وَلَوْیَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اِنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا وَّ اِنَّ ﷲَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ(البقرۃ: ۱٦۵)

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے علاوہ معبود بناتے ہیں ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیئے اور جو ایمان والے ہیں وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں اگر ظالم لوگ دیکھ لیں۔ جب عذاب تو کہے گے کہ تمام قوت اللہ کے پاس ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

علامہ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ کہتے ہیں دیگر مسائل سے قبل میں لا الہ الا اللہ کا وہ معنی جو علماء نے بیان کیا ہے اور شیخ عبدالرحمن نے اس کلمہ کی جو شروط ذکر کی ہیں وہ بتلانا چاہتا ہوں یعنی کلمہ کا علم، عمل، اعتقاد کہ ان کے بغیر کوئی بھی شخص صحیح معنوں میں مسلمان نہیں کہلوا سکتا اسی طرح محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بیان کردہ دس نواقض اسلام بھی بتلانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں یعنی کلمہ کا مکمل معنی اور اسلام کے نواقض ہی اصل بنیادی باتیں ہیں جن پر دیگر مسائل و احکام کا مدار ہے۔

(الدرر السنیۃ کتاب التوحید ۲/۳۴۹)

علامہ شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ اکثر لوگ لا الہ الا اللہ زبان سے تو کہتے ہیں مگر اس کے معنی و مفہوم سے ناواقف ہیں لہٰذا آپ سات باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھیں جو اس کلمہ سے متعلق ہیں اور ان کے بغیر کوئی مسلمان کفر و نفاق سے محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک کہ یہ سب باتیں اس میں نہ آجائیں اور پھر ان کے مطابق عمل نہ کر لے۔ سات باتوں سے مراد ہے صدق دل سے کلمہ کا اقرار اس کلمہ کا علم اس پر عمل، اعتقاد، اطاعت، قبول کرنا اور کلمہ سے محبت لہٰذا اس کلمہ کے بارے میں ایسا علم ضروری ہے جو جہالت کو ختم کر دے ایسا اخلاص چاہیئے جو شرک کا خاتمہ کرے ایسا صدق ضروری ہے جو کذب کی نفی کرے اتنا یقین ہو کہ جو ہر قسم کے شکوک و شبہات کو دل سے نکال دے اس کلمہ کی محبت دل میں اتنی ہو کہ جو نفرت کو فنا کر دے اتنی سچائی سے اس کلمہ کو قبول کرے کہ رد کرنے کا شائبہ تک نہ رہے۔

منافقین کی طرح نہ رہے کہ زبان سے کہتے ہیں مگر دل میں یقین نہیں ہے مشرکین مکہ کی طرح بھی نہ بنے کہ کلمہ کا معنی و مفہوم تو سمجھتے تھے مگر اس کلمہ کو قبول نہیں کرتے تھے اس طرح اس کلمہ کے مطالب کی ایسی اطاعت کرے جو اس کے تقاضوں اور حقوق کو پورا کرے جو کہ صحیح اسلام کے لئے لازم و ضروری ہے اب جو شخص ہماری بیان کردہ باتوں پر یقین کرے ان پر عمل کرلے تو وہ لا الہ الا اللہ کے معانی و مطالب کو سمجھنے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرے گا اور پھر وہ دین پر عمل علی وجہ البصیرت کرے گا دین پر ثابت قدم رہے گا اور کبھی سیدھی راہ سے بھٹکے گا نہیں۔ ان شاء اللہ ۔

(الدررا السینۃ کتاب التوحید ۲/۲۵۵)

میراث الانبیاء
شیخ ابوعمر الکویتی رحمہ اللہ
ترجمہ: الاستاذ عبدالعظیم حسن زئی حفظہ اللہ​
 
Top