قصور وار کون؟ ساس یا بہو

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصور وار کون؟ ساس یا بہو
جنس کا تعین​

پختہ جنین(Foetus) کی جنس کا تعین( لڑکا ہوگا یا لڑکی) خلوی نطفہ سے ہوتا ہے نہ کہ بیضہ سے ۔مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرنے
والے حمل سے لڑکا پیدا ہوگا یالڑکی اس کا انحصار کرومو سوم کے٢٣ ویں جوڑے میں باترتیب xs)xy کروموسومز کی موجودگی پر ہوتا ہے ,ابتدائی طور پر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتا ہے اس کا انحصار خلوی نطفے (اسپرم) کے صنفی کروموسوم (سکس کروموسوم)٠ پر ہوتا ہے جو بیضے کو بارآور کرتاہے, اگر بیضے کو بار اور کرنے والے اسپرم میںx صنفی کرومو سوم ہے تو ٹھرنے والے حمل سے لڑکی پیدا ہو گی، اس کے برخلاف اگر اسپرم میں صنفی کرو موسوم y ہے تو حمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہوگا ,اسی کو قرآن نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے:

وانہ خلق الزوجین الزکر والانثی من نطفۃ اذا تمنی (النجم اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا، ایک بوند سے جبقہ وہ ٹپکائی جاتی ہے ۔
مذکورہ آیت میں نطفے کا مطلب تو مائع کی نہایت قلیل غدار ہے
جبکہ "تمنی" کا مطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطورخاص اسپرم ہی کی طرف اشارہ کررہا ہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہے
الم یک نطفۃ من منی یمنی۔ثم کان الخ (القیامہ)
کیا وہ حقیرپانی کا نطفہ نہ تھا جو( رحم مادر) میں ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا ,پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کئے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔
" نطفۃ من منی "میں جو کہ مرد کی طرف سے آتا ہے ،رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے ،برصغیر میں افسوس ناک رواج ہے ۔عام طور پر ساسوں کو پوتیوں سے زیادہ پوتوں کا ارمان ہوتا ہے اور اگر بہو کے ہاں بیٹوں کےبجائے بیٹیاں ہو رہی ہوں تو انہیں "اولاد نرینہ "پیدا نہ کر سکنے پر طعنہ دیتی ہیں, اگر انہیں صرف یہی پتہ چل جاتا ہے کہ اولاد کی جنس کے تعین میں عورت کے بیضہ کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری مردانہ نطفہ برعائد ہوتی ہے اور اگر پھر بھی وہ لعن وظعن پر آمادہ ہوں تو انھیں چاہیے کہ وہ( اولاد زرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کے بجائے اپنے بیٹوں پر طعن کریں ,قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں ہی اس پر متفق ہیں کہ بچے کی جنس میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دار ہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں (قرآن مجید اور عصر حاضر)
 
Last edited:
Top